اس سوال کے جواب کے لیے جب ہم قرآن حکیم کی جانب رجوع کرتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضور کے مقصد ِبعثت کے انقلابی پہلو کی وضاحت کے لیے اگر تین بار ان الفاظ ِمبارکہ کو دہرایا کہ : 

ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ۙ 
(التوبۃ : ۳۳‘ الفتح‘ ۲۸ اور الصف:۹

’’ وہی ہے (اللہ) جس نے بھیجا اپنے رسول( ) کو ’الہدیٰ‘اور ’دین حق‘ کے ساتھ تاکہ غالب کر دے اس کو پورے کے پورے دین پر!‘‘

تو انقلابِ نبویؐ کے اساسی منہاج کی وضاحت کے لیے بھی چار اہم اور بنیادی اصطلاحات کو پورے چار بار دہرایا یعنی :

۱. تلاوتِ آیات‘ ۲. تزکیہ ٔنفوس‘ ۳. تعلیم ِکتاب‘ اور ۴. تعلیم ِحکمت!

(۱) چنانچہ سب سے پہلے سورۃ البقرۃ کے پندرھویں رکوع کے آخر میں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی دعا میں یہ الفاظ وارد ہوئے: 

رَبَّنَا وَ اجۡعَلۡنَا مُسۡلِمَیۡنِ لَکَ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِنَاۤ اُمَّۃً مُّسۡلِمَۃً لَّکَ ۪ وَ اَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَ تُبۡ عَلَیۡنَا ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ التَّوَّابُ الرَّحِیۡمُ ﴿۱۲۸﴾رَبَّنَا وَ ابۡعَثۡ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِکَ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۱۲۹﴾٪ 
(البقرۃ) ’’اے ربّ ہمارے! ہم دونوں کو بھی اپنا فرمانبردا ربنائے رکھ اور ہماری نسل میں سے بھی ایک ایسی اُمت برپا کیجیو جو تیری فرمانبردار ہو ‘اور ہمیں تعلیم فرما ہماری عبادت کے طور طریقے‘ اور قبول فرما ہماری توبہ ‘یقینا تو توبہ قبول کرنے اور رحم فرمانے والا ہے. اور اے ربّ ہمارے !تو مبعوث فرمائیو ان میں‘ ان ہی میں سے ایک رسول جو ان کو سنائے تیری آیات‘ اور انہیں تعلیم دے کتاب اور حکمت کی اور تزکیہ کرے ان کا. بے شک تو ہی ہے سب پر غالب اور کامل حکمت والا.‘‘

(۲) پھر تین ہی رکوعوں کے بعد‘ اٹھارہویں رکوع کے آخر میں یہ واضح کرتے ہوئے کہ آنحضور کی بعثت دراصل اسی دعائے ابراہیم واسماعیل 
عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ کا ظہور ہے‘ ان ہی اصطلاحاتِ اربعہ کو دہرایا گیا: 

کَمَاۤ اَرۡسَلۡنَا فِیۡکُمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡکُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡکُمۡ اٰیٰتِنَا وَ یُزَکِّیۡکُمۡ وَ یُعَلِّمُکُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ یُعَلِّمُکُمۡ مَّا لَمۡ تَکُوۡنُوۡا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۵۱﴾ؕۛ 
(البقرۃ) 

’’چنانچہ بھیج دیا ہم نے تم میں ایک رسول تم ہی میں سے جو سناتا ہے تمہیں ہماری آیات اور تزکیہ کرتا ہے تمہارا اور تعلیم دیتا ہے تمہیں کتاب اور حکمت کی اور تعلیم دیتا ہے تمہیں ان چیزوں کی جنہیں تم نہیں جانتے تھے.‘‘

(۳) اگلی سورت یعنی سورۂ آل عمران میں یہ مضمون مزید شان اور آن بان کے ساتھ وارد ہوتا ہے : 

لَقَدۡ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اِذۡ بَعَثَ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡ اَنۡفُسِہِمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ۚ وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ﴿۱۶۴﴾ 

’’اللہ نے احسانِ عظیم فرمایا ہے اہل ایمان پر کہ اٹھایا ان میں ایک رسول ان ہی میں سے جو سناتا ہے انہیںاس کی آیات اور تزکیہ کرتا ہے ان کا اور تعلیم دیتا ہے انہیں کتاب اور حکمت کی .اور یقینا وہ تھے اس سے قبل کھلی گمراہی میں.‘‘ 

(۴) آخری بار یہ مضمون اٹھائیسویں پارے میں سورۃ الجمعہ میں آتا ہے: 
ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ٭ وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ۙ﴿۲﴾ 

’’وہی ہے (اللہ) جس نے اٹھایا اُمیوں میں ایک رسول ان ہی میں سے جو سناتا ہے انہیں اس کی آیات اور تزکیہ کرتا ہے ان کا اور تعلیم دیتا ہے ان کو کتاب اور حکمت کی. اور یقینا وہ تھے اس سے قبل کھلی گمراہی میں!‘‘

اور یہاں اس کی اہمیت اس اعتبار سے بہت بڑھ جاتی ہے کہ سورۃ الجمعہ سے متصلاً قبل ہے سورۃ الصف جس کی مرکزی آیت وہی ہے جس میں آنحضور کے مقصد ِبعثت کے انقلابی پہلو کو واضح کیاگیا ہے ‘یعنی : 

ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ۙ 

گویا آنحضور کا مقصد ِبعثت ہے : ’اظہارِ دین ِحق علی الدین کلہ اور اُس کے لیے آپ کا طریق ِکار اور منہج عمل ہے : تلاوتِ آیات‘ تزکیہ اور تعلیم ِکتاب و حکمت!