فکر ِاسلامی کی تجدید اور علامہ اقبال

علامہ اقبال نے یورپ کی علمی اور سائنسی ترقی کو روحِ قرآن کا ظہور اور بروز‘ اور عوام کے سیاسی اور معاشی حقوق کے تصور کو نورِ محمدی ( ) سے ماخوذ اور مستعار قرار دینے‘ اور اسلام کے علم ِکلام کو افلاطونی تصورات کی دلدل اور ارسطو کی منطق کی بھول بھلیوں سے نکال کر جدید تجرباتی علوم کی اساس پر استوار کرنے کے ساتھ ساتھ ایک جانب مغرب کے دو جدید عمرانی نظریات اور بنیادی سیاسی تصورات پر کڑی تنقید کرتے ہوئے مغربی تہذیب کو پوری خود اعتمادی اور جرأتِ رندانہ کے ساتھ چیلنج کیا‘ اور دوسری جانب نہ صرف یہ کہ اسلام کے اصل انقلابی فکر کی پوری ’’مجددانہ‘‘ شان کے ساتھ از سر نو تدوین کا فریضہ سر انجام دیا اور اللہ اور رسول کے عطا کردہ نظامِ عدلِ اجتماعی کو عہد ِ حاضر کی اعلیٰ ترین فکری سطح پر اور حقوق انسانی کے بلند ترین تصورات کے ساتھ ہم آہنگ کر کے پیش کیا‘ بلکہ انقلاب کا زور دار نعرہ لگاتے ہوئے اس کے منہج اور منہاج کو بھی کمال اختصار لیکن حد درجہ جامعیت کے ساتھ پیش کر دیا. 

مغرب کے جن دو جدید عمرانی نظریات پر علامہ نے شدید تنقید کی وہ سیکولرازم اور نیشنلزم یعنی وطنی قومیت ہیں. ان کے ضمن میں علامہ کے خیالات اتنے واضح و بین ّاور معروف و مشہور ہیں کہ یہاں ان کی جانب صرف ایک اجمالی اشارہ کافی ہے. چنانچہ سیکولرازم علامہ کے نزدیک اس دور کا سب سے بڑا فتنہ اور دین اور سیاست کی علیحدگی فساد کی اصل جڑ ہے. مزید برآں انسانی حاکمیت کا تصور علامہ کے نزدیک کفر اور شرک ہے‘ قطع نظر اس سے کہ وہ شخصی اور انفرادی ہو یا قومی اور عوامی. اس موضوع پر علامہ کے مشہور اور عام فہم اشعار میں سے تو یہ دو شعر سب سے زیادہ نمایاں ہیں: ؎

جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
ُجدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی!

اور ؎

ہوئی دین و دولت میں جس دم جدائی
ہوس کی امیری‘ ہوس کی وزیری!

لیکن زیادہ لطیف انداز اور گہرے پیرائے میں یہ بات علامہ کی حیاتِ مستعار کے بالکل آخری دور کی نظم ’’ابلیس کی مجلس ِشوریٰ‘‘ کے اس شعر میں بیان ہوئی ہے کہ ؎

ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر!

گویا علامہ کے نزدیک یورپ میں ’’احیاء العلوم‘‘ اور ’’اصلاحِ مذہب‘‘ کی تحریکوں کے زیر اثر آدم میں جو ’’خود شناسی‘‘ اور ’’خود نگری‘‘ کا شعور پیدا ہوا‘ وہ اصلاً تو درست تھا لیکن اسے ابلیس اور اس کے کارندوں نے ’’عوامی حاکمیت‘‘ کی صورت دے کر شیطنت کا سب سے بڑا مظہر اور ابلیس کا آلہ کار بنا دیا ہے. چنانچہ جو گندگی منوں اور ٹنوں کے حساب سے ماضی میں کسی فرعون اور کسی نمرود یا کسی قیصر اور کسی کسریٰ کے سر پر تاج کی صورت میں رکھی ہوتی تھی وہ آج تولہ تولہ یا ماشہ ماشہ ہر انسان کے سر پر لیپ دی گئی ہے‘ لیکن نجاست بہرحال نجاست ہے‘ خواہ منوں اور ٹنوں کے حساب سے ہو‘ خواہ تولوں اور ماشوں کی مقدار میں!

رہا وطنی قومیت کا جدید تصور تو اس کے ضمن میں تو واقعہ یہ ہے حضرت علامہ نے بارہ اشعار پر مشتمل جو نظم اردو میں کہی اور تین اشعار پر مشتمل جو قطعہ فارسی میں کہا ان کے بارے میں‘ میں پورے وثوق کے ساتھ وہی بات کہنے کو تیار ہوں جو امام شافعیؒ نے سورۃ العصر کے بارے میں کہی ہے اس موضوع پر امام شافعیؒ کا زیادہ مشہور قول تو یہ ہے کہ ’’اگر لوگ صرف اس سورت پر تدبر کر لیں تو یہ ان (کی ہدایت) کے لیے کافی ہے!‘‘ لیکن ان کا ایک دوسرا زیادہ فصیح اور بلیغ قول وہ ہے جو مفتی محمد عبدہٗ نے اپنی تفسیر پارۂ م میں نقل کیا ہے‘ یعنی: ’’اگر قرآن میں سوائے اس ایک سورت کے اور کچھ بھی نازل نہ ہوتا تب بھی یہ لوگوں (کی ہدایت) کے لیے کافی ہوتی!‘‘ علیٰ ہٰذا القیاس مجھے یہ کہنے میں ہرگز کوئی باک نہیں ہے کہ اگر علامہ مرحوم نے ساری عمر میں صرف یہی اشعار کہے ہوتے تب بھی وہ خود اپنے ہی شعر ؎

نظارۂ دیرینہ زمانے کو دکھا دے
اے مصطفویؐ خاک میں اِس ُبت کو ملا دے

کے مصداق مغربی تمدن کے لیے سب سے بڑے ’’بت شکن‘‘ اور ’’قومیت ِاسلام‘‘ کے مجددِ اعظم قرار پانے کے مستحق ہوتے!

