ان صفحات میں ’’اسلام کے انقلابی فکر کی تجدید اور علامہ اقبال‘‘ اور ’’فکر ِاقبال کی تعمیل کا تاریخی جائزہ‘‘ کے عنوان سے جو کچھ لکھا گیا شاید اسی کا نتیجہ تھا کہ جمعہ ۱۳؍ نومبر کو ملتان میں ’’فاران اکیڈمی‘‘ کے زیر اہتمام ’’یومِ اقبال‘‘ کی جو تقریب منعقد ہوئی اس میں نہ صرف یہ کہ مہمان خصوصی کی حیثیت سے مجھے مدعو کیا گیا بلکہ میرے خطاب کا عنوان بھی ’’عصر حاضر کے فکری تقاضے اور علامہ اقبال‘‘ رکھا گیا. وہاں جو مختصر خطبہ ٔاستقبالیہ پروفیسر حفیظ الرحمن صاحب نے پڑھا اس کا آغاز ایران کے ملک الشعراء بہار کے اس شعر سے ہوا کہ ؎

عصر ِحاضر خاصۂ اقبال گشت
واحدے کز صد ہزاراں بر گزشت!

اس سے جہاں اس خیال کی مزید توثیق ہوئی کہ ایران کے حالیہ انقلاب کی بنیاد میں اقبال کا فکر کار فرما ہے‘ وہاں حضرت بہزاد لکھنوی کے اس مصرعے کے مطابق کہ ؏ ’’حسرت آتی ہے یہ پہنچا‘ میں رہا جاتا ہوں!‘‘ اس حسرت میں بھی اضافہ ہو ا کہ ؏ ’’گرفتہ چینیاں احرام و مکی خفتہ در بطحا!‘‘ کے مصداق ہم اقبال کے خوابوں کی سر زمین میں بسنے والے مسلمان تا حال کبھی خالص سیکولر اور کبھی نیم مذہبی مارشل لاء یا مغرب کے سیکولر جمہوری نظام کی بھونڈی نقالی کے چکر ہی سے نہیں نکل پائے. تاہم غنیمت ہے کہ وہ ’’مرد ِتن آساں‘‘ ہم ایسے ’’تن آسانوں‘‘ کو یہ دلاسہ بھی دے 
گیا ہے کہ ؎

نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ِویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی!

اور ؎

نومید نہ ہو ان سے اے رہبر ِفرزانہ
کم کوش تو ہیں لیکن بے ذوق نہیں راہی!

سورۃ الضحیٰ اور سورۃ الانشراح میں اللہ تعالیٰ نے ایک خاص روحانی اور نفسیاتی پس منظر میں نبی اکرم  کو اپنے وہ احسانات یاد لائے ہیں جو آپؐ پر حیاتِ دنیوی کے ابتدائی دور میں ہوئے تھے‘ یعنی: 


اَلَمۡ یَجِدۡکَ یَتِیۡمًا فَاٰوٰی ۪﴿۶﴾وَ وَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی ۪﴿۷﴾وَ وَجَدَکَ عَآئِلًا فَاَغۡنٰی ؕ﴿۸﴾ 
(الضحٰی) 
’’کیا نہیں پایا آپؐ کو یتیمی کی حالت میں تو پناہ دی‘ اور پایا آپؐ کو تلاشِ حق میں سرگرداں تو ہدایت (کاملہ) سے سرفراز فرما دیا‘ اور پایا آپؐ کو تنگدست تو غنی کردیا!‘‘

