ہم میں سے ہر شخص کا فرض ہے کہ اللہ کے دین کے غلبے اور اس کی اقامت کے لیے کمر کس لے.دنیا میں کیا ہوتا ہے‘کیا نہیں ہوتا‘ یہ میرے اور آپ کے اختیار میں نہیں ہے. میں جو کچھ کر سکتا ہوں اس کے بارے میں جواب دہ ہوں‘ آپ جو کچھ کر سکتے ہیں‘ جو بھی آپ کے اختیار میں ہے اس کے لیے آپ عند اللہ مسئول ہیں‘ ذمہ دار ہیں.اللہ تعالیٰ کی نصرت و حمایت محمد رسول اللہﷺ کی وفاداری کے ساتھ مشروط ہے. ؏ ’’کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں!‘‘چنانچہ جن کو محمدﷺ کے ساتھ وفا کا دعویٰ ہے وہ اپنے سر پر کفن باندھ کر اور یہ عہد کر کے کہ قُلۡ اِنَّ صَلَاتِیۡ وَ نُسُکِیۡ وَ مَحۡیَایَ وَ مَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۶۲﴾ۙ (الانعام) ’’یقینا میری نماز‘ میری قربانی‘ میرا جینا اور مرنا اللہ ربّ العالمین کے لیے ہے.‘‘ اللہ کے دین کو عملاً قائم کرنے کی جدوجہد کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں. اس لیے کہ تکمیل رسالت ِمحمدیؐ کا آخری مرحلہ ابھی باقی ہے‘ جس کی خبر دی ہے اللہ کے رسولﷺ نے کہ یہ ہونا ہے. کیسے ہو سکتا ہے کہ بعثت ِمحمدی کا تقاضا بتمام و کمال پورا نہ ہو اور دنیا ختم ہو جائے!
دنیا کے خاتمے سے پہلے چہار دانگ عالم پر‘ کل عالمِ انسانیت پر اللہ کا دین نافذ ہو گا.اسی کام کے لیے پاکستان قائم کیا گیا تھا. ہم نے اللہ سے پکار پکار کر‘ چیخ چیخ کر دعائیں کی تھیں کہ اے اللہ! ہمیں انگریز اور ہندو کی دوہری غلامی سے نجات دے‘ ہم تیرے نبی کے دین کا بول بالا کریں گے‘ پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنائیں گے. قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ ہم پاکستان میں اسلام کے اصول ِحریت و اخوت و مساوات کا نمونہ دنیا کے سامنے پیش کریں گے اور اسی لیے ہمیں معجزے کے طور پریہ ملک ملا تھا‘ لیکن افسوس‘ صد افسوس! اَوۡلٰی لَکَ فَاَوۡلٰی ٗ ثُمَّ اَوۡلٰی لَکَ فَاَوۡلٰی ۵۵ برس گزر گئے لیکن اسلام یہاں نہیں آیا. نتیجہ کیا نکلا؟اللہ نے پہلے ۲۵ برس ہمیں مہلت دی تھی. جب ہم نے اسلام نافذ نہیں کیاتو اللہ نے عذاب کا ایک کوڑا ہماری پیٹھ پر برسایا. ہندوستان کے ہاتھوں ۱۹۷۱ء کی شکست عظیم یاد ہے؟ ہمارے ۹۳ ہزار فوجی اس ہندو کے ہاتھوں جنگی قیدی بنے جس پر ہم نے کہیں ہزار برس حکومت کی تھی‘ کہیں چھ سو برس اور کہیں آٹھ سو برس. اندرا گاندھی کو یہ کہنے کا موقع ملا کہ ہم نے دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں غرق کر دیا ہے. اور اس نے یہ بھی کہا کہ :
"We have avenged our thousand years defeat"
کہ ہم نے اپنی ہزار سالہ شکست کا بدلہ چکا دیا ہے.
