’’الہدیٰ‘‘ کو وسیع لغوی مفہوم پر رکھیے تب بھی بات غلط نہ ہوگی ‘لیکن نظائر ِقرآنی کی مدد سے اس کی مراد کے تعین کی کوشش کی جائے تو وہ ہے ’’قرآن حکیم‘‘. اس لیے کہ وہی ہُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَ (۱بھی ہے اور ہُدًی لِّلنَّاسِ (۲بھی. اور اسی کی شان میں یہ الفاظ بھی وارد ہوئے ہیں کہ وَ لٰکِنۡ جَعَلۡنٰہُ نُوۡرًا نَّہۡدِیۡ بِہٖ مَنۡ نَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِنَا ؕ (۳اور یہ بھی کہ اِنَّ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ یَہۡدِیۡ لِلَّتِیۡ ہِیَ اَقۡوَمُ (۴اور وہی ہے کہ جسے ِجنوں ّکے ایک گروہ نے سنا تو فوراً پکار اٹھے کہ اِنَّا سَمِعۡنَا قُرۡاٰنًا عَجَبًا ۙ﴿۱﴾یَّہۡدِیۡۤ اِلَی الرُّشۡدِ فَاٰمَنَّا بِہٖ ؕ (۵

مزید برآں سورۃ الحدید کی آیت ۲۵ میں ’’ارسالِ رسل‘‘ کے ضمن میں فرمایا : 

لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا رُسُلَنَا بِالۡبَیِّنٰتِ وَ اَنۡزَلۡنَا مَعَہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡمِیۡزَانَ 

’’ہم نے بھیجا اپنے رسولوں کو واضح تعلیمات اور روشن نشانیوں کے ساتھ اور اتاری ان کے ساتھ کتاب اور میزان.‘‘ 
(۱) البقرۃ : ۲: ’’ہدایت پرہیزگاروں کے لیے.‘‘
(۲) البقرۃ: ۱۸۵ : ’’ہدایت پوری نوعِ انسانی کے لیے.‘‘
(۳) الشوریٰ: ۵۲ : ’’لیکن بنا دیا ہم نے اسے روشنی‘ ہدایت دیتے ہیں اس کے ذریعے جسے چاہیں اپنے بندوں میں سے.‘‘
(۴) بنی اسرائیل : ۹ : ’’یقینا یہ قرآن راہ دکھاتا ہے وہ جو سب سے سیدھی ہے.‘‘
(۵) الجن : ۱.۲: ’’ہم نے سنا ایک قرآن بہت اچھا‘ جو ہدایت دیتا ہے بھلائی کی طرف‘ تو ہم ایمان لے آئے اس پر.‘‘ 
ظاہر ہے کہ اس آیہ مبارکہ میں جس طرح ’’اَلْمِیْزَان‘‘ کو ’’دِیْنِ الْحَقِّ‘‘ کے قائم مقام کی حیثیت حاصل ہے اسی طرح ’’الْکِتٰب‘‘ ٹھیک اسی مقام پر وارد ہوا ہے جہاں آیہ زیربحث میں ’’الْھُدٰی‘‘ کا لفظ آیا ہے. گویا ’’اَلْہُدٰی‘‘ سے مراد بعثت ِمحمدیؐ کے ضمن میں سوائے ’’اَلْقُرْآن‘‘کے اور کچھ نہیں. (واضح رہے کہ سورۃ الحدید ’اُمُّ الْمُسَبِّحَات‘ کا درجہ رکھتی ہے اور اس کی اِسی ایک آیت کی شرح کی حیثیت رکھتی ہے پوری سورۃ الصف جس کی مرکزی آیت وہی ہے جس میں زیر بحث الفاظِ مبارکہ وارد ہوئے ہیں.)