اسی طرح ’’دِین الْحَق‘‘ کو بھی خواہ ظاہری ترکیب اضافی پر محمول کر لیاجائے ‘گویا اس کا ترجمہ کیا جائے ’’حق کا دین‘‘ خواہ اسے ترکیب ِتوصیفی بشکل ترکیب ِاضافی مان کر ترجمہ کر لیا جائے ’’سچّا دین‘‘ (جیسا کہ اکثر مترجمین نے کیا ہے!) معنی و مراد کے اعتبار سے کوئی فرق واقع نہیں ہوتا جو بہرصورت ایک ہی ہیں‘ یعنی ’’اللّٰہ کا دین‘‘ اس لیے کہ سچا دین سوائے اللہ کے اور کس کا ہو سکتا ہے اور ذاتِ حق بھی ذاتِ باری تعالیٰ سبحانہ وتعالیٰ کے سوا اور کس کی ہے؟ بفحوائے آیاتِ قرآنی:

(۱
ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ ہُوَ الۡحَقُّ (الحج:۶۶۲
’’یہ اس لیے کہ ایک اللہ ہی تو ہے حق‘‘. (یعنی کامل حق یا سراپا حق)
(۲
وَ یَعۡلَمُوۡنَ اَنَّ اللّٰہَ ہُوَ الۡحَقُّ الۡمُبِیۡنُ ﴿۲۵﴾ (النور) 
’’اور وہ خوب جانتے ہیں کہ صرف اللہ ہی ہے کھلا حق.‘‘

گویا ’’دین الحَقّ‘‘بالکل مساوی و مترادف ہے ’’دین اللّٰہ‘‘ کے ! (اورعجیب بات ہے کہ قرآن حکیم میں تین ہی بار آیت زیر بحث کے ضمن میں ’’دین الحق‘‘ کی ترکیب استعمال ہوئی ہے 
اور پورے قرآن میں ٹھیک تین ہی مرتبہ ’’دین اللّٰہ‘‘ کے الفاظ وارد ہوئے ہیں !) (۱لفظ ’’دین‘‘ پر توجہ کو مرکوز کیجیے تو عربی لغت میں اس کا اساسی مفہوم بالکل وہی ہے جس میں یہ لفظ ’’اساس القرآن‘‘ یعنی سورۃ الفاتحہ کی تیسری آیت میں مستعمل ہواہے ‘ یعنی بدلہ (۲(جو لامحالہ نیکی کا جزا کی صورت میں ہو گا اور بدی کا سزا کی شکل میں) (۳

چنانچہ قرآن حکیم کی ابتدائی سورتوں میں یہ لفظ بغیر کسی اضافی یا توصیفی ترکیب کے اپنی سادہ ترین صورت میں بدلے اور جزا و سزا ہی کے معنی میں استعمال ہوا ہے ‘جیسے :

(۱
اَرَءَیۡتَ الَّذِیۡ یُکَذِّبُ بِالدِّیۡنِ ؕ﴿۱﴾ (الماعون) 
’’تم نے دیکھا اسے جو جھٹلاتا ہے جزا و سزا کو؟‘‘
(۲
فَمَا یُکَذِّبُکَ بَعۡدُ بِالدِّیۡنِ ؕ﴿۷﴾ (التین) 
’’تو اس کے بعد کیا چیز آمادہ کرتی ہے تجھے جزا و سزا کے جھٹلانے پر؟‘‘
(۳
کَلَّا بَلۡ تُکَذِّبُوۡنَ بِالدِّیۡنِ ۙ﴿۹﴾ (الانفطار) 
’’کوئی نہیں‘ بلکہ تم جھٹلاتے ہو جزا و سزا کو!‘‘
اور سورۃ الفاتحہ کے علاوہ مختلف مقامات پر بارہ مرتبہ آیا ہے یہ لفظ ’یوم‘ کی اضافت کے 
(۱) آل عمران:۸۳‘ النور: ۲‘ النصر: ۲.

