سب جانتے ہیں کہ انقلابِ فرانس کو فکری غذا والٹیئر‘ روسو اور بعض دیگر مصنفین نے فراہم کی تھی‘ تاہم انقلاب کی قیادت تو کجا‘ اس کی عملی جدو جہد میں بھی ان میں سے کسی کا کوئی حصہ نہ تھا. اسی طرح انقلابِ روس کے لیے فکری مواد مارکس اور اینجلز نے جرمنی اور انگلستان میں بیٹھ کر تیار کیا تھا‘ تاہم نہ صرف یہ کہ ان میں سے کوئی بھی مردِمیدان نہ تھا‘ بلکہ ان دونوں ملکوں میں تو کمیونسٹ انقلاب کی کوئی آواز کبھی بلند ہی نہ ہو سکی اور اشتراکی انقلاب بالفعل روس میں بالشویک اور مانشویک لوگوں کی جدو جہد اور لینن کی اتفاقیہ قیادت کے ذریعے برپا ہوا خود مسلمانوں کی پوری تاریخ اس پر شاہد ہے کہ دورِ صحابہؓ کے بعد‘ سوائے ایک امام ابن تیمیہؒ کے‘ جتنے لوگ علم و فکر اور قلم و قرطاس کے میدان میں نمایاں ہوئے ان میں سے کوئی بھی سیف وسناں کا حامل نہ ہوا. چنانچہ دوسری صدی ہجری کے مجدد ِاعظم امام ابو حنیفہؒ نے بھی اگرچہ حضرت نفس زکیہؒ کی اخلاقی تائید بھی کی اور ان کے ساتھ مالی تعاون بھی کیا لیکن عملاً جہاد و قتال میں شرکت نہیں کی. اسی طرح اُمت کی تاریخ کے دوسرے ہزار سالہ دور (الف ِثانی) کے آغاز پر دو عظیم ترین مجددوں یعنی شیخ احمد سر ہندیؒ اور شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی مساعی بھی صرف قلم و قرطاس کی خدمت یا باطنی اور روحانی اصلاح تک محدود رہیں. 

علیٰ ہٰذا القیاس‘ 
اگر علامہ اقبال مرحوم نے بھی صرف اسلام کے انقلابی فکر کی تجدید کا کارنامہ سر انجام دیا اور خود عملی طور پر نہ کسی تحریک کا آغاز کیا نہ کسی جماعت کی تاسیس کی تو اس میں ہرگز نہ کوئی تعجب کی بات ہے‘ نہ ہی اس سے ان کی ذات اور شخصیت پر کوئی حرف آتا ہے. اس لیے کہ واقعہ یہ ہے کہ جس طرح گزشتہ صدی کی عظیم تحریک مجاہدینؒ فی الواقع شاہ ولی اللہؒ ہی کی تجدیدی مساعی کا ظہور تھی‘ اسی طرح اگر ذرا بنظر غائر دیکھا جائے تو صاف نظر آ جائے گا کہ بیسویں صدی عیسوی کی جملہ احیائی مساعی کی بنیاد میں بھی علامہ اقبال ہی کا فکر کار فرما ہے. اگر اللہ کو منظور ہوا اور سلطنت خداداد پاکستان اسلام کی ’’نشأۃ ثانیہ‘‘ کا گہوارہ اور عالمی نظامِ خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا نقطۂ آغاز بنی‘ اور اس کے لیے یہاں منہجِ نبویؐ پر کوئی انقلاب برپا ہوا‘ جس کے تاریخی شواہد بہت قوی ہیں (اگرچہ موجود الوقت احوال و کیفیات کی بنا پر گاہ بگاہ مایوسی اور بد دلی کے آثار بھی پیدا ہوجاتے ہیں!) تو اس کی اصل اساس علامہ اقبال کے اسی ’’کارنامے‘‘ پر ہو گی جو انہوں نے اسلام کے انقلابی فکر کی تجدید کی صورت میںسر انجام دیا تاہم اس حقیقت کے کما حقہ ادراک کے لیے ضروری ہے کہ پہلے علامہ مرحوم کی شخصیت کو تاریخ کے فریم میں فٹ کر لیا جائے

علامہ اقبال کی ولادت ۱۸۷۷ء میں اسی سال ہوئی جس سال مسلم انڈیا میں ایک نئی فکری اور سیاسی روایت کے بانی اور موجد سر سید احمد خان کے ہاتھوں ایم اے او کالج علی گڑھ کی تاسیس ہوئی (اس سے قبل سر سید مرحوم علی گڑھ ہی میں ۱۸۲۶ء میں ’’سائنٹفک سوسائٹی‘‘ اور ۱۸۷۵ ء میں ایم اے او ہائی اسکول قائم کر چکے تھے). پھر علامہ کی شاعری کا آغاز لگ بھگ اُس وقت ہوا جب سر سید کی زندگی کا چراغ گل ہوا ہی چاہتا تھا. سر سید کا انتقال ۱۸۹۸ء میں ہوا تھا اور علامہ اقبال اگرچہ لاہور کے حلقۂ شعر و ادب میں تو ۱۸۹۵ء ہی سے متعارف ہو چکے تھے ‘تاہم ان کی وہ پہلی نظم جس کے ذریعے وہ ہندوستان کے وسیع تر علمی وادبی حلقوں میں متعارف 
ہوئے ’’ہمالہ‘‘ ہے جو اپریل ۱۹۰۱ء میں آنریبل سر عبد القادر کے جاری کردہ ماہنامے ’’مخزن‘‘ کی پہلی اشاعت میں شائع ہوئی.۱۹۲۴ء میں علامہ کا پہلا اردو مجموعہ کلام ’’بانگ ِدرا‘‘ شائع ہوا تو اس کا دیباچہ بھی ان ہی سر عبد القادر نے لکھا ‘جس میں انہوں نے علامہ کی شاعری کو بجا طور پر تین ادوار میں منقسم قرار دیا. (واضح رہے کہ ’’بانگ درا‘‘ سے قبل علامہ کے فارسی کلام پر مشتمل تین کتابیں شائع ہو چکی تھیں‘ یعنی اسرارِ خودی ۱۹۱۵ء میں‘ رموزِ بیخودی ۱۹۱۸ء میں‘ اور پیامِ مشرق ۱۹۲۳ء میں!)

علامہ کی شاعری کا پہلا دور ۱۹۰۵ء تک ہے ‘جس میں وہ زیادہ تر حالی کی ’’نیچرل شاعری‘‘ کے انداز میں انگریزی شعراء کا اتباع کرتے اور ہندی قومیت کا راگ الاپتے نظر آتے ہیں. دوسرے دور (۱۹۰۵ء تا ۱۹۰۸ء) میں وہ اردو اور فارسی شاعری کے روایتی مضامین یعنی گل و بلبل‘ حسن و عشق‘ فراق و وصال کی دشت پیمائی کرتے نظر آتے ہیں لیکن ۱۹۰۸ء میں جیسے ہی ان کی حیاتِ مستعار کی چوتھی دہائی کا آغاز ہوتا ہے‘ ان کی ’’ملی شاعری‘‘ کا دور بھی بھر پور انداز میں شروع ہو جاتا ہے. اب وہ مسلمانوں کی وحدتِ ملی کے ترانے گاتے‘ اسلام اور مسلمانوں کی زبوں حالی پر آنسو بہاتے‘ لیکن ساتھ ہی ان دونوں کے احیاء اور عروجِ نو کی نوید ِجان فزا سناتے نظر آتے ہیں. ان میں سے پہلی دونوں حیثیتوں میں وہ شبلی اور حالی کی روایت کے تسلسل کی حیثیت رکھتے ہیں (جو خود اپنی جگہ آسمانِ سر سید ہی کے ستارے تھے). یہی وجہ ہے کہ ۱۹۱۴ء میں حالی کے انتقال پر انہوں نے کہا: ؎

خاموش ہو گئے چمنستاں کے رازدار
سرمایۂ گداز تھی جن کی نوائے درد!

اور ؎

شبلی کو رو رہے تھے ابھی اہل گلستاں
حالی بھی ہو گیا سوئے فردوس رہ نورد!

لیکن تیسری حیثیت میں‘ یعنی اسلام کے احیاء و تجدید کے علمبردار اور مسلمانوں کے عروجِ نو کے مبشر اور نقیب ہونے کے اعتبار سے وہ بالکل ’’منفرد‘‘ بھی ہیں اور ایک نئے دور کے ’’فاتح‘‘ یعنی افتتاح کرنے والے بھی!

جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے‘ وہ بنیادی طور پر ’’مردِ میدان‘‘ نہیں بلکہ ایک مفکر و مصور اور حکیم و دانا انسان تھے‘ لہٰذا فکر اور فلسفہ کی سطح پر انہوں نے جن بلندیوں کو چھوا‘ (اس اعتبار سے واقعہ یہ ہے کہ جو شعر انہوں نے غالب کے بارے میں کہا تھا اس کے مصداقِ کامل و اَتم وہ خود ہیں یعنی: ’’فکر ِانساں پر تری ہستی سے یہ روشن ہوا ‘ہے پر مرغِ تخیل کی رسائی تا کجا!‘‘ ) اور جس وسعت ِنظر کا ثبوت دیا‘ اور اس سے بھی بڑھ کر ’’آنے والے دَور کی دھندلی سی اِک تصویر‘‘ نہ صرف خود دیکھی بلکہ دوسروں کو بھی دکھائی‘ اس کے مقابلے میں عمل کے میدان میں ان کا مقام زیادہ بلند اور نمایاں نظر نہیں آتا (بقول خود ان کے کہ ؏ ’’گفتار کا یہ غازی تو بنا کردار کا غازی بن نہ سکا!‘‘). تاہم انہوں نے مسلمانانِ ہند کو اپنے جداگانہ قومی تشخص کا احساس و شعور عطا کرنے میں جو عظیم کامیابی حاصل کی (اس اعتبار سے راقم الحروف کے نزدیک وہ مجدد الف ثانی حضرت شیخ احمد سر ہندیؒ کے ظل اور بروز کی حیثیت رکھتے ہیں) اور اس سے بھی بڑھ کر ۱۹۳۰ء کے خطبہ الٰہ آباد کے ذریعے ان کی قومی جدو جہد کے لیے جو منزلِ مقصود اور نصب‘العین معین کیا‘ اور ان سب پر مستزادمسلم لیگ کی سرگرمیوں میں جس طرح ایک عام کارکن کی طرح حصہ لیا‘ اس کے پیش نظر وہ عمل کے میدان میں بھی بالکل خالی ہاتھ نہیں ہیں اور پاکستان کے قیام میں ان کا حصہ کسی دوسرے قائد سے ہرگز کم نہیں ہے!

لیکن دوسری جانب احیاءِ دین اور ’’طلوعِ اسلام‘‘ کا جو زبردست صور انہوں نے پھونکا تھا‘ بر عظیم پاک و ہند کی پوری اسلامی تحریک فی الحقیقت اسی کی مرہونِ منت ہے اور خود اقبال کے اس شعر کے مصداق کہ ؎

تین سو سال سے ہیں ہند کے میخانے بند
اب مناسب ہے ترا فیض ہو عام اے ساقی!

بیسویں صدی عیسوی میں بر عظیم پاک و ہند میں احیاء اسلام کا جو غلغلہ بلند ہوا وہ سب اسی مردِ درویش کا فیض ہے جسے ہم اوپر حضرت مجددؒ کاظل قرار دے چکے ہیں. 

تجدید و احیائے دین کے عملی میدان میں اگرچہ آغاز میں سر سید مرحوم کے مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے متعدد اہم اشخاص ’’حکومت ِالٰہیہ‘‘ کے زور دار نعرے کے ساتھ اُترے ‘لیکن کچھ حالات کی نا موافقت اور کچھ اپنی استقامت کی کمی کے باعث سب کے سب ناکام ہو گئے. چنانچہ ان میں سے بعض تو فوراً ہی منظر سے غائب ہو گئے‘ جیسے خیری برادران‘ اور بعض نے اپنے جوش و جذبے اور تنظیمی و عسکری صلاحیت کی بنا پر کچھ عرصے کے لیے بڑا سماں باندھا‘ جیسے علامہ مشرقی‘ لیکن وہ واحد شخصیت جس سے ایک ایسی نئی روایت کا آغاز ہوا ‘جس کا تسلسل خود اس کے منظر سے ہٹ جانے کے بعد بھی قائم رہا‘ مولانا ابو الکلام آزاد کی تھی‘ اگرچہ یہ نہ خود انہوں نے کبھی تسلیم کیا نہ ان کا کوئی عقیدت مند آج تسلیم کرے گا کہ انہوں نے کوئی اثر علامہ اقبال سے قبول کیا تھا‘ لیکن اگر ذرا شخصی محبت و عقیدت کے پردے ہٹا کر حقیقت پسندانہ نگاہ سے دیکھا جائے‘ اور زمان و مکان کے نا قابل تردید حقائق کو پیش نظر رکھا جائے تو صاف محسوس ہو گا کہ ۱۹۰۸ء میں جب اقبال کی ملی شاعری کا ڈنکا بجنا شروع ہوا ‘احمد المکنی بابی الکلام کی عمر کل بیس برس تھی. گویا یہ اس ذہین اور طباع نوجوان کی زندگی کا سب سے زیادہ حساس اور اخاذ دور تھا‘ تو کیسے ممکن ہے کہ اس کے ذہن و فکر کی تشکیل میں اس ’’بانگ ِدرا‘‘ اور ’’بانگ ِرحیل‘‘ کا کوئی حصہ نہ ہو جو اقبال کی ملی شاعری کی صورت میں بر عظیم کے پورے طول و عرض میں گونج رہی تھی‘ خصوصاً جبکہ اس کی ابتدائی تربیت میں مؤثر حد تک عمل دخل آسمانِ سر سید کے ایک ٹوٹے ہوئے تارے علامہ شبلی کو بھی حاصل تھا! 
بہر حال اس وقت نہ اس پر زیادہ بحث کا موقع ہے کہ مولانا آزاد کے قلب و ذہن میں احیاء اسلام کا جذبہ و ارادہ علامہ اقبال کی ملی شاعری کے زیر اثر پیدا ہوا تھا ‘یا یہ براہ‘راست ؏ ’’آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں!‘‘ کی صورت تھی ‘یا پھر ’’تواردِباہمی‘‘ والا معاملہ تھا. اس وقت جس حقیقت کی جانب توجہ دلانی مقصود ہے وہ یہ ہے کہ ۱۹۱۲ء سے ۱۹۲۰ء تک کے ابو الکلام کی شخصیت اور کارنامے کو اگر دو حصوں میں تقسیم کر لیا جائے تو ان میں سے ایک کو تو ان کے اور علامہ اقبال کے مابین قدرِ مشترک کی حیثیت حاصل ہے اور فرق صرف اسلوب اور انداز کا ہے‘ البتہ دوسرا حصہ کم از کم ظاہری اور عملی اعتبار سے قدرے مختلف اور‘ جیسے کہ اوپر عرض کیا گیا‘ ایک نئی روایت کے نقطۂ آغاز کی حیثیت رکھتا ہے. 

ان میں سے مقدم الذکر حصہ یعنی امت مسلمہ کی زبوں حالی اور اولاً جنگ ِبلقان اور پھر پہلی عالمگیر جنگ کے دوران مسلمانوں پر دُوَلِ یورپ کے مظالم پر مرثیہ خوانی‘ اور عظمت ِقرآن کے بیان اور اس کی جانب مؤثر اور زور دار دعوت کو علامہ اقبال اور مولانا آزاد کے مابین قدرِ مشترک کی حیثیت حاصل ہے. ان میں سے بھی ظاہر ہے کہ احیاۓِ اسلام کے نقطۂ نگاہ سے زیادہ اہمیت دوسری بات کی ہے‘ اور اس کے ضمن میں ان دونوں کے مابین ایک اعتبار سے تو صرف اسلوب اور انداز کا فرق ہے‘ یعنی جہاں اقبال نے قرآن کو اپنے اشعار میں ’’سمو‘‘ دیا‘ وہاں آزاد نے اسے اپنی نثر کی روحِ رواں بنا دیا. (واقعہ یہ ہے کہ اسی سے آزاد کی نثر کو یہ حیثیت حاصل ہوئی کہ حسرت موہانی ایسا شخص پکار اٹھا کہ ؎’’جب سے دیکھی ابو الکلام کی نثر ‘ نظم حسرت میں کچھ مزا نہ رہا!‘‘) اسی طرح جہاں اقبال کے یہاں ’’فکر‘‘ کا پلڑا بھاری رہا وہاں آزاد کے یہاں ’’دعوت‘‘ کا انداز غالب ہے البتہ ایک دوسرے پہلو سے راقم اپنا یہ تاثر بیان کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ’’عظمت ِقرآن‘‘ کے انکشاف کی جو شدت وحدت اور گہرائی و گیرائی اقبال کے یہاں نظر آتی ہے اس کی دوسری مثال کم از کم راقم کے علم میں نہیں ہے.

