باب چہارم: اسلام کی نشأۃِ ثانیہ میں تدریج اور اس کے تقاضے

سب جانتے ہیں کہ یہ ’’معجزہ‘‘ تو پوری انسانی تاریخ میں ایک ہی بار رونما ہوا تھا کہ ایک ہی فرد ( ) نے دعوت کا آغاز بھی فرمایا‘ ابلاغ و تبلیغ اور نشر و اشاعت کے جملہ تقاضے بھی پورے کیے‘ پھر جن لوگوں نے دعوت کو قبول کیا انہیں نہ صرف جمع کیا بلکہ ایک نہایت مضبوط و محکم تنظیمی سلسلے میں منسلک کیا‘ پھر ان کا تزکیہ نفس بھی کیا اور تعلیم و تربیت کے تمام تقاضے بھی پورے کیے‘ پھر اولاً عدم تشدد اور صبر محض‘ پھر اقدام اور چیلنج‘ اور بالآخر مسلح تصادم کے مراحل سے بھی گزارا‘ اور ہر مرحلے پر بنفس نفیس خود ہی قیادت اور رہنمائی فرمائی‘ حتیٰ کہ سپہ سالاری کے جملہ فرائض بھی ادا کیے‘ … اور کل بیس برس کے عرصے میں یہ سارے مراحل طے کر کے لاکھوں مربع میل پر پھیلے ہوئے ملک میں انقلاب کی تکمیل فرما دی اور اللہ کے دین کو غالب کر دیا! (فصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) 

اب ایک جانب تو اس حقیقت کو سامنے رکھیے‘ اور دوسری جانب اس امر کو کہ قرآن حکیم کے صغریٰ کبریٰ سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے‘ اور احادیث ِنبویہؐ میں تو صراحت کے ساتھ اس کی خبر دی گئی ہے کہ قیامت سے قبل ایک بار پھر اللہ کا دین اللہ کی زمین پر اسی شان کے ساتھ غالب ہو گا جس شان سے اب سے چودہ سو سال قبل ہوا تھا … اور اس بار یہ غلبۂ دین پورے کرۂ ارضی کو محیط ہو گا اور پورا عالم انسانی توحید کے نور سے بالفعل منور ہو جائے گا… بقول اقبال 

؎ آسماں ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
پھر دلوں کو یاد آ جائے گا پیغامِ سجود
پھر جبیں خاکِ حرم سے آشنا ہو جائے گی!
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محو ِحیرت ہوںکہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی!
شب گریزاں ہو گی آخر جلوۂ خورشید سے
یہ چمن معمور ہو گا نغمۂ توحید سے!!

چنانچہ مسند احمد بن حنبلؒ میں حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضور  نے اپنے مبارک زمانے سے قیامِ قیامت تک پانچ ادوار کا ذکر فرمایا … یعنی (i)دورِ نبوتؐ (ii)دورِ خلافت 
علیٰ منہاج النبوۃ (iii)ظالم ملوکیت کا دور (iv)مجبوری والی بادشاہت (یعنی غلامی) کا دور … اور (v)دوبارہ خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا دور! ان میں سے چوتھے دور سے مراد غالباً مغربی امپریلزم کا دور ہے جو براہ راست حکومت کے اعتبار سے تو ختم ہو چکا ہے مگر تا حال بالواسطہ اقتدار یعنی سیاسی و معاشی تسلط اور تہذیبی و ثقافتی غلبے کی صورت میں جاری ہے … اس طرح اس وقت گویا نوعِ انسانی آنحضور  کے بیان کردہ ادوار کے اعتبار سے چوتھے اور پانچویں کے درمیان عبوری دور اور برزخی مرحلے میں ہے!
ادھر قرآن حکیم میں تین بار تو یہ فرمایا گیا کہ: 

ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ۙ ٖ 

(التوبۃ: ۳۳‘ الفتح: ۲۸‘ الصف: ۹

’’وہی ہے (اللہ) جس نے بھیجا اپنے رسول (محمد  ) کو الہدیٰ (قرآن حکیم) اور دین حق کے ساتھ تاکہ غالب کرے اسے ُکل دین یا تمام ادیان پر.‘‘ 
گویا نبی اکرم  کی بعثت کا مقصد ’’غلبہ ٔدین ِحق‘‘ ہے … اور دوسری طرف مختلف اسلوبوں سے تین ہی بار یہ فرمایا کہ آپ کی بعثت تمام نوعِ انسانی کے لیے ہے. جیسے مثلاً سورۂ سبا کی آیت ۲۸ میں فرمایا: 

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا 

’’ہم نے نہیں بھیجا ہے آپؐ کو مگر تمام انسانوں کے لیے بشیر اور نذیر بنا کر!‘‘

اب ان دونوں کو یعنی منطق کی اصطلاح میں ’’صغریٰ اور کبریٰ‘‘ کو جمع کر لیں تو صریح نتیجہ بر آمد ہوتا ہے کہ اب جب بھی دوبارہ ’’خلافت علیٰ منہاج النبوۃ‘‘ کا دور دنیا میں آئے گا تو یہ خلافت عالمی اور آفاقی اور پورے عالم انسانی اور کرۂ ارضی کو محیط ہو گی. 

مزید بر آں اس کی صریح پیشین گوئیاں بھی صحیح احادیث میں موجود ہیں. چنانچہ :

(i) مسند احمد بن حنبلؒ ہی میں حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضور نے فرمایا: 

لَا یبقٰی علٰی ظَھرِ الارضِ بَیتُ مدَرٍ وَ لَا وَبرٍ الّا اَدخَلہُ اللّٰہُ کلمۃَ الاسلام‘ بِعزِّ عزیزٍ وَ ذُلِّ ذلیلٍ‘ اِمّا یُعزّھم اللّٰہ فیجعلھم مِن اَھلِھا اَو یُذِلّھم فَیدِینُونَ لھا قلتُ: ’’فیکونَ الدِّینُ کُلّہ لِلّٰہ‘‘ 

’’روئے ارضی پر کوئی ایک گھر بھی ایسا نہیں بچے گا‘ خواہ وہ اینٹ گارے کا بنا ہوا ہو خواہ کمبلوں کے خیمے کی صورت میں ہو‘ جس میں اللہ کلمہ اسلام کو داخل نہ کر دے‘ خواہ کسی عزت والے کے اعزاز کے ساتھ‘ خواہ کسی پست ہمت کے ضعف کے ذریعے.‘‘ (یعنی یا تو گھر والا خود ایمان لے آئے گا یا اسے اسلام کی بالا دستی قبول کرنی ہو گی!) اس پر حضرت مقدادؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے دل میں کہا: ’’تب تو وہی بات پوری ہو جائے گی کہ … کل دین اللہ ہی کے لیے ہو جائے!‘‘ 
(اشارہ ہے سورۃ الانفال کی آیت ۳۹ کی جانب) 

(ii) حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے صحیح مسلمؒ میں روایت ہے کہ آنحضور  
نے ارشاد فرمایا: 

اِنَّ اﷲ َ زَوٰی لِیَ الْاَرْضَ فَرَأَیْتُ مَشَارِقَھَا وَمَغَارِبَھَا‘ وَاِنَّ اُمَّتِیْ سَیَبْلُغُ مُلکُھَا مَا زُوِیَ لِیْ مِنْھا 

’’اللہ تعالیٰ نے میرے لیے کل زمین کو لپیٹ دیا (یا سکیڑ دیا). چنانچہ میں نے اس کے سب مشرق بھی دیکھ لیے اور تمام مغرب بھی. اور سن رکھو! کہ میری امت کی حکومت ان تمام علاقوں پر قائم ہو کر رہے گی جو مجھے لپیٹ کر یا سکیڑ کر دکھا دیئے گئے!‘‘