اس معاملے میں بھی یہ بات قابل غور ہے کہ حضرت علامہ نے اپنی اردو نظم (مشمولہ ’’بانگ ِدرا‘‘:صفحات ۱۶۰‘ ۱۶۱میں ایک ’’سیاسی تصور‘‘ کی حیثیت سے ’’وطن‘‘ کو ایک جانب عہد ِحاضر کے ’’تازہ خداؤں‘‘ میں سب سے بڑا خدا اور تہذیب جدید کے آزر کے تراشے ہوئے نئے اصنام میں سب سے بڑا ’’صنم‘‘ قرار دیا. گویا ’’وطنیت‘‘ کو سب سے بڑے شرک سے تعبیر کیا جو از روئے قرآن نا قابل معافی جرم ہے (سورۃ النسائ: آیات ۴۸ اور ۱۱۶اور دوسری جانب نوع انسانی کے لیے نہایت تباہ کن اور مہلک بیماری قرار دیا‘ جس کے بطن سے ’’مخلوقِ خدا‘‘ میں تفرقہ وعداوت اور ’’اقوام جہاں‘‘ میں باہمی ’’رقابت‘‘ جنم لیتی ہے‘ جس کے نتیجے میں سیاست اخلاق سے ’’خالی‘‘ اور تجارت‘‘ ذریعہ ’’ تسخیر‘‘ (یعنی امپریلزم کا آلہ) بن جاتی ہے اور ان سب کا نتیجہ یہ کہ ’’کمزور‘‘ اقوام تباہ وبرباد ہو کر رہ جاتی ہیں اور ان کا گھر ’’غارت‘‘ ہو جاتا ہے!
رہا فارسی قطعہ تو اس کے ضمن میں اگرچہ مولانا حسین احمد مدنی ؒ کا یہ اعتراض تو بالکل بجا تھا کہ ’’میں نے ملت نہیں‘ قوم کا لفظ استعمال کیا تھا!‘‘ اور اس پر حضرت علامہ نے بھی نہایت وسعت ِقلبی اور عالی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معذرت کر لی تھی‘ لیکن مولانا مدنی ؒ کے اس قول کے بارے میں کہ ’’میرا یہ کہنا کہ آج کل قومیں وطن سے بنتی ہیں محض خبریہ تھا‘ انشائیہ نہیں تھا‘‘ ان کی تمام تر جلالت ِقدر‘ ان کے تقویٰ و تدین ّاور مجاہدانہ سیرت وکردار کے اعتراف کے باوجود یہ کہنا پڑتا ہے کہ یہ ایک بالکل مہمل بات تھی‘ اس لیے کہ مولانا ایک سیاسی اور مذہبی قائد تھے اور اس اعتبار سے ان کی ہر بات میں ’’انشاء‘ اور مشورہ کا رنگ ہونا بالکل فطری امر تھا. اور علامہ اقبال کی تنقید بھی اصلاً مغرب کے اس نظریے ہی پر تھی کہ قوم وطن سے بنتی ہے (ملت کا لفظ تو غالباً صرف ضرورتِ شعری کے تحت استعمال ہو گیا تھا). اور کفر اور شرک ایسے امراض ہر دور میںجو نئے لباس پہن کر اور نت نئے بھیس بدل کر اولادِ آدم کی گمراہی کے درپے ہوتے ہیں ان کی ؎

بہر رنگے کہ خواہی جامہ می پوش
من اندازِ قدت را می شناسم!

کے انداز میں صحیح پہچان کی صلاحیت اللہ تعالیٰ کا ایک خصوصی فضل ہوتا ہے جو اس دور میں مبدئِ فیض سے علامہ اقبال کو عطا ہوا تھا بقول خود ان کے کہ ؎

عذابِ دانش حاضر سے باخبر ہوں میں
کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثل ِخلیل ؑ!

قصہ مختصر‘ ایک جانب سیکولرازم اور عوامی حاکمیت اور دوسری جانب وطنی قومیت کی پر زور نفی کی اساس پر علامہ اقبال نے تہذیب ِجدید اور مغربی تمدن کو نہ صرف چیلنج کیا بلکہ ’’خبردار‘‘ بھی کیا کہ ؎
دیارِ مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے وہ اب زرِ کم عیار ہو گا!

اور ؎

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کُشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائدار ہو گا!

اس مقام پر آگے بڑھنے سے قبل یہ جملۂ معترضہ عرض کیے بغیر نہیں رہا جا رہا کہ ’’مسلم قومیت‘‘ کی اساس پر وجود میں آنے والے ملک میں‘ جس کے لیے ساری سیاسی جنگ ’’جداگانہ انتخابات‘‘ کی بنیاد پر لڑی گئی تھی‘ پینتالیس سالہ تعطل کے نتیجے میں نظریاتی انحراف اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت یعنی پاکستان پیپلز پارٹی تو برملا ’’مخلوط انتخابات‘‘ کا نعرہ لگا رہی ہے‘ زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ مسلم لیگ کے بھی بعض سیکولر مزاج کارکن اور رہنما کم از کم نظریاتی سطح پر اسی کے راگ میں اپنی راگنی شامل کر رہے ہیں‘ اور نوبت بایں جارسید کہ ؎

اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسول ہاشمی ؐ

اور ؎

ان کی جمعیت کا ہے ملک ونسب پر انحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری!