البتہ مولانا ابو الکلام آزاد کی زندگی کے متذکرہ بالا آٹھ سالہ دور کا دوسرا حصہ وہ ہے جس میں وہ ’’منفرد‘‘ ہیں. یعنی اقبال نے اللہ کی حاکمیت اور ’’نورِ توحید کے اتمام‘‘ کا جو نعرہ لگایا اور ملت ِبیضا کی از سر نو ’’شیرازہ بندی‘‘ اور ؏ ’’یہ چمن معمور ہو گا نغمۂ توحید سے!‘‘ کی جو نوید ِجان فزا سنائی‘ اس کے لیے عملی جدو جہد کے ضمن میں ’’راست اقدام‘‘ کے ناگزیر تقاضوں کی تعمیل اور تکمیل کی جانب توجہ دلانے کے ساتھ ساتھ پہلا عملی قدم ابوالکلام نے اٹھایا.

اس سلسلے میں انہوں نے جہاں فریضہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی اہمیت‘ حکومت ِالٰہیہ اور خلافت ِاسلامیہ کے قیام کی فرضیت‘ اور اس کے لیے جہاد فی سبیل اللہ کے لزوم کو اپنی تحریر اور تقریر کے اہم موضوعات کی حیثیت دی وہاں‘ واقعہ یہ ہے کہ‘ دو عظیم حقیقتوں کی جانب مسلمانوں کی توجہ مبذول کرانا تو ان کا پوری امت ِمسلمہ پر بالعموم اور حال اور مستقبل کی تمام احیائی تحریکوں پر بالخصوص عظیم احسان ہے. یعنی (۱) یہ کام ایک منظم اور سمع وطاعت کی خوگر جماعت کے قیام کے بغیر نا ممکن ہیں‘اور (۲) مستقبل کا ’’اسلامی انقلاب‘‘ بھی صرف اسی طریقہ کار پر عمل پیرا ہو کر برپا کیا جا سکتا ہے جس کے ذریعے چودہ سو سال قبل نبی اکرم  نے یہ انقلاب جزیرہ نمائے عرب میں برپا کیا تھا!

ان میں سے پہلی بات کے لیے تو انہوں نے نبی اکرم  کی ایک حدیث مبارک کا حوالہ دیا جو مشکوٰۃ شریف میں مسند احمدؒ اور جامع ترمذیؒ کے حوالے اور حضرت حارث اشعری رضی اللہ عنہ کی روایت سے موجود ہے‘ یعنی: آپ نے فرمایا: ’’مسلمانو! میں تمہیں پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوں (ایک روایت میں یہ اضافی الفاظ بھی وارد ہوئے ہیں: ’’مجھے ان کا حکم اللہ نے دیا ہے‘‘) یعنی جماعت کا حکم‘ سننے کا حکم‘ اطاعت کا حکم‘ ہجرت کا حکم‘ اور جہاد فی سبیل اللہ کا حکم!‘‘ ان پانچ باتوں کا تعلق اسلامی حکومت یا نظام خلافت کے ساتھ تو اظہر من الشمس ہے. یعنی اگر اسلامی حکومت یا نظامِ خلافت قائم ہو تو ان پانچوں احکام پر عمل لازمی طور پر خود بخودہوتا ہے. یہی وجہ ہے کہ جب تک عالم اسلام میں مسلمانوں کی اپنی حکومتیں (خواہ ملوکیت ہی کی صورت میں) قائم رہیں ان پانچ احکام کا حوالہ بھی کسی نہ کسی درجہ اور حیثیت میں برقرار رہا. لیکن جب مسلمان ممالک پر غیر مسلم اقوام کی حکومتیں قائم ہو گئیں تو یہ پانچوں احکام بھی غیر متعلق اور رفتہ رفتہ ’’آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل‘‘ کے مصداق ذہن سے محو ہوتے چلے گئے. کسی کو یہ خیال ہی نہ آیا کہ اس حدیث مبارک میں اسلامی حکومت یا نظام خلافت کے از سر نو قیام کی جدو جہد کے ضمن میں بھی بنیادی رہنمائی موجود ہے چنانچہ جب ۱۹۱۲ء میں یہ حدیث ’’الہلال‘‘ میں شائع ہوئی تو بہت سے مسلمان چونک گئے اور انہیں گویا اپنا بھولا ہوا سبق یاد آ گیا. بہر حال مولانا آزاد نے مسلمانانِ ہند کو اس حدیث مبارک کی جانب صرف متوجہ ہی نہیں کیا بلکہ ۱۹۱۳ء میں اسی پر عمل کرتے ہوئے بیعت کی اساس پر ’’حزب اللہ‘‘ کے نام سے ایک جماعت بھی قائم کر دی.

دوسری بات کے لیے مولانا آزاد نے اولاً ۱۹۱۲ء ہی میں امامِ دار الہجرۃ حضرت مالک بن انس رحمہ اللہ علیہ کے اس قول کا حوالہ دیا کہ: ’’اس امت کے آخری حصے کی اصلاح ہرگز نہ ہو سکے گی مگر صرف اسی طریق پر جس پر پہلے حصے کی اصلاح ہوئی تھی‘‘ اور پھر دوبارہ لگ بھگ دس سال بعد نومبر ۱۹۲۱ء میں جمعیت علماء ہند کے تیسرے سالانہ اجلاس منعقدہ لاہور میں اپنے تحریری خطبے میں اس کا حوالہ دیا. اب (۱۹۹۲ء)سے تقریباً دس سال قبل جب ’’منہج انقلابِ نبویؐ ‘‘ راقم کی تحریر اور تقریر کا خاص موضوع بنا تو اس کے ضمن میں مولانا آزاد کے حوالے سے امام مالکؒ کا یہ قول بھی بہت نقل ہوا. اس پر بعض بزرگوں نے توجہ دلائی کہ اس قول مبارک کی حیثیت بھی حدیث کی ہے. اس لیے کہ یہ اصلاً حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اس خطبے میں وارد ہوا ہے جو انہوں نے اپنی حیاتِ دنیوی کے آخری ایام میں ارشاد فرمایا تھا اور جس کے ذریعے خلافت کے لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی نامزدگی ہوئی تھی. 

الغرض‘ میرے نزدیک ۱۹۱۳ء میں ’’حزب اللہ‘‘ کا قیام علامہ اقبال کے انقلابی فکر کی تعمیل کی جانب پہلا قدم تھا. یہ دوسری بات ہے کہ مولانا آزاد اس پر صرف آٹھ سال تک استقامت کا مظاہرہ کر سکے اور انہوں نے خود اپنے قول کے مطابق ان علماء کی مخالفت کے باعث پٹڑی تبدیل کر لی جن کے دینی تصورات بارہ سو سالہ زوال وانحطاط کے باعث صرف عبادات و رسومات اور اس سے بڑھ کر زیادہ سے زیادہ نکاح و طلاق اور میراث کے مسائل تک محدود ہو کر رہ گئے تھے چنانچہ اپنے ایک سرگرم رفیق اور جان نثار ساتھی مولانا محی الدین قصوری مرحوم کے نام ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں: 

’’میں اپنے پندرہ سال کے طلب و عشق کے بعد وقت کے عدم مساعدت و استعداد کا اعتراف کرتا ہوں … میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ موجودہ طبقہ علماء سے میں بالکل مایوس ہوں اور اس کو قوانین اجتماعی کے خلاف سمجھتا ہوں کہ ان کے جمود میں کسی قسم کا تقلب و تحول پیدا ہو …‘‘ لیکن بعض دوسرے حضرات (جن میں ان کے بعض عقیدت مند ہی نہیں بیعت کرنے والے بھی شامل ہیں) کے نزدیک اس کا اصل سبب مولانا کی اپنی کم ہمتی تھی. یہاں تک کہ ان کے ایک دوسرے مخلص رفیق اور مولانا محی الدین قصوری ہی کے برادر اصغر مولانا محمد علی قصوری نے یہ الفاظ تک لکھ دیے کہ: ’’… لیکن عین وقت پر مولانا آزاد کی بزدلی نے تمام کھیل بگاڑ دیا اور وہ سارے کا سارا محل جس کی تعمیر پر لاکھوں روپیہ صرف ہوا تھا اور سینکڑوں مسلمانوں نے اسے اپنے خون سے سینچا تھا‘ مولانا کی گریز پائی کی وجہ سے آن کی آن میں دھڑام سے نیچے آن گرا‘‘. (ان دونوں حوالوں کے لیے دیکھئے: ’’تحریک نظم جماعت‘‘ تالیف ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہان پوری‘ صفحات ۱۰۱‘ ۱۰۴ اور ۱۰۵) بہر حال جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے‘ اس بحث کے فیصلے کی تو نہ گنجائش ہے نہ ضرورت اصل بات یہ ہے کہ علامہ اقبال کے انقلابی فکر کی تعمیل کے لیے ’’راست اقدام‘‘ کی سعی اول ۱۹۲۰ء کے لگ بھگ ختم ہو گئی‘ لیکن اس فکر کی روح باطنی اور قوتِ متحرکہ نے بہت جلد مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی صورت میں نیا پیکر تلاش کر لیا جن کے فکر اقبال سے اثر پذیر ہونے کا معاملہ ویسے بھی اظہر من الشمس ہے. مزید برآں اس کا یہ تاریخی ثبوت تو نا قابل تردید ہے ہی کہ انہیں علامہ اقبال نے جنوبی ہند سے شمالی ہند نقل مکانی کی صرف دعوت ہی نہیں دی تھی‘ اس سلسلے میں ان کے ساتھ عملی تعاون بھی کیا تھا. 

