انقلابِ نبویؐ کے اساسی منہاج کا نقطہ عروج (climax) ہے ’تعلیم حکمت‘ حکمت اصلاً عبارت ہے انسانی عقل اور شعور کی پختگی کی اس سطح سے جہاں پہنچ کر احکامِ شریعت کے اَسرار و رموز واضح ہو جاتے ہیں اور ان کی حکیمانہ غرض و غایت منکشف ہوجاتی ہے. گویا اَحکام بے جان اور زبردستی کے ساتھ ٹھونسے ہوئے اوامر و نواہی نہیں رہتے بلکہ فکر و عمل کے ایک حد درجہ حکیمانہ نظام کے ایسے باہم دگر منظم و مربوط اجزاء کی صورت اختیار کر لیتے ہیں جن میں نہایت حسین توازن و توافق موجود ہو. یاد ہو گا‘ یہی اصل موضوع ہے فاتح دورِ حاضر امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ علیہ کی شہرۂ آفاق تالیف ’’حُجَّۃُ اللّٰہِ الْبَالِغَۃ‘‘ کا ‘اور یہی ہے وہ جنس کمیاب جسے قرآن حکیم ’خیر کثیر‘قرار دیتا ہے ‘بفحوائے آیت قرآنی : یُّؤۡتِی الۡحِکۡمَۃَ مَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَ مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃَ فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا ؕ (البقرۃ:۲۶۹) (اور یہ بات بھی محض اتفاقی نہیں کہ ’خیر ِکثیر‘ بھی نام ہے حضرت شاہ صاحبؒ کی ایک حد درجہ ُپراز حکمت تصنیف کا!) گویا حکمت کی تحصیل ہر انسان کے بس کا روگ نہیں‘ بلکہ یہ تعلیم و تربیت ِنبویؐ کا وہ ’درجہ تخصص‘ ّہے جس سے فیض یاب صرف وہی ہو سکتے ہیں جن کے نفوس میں علم کی ایک پیاس فطری طور پر موجود ہوتی ہے. چنانچہ ان کے لیے ظواہر پر اکتفا ناممکن ہو جاتا ہے اور وہ حقائق ِباطنی کی تحقیق و تفتیش پر اسی طرح مجبور و مضطر ہوجاتے ہیں جس طرح بھوکا تحصیل ِغذا پر اور پیاسا تلاشِ آب پر وَقَلِیْلٌ مَّا ھُمْ! اور ظاہر ہے کہ ایسے لوگ کم ہی ہوتے ہیں!
اس ضمن میں بھی اس خیال سے کہ حکمت سے لازماً قرآن کے علاوہ کوئی اور چیز مراد ہے قرآن حکیم کے ساتھ ایک نادانستہ اور غیر شعوری سوءِ ظن کا امکان پیدا ہوتا ہے. اس لیے کہ حکمت تو قرآن کے رگ و پے میں سرایت کیے ہوئے ہے ‘ اس لیے بھی کہ اس کی ایک مستقل صفت ہی ’’حکیم‘‘ ہے. اور اس لیے بھی کہ اس کی شان یہ ہے کہ کِتٰبٌ اُحۡکِمَتۡ اٰیٰتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتۡ مِنۡ لَّدُنۡ حَکِیۡمٍ خَبِیۡرٍ ۙ﴿۱﴾ (ھود). مزید برآں جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے‘ قرآن میں صراحتاً بھی مذکور ہے کہ : ذٰلِکَ مِمَّا اَوْحٰٓی اِلَیْکَ رَبُّکَ مِنَ الْحِکْمَۃِ اور اس سلسلے میں بھی حظ اٹھایئے اور وجد میں آیئے علامہ اقبال کے ان اشعار پر ؎
اے کہ می نازی بہ قرآنِ حکیم!
تا ُکجا در حجرہ ہا باشی مقیم
در جہاں اَسرارِ دیں را فاش ُکن
نکتہ ٔشرعِ مبیں را فاش ُکن!
افسوس ہے کہ ہمارے اربابِ علم و فضل نے بہت کم توجہ دی قرآن حکیم کی ان اصطلاحات ِاربعہ پر جو قرآن مجید میں ایک نہ دوپورے چار مرتبہ دہرائی گئیں‘ حالانکہ بلاسبب تکرار بظاہر کلام کا عیب شمار ہوتا ہے اور نہ قرآن عظیم کے ُمنزل ِو مرسل تبارک و تعالیٰ کے پاس ذخیرئہ الفاظ کی کمی تھی‘ نہ عربی زبان کا دامن ہی اتنا تنگ تھا کہ ہر بار مختلف الفاظ نہ لائے جا سکتے. اس اعادہ و تکرار کا سبب ظاہر ہے کہ اس کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتا کہ اگرچہ ویسے تو قرآن مجید کا ہر ہر لفظ غالبؔ کے اس شعر کا مصداقِ کامل و اَتم ہے کہ : ؏
گنجینہ معنی کا طلسم اس کو سمجھیو
جو لفظ کہ غالبؔ مرے اشعار میں آوے!
لیکن ان اصطلاحاتِ اربعہ کی حیثیت تو بالخصوص ایسی ہے کہ ان پر توجہات کو بالکل ؏ ’’زیر ہر ہر لفظ غالب چیدہ اَم میخانۂ!‘‘کے مصداق مرتکز کر دیا جائے. الغرض! انقلابِ نبویؐ کے تکمیلی مراحل تو وہی ہیں جو ہر انقلاب میں پائے جانے لازمی ہیں‘یعنی دعوت و تنظیم‘ تصادم و کشمکش‘ ہجرت و انقطاع اور جہاد و قتال. لیکن اس کا اساسی منہاج مشتمل ہے تلاوتِ آیات‘ تزکیہ اور تعلیم ِکتاب و حکمت پر‘ جس کا مرکز و محور ہے قرآن حکیم!