اللہ نے اس پر بھی اکتفا نہیں فرمایا ‘بلکہ انسان میں ایک اور جوہرنایاب ودیعت فرما دیا ‘جس میں معرفت ِربانی کی شمع بھی روشن ہے اور جملہ حقائق ِکونیہ بھی منعکس ہیں. ہماری مراد ہے ’لطیفہ قلب‘ سے جو گویا جامِ جہاں نما ہے یا اس آئینے کے مانند جس میں عالم اکبر کے تمام حقائق کا انعکاس موجود ہے .گویا اگر لطیفہ نفس قوائے سمع و بصر اور تعقل و تفکر ّسے مسلح ہے جو اساس ہیں جملہ علومِ مادی و نظری کی تو لطیفہ قلب مسلح ہے ان قوائے تفہم و تفقہ سے جو وجدانی طور پر ادراک کرتے ہیں لطیف تر حقائق ِکونیہ اور معارفِ لدنیہ ّکا. بقول شاعر : ؎ 

بینی اندر دل علومِ انبیاء
بے کتاب و بے معید و اوستا!

اور ؎

صد کتاب و صد ورق در نار کن
روئے دل را جانب ِدلدار کن!

اور ؎

درکنز و ہدایہ نہ تواں یافت خدارا
در آئینہ دل بیں کہ کتابے بہ ازیں نیست!
(۱
الغرض لطیفہ قلب کے ودیعت کیے جانے کے بعد انسان کی مسئولیت پر آخری مہر ِ تصدیق ثبت ہو جاتی ہے ‘بفحوائے الفاظِ قرآنی : 

اِنَّ السَّمۡعَ وَ الۡبَصَرَ وَ الۡفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنۡہُ مَسۡـُٔوۡلًا ﴿۳۶﴾ 
(بنی اسراء یل) 
’’یقینا کان ‘آنکھ اور دل ہر ایک کے بارے میں پرسش ہو کر رہے گی.‘‘

اور وہ لوگ حیوان اور چوپائے ہی نہیں ان سے بھی ارذل و اسفل قرار پاتے ہیں جو اپنی ان 
(۱) اسے محض شاعرانہ خیال آرائی نہیں سمجھنا چاہیے‘ اس لیے کہ خود کلامِ نبوت میں ’قلب‘ کے لیے اسی قسم کے الفاظ وارد ہوئے ہیں ‘مثلاً اس مشہور حدیث میں جس کی رو سے آنحضور نے فرمایاکہ: اِنَّ ھٰذِہِ الْقُلُوْبَ تَصْدَأُ کَمَا یَصْدَأُ الْحَدِیْدُ اِذَا اَصَابَہُ الْمَائُ 
’’یہ دل بھی زنگ آلود ہو جاتے ہیں بالکل ایسے جیسے لوہے پر پانی پڑنے سے زنگ آجاتا ہے!‘‘

جس پرصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بالکل صحیح سوال کیا کہ 
:یَارَسُوْلَ اللّٰہِ؟ وَمَا جِلَائُ ھَا ’’اے اللہ کے رسول! پھر انہیں صیقل کیسے کیا جائے؟‘‘جواباً ارشاد ہوا: 
کَثْرَۃُ ذِکْرِ الْمَوْتِ وَتِلَاوَۃُ الْقُرْآنِ ( رواہ البیھقی فی شعب الایمان) 
فطری استعدادات کو بے کار رکھ چھوڑیں یا قوائے فطریہ کو شل کر لیں‘ بفحوائے آیت ِ قرآنی: 
لَہُمۡ قُلُوۡبٌ لَّا یَفۡقَہُوۡنَ بِہَا ۫ وَ لَہُمۡ اَعۡیُنٌ لَّا یُبۡصِرُوۡنَ بِہَا ۫ وَ لَہُمۡ اٰذَانٌ لَّا یَسۡمَعُوۡنَ بِہَا ؕ اُولٰٓئِکَ کَالۡاَنۡعَامِ بَلۡ ہُمۡ اَضَلُّ ؕ 
(الاعراف:۱۷۹
’’ان کے دل ہیں لیکن ان سے سمجھتے نہیں ‘اور آنکھیں ہیں لیکن ان سے دیکھتے نہیں‘ اور کان ہیں پر ان سے سنتے نہیں ‘وہ چوپایوں کے مانند ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے!‘‘