یہ اس سے قبل عرض کیا جا چکا ہے کہ اگرچہ بیسویں صدی عیسوی میں اسلام کے انقلابی فکر کی تجدید اور احیاء کا سہرا تمام تر علامہ اقبال کے سر ہے‘ تاہم انہوں نے اپنی عملی مساعی کو صرف مسلمانانِ ہند کی اس قومی تحریک کی تائید اور تقویت تک محدود رکھا جو سر سید احمد خان مرحوم کے مکتب فکر کے تحت شروع ہوئی تھی ‘اور خود اسلام کے احیاء اور غلبے کی براہِ راست جدو جہد کے لیے نہ کسی تحریک کا آغاز کیا نہ کوئی جماعت بنائی. البتہ اس حقیقت کو نگاہوں سے ہرگز اوجھل نہیں ہونے دینا چاہیے کہ حضرت علامہ نے اپنے ۱۹۳۰ء کے خطبہ الٰہ آباد کے ذریعے مسلمانانِ ہند کی متذکرہ بالا قومی تحریک کو ایک معین سمت اور واضح منزل کا شعور عطا کر کے اس میں صرف نظریاتی ہی نہیں ’’احیائی‘‘ رنگ کی آمیزش بھی کر دی تھی. چنانچہ اپنے اس تاریخ ساز خطبے میں انہوں نے جہاں مسلمانوں کے جداگانہ قومی تشخص کا مدلل اور فلسفیانہ انداز میں اثبات کیا‘ اور یہ پیشین گوئی بھی کی کہ ہندوستان کے شمال مغربی علاقے میں ایک آزاد مسلم ریاست کا قیام ’’تقدیر الٰہی‘‘ ہے‘ وہاں یہ فرما کر کہ: ’’اگر ایسا ہو گیا تو ہمیں ایک موقع مل جائے گا کہ اسلام کے چہرۂ روشن پر جو تاریک پردے عرب ملوکیت کے دور میں پڑ گئے تھے انہیں ہٹا کر عالم انسانیت کو اس کی اصل تعلیمات سے روشناس کرا سکیں!‘‘ خلافت ِراشدہ یا 
’’خلافت علیٰ منہاج النبوۃ‘‘ کے قیام کو مسلمانانِ ہند کی قومی جدو جہد کا نصب العین قرار دے دیا تھا‘ اس لیے کہ دور ملوکیت سے قبل کا اسلام‘ ظاہر ہے کہ‘ دورِ نبوت اور خلافت ِراشدہ کا اسلام ہی تھا. چنانچہ کون نہیں جانتا کہ بعد میں یہی نظریاتی اپیل اور احیائی جذبہ مسلمانانِ ہند کو ’’پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الٰہ الا اللہ!‘‘ کے نعرے کے تحت مسلم لیگ کے جھنڈے تلے جمع کرنے کا ذریعہ بن گیا‘ جس کے نتیجے میں قیام پاکستان کا ’’معجزہ‘‘ صادر ہو گیا. 

تاہم یہ باتیں تو بہت بعد کی ہیں‘ اقبال کی ملی شاعری کا ڈنکا تو ۱۹۰۸ء ہی سے بجنا شروع ہو گیا تھا. اس سے جو احیائی جذبہ بیدار ہوا تھا اس نے مختلف پیکر اختیار کرنے شروع کر دیے تھے. ان میں اولاً جو داعی اور قائد سامنے آئے ان میں اہم ترین شخصیت ابو الکلام آزاد کی تھی اور جب ۱۹۲۰ء کے بعد وہ منظر سے ہٹ گئے تو جو دوسری شخصیت سامنے آئی اور جس کے نام کا شہرہ مشرق و مغرب میں ہوا وہ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کی تھی. 

مولانا مودودی کی ولادت ۱۹۰۳ء میں ہوئی تھی. گویا علامہ اقبال سے تو وہ چھبیس برس چھوٹے تھے اور اس طرح ان دونوں کے مابین تو پوری ایک نسل کا واضح فصل تھا. البتہ جہاں تک مولانا آزاد کا تعلق ہے تو اگرچہ 
’’عَدَدَ السِّنِیْنَ وَالْحِسَابِ‘‘ (بنی اسرائیل: ۱۲کے اعتبار سے تو وہ ان سے صرف پندرہ برس چھوٹے تھے ‘لیکن چونکہ مولانا آزاد بہت نو عمری میں نمایاں ہو گئے تھے (چنانچہ صرف چوبیس برس کی عمر میں مطلع ہند پر ’’الہلال‘‘ کی صورت میں نمودار ہو چکے تھے!) لہٰذا ان دونوں کے مابین بھی معنوی فصل کم و بیش بیس سال کا تھا بہر حال جب ۱۹ - ۱۹۱۸ء کے لگ بھگ نوجوان ابو الاعلیٰ نے شعور کی آنکھ کھولی تو اس وقت ہندوستان کی فضا میں ایک جانب حکیم الامت علامہ اقبال کی نہ صرف ملی شاعری اور اس سے پیدا شدہ احیائی جذبے کی دھوم تھی بلکہ ان کا ’’فلسفہ خودی‘‘ بھی پوری آب و تاب کے ساتھ سامنے آ چکا تھا جو حضرت مجدد الف ثانی ؒ کے نظریۂ ’’وحدت الشہود‘‘ کے ظل کی حیثیت رکھتا ہے اور جس نے ہمہ اوستی خیالات اور وجودی تصوف کی جڑ کاٹ کر ’’فنا فی اللہ‘‘ کی بجائے ’’بقا باللہ‘‘ کو سلوک کے مقصود اور مطلوب کی حیثیت دے دی تھی‘ اور ’’اسرارِ خودی‘‘ کے بعد ’’رموزِ بیخودی‘‘ کے ذریعے نبی اکرم  کی اطاعت‘ محبت اور اتباع کو اصل الاصول قرار دے کر اسلام کے جداگانہ ملی تشخص کو از سر نو مستحکم کر دیا تھا. دوسری طرف الہلال اور البلاغ کے مدیر‘ حزب اللہ کے امیر‘ ’’دار الارشاد‘‘ کے بانی‘ اور قرآن اور جہاد فی سبیل اللہ کے داعی ابو الکلام آزاد کی شخصیت کا سورج نصف النہار پر چمک رہا تھا. چنانچہ جواں سال ابو الاعلیٰ نے ان دونوں اعاظم رجال سے بھر پور استفادہ بھی کیا اور گہرا تاثر بھی قبول کیا. اور اس طرح ’’مجمع البحرین‘‘ کی حیثیت اختیار کر کے ان دونوں کے مشن کی تکمیل کو اپنی زندگی کا مقصدبنا لیا.

علامہ اقبال کے اتباع میں مولانا مودودی نے مغربی تہذیب کے اصول ومبادی اور اس کے ؎

نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب ِحاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے!

کے مصداق نگاہوں کو چکا چوند کرنے والے مظاہر کو پوری خود اعتمادی کے ساتھ چیلنج کیا. اپنے سلیس‘ عام فہم اور دل نشین اندازِ بیان اور اسلوبِ نگارش کے ذریعے ’’اسلامی تہذیب کے اصول و مبادی‘‘ (واضح رہے کہ یہ مولانا کی ایک اہم اور ابتدائی تالیف کا نام ہے) کی مفصل وضاحت اور مدلل اثبات کا فریضہ باحسن وجوہ سر انجام دیا. چنانچہ اسلام کے معاشرتی نظام پر ’’پردہ‘‘ اور اسلام کی اقتصادی تعلیمات کے موضوع پر ’’سود‘‘ ایسی مبسوط کتابیں ان کے قلم سے نکلیں. رہیں اسلام کی سیاسی تعلیمات تو اگرچہ ان کے ضمن میں ان کا مختصر کتابچہ ’’اسلام کا نظریۂ سیاسی‘‘ ضخامت کے اعتبار سے ’’بقامت ِکہتر‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے لیکن اپنے پختہ اور محکم استدلال کی بنا پر یقینا ’’بقیمت ِبہتر‘‘ کا مصداقِ کامل ہے. ہر صاحب نظر جانتا ہے کہ ان جملہ امور میں مولانا مودودی کی اصل حیثیت علامہ اقبال کے شارح اور مفسر کی ہے. 

