اور بالکل دوسری انتہا پر ہے لطیفہ روح جس کی نسبت ہے خود ذاتِ باری تعالیٰ کی جانب وَ نَفَخۡتُ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِیۡ (الحجر:۲۹ اور صٓ:۷۲اور جس کا تعلق ہے کلیتاً عالم امر سے قُلِ الرُّوۡحُ مِنۡ اَمۡرِ رَبِّیۡ (بنی اسراء یل:۸۵اور جس کا اصل رخ ہے؏ ’’اپنے مرکز کی طرف مائل پرواز تھا حسن!‘‘ کے مصداق عالم بالا کی جانب‘ چنانچہ اس میں محبت ِالٰہی کا ایک جذبہ اور ’لقائِ ربّ‘ کا ایک داعیہ ایک دھیمی آنچ والی آگ کے مانند تو ہر دم ہی سلگتا ہے ‘بقول علامہ اقبال مرحوم ؎

کبھی اے حقیقت ِمنتظر نظر آ لباسِ مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں!

البتہ کبھی کبھی اس میں ایک شعلے کی سی لپک بھی پیدا ہو جاتی ہے ‘جسے بعض اربابِ دانش نے شعلہ ٔملکوتی 
(Divine Spark) سے تعبیر کیا ہے.