ختم نبوت کے خلاف غلام احمد قادیانی کی دلیل اور اس کی تردید

ایک قادیانی سے جب میں نے اس معاملے پر بحث کی تو سورۃ البقرۃ میں وارد شدہ الفاظ فَبُہِتَ الَّذِیۡ کَفَرَ کے مصداق وہ میری دلیل کے آگے بالکل مبہوت ہو کر رہ گیا اور اس کے لیے دائیں بائیں بغلیں جھانکنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا.دیکھئے غلام احمد قادیانی نے اپنے فتنے کا آغاز کہاں سے کیا تھا. یہ سمجھ لیجئے‘ پہلے وہ ایک بہت اچھا مناظر تھا. اس نے آریہ سماجیوں اور عیسائیوں سے مناظرے کیے ‘جن میں فتح حاصل کی اور نتیجتاً مسلمانوں کی آنکھوں کا تارا بن گیا‘ محبوب ہو گیا. اس کے بعد اس نے ایک شوشہ چھوڑا کہ نبوت اور وحی تو رحمت ہیں‘ رحمت بند کیسے ہو سکتی ہے؟ وحی تو انسانوں کی ہدایت کے لیے ہے‘ انسان ختم نہیں ہوئے تو وحی کیسے ختم ہو گئی! دیکھئے بظاہر یہاں بات جی کو لگتی ہے.یہیں سے آپ کو اس بات کا جواب مل جائے گا کہ بڑے بڑے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ اس فتنے کا شکار کیونکر ہو گئے. دنیا میں ایک ہی مسلمان نام کا سائنس دان ٹاپ پر آیا ہے‘ اور وہ قادیانی ہے. ایک ہی مسلمانوں کا نام رکھنے والا انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس ہیگ کا جج بنا ہے‘ وہ بھی قادیانی ہے.

بڑے بڑے ڈاکٹرز اور انجینئرز قادیانی ہیں آخر کیوں؟ یہ بات ایسی تھی جو بظاہر دل کو اپیل کرتی ہے کہ انسانوں کی ہدایت کے لیے وحی کا راستہ کھولا گیا تھا‘ ابھی انسان ختم نہیں ہوئے ‘ وحی کا دروازہ کیسے بند ہوجائے گا؟ پہلے اجراءِ وحی کا شوشہ چھوڑا. اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ اگر وحی جاری ہے تو نبوت بھی جاری ہے. لہذا پھر اُس نے نبوت کا دعویٰ کر دیا. اس نے عوام الناس کی نفسیات کو متاثر کرنے کے لیے ایک اور شوشہ چھوڑا کہ دیکھو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہمارے نبی حضرت محمد  فوت بھی ہو گئے اور زیر زمین دفن ہیں جبکہ حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام زندہ آسمان پر اٹھا لیے گئے اور وہ آسمان پر ہیں! اس سے تو گویا ثابت ہوا کہ حضرت عیسیٰ بن مریم حضرت محمد سے افضل ہو گئے! حالانکہ افضلیت کا اس سے کوئی تعلق نہیں. اصحابِ کہف اگر ۳۰۰ برس تک سوتے رہے تو اس میں کون سی افضلیت کی بات ہے! اللہ تعالیٰ نے حضرت عزیر علیہ السلام کو ۱۰۰ برس تک مردہ رکھ کر دوبارہ زندہ کر دیا تو اس میں افضلیت کی کوئی دلیل نہیں ہے.خدا کی قدرت ہے‘ اللہ ایسا کر سکتا ہے. لیکن مرزا قادیانی نے عام آدمی کو گمراہ کرنے کے لیے ایسے شوشے چھوڑے اور کہا کہ نہیں نہیں‘ غلط ہے‘ یہ مولویوں کے ڈھکوسلے ہیں‘ رفع مسیح قرآن مجید میں صراحت کے ساتھ مذکور نہیں ہے‘ حدیثوں کے اندر ہے ‘ اور حدیثوں کے بارے میں ہم اطمینان نہیں کر سکتے کہ حضرت مسیحؑ سولی نہیں چڑھائے گئے. مرزا کے بقول وہ سولی چڑھائے گئے ‘ لیکن فوت نہیں ہوئے‘ البتہ زخمی ہونے کے بعد صلیب سے اتار لیے گئے تھے‘ پھر ان کا علاج معالجہ ہوا‘ پھر وہ علاقہ چھوڑ کر کشمیر میں آ گئے‘ یہاں آ کر ان کا انتقال ہو گیا اور یہاں دفن ہوئے‘ یہاں کشمیر میں ان کی قبر بھی موجود ہے. یہ دوایشو ہیں جو اس شخص نے خصوصی طور پر اٹھائے اور اس طرح عوام الناس کو متاثر کیا. 