اس کے ساتھ ساتھ حضرت علامہ ہی کے اتباع میں مولانا مودودی نے بھی 
مسلمانوں کے جداگانہ قومی تشخص کا پُر زور اور مدلل اثبات کیا اور اور اس طرح وہ بھی مسلمانانِ ہند کی قومی جدو جہد کی تقویت کا ذریعہ بنے. چونکہ ادھر جمعیت علماء ہند ایسی طاقتور اور اثر و رسوخ کی حامل جماعت اور اس پر مولانا آزاد کی بھاری بھرکم شخصیت بھی پٹڑی بدلنے کے بعد انڈین نیشنل کانگریس میں شامل ہونے کے باعث ’’متحدہ قومیت‘‘ کی زور دار حمایت اور تائید کر رہے تھے‘ اور ادھر حضرت علامہ علالت کے باعث کسی قدر پس منظر میں جا چکے تھے ‘لہٰذا واقعہ یہ ہے کہ اس دور میں متحدہ قومیت کی مخالفت اور مسلمانوں کی جداگانہ قومیت کے اثبات کے میدان میں سب سے مؤثر اور فیصلہ کن کردار مولانا مودودیؒ کے قلم ہی نے ادا کیا. ان کی تالیفات ’’مسئلہ قومیت‘‘ اور ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش‘‘ کے حصص اول و دوم کو اُس وقت کی قومی تحریک کے اہم ترین ہتھیاروں کی حیثیت حاصل ہو گئی چنانچہ مولانا مودودی کے اسی قلمی جہاد کی بنا پر علامہ اقبال کی عقابی نگاہ ان پر پڑی اور انہوں نے انہیں دکن کی سنگلاخ زمین سے ’’اچک‘‘ کر اپنے خوابوں کی سر زمین یعنی مستقبل کے پاکستان کے زر خیز ترین خطے پنجاب میں لا بسایا. 

دوسری طرف الہلال اور البلاغ کی زور دار دعوتِ جہاد کی تائید و توثیق ہی نہیں مزید تفصیل اور توضیح کے لیے مولانا مودودی نے ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ ایسی مبسوط اور معرکۃ الآراء کتاب تحریر کی جس نے ایمان کے اہم ترین رکن جہاد فی سبیل اللہ کے بارے میں مغرب کے زیر اثر پیدا ہونے والے معذرت خواہانہ انداز کی نفی کر دی ‘جس کا نقطۂ عروج تو غلام احمد قادیانی کا نعرۂ منسوخی ٔجہاد و قتال تھا‘ تاہم اس کے جراثیم اس حد تک متعدی ہو چکے تھے کہ علامہ شبلی نعمانی ایسے لوگ بھی اس سے بالکل محفوظ اور مامون نہیں رہ سکے تھے. 

مزید برآں مولانا آزاد کے اتباع ہی میں مولانا مودودی نے بھی اس حدیث ِنبویؐ کے مطابق جس کی جانب مولانا آزاد ہی نے ۱۹۱۲ء میں توجہ دلائی تھی [’’مسلمانو! میں تمہیں پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوں‘ اللہ نے مجھے ان کا حکم دیا ہے‘ یعنی التزامِ جماعت کا حکم‘ امیر کے احکام کو سننے کا حکم‘ اطاعت کا حکم‘ ہجرت کا حکم‘ اور جہاد کا حکم!‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح بحوالۂ مسند احمدؒ و جامع ترمذیؒ عن الحارث الاشعری رضی اللہ عنہ)] مسلمانوں کو خالص غلبۂ دین اور حکومت ِالٰہیہ کے قیام کی جدو جہد کے لیے ایک منظم جماعت قائم کرنے کی دعوت دی. اس سلسلے میں جو زور دار مضامین انہوں نے لکھے اور جنہوں نے بعد میں ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش‘‘ کے حصہ ٔسوم کی صورت اختیار کی‘ ان کا نقطۂ عروج ’’ایک صالح جماعت کے قیام کی ضرورت‘‘ نامی مضمون تھا جس کی اساس پر اگست۱۹۴۱ء میں ’’جماعت اسلامی‘‘ قائم ہو گئی‘ جو گویا مولانا آزاد کی ’’حزب اللہ‘‘ کا معنوی تسلسل تھی. یہی وجہ ہے کہ ایسے متعدد حضرات اس میں شامل ہو گئے جنہوں نے پہلے مولانا آزاد سے بیعت کر کے حزب اللہ میں شمولیت اختیار کی تھی‘ جیسے مستری محمد صدیق‘ ملک نصر اللہ خان عزیز‘ اور شیخ قمر الدین وغیرہ. 

مولانا مودودی کے اس ’’احیائی فکر‘‘ میں جماعت اسلامی کے قیام کے بعد خالص قرآنی اور دینی اصطلاحات کی پیوند کاری مولانا امین احسن اصلاحی کے ذریعے ہوئی‘ جس کے زیر اثر ایک جانب نصب العین کے ضمن میں ’’حکومت ِالٰہیہ‘‘ کی غیر قرآنی اصطلاح کی بجائے ’’اقامت ِدین‘‘ اور 
’’خلافت علیٰ منہاج النبوۃ‘‘ کی خالص دینی اصطلاحات کا رواج ہوا. مسلمانوں کی اجتماعی ذمہ داری کے ضمن میں ’’امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘‘ کی اس قرآنی اصطلاح پر جس کو مولانا آزاد نے اپنی دعوت کی اساس بنایا تھا ’’شہادت علی الناس‘‘ کی گہری فلسفیانہ قرآنی اصطلاح کا اضافہ ہوا. 

اسی طرح امت کی اصلاح اور قیامِ نظامِ خلافت کے طریق کار کے ضمن میں مولانا آزاد نے جس قولِ امام مالکؒ یا اثر ِصدیق اکبرؓ کا حوالہ دیا تھا گویا اس کی وضاحت کے سلسلے میں مولانا مودودی کا سب سے زیادہ معرکۃ الآراء خطبہ وہ ہے جو انہوں نے ۱۹۴۱ء ہی میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سٹریچی ہال میں ’’اسلامی حکومت کیسے قائم ہوتی ہے؟‘‘ کے موضوع پر دیا‘ جس کا ترجمہ مولانا مسعود عالم ندویؒ نے عربی زبان میں ’’منہاج الانقلاب الاسلامی‘‘ کے عنوان سے کیا. اس میں مولانا نے اسلامی ریاست یا حکومت کے قیام کی سعی یا بالفاظِ دیگر اسلامی انقلاب کی جدو جہد کی جملہ شرائط اور لوازم کا بیان نہایت وضاحت اور جامعیت کے ساتھ کیا اور ثابت کیا کہ ایک خالص قومی طرز کی جدو جہد کے نتیجے میں مسلمانوں کی ایک قومی ریاست تو وجود میں آ سکتی ہے‘ اسلامی ریاست یا حکومت قائم نہیں ہو سکتی. چنانچہ یہیں سے جماعت اسلامی کا راستہ مسلم لیگ سے علیحدہ ہو گیا. اگر بات صرف اسی حد تک رہتی تو کوئی حرج نہ ہوتا ‘لیکن بعد میں‘ 
جیسا کہ بالعموم ہوتا ہے‘ اس اختلاف میں شدت بھی پیدا ہوتی چلی گئی اور تلخی کا زہر بھی گھلتا چلا گیا. 

بایں ہمہ راقم کے نزدیک مولانا مودودی کا یہ پورا علمی وقلمی جہاد اور دعوت و تنظیم کی جملہ مساعی فکر ِاقبال ہی کی تعمیل کے مرحلۂ ثانی کی حیثیت رکھتی ہیں. البتہ جیسے کہ ہم ان ہی کالموں میں کچھ عرصہ قبل تفصیل سے عرض کر چکے ہیں‘ نبی اکرم  پر نبوت و رسالت کے اختتام کے بعد اب اسلام کی نشأۃ ثانیہ کا عمل لا محالہ کچھ نا مکمل یا ناقص داعیوں ہی کی مساعی کے ذریعے سورۃ الانشقاق کی آیت ۱۹ کے مطابق ’’درجہ بدرجہ‘‘ آگے بڑھے گا. ہر عبوری داعی اور قائد میں عزم و ہمت اور استقلال و استقامت کی کمی پر مستزاد فکر و فہم کی کوتاہی بھی عین قرین قیاس ہے جس کا نتیجہ لا محالہ وقتی ناکامی ہی کی صورت میں نکلے گا‘ اگرچہ اس طرح تجدید و احیاء کا عمل بحیثیت مجموعی درجہ بدرجہ اور رفتہ رفتہ آگے بڑھتا رہے گا. چنانچہ یہی معاملہ ہے جو مولانا آزاد کی طرح مولانا مودودی کے ساتھ بھی پیش آیا. 

