اب ہم موضوع زیر بحث کی بحث ِاوّل کے آخر ی نقطے تک پہنچ گئے ہیں جو یہ ہے کہ جس طرح انسان کے اصل داخلی داعیاتِ خیر و شر ہیں اس کے لطائف ِنفس و روح ‘ لیکن اصل حجت داخلی بنتی ہیں استعداداتِ سمع و بصرو تعقل و تفکر ّاور حس ِاخلاقی اور تفقہ قلبی جنہیں انسان کی مسئولیت کی اساساتِ اصلیہ کہا جا سکتا ہے‘ اسی طرح اصل خارجی داعیان خیرو شر تو ہیں علی الترتیب ملائکہ کرام اور ابلیس اور اس کی ذُرّیت ِصلبی و معنوی‘ لیکن اس ضمن میں اتمامِ حجت ہوتا ہے اجرائے وحی‘ تنزیل ِکتب‘ بعثت ِانبیاء اور ارسالِ رُسل سے ‘جن کی حیثیت ہے حجت خارجی کی اور جن کا مجموعی نام ہے ایمان بالرسالت! چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:

(۱
رُسُلًا مُّبَشِّرِیۡنَ وَ مُنۡذِرِیۡنَ لِئَلَّا یَکُوۡنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌۢ بَعۡدَ الرُّسُلِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا ﴿۱۶۵﴾ (النسائ) 
’’(بھیجے اللہ نے) رسول بشارت دینے والے اور خبردار کرنے والے‘ تاکہ نہ رہے لوگوں کے پاس کوئی عذر و دلیل اللہ کے (محاسبہ کے) مقابلے میں ان رسولوں کے بعد. اور اللہ تو ہے ہی زبردست اور (کمال) حکمت والا!‘‘

(۲
یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ قَدۡ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلُنَا یُبَیِّنُ لَکُمۡ عَلٰی فَتۡرَۃٍ مِّنَ الرُّسُلِ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا مَا جَآءَنَا مِنۡۢ بَشِیۡرٍ وَّ لَا نَذِیۡرٍ ۫ فَقَدۡ جَآءَکُمۡ بَشِیۡرٌ وَّ نَذِیۡرٌ ؕ وَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿٪۱۹﴾ (المائدۃ) 

’’اے اہل کتاب! تمہارے پاس آ گیا ہے ہمارا رسولؐ جو واضح کر رہا ہے تم پر (ہماری ہدایت) اس کے باوجود کہ (عارضی طور پر) منقطع ہو چکا تھا سلسلہ رسالت‘ مبادا تم کہو کہ نہیں آیا ہمارے پاس کوئی بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا‘ تو اب آ گیا ہے تمہارے پاس بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا. اور اللہ کو تو ہر چیز پر قدر ت حاصل ہے ہی!‘‘
گویا بعثت ِانبیاء اور ارسالِ رسل کی اصل غرض و غایت ہے اتمامِ حجت اور قطع عذر تاکہ انسان پر اللہ کی جانب سے آخری حجت قائم ہو جائے اور اس کے پاس اپنی غلط روی یا کج عملی کے لیے کوئی عذر اور بہانہ باقی نہ رہ جائے.
یہاں اس حقیقت کو پھر ذہن میں تازہ کر لیا جائے کہ جس طرح خیر و شر کے دوسرے خارجی داعیات کو انسان پر کوئی اختیار و اقتدار حاصل نہیں بلکہ ان کی حیثیت محض ترغیب و 
تحریص اور تحریک و تشویق کی ہے اسی طرح نبوت و رسالت کی اصل نوعیت بھی دعوت و تبلیغ کی ہے. یہی وجہ ہے کہ انبیاء و رسل کے لیے قرآن مجید میں سب سے زیادہ کثیر الاستعمال اصطلاح ّمبشرین و ُمنذرِین ہی کی ہے. جیسے وَ مَا نُرۡسِلُ الۡمُرۡسَلِیۡنَ اِلَّا مُبَشِّرِیۡنَ وَ مُنۡذِرِیۡنَ ۚ (الکہف:۵۶اور وحی و کتاب کے لیے سب سے زیادہ کثیر الاستعمال الفاظ‘ ذِکر‘ ذِکرٰی اور تذکرۃ کے ہیں. جیسے:

(۱
اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ ﴿۹﴾ (الحجر) 
’’یقینا ہم ہی نے اتارا ہے یہ ’ذکر‘ (یعنی قرآن مجید) اور ہم ہی ہیں اس کے محافظ و نگہبان!‘‘

(۲طٰہٰ ۚ﴿۱﴾مَاۤ اَنۡزَلۡنَا عَلَیۡکَ الۡقُرۡاٰنَ لِتَشۡقٰۤی ۙ﴿۲﴾اِلَّا تَذۡکِرَۃً لِّمَنۡ یَّخۡشٰی ۙ﴿۳﴾ (طٰہٰ) 
’’(اے نبی !) ہم نے تم پر یہ قرآن اس لیے تو نہیں اتارا کہ تم مشقت میں پڑ جاؤ بلکہ (اتارا اسے) صرف یاددہانی کے طور پر ان کے لیے جو ڈرتے ہوں!‘‘