کی بنیاد پر وجود میں آنے والے ملک میں شناختی کارڈ میں ’’مذہب‘‘ کے خانے کے اندراج پر اس قدر شور اور ہنگامہ برپا ہوا ہے کہ مذہبی جماعتوں کو ایجی ٹیشن کی دھمکی دینی پڑ رہی ہے! رہا قائد اعظم مرحوم کا ۱۱؍ اگست ۱۹۴۷ء والا جملہ تو اسے ایک وقتی مصلحت کے طور پر قبول کرنا تو بالکل دوسری بات ہے ‘لیکن اگر مستقل فلسفے اور پاکستان کے دستور اور نظام کی مستقل اساس کے طور پر تسلیم کر لیا جائے تو یہ ’’نظریۂ پاکستان‘‘ کی صریح نفی اور مفکر و مصور پاکستان کے افکار ونظریات سے کھلی بغاوت 
ہے‘ جو نظریاتی سطح پر پاکستان کے جواز کے خاتمے اور‘خاکم بدہن‘ بالآخر عملی طور پر سوویت یونین کے مانند پاکستان کے بھی نیست ونابود ہونے پر منتج ہو گی ‘جبکہ پاکستان کی اس نظریاتی اساس کا استحکام اور اسی کی بنیاد پر ملک کے پورے دستوری اور قانونی نظام کی تشکیل عالم انسانیت میں ایک نئی تہذیب کے رواج‘ ایک نئے تمدن کے قیام وفروغ‘ اور اس ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کی بجائے جو حقیقت کے اعتبار سے ’’جیو ورلڈ آرڈر‘‘ یعنی یہود کی بالادستی کا نظام ہے‘ ایک حقیقی اور واقعی منصفانہ عالمی نظام (Just World Order) کے قیام کا نقطۂ آغاز بن جائے گی. اور چونکہ یہی وہ چیز ہے جو ابلیس لعین اور اس کی تمام صلبی اور معنوی ذُرّیت (اولاد) اور یہود اور ان کے آلہ کار ’’وہائٹ اینگلو سیکسن پروٹسٹنٹس‘‘ (WASP) کو نا پسند ہے‘ لہٰذا پاکستان میں اس منزلِ مقصود کی جانب کوئی چھوٹے سے چھوٹا‘ اور حقیر سے حقیر اقدام بھی ابلیس اور اس کے ملکی اور غیر ملکی کارندوں کو سخت نا گوار ہوتا ہے!

’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ نامی نظم حضرت علامہ نے ۱۹۳۶ء میں اپنے انتقال سے زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ دو سال قبل کہی تھی اور ان کے اردو کلام میں شعریت کے اعتبار سے تو بعض دوسری نظمیں اس کے مقابلے میں بہت بلند مرتبہ ومقام کی حامل ہیں‘ لیکن ’’اُمت ِ ِمسلمہ کے نام پیغام‘‘ کے اعتبار سے‘ اس میں ہرگز کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ‘ اسی کو ان کے ’’خاتمہ کلام‘‘ اور ’’پیامِ آخریں‘‘ کی حیثیت حاصل ہے. اور اس کا ’’حاصل کلام‘‘ یا خلاصہ اور لب لباب یہ ہے کہ ابلیسیت کو کوئی خطرہ نہ جمہوریت سے ہے‘ نہ اشتراکیت سے بلکہ صرف اور صرف اسلام سے ہے. اس لیے کہ جہاں تک مغرب کی نام نہاد جمہوریت کا تعلق ہے وہ محض ’’ملوکیت کا اک پردہ‘‘ ہے اور اس کی حقیقت ؏ ’’چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر‘‘ کے سوا اور کچھ نہیں (اس لیے کہ وہ اپنی اصل حقیقت کے اعتبار سے ’’سرمایہ داروں کی آمریت‘‘ ہے). اسی طرح اشتراکیت بھی قدیم ’’مزدکی منطق کی سوزن‘‘ سے نوعِ انسان کے گریبانوں کے چاک کو رفو نہیں کر سکتی. بقول ابلیس ؎

کب ڈرا سکتے ہیں مجھ کو اشتراکی کوچہ گرد
یہ پریشاں روز گار‘ آشفتہ مغز‘ آشفتہ ہو!

لہٰذا ؎

ہے اگر کوئی خطر مجھ کو تو اس امت سے ہے
جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرارِ آرزو!

اور ؎

جانتا ہے جس پہ روشن باطن ِایام ہے
مزدکیت فتنۂ فردا نہیں‘ اسلام ہے!

اسلام سے اس خوف اور خطرے کے مقابلے میں ابلیس کو اگرچہ یہ تسلی اور اطمینان حاصل ہے کہ ایک جانب تو عمل کے اعتبار سے مسلمانوںکی حقیقی اور واقعی صورتِ حال یہ ہے کہ ؎

جانتا ہوں میں یہ اُمت حامل ِقرآں نہیں 
ہے وہی سرمایہ داری بندۂ مومن کا دیں!

اور ؎

جانتا ہوں میں کہ مشرق کی اندھیری رات میں
بے ید بیضا ہے پیرانِ حرم کی آستیں!