اس سلسلے میں داعی ٔاول یعنی مولانا آزاد کا معاملہ تو سادہ بھی تھا اور بسیط بھی. اس لیے کہ ان کی اصل حیثیت ایک پُر جوش‘ بلند آواز اور خوش الحان ’’مؤذن‘‘ کی تھی جس کی پکار پر نمازی جمع ہوئے ہی تھے کہ منتشر کر دیے گئے. پھر ان کی کوئی خاص 
تصانیف بھی نہیں تھیں‘ صرف کچھ خطبات تھے اور کچھ صحافتی مقالات (واضح رہے کہ ’’ترجمان القرآن‘‘ بہت بعد کی چیز ہے). مزید برآں انہوں نے پسپائی بھی اختیار کی تو علی الاعلان (جس کے ضمن میں انہوں نے تو ’’وقت کی عدم مساعدت اور استعداد‘‘ کو موردِ الزام ٹھہرایا ‘لیکن ان کے بعض ساتھیوں اور بیعت کرنے والوں‘ مثلاً مولانا محمد علی قصوری‘ نے ان پر ’’بزدلی‘‘ تک کا الزام لگایا). چنانچہ حزب اللہ اور دار الارشاد دونوں کی بساط انہوں نے اس طرح لپیٹی کہ پھر ان کا نام بھی کبھی نہیں لیا اور اپنے آپ کو ہمہ تن حصول آزادی کی جدو جہد (یا زیادہ سے زیادہ قرآن حکیم کے ساتھ ذاتی علمی شغل) کے لیے وقف کر دیا لیکن داعی ٔثانی یعنی مولانا مودودی کا معاملہ بہت مختلف ہے. ان کی قائم کردہ جماعت اپنے اصل ابتدائی نام لیکن علیحدہ علیحدہ نظاموں کے ساتھ سابق ہندوستان کے جملہ خطوں یعنی پاکستان‘ بھارت‘ بنگلہ دیش اور کشمیر میں موجود اور برسر کار ہے. پورے عالم اسلام میں اسی کو بر عظیم پاک و ہند کی اصل اور واحد اسلامی تحریک کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے اور غیر مسلم ممالک میں بھی اسے ایک قابل لحاظ بنیاد پرست قوت سمجھا جاتا ہے. بایں ہمہ اگر نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے باوجود یہ تا حال کہیں کامیابی کی منزل کے آس پاس بھی نظر نہیں آتی تو اس کے اسباب میں جہاں خارجی اور ثانوی عوامل بھی شامل ہیں‘ وہاں داخلی طور پر خود داعی کے فکر کی چند بنیادی تقصیرات بھی ہیں جن کی وضاحت اس جدو جہد کے آئندہ تسلسل کے لازمی تقاضے کی حیثیت سے ضروری اور لابدی ہے اور اللہ گواہ ہے کہ اس سے نہ ان کی توہین مقصود ہے نہ تنقیص. 
٭٭٭
اس فکر کی اہم ترین اور سب سے بنیادی کمی ایمانی حقائق کے ادراک و شعور اور اس ’’باطنی تجربے‘‘ کی ضرورت و اہمیت سے خطرناک حد تک بے اعتنائی ہے جسے علامہ اقبال نے اپنے اشعار میں تو نہایت جوش و خروش اور کیف و سرور کے 
ساتھ بیان کیا ہی ہے، ’’الٰہیاتِ اسلامیہ کی تشکیل جدید‘‘ کے پہلے تین خطبات کا موضوع بھی بنایا ہے. اس بے اعتنائی نے اس تحریک میں روحانیت کا عنصر ابتدا ہی سے خطرناک حد تک کم کر دیا تھا ‘اور بالآخر اسے ایک خالص سیاسی تحریک بنا کر رکھ دیا. اس موضوع پر ایک مفصل بحث راقم الحروف نے اب (۱۹۹۲ء)سے چھبیس برس قبل اپنی ایک تحریر ’’اسلام کی نشأۃ ثانیہ: کرنے کا اصل کام‘‘ میں کی تھی. 

دوسری اہم تقصیر مولانا مودودی کے عمرانی فکر کی ہے کہ جہاں نقدی کے سود کی حرمت کو تو انہوں نے خود بھی خوب سمجھا اور بیان بھی خوب کیا‘ وہاں زمین کے سود‘ یعنی غیر حاضر زمینداری اور جاگیرداری کی نفی سے وہ یکسر قاصر ہی نہیں رہے‘ ان کی تائید اور تقویت کے لیے ایک کتاب بھی لکھ دی. پاکستان کی قومی سیاست کے اکھاڑے میں اترنے کے بعد تو یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ یہ معاملہ حکمت ِعملی اور مصلحت اندیشی کی بنا پر ہوا ہو‘ لیکن حیران کن امر یہ ہے کہ فکر ِاقبال کا یہ گوشہ مولانا کی نگاہ سے ابتداء ً کیسے اوجھل رہ گیا. شاید اس میں اصل عمل دخل حیدر آباد دکن کے ریاستی اور جاگیردارانہ ماحول کا ہو جس میں مولانا نے نشوو نما پائی تھی‘ 
واللہ اعلم. بہر حال اس تسامح یا تقصیر نے پاکستان میں اقامت دین کی تحریک کو انقلابی جذبے سے یکسر محروم کر دیا. 

تیسرا معاملہ جس کے ضمن میں مولانا مودودی سے تقصیر ہوئی‘ جماعت اسلامی کے لیے تنظیمی ڈھانچے کا تھا. سب جانتے ہیں کہ دورِ نبوت سے لے کر بیسویں صدی عیسوی کے آغاز تک امت ِمسلمہ میں ’’تنظیم‘‘ کی واحد اساس ’’بیعت‘‘ رہی. چنانچہ خود نبی اکرم نے متعدد مواقع پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بیعتیں لیں ‘جن میں سے بیعت عقبۂ ثانیہ تو آپ کے پیغمبرانہ مشن کی تکمیل کے ضمن میں فیصلہ کن ثابت ہوئی. پھر خلافت کا نظام قائم ہوا تو وہ بھی بیعت کی اساس پر تھا. خلافت ِراشدہ کے خاتمے کے بعد اصلاحِ حکومت کے لیے جتنی کوششیں ہوئیں (جس کی اُس وقت واحد ممکن العمل صورت ’’خروج‘‘ ہی کی تھی) تو وہ سب بھی بیعت 
کی اساس پر ہوئیں. پھر جب ؏ ’’ہوئی دین و دولت میں جس دم جدائی‘‘ والا معاملہ ہو گیا تو ایک جانب ملوکیت کا نظام بھی بیعت کی اساس پر قائم ہوا اور دوسری جانب سلوک و ارشاد کے سلسلے بھی بیعت ہی کی بنیاد پر قائم ہوئے. یہاں تک کہ گزشتہ صدی کے دوران جہاد کی جتنی تحریکیں پورے عالم اسلام میں برپا ہوئیں‘ خواہ وہ ہندوستان کی تحریک مجاہدینؒ تھی‘ خواہ لیبیا کی سنوسیؒ تحریک‘ اور خواہ مہدی سوڈانیؒ کی تحریک‘ سب بیعت ہی کی اساس پر منظم ہوئیں. یہ سلسلہ موجودہ صدی کے آغاز تک قائم رہا. چنانچہ مولانا مودودی کے حوالے سے تو اہم ترین معاملہ مولانا آزاد کی ’’حزب اللہ‘‘ کا ہے جس کی تاسیس بیعت ہی کی بنیاد پر ہوئی تھی. (بعد کی ایک اور مثال یہ ہے کہ جب علماء اسلام نے قادیانیت کے سد ِباب کے لیے تحریک چلانے کا فیصلہ کیا تو اس کے لیے بھی سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کو امیر شریعت مقرر کر کے ان سے بیعت کی گئی اور بیعت کرنے والوں میں مولانا سید انور شاہ کشمیریؒ ایسے بیہقی ٔوقت بھی شامل تھے‘ جن سے علامہ اقبال نے متعدد بار درخواست کی تھی کہ لاہور منتقل ہو جائیں تاکہ دونوں مل کر فقہ اسلامی کی تدوین نو کا مشکل مرحلہ طے کر سکیں‘ اور مولانا احمد علی لاہوریؒ بھی تھے ‘جو طویل عرصے تک انجمن حمایت اسلام کے قائم کردہ ’’اشاعت اسلام کالج‘‘ کی منیجنگ کمیٹی کے صدر رہے تھے ‘جس کے نگران علامہ اقبال اور سید غلام بھیک نیرنگ تھے.)

