بعثت ِانبیاء علیہم السلام کا اَساسی مقصد

ایمانیات ِثلاثہ

یہ تو سب جانتے ہیں کہ اسلام کے اساسی معتقدات تین ہیں. یعنی‘ توحید‘ معاد اور‘رسالت یا ایمان باللہ‘ ایمان بالآخرت اور ایمان بالرسالت لیکن عام طورپر اس پہلو پر توجہ نہیں دی جاتی کہ ان تینوں میں گہرا منطقی ربط موجود ہے اور یہ تینوں مل کر ایک ناقابل تقسیم وحدت کی صورت اختیار کر لیتے ہیں. آیئے ذرا اختصار کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کریں کہ ان تینوں کا اصل حاصل کیا ہے اور ان کے مابین ربط و تعلق کی نوعیت کیا ہے؟ 

ایمان باللہ

فلسفیانہ موشگافیوں اور متکلمانہ نکتہ طرازیوں سے قطع نظر ایمان باللہ کا اصل حاصل یہ ہے کہ یہ عالم ِوجود اور سلسلہ کون و مکاں جو تاحد ِنظر ہماری نگاہوں کے سامنے پھیلا ہوا ہے‘ نہ ہمیشہ سے ہے نہ ہمیشہ رہے گا ‘بلکہ حادث بھی ہے اور ہالک (۱و فانی (۲بھی. البتہ ایک ذات ایسی ہے جس کی نہ ابتدا ہے نہ انتہا‘ اُسے اللہ کہہ لیا جائے یا الرحمن کوئی فرق واقع نہیں ہوتا (۳.وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا‘ اور تمام صفاتِ کمال سے بتمام و کمال متصف ہے اور ہر اعتبار سے تنہا اور یکتا ہے ‘نہ کوئی اُس کی ذات میں (۱) کُلُّ شَیۡءٍ ہَالِکٌ اِلَّا وَجۡہَہٗ ؕ لَہُ الۡحُکۡمُ وَ اِلَیۡہِ تُرۡجَعُوۡنَ ﴿٪۸۸﴾ (القصص)
(۲) کُلُّ مَنۡ عَلَیۡہَا فَانٍ ﴿ۚۖ۲۶﴾وَّ یَبۡقٰی وَجۡہُ رَبِّکَ ذُو الۡجَلٰلِ وَ الۡاِکۡرَامِ ﴿ۚ۲۷﴾ (الرحمٰن)
(۳) قُلِ ادۡعُوا اللّٰہَ اَوِ ادۡعُوا الرَّحۡمٰنَ ؕ اَیًّامَّا تَدۡعُوۡا فَلَہُ الۡاَسۡمَآءُ الۡحُسۡنٰی ۚ (بنی اسراء یل:۱۱۰
شریک ہے نہ صفات میں‘ نہ حقوق میں نہ اختیارات میں! (۱

اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو 
’’بِالْحَقِّ‘‘ اور ’’اِلٰی اَجَلٍ مُّسَمًّی‘‘ تخلیق فرمایا ہے اور اس سلسلہ ٔتخلیق کا مرتبہ ٔکمال ہے انسان‘ جسے اس نے اپنی صورت پر تخلیق فرمایا (۲‘ پھر اس میں اپنی روح میں سے پھونکا اور اسے اپنی خلافت و نیابت سے سرفراز فرمادیا. گویا اسے ایک اعتبار سے جملہ مراتب ِتنزل ّکا حاصل بھی قرار دیا جا سکتا ہے‘ بقول حضرت بیدلؔ ؒ ؎

ہر دو عالم خاک ُشد تا بست نقش آدمی
اے بہارِ نیستی از قدرِ خود ہشیار باش!

اور ایک دوسرے پہلو سے پورے سلسلہ ارتقاء کا نقطہ ٔعروج بھی! 


لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡۤ اَحۡسَنِ تَقۡوِیۡمٍ ۫﴿۴﴾ثُمَّ رَدَدۡنٰہُ اَسۡفَلَ سٰفِلِیۡنَ ۙ﴿۵﴾ 
(التین) 
’’ہم نے پیدا فرمایا انسان کو بہترین ساخت پر. پھر لوٹا دیا اس کو نچلوں میں سب سے نچلا!‘‘ 

ایمان بالآخرت

ایمان بالآخرت کا حاصل یہ ہے کہ اس انسان کی یہ موجودہ دنیوی زندگی ہی کل زندگی نہیں‘ بلکہ یہ تو اس کی اصل زندگی کا حقیر سا آغاز ہے یا اس (۱) قُلۡ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ ۚ﴿۱﴾اَللّٰہُ الصَّمَدُ ۚ﴿۲﴾لَمۡ یَلِدۡ ۬ۙ وَ لَمۡ یُوۡلَدۡ ۙ﴿۳﴾وَ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ ٪﴿۴﴾ (الاخلاص)(ii)وَ قُلِ الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ لَمۡ یَتَّخِذۡ وَلَدًا وَّ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ شَرِیۡکٌ فِی الۡمُلۡکِ وَ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَ کَبِّرۡہُ تَکۡبِیۡرًا ﴿۱۱۱﴾٪ (بنی اسراء یل) (iii)‘وَّ لَا یُشۡرِکُ فِیۡ حُکۡمِہٖۤ اَحَدًا ﴿۲۶﴾ (الکہف)
(۲) خَلَقَ اللّٰہُ آدَمَ عَلٰی صُوْرَتِہٖ (متفق علیہ‘ عن ابی ھریرۃؓ ) 
’’اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر تخلیق فرمایا.‘‘ کی کتابِ حیات کا مختصر سا دیباچہ اور مقدمہ یا اس کے سفر ِحیات کا محض ایک آزمائشی اور امتحانی وقفہ (۱.بقول علامہ اقبال مرحوم ؎ 

تو اسے پیمانہ ٔامروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں ‘ پیہم دواں‘ ہر دم جواں ہے زندگی
قلزمِ ہستی سے تو اُبھرا ہے مانند ِحباب
اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی!

موت فنا یا معدوم ہو جانے کا نام نہیں‘ بلکہ صرف ایک عالم َسے دوسرے عالم کو نقل ِ مکانی کا نام ہے ‘جس کی پہلی اور عارضی منزل ہے عالم برزخ ‘جس کا آغاز موت کے فوراً بعد ہو جاتا ہے ‘اور دوسری اور مستقل منزل ہے عالم آخرت ‘جس کا آغاز یومِ قیامت سے ہو گا. بعث بعد الموت‘ حشر و نشر‘ حساب و کتاب‘ جزا و سزا اور جنت و دوزخ سب اسی ایمان بالآخرت کی تفاصیل ہیں ‘بقول نبی اکرم : 


وَاللّٰہِ لَتَمُوْتُنَّ کَمَا تَنَامُوْنَ ‘ ثُمَّ لَتُبْعَثُنَّ کَمَا تَسْتَیْقِظُوْنَ ‘ ثُمَّ لَتُحَاسَبُنَّ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ‘ ثُمَّ لَتُجْزَوُنَّ بِالْاِحْسَانِ اِحْسَانًا وَبِالسُّوْئِ سُوْئً ا، وَاِنَّھَا لَجَنَّــۃٌ اَبَدًا اَوْ لَـنَارٌ اَبَدًا 
(ماخوذ از خطبات نبویؐ بحوالہ نہج البلاغہ) 
’’اللہ کی قسم تم سب پر موت طاری ہو کر رہے گی جیسے تم روزانہ رات کو سو جاتے ہو‘ پھر تمہیں لازماً اٹھا لیا جائے گا جیسے تم روزانہ صبح کو بیدار ہوتے ہو. پھر یقیناتم سے حساب لیا جائے گا اس کا جو تم کر رہے ہو. پھر بدلہ مل کر رہے گا بھلائی کا بھلا اور برائی کا برا. اور وہ یا تو جنت ہے ہمیشہ کے لیے یا آگ ہے ہمیشہ کے لیے.‘‘