اور دوسری جانب نام نہاد ’’اہل ایمان‘‘ کے ایمان کی واقعی کیفیت یہ ہے کہ وہ ’’یقین‘‘ کی بجائے محض ایک ’’عقیدہ‘‘ بن کر رہ گیا ہے‘ یعنی ؏ 
یہ غنیمت ہے کہ خود مومن ہے محرومِ یقیں!
اور ؎

زندہ قوت تھی زمانے میں یہ توحید کبھی
اور اب کیا ہے‘ فقط اک مسئلۂ علم کلام!
تاہم چونکہ تاریخ کے بہاؤ کا رخ لا محالہ ’’تلاشِ مصطفی ؐ ‘‘ کی جانب ہے ‘لہٰذا ابلیس کو یہ اندیشہ بھی لاحق ہے کہ ؎

عصر ِحاضر کے تقاضاؤں سے ہے لیکن یہ خوف
ہو نہ جائے آشکارا شرعِ پیغمبرؐ کہیں!

اور اس کے بعد کے چار اشعار تو نہ صرف یہ کہ اس طویل نظم کی اصل جان ہیں‘ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ اسلام کے نظام عدل اجتماعی یا نظام مصطفی  کا جو فہم علامہ اقبال کو زندگی بھر کے مطالعے اور غور و فکر کے ذریعے حاصل ہوا تھا اس کی تعبیر کے ضمن میں ’’سہل ِممتنع‘‘ کی بھی اعلیٰ ترین مثال ہیں اور ’’جوامع الکلم‘‘ کی بھی بہترین نظیر! چنانچہ:
(۱) ؎

الحذر! آئین پیغمبر سے سو بار الحذر!
حافظ ناموسِ زن‘ مرد آزما‘ مرد آفریں

کی روسے حضرت علامہ کے نزدیک اسلام کے سماجی اور معاشرتی نظام کی دو بنیادیں یہ ہیں کہ (i)اس میں عورتوں کی عصمت و عفت اور عزت و ناموس کی حفاظت کو اولین مقصد اور ہدف کی حیثیت حاصل ہے. اور (ii)اس میں مشکل اور مشقت طلب فرائض (جیسے طلب ِمعاش اور دفاعِ ملک و ملت) کا بوجھ مرد پر ڈالا گیا ہے‘ عورت پر نہیں!
(۲) ؎

موت کا پیغام ہر نوعِ غلامی کے لیے
نے کوئی فغفور و خاقاں‘ نے گدائے رہ نشیں!

کے مطابق اسلام کا سیاسی نظام ’’تمیز ِبندہ و آقا‘‘ کے خاتمے کے اصول پر مبنی ہے‘ جس کی ایک ہی صورت ممکن ہے.یعنی یہ کہ حاکمیت صرف اللہ کے لیے تسلیم کی جائے‘ بقول اقبال ؎

سروری زیبا فقط اُس ذاتِ بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اِک وہی باقی بتانِ آزری!

اور تمام انسان حدیث نبویؐ میں وارد الفاظ 
’’کُونُوا عِبَادَ اﷲِ اِخْوَانًا‘‘ کے مطابق ایک جانب اللہ کے بندے اور دوسری جانب آپس میں بھائی بھائی بن جائیں اور صرف عقیدہ اور نظریہ کے علاوہ کوئی دوسری تمیز وتفریق اور اونچ نیچ انسانوں کے مابین باقی نہ رہے! بفحوائے ؎

کُلُّ مؤمِن اِخوۃٌ اندر دلش
حریت سرمایۂ آب و گلشں

اور ؎

ناشکیب امتیازات آمدہ
در نہادِ اُو مساوات آمدہ!

جس کا منطقی نتیجہ ہے کہ اسلام روئے ارضی پر اللہ کی حاکمیت اور مسلمانوں کی خلافت کا نظام قائم کرنا چاہتا ہے‘ گویا ؎

تا خلافت کی بنا دنیا میں ہو پھر اُستوار
لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر!

(۳‘ ۴) اقبال کی جامعیت کا نمایاں مظہر یہ بھی ہے کہ جہاں ما بعد الطبیعیات ان کا اصل موضوع تھا وہاں انہیں اقتصادیات سے بھی گہری دلچسپی تھی. چنانچہ ان سے بڑھ کر کون اس حقیقت سے واقف ہو سکتا تھا کہ آج کی دنیا میں سب سے زیادہ اہمیت معاشیات کو حاصل ہے اور آج کا انسان بالفعل ’’معاشی حیوان‘‘ بن چکا ہے. یہی وجہ ہے کہ جن چار اشعار پر اس وقت گفتگو ہو رہی ہے‘ ان میں سے دو کا تعلق اسلام کے اقتصادی تصورات سے ہے. چنانچہ ایک جانب ’’سرمایہ‘‘ کے بارے میں فرمایا: ؎

کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک وصاف
منعموں کو مال و دولت کا بناتا ہے امیں!
اور دوسری جانب ’’زمینداری‘‘ کی جڑ یہ کہہ کر کاٹ دی کہ ؎

اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و عمل کا انقلاب
پادشاہوں کی نہیں‘ اللہ کی ہے یہ زمیں!

اس میں ہرگز کوئی شک نہیں ہے کہ اسلام کے سماجی انصاف کے نظام کے ضمن میں علامہ اقبال نے توحید ِالٰہی کے تینوں منطقی نتائج کو خود بھی کما حقہٗ سمجھا اور اللہ کے فضل وکرم سے انہیں اپنے اشعار کے ذریعے سمجھانے اور عام کرنے کا حق بھی پوری طرح ادا کر دیا. یعنی (i) چونکہ تمام انسان ایک ہی خالق کے پیدا کردہ (مزید برآں ایک ہی انسانی جوڑے کی نسل سے) ہیں لہٰذا ان کے مابین پیدائشی طور پر نسل‘ رنگ یا صنف کی بنا پر کوئی اونچ نیچ نہیں ہے‘ (ii) ’’حاکمیت ِمطلقہ‘‘ صرف اللہ کے لیے ہے اور انسانوں کے لیے محض ’’خلافت‘‘ ہے. (iii)’’ملکیت ِتامہ‘‘ بھی صرف اللہ ہی کے لیے ہے اور انسان کے لیے زمین سمیت کل مال و دولت صرف ’’امانت‘‘ کے حکم میں ہے. بقول شیخ سعدیؒ ؎

ایں امانت چند روزہ نزدِ ماست
در حقیقت مالک ہر شے خداست!