چنانچہ خود مولانا مودودی کا اپنا ذہن بھی ان کے مارچ ۱۹۴۱ء کے ایک خط میں کھل کر سامنے آ جاتا ہے جو انہوں نے جماعت اسلامی کے قیام سے صرف پانچ ماہ قبل حیدرآباد (دکن) کے مولانا محمد یونس مرحوم کے نام لکھا تھا‘ جسے انہوں نے اپنی تالیف ’’خطوط کے چراغ‘‘ میںشامل کیا ہے. اس میں مولانا نے بیعت کی تین قسمیں بیان کیں‘ یعنی: ایک وہ جو کسی خاص مرحلے پر کسی معین کام کے لیے لی جائے ‘جیسے بیعت ِ رضوان‘ دوسری بیعت سلوک و ارشاد‘ اور تیسری وہ بیعت ’’جو اسلامی جماعت کے امیر یا امام کے ہاتھ پر کی جاتی ہے‘‘ جس کے ضمن میں وہ مزید وضاحت فرماتے 
ہیں کہ: ’’اس کی نوعیت یہ ہے کہ جب تک امیر یا امام اللہ اور اس کے رسول کا مطیع رہے‘ اس وقت تک جماعت کے تمام ارکان پر اس کی اطاعت فرض ہے. مَنْ مَاتَ وَلَیْسَ فِیْ عُنُقِہٖ بَیْعَۃٌ .... الخ(یعنی ’’جو مسلمان مرا اس حال میں کہ اس کی گردن میں بیعت کا حلقہ نہ تھا تو وہ جاہلیت کی موت مرا‘‘ صحیح مسلمؒ عن عبد اللہ بن عمرؓ ) اور دوسری تمام احادیث میں جس بیعت کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے ان سب سے مراد یہی تیسری بیعت ہے ‘کیونکہ اس پر اسلامی جماعت کی زندگی اور اس کے نظام کا قیام منحصر ہے. اس سے الگ ہونے یا الگ رہنے کے معنی یہ ہیں کہ نبی  جس کام کے لیے تشریف لائے تھے اور جس امر ِ عظیم کا بار آپؐ امت پر چھوڑ گئے ہیں اس کو نقصان پہنچایا جائے یا ختم کر دیا جائے.‘‘

اس کے باوجود اگر مولانا مودودی نے جماعت اسلامی کے لیے بیعت کی اس منصوص‘ مسنون اور ماثور اساس کو چھوڑ کر مغرب سے درآمد شدہ تنظیمی ڈھانچہ اختیار کیا تو اس کی جو واحد وجہ سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ جب ’’ایک صالح جماعت کے قیام کی ضرورت‘‘ کے جواب میں کچھ نوجوان اور جدید تعلیم یافتہ لوگوں کے ساتھ ساتھ مولانا محمد منظور نعمانی اور مولانا امین احسن اصلاحی ایسی بھاری بھرکم مذہبی شخصیتیں بھی ’’من نیز حاضر می شوم‘‘ کے مصداق حاضر ہو گئیں تو مولانا ان سے ’’بیعت‘‘ کا مطالبہ کرنے کی ہمت نہ کر سکے اور ایک نیم جمہوری اور نیم ’’امیری‘‘ ڈھانچہ اختیار کر لیا. چونکہ جماعت اسلامی کی امارت کے بارے میں مولانا کا اپنا ذہن وہی تھا جو اوپر درج ہوا‘ لہٰذا ۱۹۴۱ء سے ۱۹۵۶ء تک مسلسل پندرہ برس عملی اعتبار سے جماعت میں امارت یا ’’آمریت‘‘ اور جمہوریت یا ’’شورائیت‘‘ کے مابین کشاکش جاری رہی جو بالآخر ۵۷-۱۹۵۶ء میں دھماکہ خیز بحران کا سبب بن گئی‘ جس سے جماعت کی تحریک کو شدید نقصان پہنچا. اس کے برعکس اگر مولانا ۱۹۴۱ء ہی میں اپنے اس ذہن کو بروئے کار لانے کی جرأت کر لیتے جو بالآخر انہوں نے ۱۹۵۸ء میں شرح و بسط کے ساتھ پیش کیا (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو میری تالیف ’’تاریخ جماعت اسلامی کا ایک 
گمشدہ باب‘‘) تو اگرچہ شروع میں ساتھ آنے والوں کی تعداد کسی قدر کم رہتی لیکن بعد میں دوام اور تسلسل برقرار رہتا. یوں ۱۹۴۳ء اور ۱۹۵۷ء کے بحران پیدا نہ ہوتے. واللہ اعلم! 

مولانا مودودی کے تحریکی فکر میں چوتھا ’’خلا‘‘ منہجِ انقلاب کے ضمن میں تھا‘ یعنی یہ کہ دعوت‘ تنظیم‘ تربیت اور ’’کشاکشِ خس و دریا‘‘ کے ابتدائی مراحل کے بعد جب مناسب قوت فراہم ہو جائے تو آخری ’’اقدام‘‘ یا انگریزی لفظ ’’پوش‘‘ یا ’’پوچ‘‘ 
(poach) کی عملی صورت کیا ہو گی؟ اس پر مولانا نے یا تو بالکل غور ہی نہیں کیا تھا‘ یا اس کے بیان کو خلافِ مصلحت سمجھا. اس لیے کہ ’’اسلامی حکومت کیسے قائم ہوتی ہے؟‘‘ نامی تحریر میں جس کا ذکر اس سے قبل ہو چکا ہے‘ اسلامی انقلاب کے ان جملہ ابتدائی لوازم اور مراحل کو اپنے مخصوص طرز اور اسلوب میں بہ کمالِ حسن و خوبی بیان کرنے کے بعد (جن کا بیان راقم نے بھی اپنی بساط کے مطابق ان کالموں میں کچھ ہی عرصہ قبل ’’نبی اکرم  کی انقلابی جدوجہد کے مراحل‘‘ کے عنوان سے متعدد اقساط میں کیا ہے) مولانا مودودی نے بار بار اس طرح کے الفاظ استعمال کرنے پر اکتفا کی ہے کہ ’’تب ایک طبعی نتیجہ کے طور پر وہ خالص نظام حکومت ابھر آتا ہے جس کے لیے ان طاقتور اسباب نے جدو جہد کی ہوتی ہے‘‘ اور ’’آخر کار ایک لازمی اور طبعی نتیجہ کے طور پر وہی حکومت قائم ہو جائے گی جس کے لیے اس طرز پر زمین تیار کی گئی ہو‘‘ اور اس طرح گویا آخری اقدام اور اس سے پیدا ہونے والے ’’تصادم‘‘ کے ذکر سے گریز کیا ہے. گویا علامہ اقبال نے منہجِ انقلابِ اسلامی کو اپنے جس معجز نما شعر میں بہ تمام و کمال سمو دیا تھا اس کے مصرعۂ اول یعنی؏ ’’بانشہ ٔ درویشی در ساز و دما دم زن!‘‘ کے جملہ تقاضے تو مولانا مودودی نے خوب سمجھے بھی اور سمجھائے بھی‘ لیکن مصرعہ ٔ ثانی یعنی ؏ ’’چوں پختہ شوی خود را بر سلطنت جم زن!‘‘ کے تقاضے یا تو خود ان پر بھی پوری طرح واضح نہیں تھے‘ یا انگریز کی حکومت کے زمانے میں معاملہ ’’مصلحت نیست کہ از پردہ بروں آید راز!‘‘ والا تھا. راقم کے نزدیک معاملہ پہلا تھا. اس لیے کہ اگر یہ ’’خلا‘‘ صرف مصلحت کی بنا پر ہوتا تو اس سے وہ مضر ہی نہیں مہلک نتیجہ ہرگز برآمد نہ ہو سکتا جو حصولِ آزادی اور قیامِ پاکستان کے بعد ظاہر ہوا. یعنی میرے نزدیک یہ انقلابی اور تحریکی فکر کی اسی تقصیر کا نتیجہ تھا کہ مولانا نے قیام پاکستان کے فوراً بعد جماعت اسلامی کو پاکستان کی انتخابی سیاست کے میدانِ کار زار میں داخل کر کے کشا کشِ اقتدار میں ایک فریق کی حیثیت دے دی ‘جس کے نتیجے میں اس کی ’’اصولی اسلامی انقلابی جماعت‘‘ کی حیثیت یکسر تبدیل ہو کر ’’اسلام پسند قومی سیاسی جماعت‘‘ کی صورت اختیار کر گئی‘ جس کے جملہ منطقی تقاضے بعد میں ’’ناگزیر برائی‘‘ کے طور پر اور ’’أھوَن البلیِّتَین‘‘ کے قدیم شرعی حیلے کے مطابق پورے کیے جاتے رہے. رفتہ رفتہ نوبت بایں جا رسید ؏ ’’کہ پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی!‘‘ جب اس قلب ِ ماہیت کا ناگزیر نتیجہ اس صورت میں بر آمد ہوا کہ جماعت کے قدیم کارکنوں کا رہا سہا انقلابی جذبہ بھی بالکل ختم ہو گیا تو انقلاب کے لیے ’’راست اقدام‘‘ کے تقاضوں کو فوری طور پر اور کسی قدر وسیع پیمانے پر پورا کرنے کے لیے ایک متبادل تنظیم کی ضرورت محسوس ہوئی‘ جو ’’پاسبان‘‘ کی صورت میں منصۂ شہود پر آ چکی ہے!

