اس اجمال کی تفصیل قرآن حکیم کے طول و عرض میں تانے بانے کے مانند ُبنی ہوئی ہے. چنانچہ کارِنبوت و رسالت کی تکمیل اور فرائض ِدعوت و تبلیغ کے جتنے پہلو قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں ان سب کا مبنیٰ و مدار اور مرکز و محور خود قرآن ہی کو قرار دیا گیا ہے. اس ضمن میں طوالت کے خوف کے باوجود چند اشارات ضروری ہیں:

(۱) قرآن حکیم کی رو سے انبیاء و رسل علیہم السلام کے فرائض میں سب سے زیادہ اساسی فریضہ اِنذار وتبشیر کاہے.چنانچہ سورۃ النساء میں بہت سے انبیاء و رسل کا ذکر کرکے فرمایا گیا: 

رُسُلًا مُّبَشِّرِیۡنَ وَ مُنۡذِرِیۡنَ لِئَلَّا یَکُوۡنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌۢ بَعۡدَ الرُّسُلِ ؕ 
(آیت ۱۶۵(۱) سنن ابن ماجہ‘ المقدمۃ‘ باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم. (۲) داس کیپیٹل ’’(یہ حضرات) رسول بنا کر بھیجے گئے بشارت دینے والے اور خبردار کرنے والے ‘ تاکہ ان (کی بعثت) کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے سامنے کوئی دلیل (عذر) نہ رہ سکے!‘‘
سورۃ الکہف میں بطور کلیہ ارشاد فرمایا: 

وَ مَا نُرۡسِلُ الۡمُرۡسَلِیۡنَ اِلَّا مُبَشِّرِیۡنَ وَ مُنۡذِرِیۡنَ ۚ 
(آیت ۵۶
’’اور ہم نہیں بھیجتے رسولوں کو مگر صرف مبشر اور نذیر بنا کر!‘‘

اور سورۂ بنی اسرائیل میں تعین کے ساتھ آنحضور کو خطاب کر کے فرمایا: 

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّ نَذِیۡرًا ﴿۱۰۵﴾ۘ 

’’اور نہیں بھیجا (اے نبی !) ہم نے آپ کو مگر صرف مبشر اور نذیر بنا کر!‘‘

اب دیکھئے کہ ازروئے قرآن اس انذار و تبشیر کا مبنیٰ و مدار خود قرآن حکیم ہی ہے. سورۂ بنی اسرائیل میں فرمایا: 

اِنَّ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ یَہۡدِیۡ لِلَّتِیۡ ہِیَ اَقۡوَمُ وَ یُبَشِّرُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ الَّذِیۡنَ یَعۡمَلُوۡنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَہُمۡ اَجۡرًا کَبِیۡرًا ۙ﴿۹﴾وَّ اَنَّ الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَۃِ اَعۡتَدۡنَا لَہُمۡ عَذَابًا اَلِیۡمًا ﴿٪۱۰﴾ 

’’بے شک یہ قرآن اس راستے کی راہنمائی کرتا ہے جو بالکل سیدھا ہے‘ اور ان ایمان والوں کو جو نیک عمل کرتے ہیں اس بات کی بشارت دیتا ہے کہ ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے. اور جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہم نے ان کے لیے ایک دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے!‘‘

سورۃالکہف کا آغاز ان مبارک الفاظ سے ہوا: 

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ عَلٰی عَبۡدِہِ الۡکِتٰبَ وَ لَمۡ یَجۡعَلۡ لَّہٗ عِوَجًا ؕ﴿ٜ۱﴾قَیِّمًا لِّیُنۡذِرَ بَاۡسًا شَدِیۡدًا مِّنۡ لَّدُنۡہُ وَ یُبَشِّرَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ الَّذِیۡنَ یَعۡمَلُوۡنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَہُمۡ اَجۡرًا حَسَنًا ۙ﴿۲﴾ 

’’شکر کا سزاوار ہے وہ اللہ جس نے اپنے بندے پر کتاب اتاری اور اس میں اُس نے کوئی کج پیچ نہیں رکھا. بالکل ہموار اور استوار‘ تاکہ وہ اپنی جانب سے جھٹلانے والوں کو ایک سخت عذاب سے آگاہ کر دے اور ایمان لانے والوں کو جو نیک اعمال کر رہے ہیں ‘ اس بات کی خوشخبری سنا دے کہ ان کے لیے بہت اچھا اجر ہے!‘‘