(۲) یہاں چاہیں تو عربی کی کہاوت 
’’کَمَا تَدِیْنُ تُدَانُ‘‘ ـ (جیسا کرو گے ویسا بھرو گے) اور دیوانِ حماسہ کے مشہور مصرعہ کے الفاظ؏ ’’دِنَّاھُمْ کَمَا دَانُوْا‘‘ (ہم نے ان کے ساتھ وہی کچھ کیا جو انہوں نے ہمارے ساتھ کیا تھا) بھی ذہن میں مستحضر کر لیں اور اسے بھی کہ عربی میں ’دَین‘ کہتے ہیں قرض کو جس کا لوٹایا جانا لازم ہوتا ہے.

(۳) جیسا کہ آنحضور نے فرمایا: 
ثُمَّ لَتُجْزَوُنَّ بِالْاِحْسَانِ اِحْسَانًا وَّبِالسُّوْئِ سُوْئً ’’پھر لازماً تمہیں بدلہ دیا جائے گا بھلائی کا بھلا اور برائی کا برا!‘‘ ساتھ یومِ قیامت کے معنی میں‘ یعنی بدلے یا جزا و سزا کا دن!

پھر چونکہ بدلے اور جزا و سزا کا تصور لازماً مستلزم ہے کسی قانون اور ضابطے اور اس کی اطاعت و متابعت کے تصور کو ‘ لہٰذا لفظ ’دین‘ نے بھی جب اپنی اصل لغوی اساس سے اٹھ کر قرآنی اصطلاح کی صورت اختیار کی تو اس میں اولاً ’اطاعت‘ کا مفہوم پیدا ہوا. چنانچہ قرآن حکیم میں دو مرتبہ 
’’مُخْلِصًا لَہُ الدِّیْنَ‘‘ اور ایک بار ’’مُخْلِصًا لَـہٗ دِیْنِیْ‘‘ اور چھ مرتبہ ’’مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ‘‘ کے الفاظ اطاعت اور بندگی و فرمانبرداری کو اللہ تعالیٰ کے لیے خالص کر لینے ہی کے مفہوم میں آئے ہیں ‘جن میں مزید زور اور تاکید کے لیے کہیں کہیں اضافہ کیا جاتا ہے ’’حَنِیْفًا‘‘ یا ’’حُنَفَائَ‘‘ کے الفاظ کا.اور یہی مفہوم ہے قرآن حکیم کے ان الفاظِ مبارکہ کا : اَلَا لِلّٰہِ الدِّیۡنُ الۡخَالِصُ ؕ (الزمر:۳اور وَ لَہُ الدِّیۡنُ وَاصِبًا ؕ (النحل:۵۲اور بالآخراس نے ’نظامِ اطاعت‘ کی صورت اختیار کر لی‘ جس کی اضافت ِحقیقی تو اُس ذات کی طرف ہوتی ہے جسے مطاع مان کر نظامِ زندگی کا تفصیلی ڈھانچہ اور ضابطہ تیار کیا گیا ہو ‘جیسے سورۂ یوسف میں فرمایا: 

کَذٰلِکَ کِدۡنَا لِیُوۡسُفَ ؕ مَا کَانَ لِیَاۡخُذَ اَخَاہُ فِیۡ دِیۡنِ الۡمَلِکِ 
(یوسف:۷۶
’’اس طرح ہم نے تدبیر کر دی یوسف ؑ کے لیے ‘ورنہ بادشاہ کے قانون کی رو سے وہ مجاز نہ تھا کہ اپنے بھائی کو روک سکے.‘‘
گویا مصر کے اس دور کے رائج الوقت نظامِ ملوکیت کو جس میں مطاعِ مطلق کی حیثیت بادشاہ یا ’مَلِک‘ کو حاصل تھی قرآن حکیم ’دین المَلِک‘سے تعبیر کرتا ہے اور ٹھیک اسی مفہوم 
(sense) میں قرآن مجید نے استعمال کیے ہیں ’’دِین اللّٰہ‘‘ کے الفاظ سورۃ النصر میں: 

