مدینہ میں اپنی پوزیشن مستحکم بنانے کے بعد آپﷺ نے Active Resistance کے طور پر چھوٹے چھوٹے چھاپہ مار قسم کے گروپ بھیجنے شروع کر دیئے. غزوۂ بدر سے پہلے پہلے آپؐ نے ایسی آٹھ مہمات روانہ کیں‘ جن میں سے چار میں حضورﷺ خود بھی شریک ہوئے اور چار میں آپؐ شریک نہیں ہوئے. لہذا ان میں سے چار غزوات اور چار سرایا کہلاتی ہیں. اس عرصے میں مکہ والوں کی طرف سے کوئی حرکت نہیں ہوئی. یعنی اب جو initiative لیا گیا وہ حضورﷺ کی طرف سے لیا گیا. افسوس کہ اس بات کو چھپانے کے لیے ہمارے ہاں سیرتِ نبویؐ میں تحریف کی گئی ہے. اس لیے کہ جس طرح آج کل ویسٹرن میڈیا پروپیگنڈا کرتا ہے کہ اسلام تلوار سے پھیلا ہے‘ اسلام تو خونی مذہب ہے‘ اسلام دہشت گردی کا درس دیتا ہے‘ اسی طرح جب یورپ کی استعماری طاقتیں عالم اسلام پر قابض ہوئیں تو مستشرقین نے اسلام کے خلاف اسی طرح کا زہریلا پروپیگنڈا شروع کر دیا. اس پرہمارے مصنفین نے معذرت خواہانہ (apologetic) انداز اختیار کیا کہ نہیں نہیں‘ حضورﷺ نے کوئی جنگ خود شروع نہیں کی تھی‘ یہ تو حضورﷺ نے اپنے دفاع میں جنگیں کی تھیں. حالانکہ یہ بات سوفیصد جھوٹ ہے. مکہ کے پرسکون تالاب میں بھی ہلچل حضورﷺ نے پیداکی تھی ؎
وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوتِ ہادیؐ
عرب کی زمیں جس نے ساری ہلا دی!
ورنہ وہاں کے لوگ سب کے سب اپنی قسمت پر صابر و شاکر رہ رہے تھے. اسی طرح ہجرت کے بعد مکہ والوں کے خلاف راست اقدام (Active Resistance) اور بالآخر مسلح تصادم (Armed Conflict) کا آغاز بھی محمد رسول اللہﷺ نے فرمایا.
غزوۂ بدر سے قبل ایک سال کے عرصے میں آپﷺ نے جو آٹھ مہمات روانہ کیں ان کے دو مقصد سامنے آتے ہیں. جدید اصطلاحات کے حوالے سے پہلا مقصد مکہ کی معاشی ناکہ بندی (Economic Blockade) اور دوسرا مقصد قریش کی سیاسی ناکہ بندی (Isolation or Political Containment) تھا. قریش کے قافلے جس راستے سے گزرتے تھے ‘ آپؐ نے اس کو مخدوش بنا دیا اور قریش کو گویا یہ پیغام دے دیا کہ اب ہم یہاں موجود ہیں اور آپ کے تجارتی قافلے ہماری زد میں ہیں. جو راستہ مکہ سے شام جاتا تھا‘ وہ بدر سے گزرتا تھا. بدر مکہ سے دو سو میل دور ہے جبکہ مدینہ سے اس کا فاصلہ صرف نوے میل ہے. آپؐ نے قریش کے تجارتی قافلوں کو روکنے کے لیے کئی مہمیں ادھر بھیجیں. خود ایک بڑی مہم لے کر گئے اور اس بڑے قافلے کا پیچھا کیا جو ابوسفیان لے کر شام جا رہا تھا‘ لیکن وہ بچ کر نکل گیا. اسی طرح مکہ سے یمن جانے والے قافلے طائف سے ہو کر گزرتے تھے. ادھر بھی آپؐ نے ایک مہم بھیج دی. پھر آپؐ جہاں گئے وہاں کے قبیلوں سے آپؐ نے معاہدے کر لیے. یا تو وہ پہلے قریش کے حلیف تھے اب حضورﷺ کے ہو گئے‘ یا انہوں نے غیر جانبدارانہ حیثیت اختیار کر لی کہ نہ ہم قریش کے خلاف آپؐ کی مدد کریں گے‘ نہ آپؐ کے خلاف قریش کی مدد کریں گے.ان دونوں طرح کے معاہدوں سے قریش کی طاقت کم ہوئی. اس طرح رسول اللہﷺ نے متذکرہ بالا دونوں مقاصد حاصل کر لیے.