(۳کَلَّاۤ اِنَّہَا تَذۡکِرَۃٌ ﴿ۚ۱۱﴾ (عبس) 
’’نہیں! یہ ایک یاد دہانی ہے.‘‘

(۴تَبۡصِرَۃً وَّ ذِکۡرٰی لِکُلِّ عَبۡدٍ مُّنِیۡبٍ ﴿۸﴾ (قٓ) 
’’سجھانے اور یاد دلانے کو‘ اُس بندے کے لیے جو رجوع کرے!‘‘

(۵اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَذِکۡرٰی لِمَنۡ کَانَ لَہٗ قَلۡبٌ اَوۡ اَلۡقَی السَّمۡعَ وَ ہُوَ شَہِیۡدٌ ﴿۳۷﴾ (قٓ) 
’’اس میں یاد دہانی ہے اس کے لیے جس کے پاس ہو دل (زندہ و بیدار) یا کان لگا کر سنے پوری توجہ کے ساتھ!‘‘

(۶فَذَکِّرۡ ۟ؕ اِنَّمَاۤ اَنۡتَ مُذَکِّرٌ ﴿ؕ۲۱﴾لَسۡتَ عَلَیۡہِمۡ بِمُصَۜیۡطِرٍ ﴿ۙ۲۲﴾ (الغاشیۃ) 

’’تو (اے نبی !) تم یاد دہانی کرائے جاؤ‘ تمہارا کام تو بس یاد دہانی کرانا ہی ہے. ان پر داروغہ توہو نہیں (کہ ضرور ہدایت پر لے آؤ!)‘‘ 
اور ان سب کا مجموعی حاصل یہ ہے کہ انسان پر ایک خارجی گواہی اور شہادت قائم ہو جاتی ہے. چنانچہ کارِ رسالت کی تعبیر کے لیے سب سے زیادہ جامع اصطلاح ’شہادت‘ کی ہے اور فریضہ رسالت کا اصل حاصل شہادت علی الناس ہی ہے ‘اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی‘ بفحوائے آیاتِ قرآنی :

(۱اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلَیۡکُمۡ رَسُوۡلًا ۬ۙ شَاہِدًا عَلَیۡکُمۡ کَمَاۤ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ رَسُوۡلًا ﴿ؕ۱۵﴾ (المزمل) 
’’ہم نے بھیج دیا ہے تمہارے پاس ایک رسول گواہ بنا کر تم پر جیسے کہ ہم نے بھیجا تھا ایک رسول فرعون کی جانب!‘‘

(۲لِیَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ شَہِیۡدًا عَلَیۡکُمۡ وَ تَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ (الحج:۷۸)
’’تاکہ ہو جائیں رسولؐ گواہ تم پر‘ اور ہو جاؤ تم گواہ پوری نوعِ انسانی پر!‘‘

(۳فَکَیۡفَ اِذَا جِئۡنَا مِنۡ کُلِّ اُمَّۃٍۭ بِشَہِیۡدٍ وَّ جِئۡنَا بِکَ عَلٰی ہٰۤؤُلَآءِ شَہِیۡدًا ﴿ؕ۴۱﴾ (النسائ) 
’’تو کیا ہو گا اس وقت جبکہ ہم بلائیں گے ہر گروہ میں سے ایک گواہ‘ اور بلائیں گے آپ کو (اے نبی !) بطورِ گواہ ان کے خلاف!‘‘

حاصل ِکلام یہ ہے کہ بعثت ِانبیاء کی غرضِ اصلی اور ارسالِ رسل کا مقصد ِعمومی ہے انسانوں پر اتمامِ حجت اور قطع ِعذر بذریعہ تبلیغ ودعوت‘ تلقین و نصیحت‘ وعظ و تذکیر اور اِنذار و تبشیر‘ جن کا مجموعی حاصل ہے ’’شہادت علی الناس!‘‘ 

چنانچہ یہی ہے نبی اکرم کی بعثت کا اوّلین مقصد. 

بفحوائے آیت ِقرآنی: 
یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ شَاہِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیۡرًا ﴿ۙ۴۵﴾وَّ دَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذۡنِہٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیۡرًا ﴿۴۶﴾ (الاحزاب) 

’’اے نبی( )! ہم ہی نے بھیجا ہے تمہیں بنا کر گواہ اور بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا اور بلانے والا اللہ کی طرف اس کے حکم سے اور روشن چراغ (ہدایت).‘‘ 


گویا معلم ّو مبلغ‘ مربی و مزکی ‘ مبشر و ُمنذ ِر اور داعی و شاہد کی جملہ حیثیتیں مشترک ہیں آنحضور اور جملہ انبیاء و رُسل f میں‘ اگرچہ ان اعتبارات سے بھی ع ’’ہرگلے ُرا رنگ و بوئے دیگر است!‘‘کے مصداق ہر نبی اور ہر رسول کا اپنا ایک منفرد رنگ بھی ہے ‘اور اس گلدستے میں بھی ایک امتیازی شان اور بلند و بالا مقام ہے سید الاوّلین والآخرین کا! تاہم بحیثیت ِخاتم النبیین ّوآخر المرسلین جن پر نبوت و رسالت کا اختتام ہی نہیں اِتمام و اِکمال بھی ہوا ہے. آپؐ کے مقصد ِبعثت کی امتیازی شان کچھ اور ہی ہے ‘جس کا بیان آگے آئے گا!