اور بقول اقبال ؏ 
بندۂ مؤمن امیں‘ حق مالک است!
ان میں سے جہاں تک’’سیاست ِخلافت‘‘ کا تعلق ہے‘ اس پر کچھ ہی دنوں قبل ان کالموں میں بھی مفصل گفتگو ہو چکی ہے‘ مزید برآں متعدد سیمینار بھی منعقد کیے جا چکے ہیں‘ لہٰذا اس کے بارے میں کسی مزید وضاحت کی چنداں ضرورت نہیں ہے. البتہ جہاں تک معاشی عدل و انصاف کے ضمن میں اسلام کی تعلیمات کا تعلق ہے‘ اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ ان کی حقیقت اور اہمیت جس شدت و حدت اور گہرائی و گیرائی کے ساتھ علامہ اقبال پر منکشف ہوئی اس کی کوئی مثال کم از کم انیسویں اور بیسویں صدی کے مفکرین ِ اسلام اور داعیانِ دین میں سے کسی کے یہاں 
نہیں ملتی.

چنانچہ یہ شعور و ادراک تو بحمد ِاﷲ عام ہے کہ اسلام نے اپنے معاشی نظام میں ذاتی منفعت کے جبلی تقاضوں کو مناسب حد تک ملحوظ رکھ کر ’’سرمایہ کاری‘‘ کے لیے تو پوری فضا برقرار رکھی‘ لیکن ’’سرمایہ داری‘‘ کی لعنت کی جڑ سود کی حرمت کے ذریعے کاٹ کر رکھ دی. لیکن واقعہ یہ ہے کہ ’’ربا‘‘ کی خباثت و شناعت کے احساس و ادراک کے ضمن میں جس ’’جوہر ِاندیشہ کی گرمی‘‘ اقبال کے یہاں نظر آتی ہے وہ کم از کم راقم کی محدود معلومات کی حد تک کسی دوسرے مفکر یا عالم کے یہاں موجود نہیں ہے. ذرا ملاحظہ فرمائیں: ؎

از ربا آخر چہ می زاید؟ فتن!
کس نہ داند لذتِ قرضِ حسن

اور ؎

از ربا جاں تیرہ‘ دل چوں خشت و سنگ
آدمی درّندہ بے دندان و چنگ!

(اس ضمن میں احساس کی شدت اور حدت کے اعتبار سے اگر کوئی دوسرا شخص اقبال کے آس پاس نظر آیا تو وہ بھی حسن اتفاق سے ایک کشمیری شیخ ہی تھا‘ یعنی شیخ محمود احمد مرحوم جن کی مختصر کتاب ’’سود کی متبادل اساس‘‘ تو اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں ادارۂ ثقافت اسلامیہ لاہور سے شائع ہو چکی ہے‘ لیکن اصل معرکۃ الآراء تصنیف ’’انسان اور سرمایہ‘‘ 
(Man and Money) ابھی زیر طباعت ہے‘ لیکن صرف انگریزی میں!)

تاہم سود کی حرمت کے مسئلے پر تو پھر بھی غنیمت ہے کہ علماء دین کا اجماع ہے (اگرچہ دورِ ملوکیت میں پروان چڑھنے والی فقہ نے ’’بیع مؤجل‘‘ اور ’’بیع مرابحہ‘‘ کی اساس پر شرعی حیلوں کے ذریعے سود خوروں کے اطمینان و تسکین کا سامان فراہم کر رکھا ہے) لیکن ’’زمین کے سود‘‘ یعنی غیر حاضر زمینداری اور مزارعت کو تو امامِ اعظم حضرت ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ اور امام دار الہجرت حضرت مالک رحمہ اللہ علیہ کے فتوؤں کے علی الرغم تمام علمائے دین نے شیر ِمادر کی طرح حلال و طیب قرار دے رکھا ہے. واقعہ یہ ہے کہ یہ علامہ اقبال کے ہاتھوں اسلام کے انقلابی فکر کی تجدید کا نہایت اہم اور نمایاں مظہر ہے کہ اس مسئلے پر بھی انہوں نے نہایت واضح اور دو ٹوک بات کی. چنانچہ ایک جانب فلسفہ اور نظریہ کی سطح پر انہوں نے زمین کی ملکیت کی کلی نفی کی کہ ع

پادشاہوں کی نہیں‘ اللہ کی ہے یہ زمیں!
اور ؎

دہ خدایا! یہ زمیں تیری نہیں‘ تیری نہیں
تیرے آبا کی نہیں‘ تیری نہیں‘ میری نہیں!

اور ؎

رزقِ خود را از زمیں بردن رواست
ایں متاعِ بندہ و ِملک خداست!

اور دوسری جانب عملی سطح پر امام اعظم اور امام دار الہجرت رحمہما اللہ کی آراء سے ہم آہنگی اختیار کرتے ہوئے حضرت علامہ نے زراعت میں مزارعت یعنی بٹائی کے نظام کو اللہ کی رحمت اور برکت سے محرومی کا سبب قرار دیا. بفحوائے: ؎

خدا آں ملتے را سروری داد
کہ تقدیرش بدست ِخویش بنوشت!
بہ آں قومے سروکارے نہ دارد
کہ دہقانش برائے دیگراں ِکشت!

