مرکز و محور: قرآنِ حکیم

اب ذرا ان چار اصطلاحات پر توجہ مرکوز فرمایئے جن میں نبی اکرم کے اساسی منہج عمل کا بیان ہوا ہے ‘تو سب سے نمایاں حقیقت جو سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ ان سب کا مرکز و محور قرآن حکیم ہے! اس لیے کہ ان میں سے پہلی اور تیسری یعنی تلاوتِ آیات اور تعلیم کتاب تو بالبداہت قرآن مجید ہی سے متعلق ہیں. غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دوسری اور چوتھی کا مدار بھی قرآن ہی پر ہے ‘اس لیے کہ بفحوائے الفاظِ قرآنی: 

قَدۡ جَآءَتۡکُمۡ مَّوۡعِظَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوۡرِ ۬ 
(یونس:۵۷(لوگو! آگئی ہے تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے موعظت و نصیحت بھی اور جملہ امراض قلبی کی شفا بھی) تزکیہ نفوس‘ تصفیہ قلوب اور تجلیہ باطن درحقیقت ثمرہ ہے تلاوتِ آیات کا اور بفحوائے آیت قرآنی : 

ذٰلِکَ مِمَّاۤ اَوۡحٰۤی اِلَیۡکَ رَبُّکَ مِنَ الۡحِکۡمَۃِ ؕ 
(بنی اسراء یل:۳۹(یہ ہے (۱) الزمر:۶۷ (۲) محمد : ۲۴ (۳) البقرۃ: ۱۰۱ وہ حکمت جو تیرے رب نے تجھ پر وحی فرمائی) حکمت بھی جزوِ لاینفک ہے قرآن حکیم کا! 

گویا انقلابِ نبویؐ کا اساسی منہج عمل پورے کا پورا گھومتا ہے قرآن مجید کے گرد ‘ یا سادہ الفاظ میں یوں کہہ لیا جائے کہ آنحضور کا آلہ ٔانقلاب ہے قرآن حکیم! 

یہ ہے وہ حقیقت جسے نہایت سادہ اور سلیس الفاظ میں تو بیان کیا مولانا حالی نے کہ :

اُتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور اِک نسخہ ٔکیمیا ساتھ لایا!

اور حد درجہ ُپرشکوہ الفاظ میں بیان فرمایا علامہ اقبال نے کہ : ؎ 


گر تو می خواہی مسلماں زیستن نیست ممکن جز بقرآں زیستن
آں کتابِ زندہ قرآن حکیم حکمت ِاُو لا یزال است و قدیم
فاش گویم آنچہ در دل مضمر است ایں کتابے نیست چیزے دیگر است
مثل حق پنہاں و ہم پیدا ست او زندہ و پائندہ و گویا ست اُو
چوں بجاں در رفت جاں دیگر شود جاں چوں دیگر شد جہاں دیگر شود

گویاآنحضور کی تعلیم و تربیت کا ثمرہ یہ تھا کہ قرآن حکیم : ’’چوں بجاں در رفت!‘‘ کے مصداق صحابہ کرامj کے باطن میں سرایت کر گیا اور ان کے اذہان و قلوب اس کے نور سے منور ہوگئے. نتیجتاً ان کی زندگیوں میں ایک انقلابِ عظیم برپاہو گیا. ان کی سوچ بدل گئی‘ان کا فکر بدل گیا‘ ان کے عقائد بدل گئے‘ ان کی اقدار بدل گئیں‘ ان کے عزائم بدل گئے‘ ان کے مقاصد بدل گئے‘ ان کی آرزوئیں بدل گئیں‘ ان کی تمنائیں بدل گئیں‘ ان کے دن بدل گئے‘ ان کی راتیں بدل گئیں‘ ان کی صُبحیں بدل گئیں‘ ان کی شامیں بدل گئیں‘ ان کی زمین بدل گئی‘ ان کا آسمان بدل گیا‘ یہاں تک کہ اگر پہلے زندگی عزیز تھی تو اب موت عزیز تر ہو گئی! اور یہ ساری تبدیلی ثمرہ تھی ایک کتاب اور اس کے علم و حکمت کا اور اس کے معلم اور اس کی تعلیم و تربیت کا 
فصلی اللّٰہ علیہ وسلم! اسی لیے فرمایا آنحضور نے کہ : اِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا (۱(میں تو صرف معلم ّبنا کر بھیجا گیا ہوں!). واضح رہنا چاہیے کہ آنحضورؐ کا اصل ایجابی اور مثبت عمل صرف اور صرف تلاوتِ آیات و تزکیہ اور تعلیم کتاب و حکمت تھا. تصادم اور کشمکش کی وہ ساری صورتیں جن کا ذکر پہلے ہو چکا ہے اصلاً مظہر ہیں اس ردعمل کا جو ایک غلط نظامِ فکر و عمل کی جانب سے دعوتِ حق کے جواب میں پیش آنا لازمی ہے. تاہم اصل عمل اور ردعمل کے تدارک کے لیے اختیار کی جانے والی تدابیر کے مابین فرق و امتیاز نہ کرنا بڑی ناسمجھی ہے!

کتابِ الٰہی اور اس کے معلم کی ذاتِ اَقدس کی عظمت تو ظاہر ہے کہ بیان تو کجا تخیل و ادراک کی گرفت میں بھی نہیں آسکتی. موجودہ دور میں تو ایک عام انسان کی تصنیف 
(۲کا یہ اعجاز نگاہوں کے سامنے ہے کہ روئے زمین کے ایک بہت بڑے حصے پر جو نظام قائم ہے وہ سب اس کے ظہور و بروز کے سوا اور کچھ نہیں. غالباً اسی لیے کہا تھا علامہ اقبال مرحوم نے مارکس کے بارے میں کہ ؏ : ’’نیست پیغمبر ولیکن دربغل دارد کتاب!‘‘