اسی ہدایت ِخداوندی پر عمل کرتے ہوئے اگر ہم اللہ کے ان عظیم احسانات کا جائزہ لیں جو مستقبل کے اسلامی انقلاب کے ضمن میں ملت ِاسلامیہ پاکستان پر ہوئے ہیں تو مایوسی کے بادل چھٹنے لگتے ہیں‘ اور حسن اتفاق سے میرے نزدیک یہ بھی تعداد میں تین ہی ہیں‘ یعنی:(۱) اولین اور اہم ترین یہ کہ اسلام کے اجتماعی فکر اور حرکی تصورات کی تجدید اور احیاء کا کام بحمد اللہ بتمام و کمال علامہ اقبال اور بعض دوسرے مفکرین اور مصنفین کے ہاتھوں سر انجام پا چکا ہے. چنانچہ ایمانی حقائق کا اثبات بھی عہد ِحاضر کی فکری سطح اور اعلیٰ ریاضی و طبیعیات‘ اور اعلیٰ نفسیات کی اساس پر علامہ کے ’’خطبات‘‘ کے ذریعے ہو چکا ہے‘ اور اسلام کے نظامِ عدلِ اجتماعی کے مختلف پہلوئوں کی وضاحت بھی اقبال کے اشعار اور دوسرے حضرات کی تصانیف کے ذریعے 
ہو چکی ہے. (۲) اقبال نے ہندوستان کے شمال مغربی علاقے پر مشتمل جس ’’آزاد مسلمان ریاست‘‘ کی خوشخبری اپنے ۱۹۳۰ء کے خطبہ الٰہ آباد میں دی تھی وہ بھی ہماری تمام نا اہلیوں اور نالائقیوں کے باوجود اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل و کرم کے نتیجے میں ابھی ثابت و سالم موجود ہے. (اللہ تعالیٰ نے تو ہمیں سورۂ ’’ق ‘‘ کے الفاظ: لَدَیْنَا مَزِیْدٌ اور سورۂ بنی اسرائیل کے الفاظ: نَافِلَۃً لَّکَ (آیت ۷۹کے مطابق دو خطوں پر مشتمل پاکستان عطا فرمایا تھا‘ یہ سراسر ہماری نااہلی تھی کہ ہم اسے دو لخت کرا بیٹھے‘ اور واقعہ یہ ہے کہ یہ بچا کھچا پاکستان بھی محض اللہ کے فضل و کرم ہی سے قائم ہے‘ ورنہ ؎

’’ہم نے تو جہنم کی بہت کی تدبیر
لیکن تری رحمت نے گوارا نہ کیا!‘‘

کے مصداق ہم نے تو اسے بھی برباد کرنے میں اپنی جانب سے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی. (اس ضمن میں ۶۹۱۹۶۸ء کے لگ بھگ راقم نے اپنا یہ تاثر پروفیسر مرزا محمد منور کے سامنے بیان کیا کہ: ’’مجھے تو ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جب ہم ٹیڑھے ہونے لگتے ہیں تو اللہ پوری کائنات کو ٹیڑھا کر کے ہمارے ساتھ سازگار اور ہم آہنگ کر دیتا ہے‘‘ تو اس سے مرزا صاحب بھی بہت محظوظ اور متاثر ہوئے تھے.) (۳) آخری‘ لیکن اہمیت میں ہرگز کم نہیں‘ یہ کہ اگرچہ ہماری اب تک کی احیائی مساعی کا کوئی ٹھوس اور محسوس عملی نتیجہ تو تاحال برآمد نہیں ہو سکا تاہم ان کا یہ ثمرہ ہمیں بالفعل حاصل ہے کہ ایک کثیر تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں‘ اور ان میں ایک معتدبہ تعداد تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ہے‘ جن کے دلوں میں احیائے اسلام اور غلبہ ٔدین کا جذبہ شدت کے ساتھ موجزن ہے. وہ محسوس کرتے ہیں کہ اقامت ِدین کی منظم اجتماعی جدو جہد اور اس کے لیے تن من دھن کی قربانی ان کا دینی فریضہ ہے. اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ’’ابتدائی سرمائے‘‘ کی قدر کرتے ہوئے‘ اور سابقہ غلطیوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے اس جدو جہد کو ؏ 

’’چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی!‘‘ 
‘اور ؏ 
’’اِک فصل پکی تو بھرپایا ‘تب تک تو یہی کچھ کرنا ہے!‘‘

کے انداز میں جاری رکھا جائے اور حتی الامکان آگے بڑھایا جائے. 

اس سلسلے میں فی الوقت کرنے کا اہم ترین کام یہ ہے کہ دین کے ان اجتماعی اور تحریکی‘ یا بالفاظِ دیگر ’’انقلابی‘‘ تصورات کو برقرار رکھا جائے جو بہت طویل عرصے کے بعد از سر نو اجاگر ہوئے ہیں. اس لیے کہ ایک جانب تو وقت کا ماحول اس کے ساتھ مطابقت اور موافقت نہیں رکھتا اور ؎

آرزو اوّل تو پیدا ہو نہیں سکتی کہیں
اور ہو جائے تو مر جاتی ہے یا رہتی ہے خام!