چنانچہ حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں تو ان کی شان بالکل ’منفرد‘‘ ہے!
بہر حال‘ اسلام کے اس انقلابی فکر کی تجدید کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ علامہ اقبال نے ’’انقلاب‘‘ کا نعرہ بلند کیا اور اس کے لیے خاص طور پر سرمایہ داری‘ زمینداری اور جاگیرداری ہی کے خلاف اعلان جہاد کیا یعنی: ؎

خواجہ از خونِ رگِ مزدور سازد لعل ِناب
از جفائے دہ خدایاں کشت ِدہقاناں خراب
انقلاب! انقلاب! اے انقلاب!!!

لیکن بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی. حضرت علامہ نے اسلامی انقلاب کا ہدف معین کرنے کے ساتھ ساتھ اس کو برپا کرنے کے منہج اور منہاج کو بھی کمال جامعیت اور غایت اختصار کے ساتھ واضح کر دیا. چنانچہ اس موضوع پر ان کا ایک شعر تو الہامی ہی نہیں ’’معجزانہ‘‘ ہے! تاہم اس کا ذکر بعد میں ہو گا. پہلے یہ بات واضح ہو جائے کہ علامہ کے نزدیک اسلامی انقلاب کی جد و جہد کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ قرآن حکیم کو لوگوں کے ’’اندر‘‘ اُتارا جائے ‘جس سے ان کے ذہن و فکر‘ نظریات و خیالات‘ اہداف و مقاصد اور اقدار و ترجیحات میں ’’انقلاب‘‘ برپا ہو جائے. وہ ’’اندر سے‘‘ بالکل تبدیل ہو کر رہ جائیں. اس لیے کہ عالم انسانیت میں یہ باطنی اور نفسیاتی تبدیلی اور شخصی وانفرادی انقلاب ہی عالمی انقلاب کا پیش خیمہ بن سکتا ہے. چنانچہ عظمت ِقرآن کے بیان میں فرماتے ہیں: ؎

چوں بجاں در رفت جاں دیگر شود
جاں چوں دیگر شد جہاں دیگر شود!

واضح رہے کہ اسی کو اللہ تعالیٰ نے سورۃ الفرقان کی آیت ۵۲ میں ’’جہاد بالقرآن‘‘ یعنی قرآن کے ذریعے جہاد سے تعبیر فرمایا ہے. چنانچہ ارشادِ باری ہے: 

فَلَا تُطِعِ الۡکٰفِرِیۡنَ وَ جَاہِدۡہُمۡ بِہٖ جِہَادًا کَبِیۡرًا ﴿۵۲﴾ 

’’تو (اے نبی !) آپ ان کافروں کا کہنا نہ مانیں اور ان کے ساتھ جہاد جاری رکھیں اس (قرآن) کے ذریعے‘ پوری شدت اور قوت والا جہاد!‘‘

اس لیے کہ یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ اسلامی انقلاب کی جدو جہد کے مرحلۂ اول یعنی دعوت وتبلیغ کا کل مبنیٰ و مدار اور مرکز و محور صرف اور صرف قرآن حکیم ہے. چنانچہ اسی کے ذریعے وعظ ونصیحت‘ انذار و تبشیر اور تذکیر و تلقین‘ گویا 
فی الجملہ اسی کی تبلیغ وتعلیم اسلامی انقلابی جدو جہد کا پہلا مرحلہ ہے‘ لیکن یہ حقیقت کہ تزکیہ و تربیت کا آلہ اور ذریعہ بھی قرآن حکیم ہی ہے اور شیطانِ لعین اور اس کی صلبی اور معنوی اولاد کے مقابلے کے لیے بھی واحد تلوار اور ہتھیار اللہ کی کتاب ہی ہے‘ جس شدت کے ساتھ اقبال پر منکشف ہوئی اور جس قدر وضاحت کے ساتھ انہوں نے اسے بیان کیا اس کی بھی کوئی دوسری مثال کم از کم راقم کے علم میں موجود نہیں ہے! (اس موضوع پر بھی چونکہ ان کالموں میں مفصل گفتگو ہو چکی ہے‘ لہٰذا تفصیل کی ضرورت نہیں ہے!) ان کے ساتھ دو مراحل کا مزید اضافہ کر لیا جائے یعنی ایک تنظیم جس پر گفتگو ہو چکی ہے‘ اور دوسرے صبر ِمحض یا عدمِ تشدد یا صحیح تر الفاظ میں ’’عدمِ انتقام‘‘ جس پر گفتگو ابھی باقی ہے‘ تو علامہ اقبال کے متذکرۂ صدر ’’معجزانہ‘‘ شعر کا مصرعہ اول مکمل ہو جاتا ہے‘ یعنی:؏ 

’’با نشۂ درویشی در ساز و دما دم زن!‘‘

اس لیے کہ ان چار مراحل کے دوران اسلامی انقلاب کے لیے کوشاں کارکنوں اور مجاہدوں کا نقشہ واقعی طور پر اور لا محالہ بدھ مت کے بھکشوؤں‘ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں ہی سے مشابہ ہوتا ہے. یعنی گالیاں سنو اور دعائیں دو‘ پتھر کھاؤ اور پھول پیش کرو‘ سائلوں کی طرح دعوت دو‘ بھکاریوں کی طرح در در کی ٹھوکریں کھاؤ‘ اور اُف تک نہ کرو‘ بلکہ صبر کرو اور اپنی جدو جہد کو ’’دما دم زن‘‘ کے انداز میں جاری رکھو! چنانچہ مکی دور کے بارہ سالوں کے دوران مسلسل یہی ہدایات اللہ تعالیٰ کی جانب سے محمد رسول اللہ  کو‘ اور آنحضور کی جانب سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کو ملتی رہیں کہ: 