غور کیجئے کہ اللہ کے عذاب کا یہ کوڑا کیوں پڑا؟ اس لیے کہ ہم نے اللہ کے دین کے ساتھ بے وفائی کی‘ اللہ کے ساتھ وعدہ خلافی کی اور اللہ کے دین کو نافذ نہیں کیا .اور اب جو حالات ہیں وہ انتہائی تشویشناک ہیں. ہم امریکہ کے ہاں گروی رکھے جا چکے ہیں‘ ہمارے Bases اس کے کنٹرول میں ہیں. ایف بی آئی‘ سی آئی اے اور موساد پاکستان میں موجود ہے. ہمارے ایئر پورٹس پر ان کے معین حصّے ہیں ‘ہماری خود مختاری گویا گروی رکھ دی گئی ہے.دوسری طرف بھارت کی دھمکی آمیز روش اور اس کی رعونت کو دیکھئے کہ کتنے بڑے پیمانے پر اس نے ہماری سرحدوں پر فوجیں لا کھڑی کی ہیں اور ہم اس سے معذرت کر رہے ہیں کہ در اندازی بالکل بند ہو چکی ہے. حالانکہ پہلے ہم کہہ رہے تھے کہ یہ تو مجاہدین آزادی ہیں‘ آزادی کی جدوجہد اُن کا حق ہے‘ لیکن اب ہمیں اپنا تھوکا ہوا چاٹناپڑا ہے. یہ حالات ہیں جس میں اندیشہ ہے کہ کہیں اللہ کے عذاب کا بڑا کوڑا ہماری پیٹھ پرنہ برس جائے.
آپ میں سے بہت سے لوگوں کے علم میں ہو گا کہ آج سے کوئی سال بھر پہلے امریکہ کے ایک بہت بڑے تھنک ٹینک کی طرف سے یہ بات آ چکی ہے کہ ۲۰۲۰ء میں پاکستان کے نام سے کوئی ملک دنیا میں موجود نہیں ہو گا. اللہ نہ کرے کہ ایسا ہو! اللہ تعالیٰ ان کے عزائم کو خاک میں ملانے پر قادر ہے‘ لیکن اگر ہمارے چلن یہی رہے تو شدید اندیشہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری مدد سے ہاتھ کھینچ لے. ہم نے موٹر وے بنا لی‘ ہم نے بڑے بڑے محل بنا لیے . کراچی‘ لاہور اور پشاور کی ڈیفنس سوسائٹیاں ذرا جا کر دیکھئے کہ کیسے کیسے محلات تعمیر کیے گئے ہیں. اسلام آباد کے بنگلے دیکھئے کہ دو دو‘ تین تین کروڑ کا ایک ایک بنگلہ ہے‘ لیکن ہم اسلام نافذ نہیں کر سکے. یہ جرم ہمارایسا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ اس پر اللہ آخری سزا دے دے اور ہو سکتا ہے کہ ابھی کچھ مہلت باقی ہو. بہرحال ایک بات محاورے کے طور پر کہی جا تی ہے کہ ’’جب تک سانس تب تک آس‘‘ .جب تک اللہ نے مہلت دے رکھی ہے کچھ نہ کچھ کرنا ہے .کرنا کیا ہے‘ یہ جان لیجئے!
میرے اب تک کے بیان سے بھی یہ بات واضح ہو چکی ہو گی کہ اسلامی نظام کا قائم کرنا آسان کام نہیں ہے. محمد عربی ﷺ کو بھی اس راہ میں اپنے دندانِ مبارک شہید کروانے پڑے‘ اپنے خون کا فوارہ چھڑوانا پڑا‘ اور ۲۵۹ صحابہ کی جانوں کا نذرانہ دینا پڑا‘ جن میں حضرت حمزہؓ بھی تھے اور حضرت مصعب بن عمیرؓ بھی . آج بھی یہ کام آسان نہیں ہے. ؏ ’’لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا!‘‘ آج اسلام کے نفاذ کے لیے ہماری تنظیم اسلامی کا جو طریقہ کار ہے ‘ وہ میں اب آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں.
