ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت کا باہمی ربط

غورکرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت باہم (۱) الَّذِیۡ خَلَقَ الۡمَوۡتَ وَ الۡحَیٰوۃَ لِیَبۡلُوَکُمۡ اَیُّکُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ؕ (الملک:۲
’’پیدا کیا سلسلہ موت و حیات تاکہ جانچے تمہیں کہ کون ہے تم میں سے سب سے اچھے عمل کرنے والا.‘‘ 
مل کر مبدأ ومعاد یا حیاتِ انسانی کی ابتدا و انتہا کے علم کی صورت اختیار کر لیتے ہیں. اور ان سے سفرحیات کے آغاز و انجام کا تعین ہو جاتا ہے .بفحوائے الفاظِ قرآنی اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَـیْہِ رَاجِعُوْنَ ’’ہم اللہ ہی کے ہیں اور اُسی کی طرف ہمیں لوٹ جانا ہے!‘‘

واقعہ یہ ہے کہ مبدأ و معاد کے اس علم کے بغیر انسان کی حالت یا تو اُس مسافر کی سی ہے جسے کسی افتاد کے باعث نہ تو یہ یاد رہے کہ اس نے سفر کا آغاز کہاں سے کیا تھا نہ یہ یاد رہے کہ اُس کے سفر کی منزل کون سی ہے . گویا بقولِ فانی ؔ ؎

ہم تو فانی جیتے جی وہ میت ّہیں بے گورو کفن
غربت جس کو راس نہ آئی اور وطن بھی چھوٹ گیا!

یا بقولِ غالب ؔ ؎

رو میں ہے رخش ِعمر کہاں دیکھئے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پاہے رکاب میں

اس حال میں انسان بغیر کسی منزلِ مقصود کے تعین کے محض بطن و فرج کے تقاضوں سے مجبور ہو کر گویا پیٹ کے بل گھسٹتے ہوئے زندگی بسر کر دیتا ہے. مطابق تمثیل ِقرآنی : 

اَفَمَنۡ یَّمۡشِیۡ مُکِبًّا عَلٰی وَجۡہِہٖۤ اَہۡدٰۤی اَمَّنۡ یَّمۡشِیۡ سَوِیًّا عَلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ ﴿۲۲﴾ 
(الملک) 

’’بھلا ایک جو چلے اوندھا اپنے منہ کے بل وہ سیدھی راہ پائے یا وہ شخص جو چلے سیدھا ایک سیدھی راہ پر؟‘‘ (ترجمہ شیخ الہندؒ )
یا پھر اُس کی کیفیت اُس پتنگ کی سی ہے جس کی ڈور کٹ چکی ہو اور اب وہ محض ہوا کے رحم و کرم پر ہو کہ جہاں چاہے اسے لے جائے . ازروئے تمثیل ِقرآنی: 

فَکَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآءِ فَتَخۡطَفُہُ الطَّیۡرُ اَوۡ تَہۡوِیۡ بِہِ الرِّیۡحُ فِیۡ مَکَانٍ سَحِیۡقٍ ﴿۳۱﴾ 
(الحج) 
’’تو گویا وہ گر پڑا بلندی سے ‘ پھر اُچک لیتے ہیں اسے ُ(مردار خور) پرندے یا لے جا پھینکتی ہے اسے ہوا کسی دور درا زمقام پر!‘‘ 
اور اس ؏ ’’نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم!‘‘ کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان شکو ک و شبہات کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے‘ گویا لاادریت (agnosticism) اور ارتیابیت (scepticism) کے سوا انسان کے پاس اور کچھ رہ ہی نہیں جاتا ‘جس کی منطقی انتہا یہ ہے کہ وہ خود اپنی ہستی اور وجود کے بارے میں بھی شکوک و شبہات میں مبتلا ہو جائے ‘ گویا ؏ :
’’رہا یہ وہم کہ ہم ہیں سو وہ بھی کیا معلوم!‘‘ 
(۱