لہٰذا قرآن پر ایمان اور صحیح احادیث پر یقین رکھنے والے کسی انسان کو ہرگز شک نہیں ہوسکتا کہ قیامت سے قبل پوری دنیا میں اسلام کا غلبہ بالکل اسی طرح ہو گا جس طرح آنحضور  کے دورِ مبارک میں ہوا تھا … لیکن اس امر میں بھی ہرگز کسی شک کی گنجائش نہیں ہو سکتی کہ وہ ’’معجزہ‘‘ دوبارہ ہرگز رونما نہیں ہو سکتا کہ یہ مرحلہ کسی ایک ہی داعی کی دعوت اور انقلابی جدو جہد سے طے ہو جائے. اس لیے کہ اس معاملے میں ’’امتناعِ نظیر‘‘ یعنی آنحضور  کا بے مثل اور بے مثال ہونا آپؐ پر ختم نبوت اور تکمیل ِرسالت کا لازمی اور منطقی نتیجہ ہے … لہٰذا اب ایک ہی صورت باقی رہ جاتی ہے‘ یعنی یہ کہ یہ مہم مرحلہ وار سر ہو اور پے در پے اور یکے بعد دیگرے ایسی ’’تحریکیں‘‘ اٹھیں جو اس کام کو درجہ بدرجہ بالکل اسی طرح آگے بڑھائیں جس طرح کا نقشہ سورۃ الانشقاق کی آیت۱۹ میں سامنے آتا ہے‘ یعنی: 
لَتَرۡکَبُنَّ طَبَقًا عَنۡ طَبَقٍ ﴿ؕ۱۹﴾ (تم لازماً ترقی کرو گے درجہ بدرجہ یا ایک ایک سیڑھی کر کے !‘‘) اور جس کی عام فہم تمثیل اولمپک ٹارچ سے دی جا سکتی ہے جسے ایک کھلاڑی لے کر دوڑتا ہے اور کچھ فاصلہ طے کر کے دوسرے کو تھما دیتا ہے‘ جو اسے کچھ دور اور لے جا کر تیسرے کے حوالے کر دیتا ہے … اور اس طرح شمع آگے بڑھتی رہتی ہے! … گویا وہ کام جو اس طرح چودہ سو سال قبل محمد رسول اللہ  اور آپؐ کے ساتھیوں اور جاں نثاروں (رضی اللہ عنہم اجمعین) نے صرف ایک انسانی زندگی کے مختصر عرصہ میں کر دکھایا تھا اب دوبارہ چار یا پانچ نسلوں میں بھی پایۂ تکمیل کو پہنچ جائے تو بہت بڑی کامیابی ہو گی!

اب اگر یہ بات درست ہے‘ اور یقینا درست ہے‘ تو اس کے کچھ لازمی اور منطقی نتائج بھی ہیں ‘جن کو اچھی طرح سمجھ بھی لینا چاہیے اور ذہنی اعتبار سے قبول بھی کر لینا چاہیے‘ ورنہ شدید بد دلی اور مایوسی کا سامنا ہو سکتا ہے. وہ یہ ہیں کہ: 

(۱) اوّلین اور اہم ترین بات یہ کہ اس آخری داعی سے قبل جس کے ہاتھوں یہ کام پایۂ تکمیل کو پہنچے گا‘ جتنے بھی ابتدائی یا درمیانی داعی آئیں گے ان کے فکر و فہم اور تصورات میں بھی کسی نہ کسی اعتبار سے نقص یا محدودیت ہو سکتی ہے‘ اور ان کے عزم و عزیمت‘ صبر و مصابرت اور ہمت و استقامت میں بھی مختلف پہلوئوں سے ضعف یا کمی ہو سکتی ہے. تب ہی تو وہ آخری کامیابی سے قبل ہی کسی مقام تک پہنچ کر بے دم اور بے حال ہو کر رہ جائیں گے یا ’’عجلت پسندی‘‘ کے باعث کسی ’’شارٹ کٹ‘‘ کے ’’دامِ ہمرنگ ِزمین‘‘ میں پھنس کر رہ جائیں گے … لیکن ظاہر ہے کہ اگر وہ؏ ’’میرا سب کچھ مرے خدا کا ہے!‘‘ کے مصداق اور 
لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَہَا ؕ ’’اللہ کسی کو ذمہ دار نہیں ٹھہرائے گا مگر اُس کی وسعت کے مطابق‘‘ (سورۃ البقرۃ: ۲۸۶ اور چار مزید مقامات) کے قانونِ الٰہی کے مطابق اپنا سب کچھ اس کام میں لگا اور کھپا دیں گے تو چاہے دنیوی اعتبار سے بالفعل آخری منزلِ مراد یعنی غلبۂ دین تک نہ پہنچ پائیں عند اللہ سر خرو ہوں گے اور اُخروی نجات و فلاح کے حقدار ہوں گے!