(۱) پہلا مرحلہ یہ ہے کہ خود اپنی ذات پر اور اپنے گھر میں اسلام نافذ کیا جائے. سب سے مشکل کام یہی ہے. ؏ ’’منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں! ‘‘ہمارے عوام کی عمومی روش یہ ہے کہ ہم سے نعرے لگوا لو‘ چندے لے لو‘ جلوس نکلوا لو‘ جلسے کروا لو‘ لیکن ہماری زندگی کا جو نقشہ ہے وہ نہیں بدلے گا. اگر سودی کاروبار ہے تو وہ جاری رہے گا‘ اگر سودی قرضہ لے کر محل بنایا ہے تو وہ باقی رہے گا‘ اگر گھر میں شرعی پردہ نہیں ہے تو نہیں آئے گا ‘تو اسلام کیسے آ جائے گا؟ لہذا جس کا بھی ارادہ ہو‘ جسے بھی اللہ تعالیٰ آپ میں سے قبول فرما لے اسے پہلا فیصلہ یہ کرنا ہو گا کہ مجھے اپنی زندگی سے حرام کو نکال دینا ہے‘ فرائض و واجبات کی پابندی کرنی ہے اور ارکانِ دین کی بجاآوری تمام شرائط کے ساتھ کرنی ہے. پھر یہ کہ اپنے وجود پر اور اپنے گھر پر شریعت کا مکمل نفاذ کرنا ہے.
(۲) شریعت پر کاربند ہونے کا عزم کر لینے والے پھر مل جل کر ایک طاقت بنیں. ایک اکیلا دو گیارہ. حضورﷺ نے فرمایا ہے : یَدُ اللّٰہِ عَلَی الْجَمَاعَۃِ یعنی اللہ کی تائیداور اللہ کی نصرت جماعت کے ساتھ ہے. حضرت عمرؓ کا قول تو یہاں تک ہے: لَا اِسْلَامَ اِلاَّ بِجَمَاعَۃِ ’’جماعت کے بغیر کوئی اسلام نہیں ہے ‘‘.چنانچہ جماعت کی شکل اختیار کرنا ضروری ہے .اسی لیے ہم نے تنظیم اسلامی بنائی. ہمارا سیاست کا کھیل کھیلنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے. میں تو اپنی زندگی کے دس سال جماعت اسلامی کی تحریک کی نذر کر کے پھر وہاں سے نکلا تھا‘ اور اسی بنیاد پر نکلا تھا کہ آپ نے جو الیکشن کا راستہ اختیار کیا ہے اس سے آپ عام معنی میں سیاسی جماعت بن گئے ہیں‘ اب آپ وہ انقلابی جماعت نہیں رہے جس میں مَیں نے شمولیت اختیار کی تھی. ہماری دعوت یہ ہے کہ ہماری جماعت میں آنے والے لوگ پہلے اپنی ذات پراور اپنے گھر میں اللہ کے دین کو نافذ کریں‘ جو بڑا مشکل کام ہے. یہی وجہ ہے کہ ہماری رفتار بڑی کمزور ہے. لوگ نعرے لگانے کو تیار ہیں‘ کسی کو کافر کہلانا ہو تو نعرے لگا دیں گے‘ کسی کے خلاف کوئی مہم اٹھانی ہو تو اٹھا دیں گے‘ مگر خود اپنے آپ کو بدلنے کے لیے تیار نہیں ہیں. جبکہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوۡمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوۡا مَا بِاَنۡفُسِہِمۡ ؕ (الرعد:۱۱) یعنی اللہ تعالیٰ کسی قوم کے حالات کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اپنے آپ کو نہ بدلے.تو پہلا قدم اپنے آپ کو بدلنا اور دوسرا قدم مل جل کر جماعت بنانا ہے.