ابھی میں نے جس قادیانی کا ذکر کیا اس سے میں نے کہا کہ مجھے یہ بتاؤ کیا تم یہ مانتے ہو کہ اللہ کی ہدایت قرآن میں کامل ہو گئی؟ اس نے کہا ہاں ‘ہم مانتے ہیں کہ ہدایت کامل ہو گئی. میں نے کہا کیا تم یہ مانتے ہو کہ قرآن محفوظ ہے‘ اس میں تحریف نہیں ہوئی؟ اُس نے کہا ہاں‘ ہم مانتے ہیں کہ قرآن محفوظ ہے‘ اس میں تحریف نہیں ہوئی. پھر میں نے کہا مجھے منطقی وجہ بتاؤ کہ پھر اس وحی کی کھڑکی کو کھلے رکھنے کا فائدہ کیا ہے؟ وہاں سے جو آنا تھا وہ مکمل ہو گیا‘ یعنی قرآن. ہاں‘ قرآن میں اگر تحریف ہو جاتی‘ اس کی حفاظت کا ذمہ نہ لیا گیا ہوتا تو کسی نبی کی ضرورت تھی کہ جو آ کر اس کی تصحیح کرتا کہ یہ بات یوں نہیں‘ یوں تھی. منطقی اعتبار سے ایک جواز پیدا ہوتا ہے وحی اور نبوت کے جاری رہنے کا‘ بشرطیکہ ان دو باتوں میں سے کسی ایک کو مانا جائے یا تو یہ کہو کہ قرآن میں ہدایت مکمل نہیں ہوئی اور یا کہو کہ ہو توگئی تھی لیکن قرآن گم ہو گیا یا قرآن کے اندر تحریف ہو گئی ‘ یہ وہ اصل قرآن نہیں ہے. یہ دونوں باتیں نہیں مانتے تو مجھے بتاؤ کہ عقلی اور منطقی اعتبار 
سے اس کھڑکی کو کھلے رکھنے کا کہاں کوئی جواز پیدا ہوتا ہے؟ جیسا کہ میں نے پہلے آپ کو بتایا‘ اس پر وہ قادیانی بالکل مبہوت ہو گیا کہ واقعتا آپ کی دلیل بہت مضبوط ہے. تو تکمیل نبوت کا پہلا مظہر یہ ہے کہ وہ ہدایت‘ فلسفیانہ ہدایت‘ ایمان کی ہدایت‘ فکری اور نظری ہدایت جو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو دینی تھی‘ وہ قرآن میں مکمل ہو گئی.

تکمیل نبوت کا دوسرا مظہر یہ ہے کہ دین حق کی بھی تکمیل ہوئی ہے حضرت محمد پر. جیسا کہ سورۃ المائدۃ میں آیا: 
اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا ؕ (آیت ۳’’ آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت کا اتمام کر دیا اور تمہارے لیے اسلام کو بطورِ دین پسند کر لیا‘‘. لیکن تکمیل دین کا پس منظر بھی سمجھ لیجئے .جیسے انسان کے ذہنی ارتقاء کے مراحل آئے ہیں‘ فلسفیانہ شعور میں ترقی ہوئی ہے اور ہوتے ہوتے وہ اپنے بلوغ اور پختگی کو پہنچا ہے‘ ایسے ہی انسان کے اندر تمدنی طور پر ارتقاء ہوا ہے. ایک دَور وہ تھا جب ہمارے آباء و اجداد غاروں میں رہتے تھے. کہیں کوئی سٹریٹ لائٹ کا سوال نہیں‘ کہیں کوئی سڑکوں کو صاف کرنے کا سوال نہیں‘ کہیں کسی کارپوریشن اور میونسپلٹی کا سوال نہیں. انفرادیت ہی انفرادیت تھی. میں اپنی غار کا مالک ہوں‘ جو چاہوں کروں‘ میرے اوپر کوئی قانون نہیں‘ کوئی قدغن نہیں. یہ نظام تھا. اجتماعیت تھی ہی نہیں‘ انفرادیت ہی انفرادیت تھی. پھر قبائلی نظام قائم ہوا کہ قبیلے کا ایک سردار ہے‘ اس کا حکم ماننا ہو گا. تم فلاں قبیلے سے ہو‘ اس قبیلے کی یہ روایات ہیں‘ تمہیں ان پر عمل کرنا ہو گا. اب جیسے جیسے اجتماعیت آنی شروع ہوئی انفرادیت کے اوپر قدغنیں لگنی شروع ہوئیں. یہ نہیں کہ جو چاہو کرو. تمہارا تعلق اس قبیلے کے ساتھ ہے ‘اس کی یہ رسم ہے‘ یہ ریت ہے‘ اس کا یہ رواج ہے‘ تمہیں اس کو پورا کرنا ہو گا‘ اور تمہارا جوشیخِ قبیلہ ہے‘ سردارہے‘ اس کا حکم ماننا ہو گا.

آگے چلیے! شہری ریاستیں وجود میں آئیں. دو‘ تین‘ چار قبیلے ایک شہر میں آ کر آباد ہو گئے. ہر قبیلہ تو اپنی جگہ پر ایک اجتماعی یونٹ ہے‘ اس کا سردار ہے‘ اس کا کہنا سب مانتے ہیں‘ لیکن اب ان قبیلوں کے آپس کے معاملات کیسے طے ہوں گے؟ یہاں سے 
دستور سازی کا آغاز ہوا. چنانچہ کچھ اصول طے کیے جاتے تھے کہ ہمارے بین القبائلی معاملات ان اصولوں کے تحت ہوں گے. اب میں یہاں ایک مثال دیتا چلوں‘ حضور کی بعثت کے وقت مکہ مکرمہ ایک قبیلے کاشہر تھا جہاں صرف قریش رہتے تھے‘ اور کوئی وہاں نہیں رہ سکتا تھا. یہ بات طے تھی کہ یہاں یا قرشی رہے گا یا قرشی کا غلام رہے گا‘ وہ کوئی بھی ہو‘ یا قرشی کا حلیف رہے گا‘ یعنی باہر سے کوئی آئے گا تو کسی مکہ والے کا حلیف بن کر ٹھہر سکتا ہے‘ ورنہ نہیں . لیکن مدینہ منورہ سماجی ارتقاء کے ایک بلند تر درجے پر تھا. وہاں پانچ قبیلے آباد تھے. دو تو اصل عرب قبیلے (Sons of the soil) تھے: اَوس اور خزرج. تین یہودی قبائل تھے جو وہاں آ کر آباد ہو گئے تھے: بنو قریظہ‘ بنو قینقاع اور بنونضیر. ان پانچوں قبیلوں کے آپس میں معاہدات تھے.اَوس کا قبیلہ چھوٹا تھا‘ خزرج کا بڑا تھا.( حضور نے بھی جب ان میں بارہ نقیب مقرر کیے تھے تو نو خزرج میں سے تھے اور تین اوس میں سے .) اَوس اور خزرج کے درمیان یہ طے تھا کہ اگر کوئی خزرجی کسی اَوسی کو قتل کر دے گا تو دیت ایک تہائی ہو گی‘ جبکہ اگر کوئی اَوسی کسی خزرجی کو قتل کر دے گا تو تین گنا دیت دینا ہو گی. یقینا اَوسی نوجوان کا خون کھولتا ہو گا کہ کیا میرے خون اور میری جان کی قیمت اس خزرجی نوجوان کے مقابلے میں ایک بٹا تین ہے! لیکن اگر مدینے میں رہنا ہے تو اس اصول کو ماننا پڑے گا‘یہ اصول یہاں طے ہو چکا ہے‘ اب تمہیں اس کی پابندی کرنی ہے.

اس سے اگلا قدم کیا تھا !جیسے آپ افغانوں کو دیکھتے ہیں کہ افغان کا چہرہ تھوڑا اور پگڑ بہت بڑا ہوتا ہے‘ ایسے ہی جزیرہ نمائے عرب کے اوپر جو بہت بڑا پگڑ 
(Turban) ہے یہ شامِ عرب اور عراقِ عرب ہے . یہ بھی عرب ممالک ہیں. اس جزیرہ نماکے اوپر دو عظیم مملکتیں قائم تھیں‘ قیصر کی سلطنت ِروما اور کسریٰ کی سلطنت ِایران. یہ تمدن کی آخری سٹیج تھی جبکہ حکومتیں بن گئیں‘ بادشاہتیں قائم ہو گئیں‘ محلات بن گئے‘ standing armies وجود میں آ گئیں. لاکھوں کی تعداد میں فوجیں ہیں‘ ٹیکس لگ رہے ہیں‘ دہقان محنت کر رہا ہے اور اس سے ٹیکس لیا جا رہا ہے‘ جاگیردار اپنا حصہ رکھ کر باقی بادشاہ کو پہنچاتا ہے. کرگے پر بیٹھا ہواکوئی شخص کپڑا بن رہا ہے تو اس سے بھی ٹیکس لیا جا رہا ہے. عوام کو ظلم و ستم کی چکی میں پیسا جا رہا ہے اور بادشاہ عیش کر رہے ہیں‘ اونچے اونچے محلات بنا رہے ہیں. یہ زمانہ تھا جبکہ انسانیت پر ایسی پابندیاں لگیں کہ انسان مجبور و مقہور ہو کر رہ گیا. اس دَور میں محمد رسول اللہ پیدا ہوئے. اُس وقت تمدنی ارتقاء اس انتہا کو پہنچ گیا تھا کہ اجتماعیت کا دَور دورہ تھا‘ انفرادیت پس گئی تھی‘ اس کی آزادیاں ختم ہو گئی تھیں. اب بادشاہ تھا اور بادشاہ کا نظام تھا. عوام میں کہیں ذرا سی بھی بغاوت ہوتی تو سلطنت روما کے غرقِ آہن فوجی اسے بری طرح کچل دیتے تھے. اسی طرح ایرانی فوجی کسی کو سر اٹھانے کا موقع نہیں دیتے تھے‘ا س وقت محمد رسول اللہ آئے اور آپؐ :کونوعِ انسانی کے لیے دین حق کی صورت میں ایک مکمل نظامِ حیات عطا کر دیا گیاکہ سماجی سطح پر یہ ہدایات ہیں ‘ معاشی سطح پر یہ ہدایات ہیں اور سیاسی سطح پر یہ ہدایات ہیں. الغرض ایک مکمل Politico- Socio-Economic System کی حیثیت سے دین کو کامل کر کے حضرت محمد کو عطا کر دیا گیا. حالانکہ دین ہمیشہ سے ایک تھا‘ موسٰی ؑ کا دین بھی یہی تھا‘ عیسٰی ؑکا دین بھی یہی تھا‘ ابراہیم ؑ کا بھی یہی تھا‘ نوحؑ کا بھی یہی تھا (علیہم الصلوٰۃ والسلام). سورۃ الشوریٰ (آیت۱۳) میں فرمایا: 

شَرَعَ لَکُمۡ مِّنَ الدِّیۡنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوۡحًا وَّ الَّذِیۡۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ وَ مَا وَصَّیۡنَا بِہٖۤ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ مُوۡسٰی وَ عِیۡسٰۤی …
سب کا دین ایک تھا‘ لیکن ابھی دین مکمل نہیں ہوا تھا. ابھی اجتماعیت محدود تھی‘ ابھی انفرادیت کا بول بالا تھا. ابھی ایک نظام کا تصور نہیں تھا. ابھی کوئی پولٹیکل سسٹم وجود میں نہیں آیا تھا. ابھی وہ : standing armies کے دَور نہیں آئے تھے. وہ دَور جب آگیا تو عدل و قسط پر مبنی ایک ’’Politico-Socio-Economic System‘‘ 
اسلام کی شکل میں‘ دین حق کی تکمیل کر کے محمد رسول اللہ کو عطا کیا گیا. اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ 
یہ تکمیل نبوت کے دو مظاہر ہیں. ایک یہ کہ ہدایت ’’ھُدًی‘‘ سے بڑھ کر ’’الہُدیٰ‘‘ بن گئی. یعنی قرآن کی صورت میں کامل اور مکمل ہدایت عطا کر دی گئی. دوسرے یہ کہ دین کامل ہو گیا. یہ دونوں چیزیں حضور پر اپنے عروج اور نقطہ ٔکمال کو پہنچ گئیں. چنانچہ اللہ سے لینے والا حصّہ جو ہے‘ یعنی وحی اور دین‘ دونوں کی تکمیل ہو گئی محمد رسول اللہ پر.