وَ لِرَبِّکَ فَاصۡبِرۡ ؕ﴿۷﴾ 
(المدثر) 
’’اور اپنے رب (کی خوشنودگی) کے لیے صبر کرو!‘‘

اور 

وَ لَقَدۡ نَعۡلَمُ اَنَّکَ یَضِیۡقُ صَدۡرُکَ بِمَا یَقُوۡلُوۡنَ ﴿ۙ۹۷﴾ 
(الحجر) ’’ہمیں خوب معلوم ہے کہ جو کچھ یہ لوگ کہہ رہے ہیں اس سے آپ کا سینہ بھنچتا ہے.‘‘ 

لیکن اس کے باوجود 

وَ اصۡبِرۡ عَلٰی مَا یَقُوۡلُوۡنَ وَ اہۡجُرۡہُمۡ ہَجۡرًا جَمِیۡلًا ﴿۱۰﴾ 
(المزمل) 
’’صبر کرو اس پر جو یہ کہہ رہے ہیں اور ان سے کنارہ کشی بھی کرو تو خوبصورتی کے ساتھ.‘‘ 

اور 
فَاصۡبِرۡ لِحُکۡمِ رَبِّکَ وَ لَا تَکُنۡ کَصَاحِبِ الۡحُوۡتِ ۘ 
(القلم: ۴۸
’’صبر کے ساتھ انتظار کرو اپنے رب کے حکم کا اور مت ہو جاؤ اس مچھلی والے (حضرت یونس ؑ) کی مانند (جنہوں نے عجلت سے کام لیا تھا).‘‘

اس کا یہ مطلب ہرگز نہ تھا کہ شریعت کے مستقل اور ابدی قانون سے حکم ِقصاص ساقط ہو گیا تھا یا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طبع بشری بدل گئی تھی اور اس میں جوشِ انتقام پیدا ہی نہیں ہوتا تھا ‘بلکہ یہ صرف انقلابی جدو جہد کے ابتدائی مراحل کا وقتی تقاضا تھا. چنانچہ خود سورۃ الشوریٰ میں جو مکی دور کے بھی وسط میں نازل ہوئی تھی‘ اہل ایمان کا یہ وصف مقامِ مدح میں مذکور ہے کہ: 

وَ الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَصَابَہُمُ الۡبَغۡیُ ہُمۡ یَنۡتَصِرُوۡنَ ﴿۳۹﴾وَ جَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثۡلُہَا ۚ 
’’اور وہ کہ جن پر زیادتی کی جائے تووہ بدلہ لیتے ہیں! اور برائی کا بدلہ تو یقینا ویسی ہی برائی ہے!‘‘
تاہم یہ 
کُفُّوۡۤا اَیۡدِیَکُمۡ ’’اپنے ہاتھ روکے رکھو‘‘ (سورۃ النسائ: ۷۷کا وقتی حکم کچھ ایسی کیفیت کے ساتھ تھا کہ ؎

نالہ ہے بلبل شوریدہ ترا خام ابھی
اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی!

اس لیے کہ جیسے ہی یثرب کی جانب ہجرت ہوئی اور فضل خداوندی سے آنحضور  کی انقلابی جدو جہد کو ’’اقدام اور چیلنج‘‘ کے لیے مرکز اور قاعدہ (مورچہ) میسر آ گیا‘ اہل ایمان کے ہاتھ کھول دیے گئے اور اذنِ قتال نازل ہو گیا .یعنی: 

اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰـتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْاط 
(الحج: ۳۹

’’اجازت دے دی گئی انہیں جو جنگ کر رہے ہیں (یا اختلافِ قراء ت کی بنا پر: جن پر جنگ مسلط کر دی گئی ہے!) اس لیے کہ ان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے!‘‘

پھر جب اس کے نتیجے میں کچھ ہی دنوں بعد مسلح تصادم اور قتال فی سبیل اللہ کا آخری مرحلہ شروع ہو گیا تو اولاً سورۃ البقرہ کی آیت ۱۹۳ میں اور پھر مزید وضاحت اور صراحت کے ساتھ سورۃ الانفال کی آیت ۳۹ میں حکم دے دیا گیا کہ ’’ان (کافروں) سے جنگ جاری رکھو یہاں تک کہ فتنہ بالکل فرو ہو جائے اور دین ُکل کا کل اللہ ہی کے لیے ہوجائے!‘‘ یعنی اللہ کی زمین سے باطل کی حکمرانی کا قلع قمع ہو جائے اور اس کے باغیوں اور سرکشوں کی حکومتوں کے تختے الٹ دیے جائیں اور ’’حق بحقدار رسید‘‘ کے مصداق اللہ کی زمین پر اللہ ہی کی حکومت (یا انجیل کی اصطلاح میں ’’آسمانی بادشاہت‘‘) قائم ہو جائے. 

چنانچہ اقدام اور چیلنج اور مسلح یا غیر مسلح تصادم کے ان مراحل کو اقبال نے کمالِ جامعیت و اختصار اور معجزانہ فصاحت و بلاغت کے ساتھ سمو دیا اپنے متذکرہ بالا شعر کے دوسرے مصرعے میں. یعنی: ؏ 

’’چوں پختہ شوی خود را بر سلطنت ِجم زن!‘‘

اور اسی کے لیے وہ مسلسل پکارتے‘ ابھارتے اور للکارتے رہے امت مسلمہ بالخصوص اس کی ’’مذہبی قیادت‘‘ کو ‘جو مدرسہ اور خانقاہ یاعلماء اور صوفیاء میں منقسم تھی اور جس کے بارے میں ان کے مشاہدات اور تاثرات کا اظہار ان کے ان الفاظ کے ذریعے بخوبی ہوجاتا ہے کہ؏ ’’اُٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غمناک!‘‘ یہی وجہ ہے کہ اگرچہ انہوں نے ایک جانب اس وجودی تصوف کی شدت کے ساتھ مخالفت کی جس کے زیر اثر خام طبائع میں عمل‘ اقدام اور جہاد کی بجائے تعطل‘ گریز اور جمود کی کیفیات پیدا ہوتی ہیں‘ اور نہ صرف یہ کہ اہل تصوف کو زور دار دعوت دی کہ ؎

نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیریؓ 
کہ رسم خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری!