دنیا میں جماعت سازی کے مختلف طریقے رائج ہیں. ایک دستوری طریقہ ہے کہ اگر آپ کو کسی جماعت کا دستور منظور ہے تو آپ اس کے رکن بن گئے ‘پھر ارکان جو ہیں وہ صدر یا امیر کا ایک معین مدت دو سال‘ چار سال یا چھ سال کے لیے انتخاب کریں گے. پھر اس امیر یا صدر کے لیے شوریٰ یا مینیجنگ کمیٹی ہو گی. اس میں طے کیا جائے گا کہ کتنے اختیار امیر کے پاس ہیں اور کتنے شوریٰ یا مینیجنگ کمیٹی کے پاس ہیں. یہ طریقہ کار میرے نزدیک مباح ہے‘ جائز ہے‘ حلال ہے‘ حرام نہیں ہے‘ لیکن مسنون نہیں ہے. جماعت سازی کا مسنون طریقہ بیعت پر مبنی ہے جو ہم نے اختیار کیا ہے. صلح حدیبیہ کے موقع پر حضورﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بیعت علی الموت لی کہ اپنی جانیں دے دیں گے لیکن یہاں سے نہیں ہلیں گے. غزوۂ احزاب میں خندق کھودی جا رہی تھی تو کئی کئی وقتوں کے فاقے کے ساتھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جب پھاوڑے چلا رہے تھے تو ان کی زبان پر ایک شعر تھا‘ جسے وہ آواز میں آواز ملا کر پڑھ رہے تھے :
نَحْنُ الَّذِیْنَ بَایَعُوْا مُحَمَّدَا
عَلَی الْجِھَادِ مَا بَقِیْنَا اَبَدَا
’’ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے محمدﷺ سے جہاد کی بیعت کی ہے‘ اب یہ جہاد جاری رہے گا جب تک جان میں جان ہے.‘‘
جب جان نکل جائے تو ہماری ذمہ داری ختم ہو جائے گی‘ جب تک جسم میں جان ہے‘ یہ جہاد جاری رہے گا.
اب آپ بیعت کے بارے میں یہ متفق علیہ روایت ملاحظہ کیجئے جس کے راوی حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ ہیں. اس حدیث میں مذکور بیعت نو نکات پر مشتمل ہے اور اسی کو ہم نے تنظیم اسلامی میں اختیار کیا ہے . حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
بَایَعْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ ‘ فِی الْعُسْرِ وَالْیُسْرِ‘ وَالْمَنْشَطِ وَالْمَکْرَہِ ‘ وَعَلٰی اَثَرَۃٍ عَلَیْنَا ‘ وَعَلٰی اَنْ لاَّ نُنَازِعَ الْاَمْرَ اَھْلَہٗ‘ وَعَلٰی اَنْ نَّقُوْلَ بِالْحَقِّ اَیْنَمَا کُنَّا ‘ لَا نَخَافُ فِی اللّٰہِ لَوْمَۃَ لَائِمٍ
’’ہم نے بیعت کی تھی اللہ کے رسولﷺ سے اس پر کہ آپؐ :کا ہر حکم سنیں گے اور اطاعت کریں گے‘ چاہے مشکل ہو چاہے آسانی ہو‘ چاہے ہماری طبیعتیں آمادہ ہوں چاہے ہمیں طبیعتوں پر جبر کرنا پڑے‘ چاہے دوسروں کو ہم پر ترجیح دے دی جائے (ہم یہ نہیں کہیں گے کہ ہم آپ کے پرانے خادم تھے اور آپ نے ایک نووارد کو ہمارے اوپر امیر کیوں بنا دیا؟ بلکہ یہ آپ کا اختیار ہو گا جسے آپ چاہیں امیر بنائیں) جنہیں امیر مقرر کیا جائے گا ان سے جھگڑیں گے نہیں (ان کی بھی اطاعت کریں گے) البتہ ہر موقع پر جو صحیح رائے ہو گی وہ ضرور پیش کر دیں گے‘اللہ کے معاملے میں ہم کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے.‘‘
یہ بیعت محمد رسول اللہﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے لی تھی. ہم نے اس کو ایک لفظ (فی المعروف) کے اضافہ کے ساتھ اختیار کر لیا. اس لیے کہ امیر تنظیم اسلامی کی بیعت مطلق نہیں ہے‘ شریعت کے دائرے کے اندر اندر ہے. امیر تنظیم شریعت کے کسی حکم کے خلاف حکم نہیں دے سکتا‘ البتہ اس دائرے کے اندر اندر جو حکم دے گا وہ واجب التعمیل ہے.