اِذَا جَآءَ نَصۡرُ اللّٰہِ وَ الۡفَتۡحُ ۙ﴿۱﴾وَ رَاَیۡتَ النَّاسَ یَدۡخُلُوۡنَ فِیۡ دِیۡنِ اللّٰہِ اَفۡوَاجًا ۙ﴿۲﴾ 

’’جب آ گئی اللہ کی مدداور فتح .اور دیکھ لیا تم نے لوگوں کو داخل ہوتے ہوئے اللہ کے دین میں فوج در فوج.‘‘ 
گویا آنحضور کی بیس سال سے زائد جدوجہد کے نتیجے میں جب عرب میں یہ صورت حال پیدا ہو گئی کہ اللہ ہی کو ُمطاعِ مطلق مان لیا گیا اور لوگ جوق در جوق اور گروہ در گروہ اس کے نظامِ اطاعت میں داخل ہوتے چلے گئے تو اسے قرآن مجید نے ’’دین اللّٰہ‘‘ کے الفاظ سے تعبیر کیا (اور اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ہرگزغلط نہ ہو گا اگر دور جدید کے محبوب و مقبول طرزِ حکومت یعنی جمہوریت کو ‘جس میں غلط یا صحیح بہرحال نظری طور پر (۱حاکمیت کے حامل قرار دیے جاتے ہیں جمہور‘ تعبیر کیا جائے ’دینُ الجَمہور‘ کے الفاظ سے!)

البتہ قرآن حکیم میں ’دین‘ کی ایک دوسری نسبت و اضافت بھی بکثرت وارد ہوئی ہے‘ جسے اضافت ِمجازی قرار دیا جانا چاہیے ‘جیسے 
’’دِیْنِیْ‘‘ یا ’’دِیْنُکُمْ‘‘ یا ’’دِیْنُھُمْ‘‘ . یہ اس اعتبار سے ہے کہ انسان نے جس نظامِ اطاعت کو قبول کر لیا ہو یا جس کے تحت وہ زندگی گزار رہا ہو وہ گویا ’اس کا دین‘ بن گیا. (اسی مجازی نسبت کی مثال ہے اس مشہور دعا کے الفاظ میں: اَللّٰھُمَّ انْصُرْ مَنْ نَصَرَ دِیْنَ مُحَمَّدٍ … الخ اسلام اصلاً تو ’دین اللہ‘ ہے لیکن مجازاً ’دِینُ مُحَمَّد‘ بھی ہے. اس اعتبار سے بھی کہ اس دین کے لانے والے وہی ہیں ‘ فِدَاہُ آبَائُ نَا وَاُمَّھَاتُنَا )
حاصل ِکلام یہ کہ’ ’دین الحق‘‘سے مراد ہے ’ ’دین اللّٰہ‘‘ یعنی وہ نظام زندگی جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت ِکلی ومطلقہ کی بنیاد پر قائم ہو‘ اور یہ دراصل خاتم النبییّن و آخر المرسلین
 (۱) بقول علامہ اقبال مرحوم ؎

دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب

تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری! 
کو عطا شدہ اتمامی و تکمیلی صورت ہے اس ’’اَلْمِیْزَان‘‘ کی جو تاریخ ِانسانی کے مختلف ارتقائی مراحل پر قدرے مختلف صورتوں میں عطا ہوتی رہی تھی سابق رسولوں کو ’ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْھِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ! اور اس اعتبار سے اس کی حیثیت ہے اس ’نظام عدلِ اجتماعی‘ کی جس میں ہر ایک کے حقوق و فرائض کا صحیح صحیح تعین کر دیا گیاہے. ’’تاکہ لوگ قائم رہیں اس نظامِ قسط پر.‘‘ (۱