یہاں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس کے صحیح جواب ہی پر ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت کے ساتھ ایمانِ بالرسالت کے صحیح منطقی ربط کے فہم و ادراک کا دار و مدار ہے‘ یعنی یہ کہ انسان سے آخرت میں حساب کس بنیاد پر لیا جائے گا ‘یابالفاظِ دیگر محاسبہ اُخروی کی اساسات کیا ہیں.

مطالعہ قرآن حکیم سے اس کا جو جواب سامنے آتا ہے اسے ایک جملے میں تو اس طرح ادا کیا جا سکتا ہے کہ 
انسان اوّلاً اور اصلاً تو مسئول ہے ان استعداداتِ فطریہ یا لطائف ِاصلیہ کی بنیاد پر جو ہر انسان میں ودیعت کیے گئے ہیں ‘جیسے سمع و بصر‘ عقل و شعور اور تفکر و اعتبار یا لطیفۂ نفس‘ لطیفۂ قلب اور لطیفۂ روح اور ثانیاً اللہ تعالیٰ نے انسان 
(۱) شاد ؔعظیم آبادی نے انسان کی اس ذہنی کیفیت کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا تھا کہ ؎

سنی حکایت ِہستی تو درمیاں سے سنی
نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم!

جسے فانی ؔبدایونی نے اپنی منطقی انتہا تک بایں طور پر پہنچایا کہ ؎
نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم

رہا یہ وہم کہ ہم ہیں سو وہ بھی کیا معلوم! 
پر ’’اتمامِ حجت‘‘ کا اہتمام کیا ہے بذریعہ اجرائے وحی و انزالِ کتب اور بعثت ِانبیاء ِ و ارسالِ رسل لیکن یہ بات ذرا تفصیل طلب ہے!