(۳) جو لوگ یہ بیعت کر لیں اور وہ اپنے گھر پر‘ اپنی ذات پر اللہ کا دین حتی المقدورنافذ کر چکے ہوں اب وہ یہی کام کریں کہ یہ دعوت لوگوں تک پہنچائیں زبان سے‘ کتابوں سے‘ رسالوں سے‘ ویڈیوز سے‘ آڈیوز سے‘ گفتگوؤں سے اور خطاباتِ عام سے یہ پیغام عام کر دیں‘ تاکہ لوگ اس جماعت میں شامل ہوں‘ اور ان کی معتدبہ تعداد ہو جائے .پھر ان کی تربیت ہو .اور جب تک تعداد اتنی کافی نہ ہو جائے کہ پورے نظام کو چیلنج کیا جا سکے اُس وقت تک یہی کام باللسان کرنا ہے‘ زبان سے نیکی کی بات کرنی ہے‘ زبان سے برائی سے روکنا ہے اور ساتھ ساتھ تربیت کا عمل جاری رکھنا ہے .اور جب طاقت کافی ہوجائے‘ منظم بھی ہوں‘ واقعتا اپنا سب کچھ قربان کر دینے کے لیے تیار بھی ہوں‘ تو اب ہم چیلنج کریں گے کہ ہم یہ فلاں حرام کام یہاں نہیں ہونے دیں گے ‘یا ہم نہیں یا یہ نہیں! گھیراؤ کریں گے‘ پِکٹنگ کریں گے‘ جلوس نکالیں گے‘ دھرنے ماریں گے‘ اپنے سینے کھول کر کہیں گے کہ چلاؤ ہم پر گولی!
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مؤمن
نہ مالِ غنیمت! نہ کشور کشائی!
جو کام ایرانیوں نے کیا وہ یہاں کرنا ہو گا. انہوں نے بیس ہزار سے تیس ہزار کے درمیان جانیں دے دیں. اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شہنشاہ آریا مہر کو جان بچا کر بھاگنا پڑا اور آیت اللہ خمینی پیرس سے نازل ہو کر وہاں کا حکمران بن گیا. یہ تو ہماری زندگیوں میں ہوا ہے‘ کوئی بہت پرانا معاملہ نہیں ہے‘ ابھی اس کو رُبع صدی بھی نہیں ہوئی ہے. یہ کوئی ازمنہ قدیمہ کی تاریخ نہیں ہے.
ہمارے ہاں غلطی یہ ہوئی کہ کچھ لوگوں نے سوچا کہ چلو الیکشن کا راستہ دیکھتے ہیں‘ ہمیں زیادہ ووٹ مل جائیں گے‘ حکومت ہماری ہو جائے گی تو ہم اسلامی نظام قائم کر دیں گے. لیکن یہ راہِ یسیر راہِ عسیر بن گئی ‘ یہ شارٹ کٹ longest کٹ بن گئی. جماعت اسلامی نے ۱۹۵۱ء میں پہلی مرتبہ الیکشن میں حصہ لیا تھا‘ اب ۲۰۰۲ء میں لے رہے ہیں‘ لیکن ان ۵۱ برسوں کا حاصل کچھ بھی نہیں. اور سوچئے‘ کیا آیت اللہ خمینی کی حکومت ایران میں الیکشن کے ذریعے قائم ہو سکتی تھی؟ قطعاً نہیں‘ ناممکن!اس اعتبار سے یہ نہ سمجھئے کہ میں آیت اللہ خمینی کی پوری دعوت اور ان کے عقائد کی تائید کر رہا ہوں. نہیں‘ وہ شیعہ ہیں‘ ہمارا ان کا بڑا اختلاف ہے‘ لیکن یہ کہ انقلاب برپا کرنے کے لیے اِس وقت دنیا میں آخری قدم الیکشن نہیں ہے .پھر یہ کہ کسی طرح کی دہشت گردی کر کے اور کسی چھاپہ مار جنگ سے بھی اسلام نہیں آئے گا. لوگوں نے یہ راستے اختیار کر کے دیکھ لیے ہیں ‘لیکن کہیں کامیابی نہیں ہوئی‘ نہ الجزائر میں نہ مصر میں‘حالانکہ بہت سے لوگوں نے جانیں دی ہیں اور خلوص کے ساتھ دی ہیں.
