اب آیئے عمل ِتزکیہ کی جانب ‘جس کے ضمن میں افسوس ہے کہ قرآن کی ناقدری کا معاملہ اُمت ِمسلمہ نے آخری حدوں تک پہنچا دیا. ظاہر ہے کہ انسانی شخصیت مجموعہ ہے فکر و عمل کا اور یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں ‘بایں معنی ٰکہ ’’گندم از گندم بروید‘ جو ز جو!‘‘ کے (۱) صحیح البخاری‘ کتاب احادیث الانبیائ‘ باب ما ذکر عن بنی اسرائیل. راوی: عبداللّٰہ بن عمرو رضی اللّٰہ عنہما. مصداق غلط فکر‘ غلط عمل ہی کو جنم دے سکتا ہے اور صحیح عمل کے لیے تصحیح فکر لازمی ولابدی ُ ہے. گویا اگر کسی انسان کے فکر کی تطہیر ہوجائے اور فاسد خیالات اور غلط افکار و نظریات کو بیخ و ُبن سے اکھاڑ دیا جائے تو غیر صالح اعمال اور ناقص عادات و اطوار آپ سے آپ پت جھڑ کے پتوں کی طرح جھڑتے چلے جائیں گے‘ اور اگر صحیح فکر کی جڑیں ذہن انسانی میں راسخ ہو جائیں تو اَعمالِ صالحہ اور اَخلاقِ حسنہ کے برگ و بار بلاتکلف از خود نمایاں ہوجائیں گے. اسی عمل (phenomenon) کو قرآن حکیم وَ یُکَفِّرَ عَنۡہُمۡ سَیِّاٰتِہِمۡ ؕ (۱بھی قرار دیتا ہے اور یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِہِمۡ حَسَنٰتٍ ؕ (۲بھی. اور یہی قرآن حکیم کا اصل فلسفہ تزکیہ ہے ‘یعنی یہ کہ تزکیہ ٔنفس کے لیے اضافی اور مصنوعی تدابیر نہ ضروری ہیں نہ مفید مطلب‘ بلکہ تزکیہ عمل لازمی نتیجہ ہے تطہیر فکر کا اوروہ فطری ثمرہ ہے تلاوت آیات کا. یہی وجہ ہے کہ حضراتِ ابراہیم و اسماعیل (علیٰ نبینا وعلیہما الصلوٰۃ والسلام) نے تو اصطلاحاتِ اربعہ میں تزکیہ کا ذکر آخر میں کیا تھا ‘لیکن قرآن مجید میں بقیہ تینوں مقامات پر اس کا ذکر تلاوت ِآیات کے فوراً ومعاً بعد ہوا ہے!

تزکیہ ٔنفس کے ضمن میں ایک دوسری حقیقت بلاشبہ یہ بھی ہے کہ انسانی شخصیت میں فکر اور عمل کے مابین ایک اور عنصر جذبات کا بھی ہے‘ اور ویسے تو ان کی اہمیت ہر انسان کی زندگی میں مسلم ہے‘ لیکن خصوصاً وہ لوگ جن کا شعور پختہ نہیں ہوتا یا جوعقلاً بالغ نہیں ہوتے اُن کی زندگیوں میں تو فیصلہ کن اہمیت ان ہی کو حاصل ہو جاتی ہے. یہی سبب ہے اس کا کہ قرآن دعوت کی اساس صرف حکمت ہی پر نہیں رکھتا موعظت پر بھی رکھتا ہے اور اپنے آپ کو 
’’ موعظہ حسنہ‘‘ بھی قرار دیتا ہے اور ’’شِفَائٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ‘‘ بھی اس پس منظر (۱) الفتح : ۵ : ’’اور تاکہ دور کر دے ان سے ان کی برائیاں!‘‘

(۲) الفرقان : ۷۰ : ’’تبدیل کر دے گا اللہ ان کی برائیوں کو نیکیوں سے!‘‘ 
میں دیکھئے کہ کس قدر افسوسناک ہے وہ صورت حال جس کا نقشہ علامہ اقبال نے ان اشعار میں کھینچا ہے کہ : ؎

صوفی ٔپشمینہ پوشِ حال مست از شرابِ نغمہ قوال مست!
آتش از شعر عراقی در دلش در نمی سازد بقرآں محفلش!
(۱
حالانکہ اگر جذبات کی جلا اور سوز و گداز وکیف و سرور کی کیفیات مطلوب ہوں تو ان کا بھی سب سے بڑا منبع وسرچشمہ خود قرآن مجید ہی ہے. مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ علیہ نے اپنے حواشی ترجمہ ٔقرآن میں اپنے والد مرحوم کے یہ حد درجہ سادہ مگر ُپرتاثیر اشعار نقل کیے ہیں: ؎

سنتے سنتے نغمہ ہائے محفل ِبدعات کو
کان بہرے ہوگئے دل بے مزہ ہونے کو ہے!
آؤ سنوائیں تمہیں وہ نغمہ ٔمشروع بھی
پارہ جس کے لحن سے طورِ ُہدیٰ ہونے کو ہے
حیف گر تاثیر اس کی تیرے دل پر کچھ نہ ہو
کوہ جس سے خاشعاً متصدّعا ہونے کو ہے!

اس ضمن میں ذرا غور فرمایئے اور داد دیجیے اس پر کہ نفس ّامارہ کی طوفاں خیزیوں‘ اورابلیس لعین کی وسوسہ اندازیوں سے بچنے کے لیے کس قدر صحیح مشورہ دیا ہے علامہ اقبال مرحوم نے کہ : ؎

کشتن ِابلیس کارے مشکل است زانکہ او گم اندر اعماقِ دل است
خوشتر آں باشد مسلمانش کنی کشتہ شمشیر ِقرآنش کنی