اور یہ بات نہایت اہم ہے کہ یہ الفاظ نبی اکرمﷺ کے ذکر میں قرآن مجید میں تین بار اس شان کے ساتھ وارد ہوئے ہیں کہ ان میں ایک شوشے کا بھی فرق نہیں ہے‘ جبکہ پورے قرآن مجید میں یہ الفاظ کسی دوسرے نبی یا رسول کے لیے ایک بار بھی استعمال نہیں ہوئے.
ان الفاظِ مبارکہ پر امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ علیہ نے اپنی مشہور تالیف ’’ازالۃ الخفا عن خلافۃ الخُلفائ‘‘ میں مفصل کلام کیا ہے اور انہیں نبی اکرمﷺ کے مقصد ِبعثت کی تعیین کے ضمن میں مرکزی اہمیت کا حامل قرار دیا ہے. اسی طرح مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم نے بھی ان الفاظ کو بین الاقوامی اسلامی انقلاب کا عنوان قرار دیا ہے. بہرنوع آنحضورﷺ کی بعثت کے اتمامی اور تکمیلی مقصد کے فہم کے لیے (۱) التوبۃ : ۳۳‘ الفتح: ۲۸‘ اور الصف:۹. ترجمہ: ’’وہی ہے (اللہ) جس نے بھیجا اپنے رسول (محمدﷺ ) کو الہدیٰ اور دین حق کے ساتھ تاکہ غالب کر دے اسے ُکل دین پر.‘‘ ان الفاظِ مبارکہ پر غور وتدبر ّلازمی ہے.
ان الفاظ پر توجہ مرکوز کیجیے توسب سے پہلی بات جو سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ آنحضورﷺ کو دو چیزیں دے کر بھیجا گیا:ایک ’’الہدیٰ ‘‘اور دوسرے ’’دین حق‘‘.