عام طو رپر یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ انتقالِ اقتدار کے دو ہی راستے ہیں ‘بیلٹ یا بلٹ. لیکن ان دونوں کے علاوہ تیسرا راستہ وہ ہے جو ایرانیوں نے دکھایا. اور حضورﷺ نے فرمایا ہے : اَلْحِکْمَۃُ ضَالَّۃُ الْمُؤْمِنِ ‘ فَحَیْثُ وَجَدَھَا ھُوَ اَحَقُّ بِھَا یعنی حکمت کی بات‘ دانائی کی بات‘ عقل کی بات‘ سمجھ کی بات وہ تو مؤمن کی گمشدہ متاع کی مانند ہے‘ جہاں سے بھی مل جائے مؤمن اس کا سب سے زیادہ حق دار ہے. چنانچہ جہاں سے ملے لے لو!شیعہ حضرات نے تو پاکستان میں بھی اپنا مطالبہ منظور کروا کے دکھا دیا تھا. ضیاء الحق صاحب نے زکوٰۃ آرڈی نینس نافذ کیا تھا جس پر شیعہ بپھر گئے تھے کہ ہم حکومت کو زکوٰۃ نہیں دیں گے. اندازہ کیجئے کہ مارشل لاء کی حکومت تھی‘ اور مارشل لاء ابھی بوڑھا نہیں ہوا تھا. ۱۹۷۷ء میں مارشل لاء آیا تھا اور ابھی ۱۹۸۰ء تھا.ا س کا بڑا رعب اور دبدبہ تھا ‘لیکن پچاس ہزار افراد نے اسلام آباد میں جمع ہو کر مرکزی سیکریٹریٹ کا گھیراؤ کر لیا اور دھرنا مار کر بیٹھ گئے کہ ہمیں زکوٰۃ آرڈی نینس سے مستثنیٰ کیا جائے. چنانچہ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی ناک زمین پر رگڑی گئی اور اس نے یقین دہانی کرائی‘ تب وہ اٹھے. یہ طریقہ ہے کام کرنے کا. اگر گولی چلتی تو وہ جانیں دیتے. ایران میں گولیاں چلی ہیں اور مظاہرین نے جانیں دی ہیں. یہاں ضیاء الحق سمجھ دار آدمی تھا. اسے معلوم تھا کہ شیعوں کے ایسے ہجوم پر اگر گولی چلادی گئی تو پاکستان میں طوفان اٹھ کھڑا ہو گا. شیعہ آفیسرز آرمی میں ‘ پولیس میں ‘بیورو کریسی میں اورذرائع ابلاغ میں ‘ہر جگہ موجود ہیں. کہاں نہیں ہیں؟ اس لیے اس نے اپنی ناک نیچی کر لی اور ان کا مطالبہ مان لیا.یہ طریقہ ہے آج کی دنیا میں مطالبات منوانے کا! لیکن جیسا کہ میں نے کہا‘ اس کے لیے وہ لوگ تیار ہو جائیں جو خود دین پر کاربند ہو چکے ہوں.