کے مصداق نہ زمین اسے غذا دیتی ہے نہ فضا‘ جبکہ دوسری جانب نہ صرف یہ کہ مختلف احیائی تحریکوں کی وقتی اور فوری ناکامیوں کے طبعی نتیجے کے طور پر ان افکار اور تصورات کی کریڈیبلٹی کو خطرہ لاحق ہے‘ بلکہ بعض شکست خوردہ ذہنیت کے حامل لوگ جو کسی داخلی یاخارجی سبب کے باعث ان تحریکوں کے ساتھ نہیں چل پائے اور یا خود علیحدہ ہو گئے یانکال دیے گئے‘ ایک مریضانہ نفسیاتی ردّ عمل کے تحت اس فکر ہی کو مجروح کرنے پر ُتل گئے ہیں. 

اوپر دین کے اجتماعی اور عمرانی فکر‘ اور فرائض ِدینی کے تحریکی یا انقلابی تصور کے فروغ کی راہ کے موانع کے ضمن میں زمین اور فضا دونوں کی عدم موافقت کا جو ذکر آیا ہے وہ محض روا روی یا قلم کی روانی میں نہیں ہے‘ بلکہ ایک سوچی سمجھی تشبیہہ ہے. اس لیے کہ ایک جانب مسلمانوں کی عظیم اکثریت کے ذہنوں میں دین کا جو محدود اور جامد مذہبی تصور صدیوں کے تعامل کے باعث راسخ ہو چکا ہے فی الواقع اس بنجر اور سنگلاخ زمین کے مانند ہے جو کسی حرکی اور انقلابی تصور کو غذا دینے سے انکاری اور اس کے فروغ کی راہ کا سب سے بڑا پتھر ہے‘ جبکہ دوسری جانب مادہ پرستانہ افکار و نظریات‘ سیکولر نظامِ ریاست و سیاست‘ مخلوط اور اباحیت پسندانہ 
معاشرت وثقافت جو اس وقت پورے کرۂ ارضی کواپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے‘ یقینا اس آسمان کے مانند ہے جو اسلام کے حقیقی اور جامع تصور کے ’’شجرۂ طیبہ‘‘ کو پنپنے کی اجازت دینے سے انکاری ہے (یہ دوسری بات ہے کہ اسلام کے عالمی غلبے کی ’’تقدیر مبرم‘‘ ’’وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُوْنَ ‘‘ اور ’’وَلَــوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ ‘‘ کے علی الرغم پوری ہو گی). ستم بالائے ستم یہ کہ جیسے ہر چہار جانب افق پر زمین اور آسمان باہم بغلگیر نظر آتے ہیں‘ بالکل اسی طرح دین کا محدود مذہبی تصور اور عالمی سیکولر تہذیب بھی ایک دوسرے کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگ اور ہم آغوش ہیں. اس لیے کہ سیکولر نظام کا تو اصل الاصول ہی یہ ہے کہ مذہب انسان کا انفرادی معاملہ ہے. چنانچہ اس اعتبار سے وہ کامل ’’رواداری‘‘ کا مظاہرہ کرتا ہے کہ جملہ مذاہب کو تسلیم کرتے ہوئے ان سب کو اپنے پہلو میں جگہ دینے کے لیے تیار ہے. اسے کوئی خطرہ اور اندیشہ اگر ہے تو اسلام کے صرف اس اجتماعی تصور سے ہے جو پوری زندگی پر اپنا غلبہ چاہتا ہے. اس کی جنگ اگر ہے تو صرف ان ’’بنیاد پرست‘‘ (Fundamentalist) قوتوں سے جو اسلام کو دین ودُنیا اور عبادت وسیاست دونوں دائروں میں حکمران کرنا چاہتی ہیں. رہا دین کا وہ محدود مذہبی تصور جو عبادات و رسومات‘ مسجدو مدرسہ اور خانقاہ تک محدود رہے اور Politico-Socio-Economic System سے بحث نہ کرے تو اس کی تو وہ پوری طرح سر پرستی کرنے پر ہمہ وقت آمادہ اور تیار ہے. 