بلکہ یہ بھی بتایا کہ یہ تو مسلمانوں کے بارے میں ابلیس ِلعین کی اپنے کارندوں کو اہم ہدایت ہے کہ ؎

مست رکھو ذکر و فکر ِصبحگاہی میں اسے
پختہ تر کر دو مزاجِ خانقاہی میں اسے!

اور دوسری طرف علماء دین کو بھی جھنجوڑنے کی بھر پور کوشش کی. چنانچہ ان کے جو شاہکار اشعار ان کے مرقد کی زینت بنے ہوئے ہیں ان میں یہ قطعہ بھی شامل ہے کہ ؎

بیا تا کارِ ایں امت بسازیم
قمارِ زندگی مردانہ بازیم

اور ؎

چناں نالیم اندر مسجد شہر
دلے در سینۂ مُلّا گدازیم!

تاہم ان کا اصل خطاب مسلمانانِ ہند کی جدید تعلیم یافتہ نوجوان نسل سے تھا ‘جس کے دلوں کو انہوں نے کبھی تو عظمت ِرفتہ اور سطوتِ گزشتہ کی یاد سے گرمانے کی کوشش بھی کی کہ ؎

کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا!

اور کبھی ان کے جوشِ عمل کو مستقبل کے بارے میں امید افزا پیشین گوئیوں اور مغرب کے زوال اور اسلام کے عروج کی ؏ ’’قلندر ہرچہ گوید دیدہ گوید!‘‘ کے سے انداز کی خبروں کے ذریعے ابھارا. جیسے ؎

کتابِ ملت ِبیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے
یہ شاخِ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا

اور ؎

سبق پھر پڑھ صداقت کا‘ شجاعت کا‘ عدالت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا!

چنانچہ واقعہ یہ ہے کہ علامہ اقبال کی اس ملی شاعری نے مسلمانانِ ہند کے نوجوان طبقے کے دلوں سے اس یاس اور نا امیدی کے اندھیاروں کو کافور کر دیا جس کا نمایاں ترین مظہر قومی شاعر ہونے کے اعتبار سے علامہ کے پیشرو مولانا حالی کی شہرۂ آفاق مسدس کی ابتدا اور اختتام کے یہ دلدوز اشعار ہیں ؎

پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے
اسلام کا گر کر نہ ابھرنا دیکھے!
مانے نہ کبھی کہ مد ہے ہر جزر کے بعد
دریا کا ہمارے جو اترنا دیکھے!

اور ؎

اے خاصۂ خاصانِ رسلؐ وقت ِدعا ہے
امت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے!
وہ دیں جو بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغربا ہے!

بایں ہمہ یہ واقعہ اپنی جگہ نا قابل انکار ہے کہ علامہ اقبال نے اسلام کے انقلابی فکر کی تجدید کے اس عظیم الشان کارنامے‘ انقلاب کے منہج اور منہاج کی واضح 
نشاندہی کی عظیم خدمت اور مسلمانانِ ہند کے جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کے طبقے میں ایک جذبۂ عمل پیدا کرنے کی بھر پور سعی کے باوجود خود نہ کسی احیائی تحریک کا آغاز کیا‘ نہ ہی کسی جماعت کی تاسیس کی. اسی بنا پر ہم نے اس سے قبل انہیں شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ علیہ سے مشابہ قرار دیا تھا‘ جو اگرچہ خود تو آخر وقت تک صرف ایک گوشہ نشین درویش اور معلم و مصنف ہی رہے لیکن انہوں نے ایک جانب مسلمانانِ ہند کی ڈوبتی کشتی کو بچانے کے لیے افغانستان سے احمد شاہ ابدالی کو بلایا‘ اور دوسری جانب صحیح علم وعمل کی وہ فضا پیدا کر دی جس کے نتیجے میں دوسری ہی نسل میں سید احمد بریلوی رحمہ اللہ علیہ کی قیادت وامارت اور شاہ ولی اللہؒ کے پوتے شاہ اسماعیل رحمہ اللہ علیہ کی معاونت و مبایعت سے تحریک ِمجاہدین ایسی عظیم تحریک برپا ہوگئی. عجیب حسن اتفاق ہے کہ بالکل اسی طرح علامہ مرحوم نے بھی مسلمانانِ ہند کی قومی جدو جہد کی کشتی کی ناخدائی کے لیے بلایا قائد اعظم محمد علی جناح کو انگلستان سے‘ اور خوداپنی بھی عملی سرگرمی کو اسی قومی دائرے میں محدود رکھا لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ ان ہی کی ’’تجدید فکر اسلامی‘‘ تھی جس کے نتیجے میں اولاً مولانا ابو الکلام آزاد نے ’’حکومت ِالٰہیہ‘‘ کا نعرہ لگایا اور ’’حزب اللہ‘‘ قائم کی اور بعد ازاں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی میدان میں اترے‘ جنہیں حضرت علامہ ہی نے پنجاب نقل مکانی کی دعوت دی‘ جہاں کی فضا علامہ کی ملی شاعری کے ذریعے بہت ہموار اور سازگار ہو چکی تھی.