ہر قوم میں دو طرح کے انسان ہوتے ہیں. آج کی اصطلاح میں انہیں عقابی مزاج کے لوگ (Hawks) اور فاختائی مزاج کے لوگ (Doves) کہا جاتا ہے. مکہ میں بھی ہر دو طرح کے لوگ موجود تھے. جوشیلے اور مشتعل مزاج لوگوں (Hawks) میں ابوجہل اور عقبہ بن ابی معیط بہت نمایاں تھے‘ جبکہ ٹھنڈے مزاج اور بردبار طبیعت کے حامل لوگوں (Doves) میں عتبہ بن ربیعہ اور حکیم بن حزام نمایاں تھے. مقدم الذکر طبقے کا کہنا تھا کہ چلو اب مدینے پر حملہ کرو اور محمد (ﷺ ) اور ان کے ساتھیوں کا قلع قمع کر دو. جبکہ مؤخر الذکر اس طرح کے اقدام کے حق میں نہیں تھے. عتبہ بن ربیعہ بہت زیرک انسان تھا. اس نے رسول اللہﷺ کی ہجرت کے بعد قریش سے کہا تھا کہ دیکھو محمدؐ اور اس کے ساتھی یہاں سے چلے گئے (ان کے خیال میں وہ بلا ان کے سر سے تو ٹل گئی)‘ اب مدینہ جا کر بھی محمد (ﷺ ) آرام سے تو نہیں بیٹھے گا بلکہ اپنے دین کی تبلیغ کرے گا. اس سے عرب اس کے خلاف ہوں گے اور بقیہ عربوں سے اس کی کشمکش ہوگی. تو اگر باقی عرب کو محمد (ﷺ ) نے فتح کر لیا تو ہمارا کیا نقصان ہے‘ وہ ہمارا قریشی بھائی ہے‘ اس کی جیت ہماری جیت ہے‘ اس کی فتح سے عرب پر ہماری حکومت قائم ہو جائے گی‘ اور اگر عربوں نے محمد (ﷺ ) کو ہلاک کر دیا تو جو تم چاہتے ہو وہ ہو جائے گا بغیر اس کے کہ تم اپنے بھائیوں کے خون سے اپنی تلواریں آلودہ کرو. آخر ابوبکر کون ہے؟ ہمارا بھائی نہیں ہے کیا؟ عمر کون ہے؟ اور یہ عثمان کون ہے؟ بنو امیہ میں سے ہے . حمزہ کون ہے؟ عبدالمطلب کا بیٹا ہے. اور محمد (ﷺ ) کون ہے؟ عبدالمطلب کا پوتا ہے. تم اپنی تلواروں سے ان کی گردنیں اڑاؤ گے؟ تم محمد (ﷺ ) کو اور عربوں کو آپس میں نمٹنے دو. اگر محمد (ﷺ ) جیت گیا تو ہمارا راج پورے عرب پر ہو گا. یہ وہ بات تھی جو فی الحقیقت ہو کر رہی. خلافتِ راشدہ کے بعد دورِ ملوکیت میں پھر وہی عرب تھے جن کی حکومتیں قائم ہوئیں‘ چاہے بنو اُمیہ تھے‘ چاہے بنو عباس تھے. اس قدر گہری بات اُس شخص نے کہی جس نے اہلِ مکہ کو متاثر بھی کیا.
ان فاختائی مزاج لوگوں (Doves) کا مکہ میں خاصا اثر و رسوخ تھا‘لیکن دو واقعات ایسے وقوع پذیر ہوگئے کہ جنگجو اور مشتعل مزاج لوگوں (Hawks) کا پلڑا بھاری ہو گیا اور یہ Doves بالکل خاموش ہو گئے. ایک تو یہ کہ ابوسفیان کا وہ قافلہ جس کا حضورﷺ نے پیچھا کیا تھا اور وہ بچ کر نکل گیا تھا‘ اب مالِ تجارت سے لدا پھندا شام سے واپس آ رہا تھا. ابوسفیان نے قریش کو SOS کال بھیج دی کہ مجھے خطرہ ہے کہ محمد (ﷺ )کے آدمی قافلے پر حملہ کریں گے اور ہمیں لوٹ لیں گے‘ لہذا فوری طور پر مدد بھیجی جائے. ابوسفیان کا پیغام لے کر ایک آدمی چیختا چلاتا ہوا مکہ پہنچا کہ تمہارا قبیلہ‘ تمہارا خاندان اور تمہارا مال خطرے میں ہے‘لہذا فوراً مدد کو پہنچو. دوسری طرف ایک اور واقعہ ہو گیا. حضورﷺ نے بارہ افراد کا ایک چھوٹا سا دستہ نخلہ بھیجا تھا جو طائف اور مکہ کے درمیان ایک مقام ہے اور انہیں ہدایت کی تھی کہ وہاں قیام کرو اور ہمیں وہاں سے مکہ کے لوگوں کی نقل و حرکت سے مطلع کرتے رہو. وہاں ایسی صورت حال پیش ہوئی کہ مکہ والوں کے ایک قافلے کے ساتھ ان کی مڈ بھیڑ ہو گئی‘ جس کے نتیجے میں مسلمانوں کے ہاتھوں ایک مشرک مارا گیا‘ دو کو وہ گرفتار کر کے لے آئے اور ایک بھاگ گیا. مسلمان کئی اونٹوں کے اوپر لدا ہوا مال بطور غنیمت لے کر حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے. اس پر حضورﷺ ناراض ہوئے کہ میں نے تمہیں جنگ کا حکم نہیں دیا تھا. لیکن اب جو ہونا تھا ‘ہو چکا تھا. جو مشرک مسلمانوں کے ہاتھوں بچ کر بھاگا تھا وہ کپڑے پھاڑ کر چیختا چلاتا ہوا مکہ پہنچا کہ لوگو دیکھو محمد (ﷺ ) کے آدمیوں نے ہمارا آدمی مار دیا. یہ دو خبریں بیک وقت مکہ پہنچیں‘ ایک شمال سے اور دوسری جنوب سے. ہجرت کے بعداب تک مشرکین نے کسی مسلمان کو نہیں مارا تھا . ہجرت سے پہلے حضرت سمیہ اور حضرت یاسر رضی اللہ عنہماکو ابوجہل نے شہید کیا تھا‘ لیکن ہجرت کے بعد اہلِ مکہ کی طرف سے کوئی اقدام نہیں ہوا تھا.