راقم نے جماعت اسلامی کی اس ’’قلب ماہیت‘‘ پر اصولی لیکن مفصل کلام اپنے اس بیان میں کیا تھا جو ۱۹۵۶ء میں بحیثیت رکن جماعت اسلامی مرکزی مجلس شوریٰ کی مقرر کردہ ’’جائزہ کمیٹی‘‘ کی خدمت میں پیش کیا تھا (اور بعد میں ’’تحریک ِجماعت اسلامی: ایک تحقیقی مطالعہ‘‘ کے نام سے طبع ہوا). اپنے اس بیان کے آخری باب ’’نتیجہ کلام‘‘ میں راقم نے یہ لکھا تھا کہ ’’میں نے نہ یہ کہا ہے اور نہ میں ایسا سمجھتا ہوں کہ ۱۹۴۷ء میں جب طریق کار تبدیل کیا گیا تو دانستہ طور پر اس تبدیلی کا ادراک کرنےکے باوجود کیا گیا جو اس طرح اس پوری تحریک کی بنیادی نوعیت میں برپا ہو رہی تھی‘ لیکن یہ بہرحال میں سمجھتا ہوں کہ طریق کار کی اس تبدیلی نے جماعت کو سطحی طور پر متاثر نہیں کیا بلکہ اس کو جڑوں سے لے کر شاخوں تک اور سر 
سے لے کر پیر تک بدل کر رکھ دیا ہے اور اب اس جماعت کی بنیادی نوعیت تک میں فرق واقع ہو چکا ہے.‘‘ 

اور پھر ’’تبدیلی کیوں؟‘‘ کے ذیل میں ’’اس کی وجہ‘‘ یہ معین کی تھی کہ ’’میں اگر ایک لفظ میں اس اصل وجہ کو بیان کرنا چاہوں تو وہ ایک لفظ ’عجلت پسندی‘ ہے … ‘‘ مزید برآں سورۃ الانبیاء کی آیت۳۷ اور سورۂ بنی اسرائیل کی آیت ۱۱ کے حوالے سے عرض کیا تھا کہ یہ کمزوری ’’انسان کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے اور انسان کا خمیر جس مٹی سے اٹھا ہے اس میں جزو لاینفک کے طور پر شامل ہے‘‘. لیکن اس وقت جو کچھ عرض کیا گیا ہے اس کی روشنی میں دیکھا جائے تو اس کا ایک اہم سبب فکر کا متذکرہ بالا ’’خلا‘‘ بھی تھا. چونکہ انقلابی جدو جہد کے آخری ’’اقدام‘‘ کے ضمن میں ذہن میں واضح نقشہ پہلے سے موجود نہیں تھا لہٰذا آزادی کے فوراً بعد پاکستان کی قومی سیاست کے میدان میں طاقت کا جو ظاہری خلا نظر آیا اس نے کشاں کشاں اپنے ’’دامِ ہمرنگ ِزمیں‘‘ کی جانب کھینچ لیا! عجلت پسندی کے باعث یہ عظیم حقیقت ذہن سے اوجھل رہ گئی کہ انتخابات کسی نظام کو چلانے کے لیے منعقد کیے جاتے ہیں‘ بدلنے کے لیے نہیں‘ جبکہ نظام کی تبدیلی صرف ’’تصادم‘‘ ہی کے ذریعے ممکن ہے!

الغرض‘ مولانا مودودی علامہ اقبال اور مولانا آزاد دونوں کے فکر و عمل کے جامع ہونے کے اعتبار سے تو بلا شبہ ’’مجمع البحرین‘‘ تھے‘ لیکن بد قسمتی سے تین معاملات میں تو وہ حضرت علامہ کے فکر سے پیچھے رہ گئے‘ یعنی ایک ایمانی کیفیات اور باطنی تجربہ کی اہمیت کے شعور و ادراک کے معاملے میں‘ دوسرے غیر حاضر زمینداری اور جاگیرداری کی حرمت کے بارے میں‘ اور تیسرے انقلابی عمل کے آخری مرحلے یعنی اقدام اور تصادم کے بارے میں ایک معاملے میں وہ مولانا آزاد سے بھی پیچھے رہ گئے ‘یعنی اسلامی انقلابی جماعت کے تنظیمی ڈھانچے کو بیعت کی منصوص‘ مسنون اور ماثور اساس پر استوار کرنے کی ہمت نہ کر پائے. 
بہر حال اسلام کے انقلابی فکر کی اس کامل تجدید کے بعد‘ جو اللہ تعالیٰ نے علامہ اقبال کے ذریعے نصف صدی سے زیادہ عرصہ قبل کرادی تھی‘ جس کے زیر اثر ’’ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے!‘‘ کے مصداق ایران میں انقلاب برپا ہو گیا اور پسر اقبال ڈاکٹر جاوید اقبال کی روایت کے مطابق وسط ِایشیا کی مسلمان ریاستیں بھی ’’ماڈل‘‘ کی تلاش میں ہیں‘ اگر خود اقبال کے خوابوں کی سر زمین پاکستان میں ’’گرفتہ چینیاں احرام و مکی خفتہ در بطحا!‘‘ کے مصداق تا حال اسلامی انقلاب کی منزل تک رسائی حاصل نہیں کی جا سکی تو اس کا اصل سبب ؎

بمصطفیٰؐ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی است!

اور ؎

خلافِ پیمبرؐ کسے راہ گزید
کہ ہرگز بمنزل نہ خواہد رسید!

کے بموجب ’’منہجِ انقلابِ نبویؐ ‘‘ کے صحیح فہم وشعور میں کمی یا موجود الوقت تصورات اور رجحانات کے دباؤ کے باعث اس کو پوری طرح اختیار کرنے سے قاصر رہ جانا ہے.

تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اس عرصے کے دوران جو مساعی ہوئیں وہ بالکل رائیگاں گئیں. اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ احیائے اسلام اور تجدید دین کا قافلہ رفتہ رفتہ اور درجہ بدرجہ آگے بڑھ رہا ہے. چنانچہ اب یہ حقیقت بحمد اللہ پوری طرح آشکار اور واشگاف ہو چکی ہے کہ اسلام صرف مذہب نہیں کامل دین ہے جو عدل اجتماعی کا بہترین‘ جامع ترین اور متوازن ترین نظام پیش کرتا ہے. پھر لاکھوں انسانوں کے دلوں میں اس نظام کے برپا کرنے کا ولولہ بھی پیدا ہو چکا ہے. چنانچہ اس پوری صدی کے دوران ع ’’چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک راہرو کے ساتھ!‘‘ والی صورت عملاً برقرار رہی اورامت کے معتدبہ افراد نے ہر داعی کی آواز پر لبیک کہی 
اور تجدید و احیائے دین کی ’’اولمپک ٹارچ‘‘ کو کچھ نہ کچھ آگے ضرور بڑھایا. اب ضرورت اس امر کی ہے کہ فکر کی صحت کو برقرار رکھتے ہوئے عملی کوتاہیوں اور تقصیروں کی تلافی کی فکر کی جائے. اور ع ’’چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی!‘‘ اور ؏ ’’اک فصل پکی تو بھر پایا تب تک تو یہی کچھ کرنا ہے!‘‘ اور ’’دما دم زن‘‘ کے انداز میں جدو جہد جاری رکھی جائے!