مزید برآں‘ نیوٹن کے اس مشہور قانونِ حرکت کے مطابق کہ: ’’ہر عمل کا ایک مخالف اور مساوی ردِّ عمل لازمی ہے‘‘ بیسویں صدی عیسوی میں جیسے ہی علامہ اقبال‘ مولانا آزاد‘ علامہ مشرقی اور مولانا مودودی کے زیر اثر دین کا حرکی اور انقلابی تصور اجاگر ہونا شروع ہوا‘ قدیم جامد مذہبیت نے بھی ردّ عمل کے طور پر ’’تحریک‘‘ کی صورت اختیار کر لی‘ جس کا یہ عملی نتیجہ نگاہوں کے سامنے موجود ہے کہ بر عظیم پاک و ہند ہی سے اٹھنے والی ایک تحریک کے زیر اثر اس وقت پوری دنیا میں لاکھوں افراد دین کے قدیم محدود مذہبی تصور کے فروغ کے لیے ہر دم ’’حرکت‘‘ میں ہیں. اور یہ 
متذکرہ بالا ’’زمین و آسمان‘‘ دونوں کی اس تصور کے ساتھ سازگاری اور موافقت ہی کا تو مظہر ہے کہ اس تحریک کو دن دونی اور رات چوگنی ترقی حاصل ہو رہی ہے. (یہ بالکل دوسری بات ہے کہ راقم کو یقین حاصل ہے کہ جیسے ہی کوئی حقیقی انقلابی قوت نظامِ باطل اور مظاہر فسق وفجور کو بالفعل چیلنج کرتے ہوئے میدانِ عمل میں آئی‘ تقویٰ اور تدین کے اس محدود تصور کے حامل لوگ بھی ؎

فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں جنوں میرا
یا اپنا گریباں چاک یا دامن ِیزداں چاک!

کے مصداق جامد و ساکت نہیں رہ سکیں گے. اور ؎

مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے‘ تو سوئے دار چلے!


کے مصداق کشاں کشاں ’’مقتل‘‘ کی طرف کھنچے چلے آئیں گے!)
تیرہ سو سال کے زوال اور انحطاط کے نتیجے میں دین کے اس جامد اور محدود مذہبی تصور کی جڑیں مسلمانوں کے قلوب و اَذہان میں جتنی گہری اتر چکی تھیں اس کی اس صدی کے آغاز میں ایک مثال تو اس صورت میں سامنے آئی کہ اس کے باوجود کہ مولانا آزاد کو ایک بہت بڑی مذہبی شخصیت یعنی اسیر مالٹا حضرت شیخ الہندؒ کی تائید حاصل تھی لیکن روایتی علماء کی عمومی مخالفت کا ایک ہی ریلا انہیں بہا کر لے گیا‘ اور ان کے ’’امامت ِہند‘‘ اور حکومت ِالٰہیہ‘‘ کے سارے خواب چکنا چور ہو کر رہ گئے. دوسری مثال ایک بہت بڑے عالم شریعت اور شیخ طریقت کی اس تلقین کی صورت میں سامنے آئی کہ ہمیں کوئی کام ایسا نہیں کرنا چاہیے جس سے ہمارے غیر ملکی حکمرانوں (انگریزوں) کو تشویش لاحق ہو‘ اس لیے کہ انہوں نے ہمیں مذہبی آزادی دی ہوئی ہے‘ جس پر ایک نہایت بھر پور پھبتی چست کی تھی علامہ اقبال نے کہ ؎

ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد!