اس وقت دنیا کے جو حالات ہیں ان میں عالم اسلام خصوصاً ہمارے ملک میں شدید مایوسی کی کیفیت ہے. اس مایوسی کے ازالے کے لیے ہمیں ان احادیث کی ضرورت ہے جن کا میں نے حوالہ دیا ہے کہ ان میں حضورﷺ نے روشنی کی کرنیں دکھائی ہیں چنانچہ نہ بش صاحب اترائیں‘ نہ شیرون اترائے. ایک زمانہ آئے گا کہ ایک ایک یہودی قتل ہو گا‘ اور عظیم تر اسرائیل بنانے کا جو یہ خواب دیکھ رہے ہیں‘ وہ ان کا عظیم تر قبرستان بنے گا. اس کی خبر دی ہے محمد رسول اللہﷺ نے‘ اور یہ ہو کر رہے گا. ابھی حالات ذرا خراب ہیں‘ لیکن درحقیقت جتنے بھی حالات خراب ہیں‘ اتنے ہی اعلیٰ مراتب حاصل کرنے کے مواقع زیادہ ہیں. حالات آسان ہو جائیں تو نیکی کا وہ اجر و ثواب نہیں ہوتا جو مشکل حالات میں کی گئی نیکی کا اجر و ثواب ہوتا ہے. مشکل حالات تو اہل ِہمت کی ہمت میں مزید اضافہ کرتے ہیں ؎
تندیٔ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے!
ان حالات میں ہمار ے لیے موقع ہے کہ ہم تن من دھن اللہ کی راہ میں لگائیں اور اللہ تعالیٰ سے اس کے لیے عظیم سے عظیم تر اجر و ثواب پائیں.
یہ ہے تنظیم اسلامی کی دعوت جو میں نے پیش کر دی ہے. میری گفتگو کا خلاصہ ایک مرتبہ پھردیکھ لیجئے. ختم نبوت کے دو مفہوم :(۱) حضورﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں.
(۲) حضورﷺ پر نبوت و رسالت کی تکمیل ہو گئی تکمیل نبوت کے دو مظہر: (۱)ہدایت ِخداوندی قرآن مجید میں مکمل ہو گئی اور اسے محفوظ کر دیا گیا. (۲)دین حق کامل کر دیا گیا اسلام کی شکل میں:اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ تکمیل رسالت کے دو مظہر: (۱) حضورﷺ نے دین کو قائم کر کے دکھا دیا‘ وہ صرف نظری بات نہیں تھی‘ صرف کتاب میں لکھی ہوئی شے نہیں دی‘ بلکہ عملی نمونہ پیش کیا‘ حجت قائم کی. (۲) حضورﷺ کی رسالت تمام دنیا کے لیے ہے. آفاقی اورگلوبل رسالت صرف حضرت محمدﷺ کی ہے‘ نہ عیسٰی ؑ کی تھی‘ نہ موسٰی ؑکی تھی اور نہ ابراہیم ؑ کی تھی (علیہم الصلوٰۃ والسلام) لیکن اس آخری بات کے کچھ عملی تقاضے ہیں. اس وقت تو حال یہ ہے کہ پوری دنیا میں ایک ملک بھی ایسا نہیں جہاں ہم یہ کہہ سکیں کہ پورا اِسلام نافذ ہے اور دنیا کو دعوت دے سکیں کہ آؤ دیکھ لو ‘اپنی آنکھوں سے اسلام کی برکات کا مشاہدہ کر لو کہ یہ اسلام ہے. دوسرے یہ کہ حضورﷺ کی بعثت کا جو گلوبل تقاضا ہے یعنی پوری دنیا پر اسلام کا غلبہ‘ اس کے لیے محنت و مشقت اور جدوجہد جیسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کی تھی‘ ہمیں بھی کرنی ہو گی. صحابہؓ نے مشقتیں جھیلیں‘ مصیبتیں اٹھائیں‘ آزمائشوں میں سے گزرے‘ عملاً امتحانات کی بھٹیوں میں سے گزرے‘ تب یہ کام کیا ہے. اسی کے لیے ہمیں اپنے آپ کو تیار کرنا ہے.
اقول قولی ھذا واستغفر اللہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلمات