اب دیکھئے‘ مقطع میں آ پڑی ہے سخن گسترانہ بات! ختم رسالت کا یہ پہلو اور یہ مظہر تاحال تشنہ ٔتکمیل ہے. آپ میری بات سمجھ رہے ہوں گے. اللہ نے بھیجا حضرت محمدﷺ کو غلبہ دین کے لیےلِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ تاکہ دین حق کو غالب کر دیں تمام ادیان پر. اور بھیجا پوری نوعِ انسانی کے لیے. ان دونوں باتوں کو جوڑیے‘ صغریٰ کبریٰ ملا دیجئے تو بعثت محمدیؐ کا مقصد یعنی تکمیل رسالت کا آخری مرحلہ وہ ہو گاکہ جب کل نوعِ انسانی پر اللہ کا دین غالب آ جائے. علامہ اقبال نے ’’جوابِ شکوہ‘‘ میں بڑی پیاری بات کہی ہے : ؎
وقت فرصت ہے کہاں‘ کام ابھی باقی ہے!
نورِ توحید کا اتمام ابھی باقی ہے!!
یہ کام ابھی نہیں ہوا. پوری نوعِ انسانی تک تو یہ دین نہیں پہنچا. پوری نوع انسانیت پر اللہ کے دین کا غلبہ نہیں ہوا. لیکن نوٹ کر لیجیے کہ یہ ہو کر رہنا ہے.’’نوید ِ خلافت‘‘ نامی کتابچے میں وہ احادیث درج ہیں جن میں حضورﷺ نے یہ خبریں دی ہیں. ایک حدیث میں آپﷺ نے اپنے زمانے سے لے کر تاقیامِ قیامت پانچ ادوار گنوا دیے ہیں: (۱)دورِ نبوت (۲) خلافت علیٰ منہاج النبوۃ‘ یعنی خلافت راشدہ (۳)ظالمانہ ملوکیت (۴) غلامی والی ملوکیت (۵) پھر خلافت علیٰ منہاج النبوۃ.اس وقت نوعِ انسانی اس پانچویں دَور کی دہلیز تک پہنچی ہوئی ہے‘ گویایہ دَور آیا چاہتا ہے‘ زیادہ دُور نہیں ہے. ’’نوید خلافت‘‘ نامی کتابچہ ہم نے لاکھوں کی تعداد میں تقسیم کیا ہے. موجودہ ماحول میں اسلام اور مسلمانوں کے جو حالات ہیں‘ ان سے بڑی مایوسی ہوتی ہے اور کیفیت یہ ہو جاتی ہے کہ ؎
سنبھلنے دے مجھے اے ناامیدی کیا قیامت ہے
کہ دامانِ خیالِ یار چھوٹا جائے ہے مجھ سے!
اس نااُمیدی کے چکر سے نکلنے اور ’’دامانِ خیال یار‘‘ کو مضبوطی سے تھامنے کے لیے ان احادیث کو حرزِ جان بنائیں‘ انہیں پڑھیں‘ یاد کریں‘ انہیں لوگوں تک پہنچائیں. اپنے طور پراس کتابچے کو چھاپیں اور تقسیم کریں.
حضرت ثوبان ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
اِنَّ اللّٰہَ زَوٰی لِیَ الْاَرْضَ فَرَاَیْتُ مَشَارِقَھَا وَمَغَارِبَھَا ‘ وَاِنَّ اُمَّتِیْ سَیَبْلُغُ مُلْکُھَا مَا زُوِیَ لِیْ مِنْھَا (صحیح مسلم)
’’اللہ تعالیٰ نے میرے لیے کل زمین کو لپیٹ دیا (یا سکیڑ دیا) تو میں نے اس کے تمام مشرق اور تمام مغرب دیکھ لیے. اور سن رکھو! میری اُمت کی حکومت ان تمام علاقوں پر قائم ہو کر رہے گی جو زمین کو سکیڑ کر اور لپیٹ کر مجھے دکھا دیے گئے.‘‘
کوئی شک ہے؟ کیسے ہو سکتا ہے کہ دنیا ختم ہو جائے اور حضرت محمد رسول اللہﷺ پر تکمیل رسالت کا یہ مظہر پورا نہ ہوکہ کل روئے ارضی پر حضرت محمدﷺ کا لایا ہوا دین‘ دین الحق اسی طرح غالب ہو جائے جیسے آپؐ کے دست مبارک سے جزیرہ نمائے عرب میں جَآءَ الۡحَقُّ وَ زَہَقَ الۡبَاطِلُ کی شان سے غالب ہوا تھا. اس کے لیے آپؐ نے تکلیفیں جھیلیں‘ مصیبتیں برداشت کیں‘ قربانیاں دیں‘ سینکڑوں صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جانوں کا نذرانہ پیش کیا .ایک ایک صحابی کی جان ہم جیسے لاکھوں کی جانوں سے بڑھ کر قیمتی ہے. حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی جان کی قیمت کا ہم کیا اندازہ لگائیں گے! یہ جانیں دی گئیں تب دین غالب ہوا. اور اسے پوری دنیا پر غالب ہونا ہے‘ ورنہ حضرت محمد رسول اللہﷺ پر تکمیل رسالت کا تقاضا پورا نہیں ہو گا. کیسے ممکن ہے کہ دنیا ختم ہو جائے اور حضورﷺ پر تکمیل رسالت کا یہ تقاضا کہ کل روئے ارضی پر آپؐ :کا لایا ہوا دین نافذ ہونا ہے‘ پورا نہ ہو!
ایک اور حدیث جو حضرت مقداد بن اسودرضی اللہ عنہ سے مروی ہے‘ اس میں حضورﷺ کے یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں:
لَا یَبْقٰی عَلٰی ظَھْرِ الْاَرْضِ بَیْتُ مَدَرٍ وَلَا وَبَرٍ اِلاَّ اَدْخَلَہُ اللّٰہُ کَلِمَۃَ الْاِسْلَامِ … (مسند احمد)
’’اس روئے ارضی پر نہ کوئی اینٹ گارے کا بنا ہوا گھر باقی رہے گا نہ ہی کمبلوں کا بنا ہوا کوئی خیمہ بچے گا جس میں اللہ کلمہ ٔاسلام کو داخل نہ کر دے.‘‘یہ ہو کر رہے گا. اور اسی وقت واقعتا حضورﷺکی ختم نبوت اور ختم رسالت بمعنی تکمیل نبوت و تکمیل رسالت کا بتمام و کمال ظہور ہو گا. علامہ اقبال نے نبی اکرمﷺ کی احادیث کے مضامین کو بھی اپنے اشعار میں پیش کیا ہے‘ جیسے کہ اپنے بے شمار اشعار کے اندر قرآن مجید سے استشہاد کیا ہے. چنانچہ اس آنے والے دَور کے بارے میں کہتے ہیں ؎
آسماں ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
پھر دلوں کو یاد آ جائے گا پیغامِ سجود
پھر جبیں خاکِ حرم سے آشنا ہو جائے گی
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی!
شب گریزاں ہو گی آخر جلوۂ خورشید سے
یہ چمن معمور ہو گا نغمہ توحید سے!!
دیکھئے یہ کام پہلے جب ہوا تھا‘ محمد رسول اللہﷺ کے دست مبارک سے جزیرہ نمائے عرب میں دین کا غلبہ ہو گیا. پھر آپؐ کے بعد اس کی توسیع ہوئی . اسلامی افواج مشرق و مغرب میں نکل کھڑی ہوئیں. مشرق میں عراق سے ہو کر ایران پہنچیں اور پھر یہ پورا ملک جو اُس زمانے کا خراسان تھا‘ فتح ہوا اور پھر چین تک بات پہنچ گئی. مغرب میں اسلامی افواج شام اور جزیرہ نمائے سیناکو فتح کرتے ہوئے مصر اور لیبیا جا پہنچیں اور ہوتے ہوتے بحر اوقیانوس تک بات پہنچ گئی.از کجا تا بہ کجا! کہاں سے کہاں تک! وہ تو جیسا کہ میں نے عرض کیا سبائی فتنے نے اندرونی خلفشار پیدا کیا اور مسلمانوں کو آپس میں لڑا دیا جس سے ان کی قوت ٹوٹ گئی .جیسے کسی اونچائی پر ٹرک چڑھ رہا ہو اور کہیں موشن ٹوٹ جائے تو اس کے بعد مزید چڑھائی چڑھنا بہت مشکل ہو جاتا ہے. چنانچہ یہ صورت کہ ؏ ’’ تھمتا نہ تھا کسی سے سیل ِرواں ہمارا!‘‘یکسر تبدیل ہو گئی‘ہمارا وہ سیل رواں تھم گیا اور reversal شروع ہو گیا. اب بھی یہی ہو گا کہ کسی ایک خطے میں اللہ کا وہ نظامِ خلافت علیٰ منہاج النبوۃ قائم ہوگا.
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ایسا ہونا ہے‘ یہ یقینی ہے‘ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش ہے ہی نہیں. کب ہو گا؟ یہ ہم نہیں کہہ سکتے. کتنی قربانیاں دے کر ہو گا‘ یہ ہم نہیں کہہ سکتے. ابھی کتنے نشیب و فراز آئیں گے‘ ہم نہیں کہہ سکتے. میرے مشاہدے میں کچھ اشارات ہیں کہ اب غلبہ ٔاسلام کا آغاز پاکستان اور اس سے ملحق سرزمین افغانستان سے ہو گا. اگرچہ موجودہ حالات بڑے تباہ کن ہیں‘ افسوس ناک ہیں‘ افغانستان میں طالبان کی قائم کردہ اسلامی حکومت کا خاتمہ کر دیا گیا ہے‘ جہادِ کشمیر پر ریورس گیئر لگ چکا ہے. اللہ نہ کرے‘ لیکن بش صاحب نے اپنی سیکرٹ ایجنسیوں کو ایسی تیاریاں مکمل کرنے کا حکم دے دیا ہے کہ اگر ذرا سا بھی اندیشہ ہوکہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیتوں تک بنیاد پرستوں کی رسائی ہو سکتی ہے‘ تواُن پر فوراً قبضہ کر لیا جائے. سود کے خاتمے کے بارے میں ہمارے یہاں جو پیش رفت ہوئی تھی‘ اب اس پر بھی ریورس گیئر لگ گیا ہے اور اس ضمن میں ربع صدی کی مساعی پر خط تنسیخ پھیر دیا گیا ہے. تو حالات بڑے نامساعد اور ناموافق ہیں. لیکن ؎
اور بھی دَور فلک ہیں ابھی آنے والے
ناز اتنا نہ کریں ہم کو ستانے والے!
اور ؏ جو تھا‘ نہیں ہے‘ جو ہے‘ نہ ہو گا یہی ہے اک حرفِ محرمانہ!
ظاہر بات ہے کہ کوئی بھی حالات ہمیشہ کے لیے نہیں ہوتے. لیکن میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ان شاء اللہ العزیز اسی خطہ ٔارضی سے غلبہ ٔاسلام کا آغاز ہو گا‘ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے چار پانچ سو سال سے اس کی تمہید کی ہے اور اللہ تعالیٰ کی مشیت میں پاکستان سے کوئی بڑا کام لینا مقصود ہے.