اور سورۂ مریم کے اختتام پر فرمایا: 

فَاِنَّمَا یَسَّرۡنٰہُ بِلِسَانِکَ لِتُبَشِّرَ بِہِ الۡمُتَّقِیۡنَ وَ تُنۡذِرَ بِہٖ قَوۡمًا لُّدًّا ﴿۹۷﴾ 

’’پس ہم نے اس کتاب کو تمہاری زبان میں اس لیے سہل و سازگار بنایا کہ تم اس کے ذریعے خدا ترسوں کو بشارت پہنچا دو اور جھگڑالو قوم کو آگاہی سنا دو.‘‘

سورۃ الانعام میں فرمایا: 

وَ اُوۡحِیَ اِلَیَّ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنُ لِاُنۡذِرَکُمۡ بِہٖ وَ مَنۡۢ بَلَغَ 
(آیت ۱۹
’’اور میری طرف یہ قرآن وحی کیا گیا ہے کہ میں اس کے ذریعے سے تمہیں بھی خبردار کردوں اور ان کو بھی جن تک یہ پہنچ جائے .‘‘
(۲) فرائض نبوت کے ضمن میں قرآن حکیم کی دوسری اہم اصطلاح 
’تذکیر‘ ہے. اس ضمن میں اس سے قطع نظر کہ قرآن خود اپنے آپ کو جابجا الذّکر‘ ذِکْرٰی اور تَذْکِرَۃ قرار دیتا ہے‘ سورۂ قٓ کے آخر میں یہ صریح حکم بھی دے دیا گیا : 

فَذَکِّرۡ بِالۡقُرۡاٰنِ مَنۡ یَّخَافُ وَعِیۡدِ ﴿٪۴۵﴾ 
یعنی تذکیر کرو بذریعہ قرآن حکیم…
(۳) اسی طرح فرائض رسالت کے ذیل میں قرآن حکیم کی ایک اہم اصطلاح ’تبلیغ‘ ہے. چنانچہ اس کے ضمن میں بھی اللہ تعالیٰ نے تو اپنے نبی سے مخاطب ہو کر فرمایا: 
بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ (المائدۃ:۶۷’’پہنچا دو جو کچھ نازل کیا گیا تم پر تمہارے رب کی جانب سے‘‘. اور آنحضور نے اُمت کو حکم دیا : بَلِّغُوْا عَنِّیْ وَلَوْ آیَۃً (۱’’پہنچا دو میری جانب سے خواہ قرآن کی ایک ہی آیت ہو!‘‘گویا تبلیغ کا اصل موضوع قرآن مجید اور اس کی آیاتِ بینات کے سوا اور کچھ نہیں!!
(۴) غالباً اس سلسلے کی سب سے جامع اصطلاح ’دعوت‘ ہے جس کے ضمن میں سورۃ النحل میں یہ جامع و مانع ہدایت دی گئی : 


اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ وَ الۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ وَ جَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ؕ 
(آیت ۱۲۵
’’بلائو اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت کے ساتھ اور موعظہ ٔحسنہ سے اور بحث وجدال کرو اس طور سے جو نہایت عمدہ ہو.‘‘

اب غور فرمایئے کہ جیسے پہلے بیان کیا جا چکا ہے حکمت بھی قرآن حکیم ہی کا ایک جزوِ لاینفک ہے اور موعظہ حسنہ کا مصداقِ کامل بھی خود قرآن مجید ہی ہے ‘اور خواہ ملحدین ہوں یا مشرکین‘ یہود ہوں یا نصاریٰ‘ منکرین قیامت ہوں یا مکذبین ِرسالت‘ کافرہوں یا منافق ان سب کے ساتھ مفصل مباحثہ و مجادلہ بھی قرآن میں موجود ہے. گویا دعوت الی اللہ یا دعوت الیٰ سبیل رب کا اصل مبنیٰ و مدار خود قرآن حکیم ہے.

الغرض یہ تفصیل و تشریح ہوئی ’تلاوتِ آیات‘ کی کہ انذار ہو یا تبشیر‘ تبلیغ ہو یا تذکیر اور مباحثہ ہو یا مجادلہ ‘ دعوتِ نبویؐ کا مرکز و محور ہیں آیاتِ قرآنی.