اوریہاں یہ عرض کیے بغیر نہیں رہا جا رہا کہ یہ علامہ اقبال ہی کی قد آور شخصیت تھی جس نے اس جامد اور محدود مذہبی تصور کے تار و پود بکھیر کر رکھ دیے. اگر اس زمین میں حضرت علامہ کی شاعری کا ہل نہ چل چکا ہوتا تو کسی بھی داعی ٔدین کے لیے روایتی علماء کے اس جمود کے علی الرغم دین کے حرکی اور انقلابی تصور کو لے کر اٹھنا ہرگز ممکن نہ ہوتا!
بہر حال اس داستان کا المناک ترین باب یہ ہے کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں ممالک میں بعض ایسے حضرات جو کچھ عرصہ دین کے اس حرکی تصور کی اساس پر اٹھنے والی تحریکوں سے وابستہ اور ان تصورات کے پُر جوش حامی رہے‘ جب کسی عملی یا شخصی اختلاف کی بنا پر‘ یا کسی ذاتی سبب کے باعث علیحدہ ہو گئے یا خارج کر دیے گئے تو اب رجعت قہقری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کبھی تو ؏’’کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا!‘‘ کے مصداق یہ فرماتے ہیں کہ اقامت ِدین کی جدو جہد کی فرضیت کا تصور ہی باطل ہے‘ کبھی کہتے ہیں کہ اسلامی انقلاب تو صرف دعوت و تبلیغ اور تذکیر و تلقین سے آتا ہے‘ اس کے لیے تصادم اور جہاد کا تصور فتورِ عقل کا مظہر ہے‘ کبھی کہتے ہیں کہ بیعت صرف حکومت کی ہو سکتی ہے‘ جماعت کے قیام کے لیے کوئی دوسری صورت تو اختیار کی جا سکتی ہے بیعت ِسمع و طاعت فی المعروف کی نہیں‘ اور کبھی اس سے بھی آگے بڑھ کر فرماتے ہیں کہ دین کی خدمت کا کام تو صرف انفرادی یا زیادہ سے زیادہ اداروں کی صورت میں ہونا چاہیے‘ اس کے لیے کسی جماعت کے قیام کی سرے سے ضرورت ہی نہیں ہے! 
وَ قِسْ عَلٰی ذٰلِکَ. 

اور یہ بھی اس محدود مذہبی تصور کی سیکولرازم کے ساتھ مطابقت اور موافقت ہی کا مظہر ہے کہ دین کے یہ جدید دانشور کبھی صلح حدیبیہ کو حق و باطل کے مابین ’’مستقل‘‘ مفاہمت اور مصالحت کے لیے دلیل بناتے ہیں‘ اور کبھی میثاقِ مدینہ کو 
عصر حاضر کے سیکولر نظامِ ریاست و سیاست کے حق میں دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں. اسی طرح کبھی رجم کی ’’وحشیانہ‘‘ سزا کی نفی کے ذریعے جدید ذہنیت کی خدمت میں ہدیۂ معذرت پیش کرتے ہیں تو کبھی پردے کے ’’مولویانہ تصور‘‘ کی مخالفت کے ذریعے مغربی تہذیب کے دلدادگان کو تقویت پہنچاتے ہیں تو کون سے تعجب کی بات ہے اگر ایسے لوگوں کی بھارت میں تو سرکار دربار ہی نہیں راشٹریہ سیوک سنگھ کے حلقوں میں بھی پذیرائی ہو‘ اور پاکستان میں بھی دین و شریعت کی عملی پابندیوں اور اقامت ِدین کی جدو جہد کی ’’تپتی راہوں‘‘ سے گریز اور دین کی صرف زبان و قلم کے ذریعے خدمت کی ’’ٹھنڈی چھاؤں‘‘ میں پناہ گزینی کے خواہش مند حضرات ان پر دل و جان سے فدا ہوں! تاہم اقبال کے خوابوں کا مظہر پاکستان‘ ان شاء اللہ العزیز‘ اسلام کے ان حقیقی تہذیبی و ثقافتی‘ سماجی و معاشرتی‘ اقتصادی ومعاشی اور سیاسی و ملی تصورات کی نشأۃِ ثانیہ کا گہوارہ بنے گا ’’جن کے روئے انور پر عہد ِملوکیت کے دوران پردے پڑ گئے تھے‘‘ (خطبہ الٰہ آباد)‘ اور جن کی فکر و نظر کی سطح پر کامل تجدید اللہ تعالیٰ نے اس صدی کے آغاز میں علامہ اقبال کے ہاتھوں کرا دی تھی! ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ایک جانب دین کے ان حرکی اور انقلابی تصورات کا پوری قوت کے ساتھ دفاع کیا جائے اور دوسری جانب اپنی جدو جہد کو ع’’بمصطفیٰؐ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست‘‘ کے مصداق ’’منہج انقلابِ نبویؐ ‘‘ کے زیادہ سے زیادہ مطابق اور موافق بنایا جائے. اس لیے کہ وہی کامیابی کی واحد سبیل ہے!