(۲) ان درمیانی یا عبوری ’’داعیوں‘‘ کے ساتھیوں اور اعوان و انصار میں سے بھی جہاں بہت سے لوگ ان داعیوں کی کم ہمتی کے باعث یا ؏ ’’کہ امیر کارواں میں نہیں خوئے دل نوازی!‘‘ کی شکایت کی بنا پر علیحدگی اختیار کریں گے وہاں بہت سے خود اپنی کم ہمتی اور کم کوشی یا ذاتی تکبر اور حسد کی بنا پر بھی علیحدہ ہوں گے … پھر ان میں سے بھی بعض تو صرف عملی پسپائی کی راہ اختیار کرنے ہی پر اکتفاء کریں گے جبکہ بعض زیادہ ذہین اور چالاک لوگ اپنی کم ہمتی کو چھپانے یا اپنے خبث ِباطن پر پردہ ڈالنے 
کے لیے فکری اعتبار سے بھی ’’رجعت ِقہقری‘‘ کا مظاہرہ کریں گے اور ’’انگور کھٹے ہیں‘‘ کی طرح اس انقلابی فکر ہی کو نا قابل اعتبار قرار دیں گے جس کی اساس پر جدو جہد شروع کی گئی تھی. اس کے برعکس حقیقت پسندی اور اولو العزمی کا تقاضا یہ ہو گا کہ ان جملہ حقائق کو ذہن میں رکھتے ہوئے اور ’’گندم اگر بہم نہ شود بھس غنیمت است!‘‘ پر عمل کرتے ہوئے سفر کو جاری رکھا جائے اور اس پر تو غور و خوض مسلسل جاری رکھا جائے کہ ہم کسی غلطی کا ارتکاب تو نہیں کر رہے‘ یا ہم کہیں کوئی غلط موڑ تو نہیں مڑ آئے‘ لیکن صرف اپنی یا اپنے ساتھیوں کی ’’کم‘کوشی‘‘ کے باعث ’’مایوس‘‘ ہو کر کام سے دست کش نہ ہوا جائے (بقول اقبال ؎

مایوس نہ ہو ان سے اے رہبر ِفرزانہ
کم کوش تو ہیں لیکن بے ذوق نہیں راہی!)

… تاکہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے ان الفاظ کے مطابق جو انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہے تھے کہ: ’’میں تو آنے والے کی راہ صاف کرنے والا ہوں!‘‘ ہر درمیانی داعی اور اس کے ساتھی اپنے بعد آنے والے کے لیے راہ بھی صاف تر کر دیں اور اس کے لیے کچھ نہ کچھ ساز و سامان بھی فراہم کر کے جائیں تاکہ اسے دوبارہ سارا کام از سر نو ہی نہ شروع کرنا پڑے!

ان اصولی باتوں کو ذہن میں مستحضر رکھتے ہوئے اب حالیہ تاریخ پر نظر ڈالیے تو صاف نظر آ جائے گا کہ بیسویں صدی عیسوی ’’احیائے اسلام‘‘ کی جدو جہد کی صدی ہے. چنانچہ اس کے آغاز کے ساتھ ہی وہ عمل بھی شروع ہو گیا تھا جسے اسلام اور اُمت ِ مسلمہ کے ’’ہمہ جہتی احیائی عمل‘‘ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے اور جو اس صدی کے ربع اول کے خاتمے کے بعد تو پوری شدت اختیار کر گیا تھا. اس ’’ہمہ جہتی احیائی عمل‘‘ کے دو محاذ نہ صرف یہ کہ ایک دوسرے سے بالکل جدا تھے بلکہ ان کے تقاضے بعض اعتبارات سے ایک دوسرے سے متضاد بھی تھے … یعنی (۱) قومی اور عوامی محاذ‘ جس پر مغربی استعمار سے نجات حاصل کرنے کے لیے آزادی کی تحریکیں برسر عمل تھیں اور (۲) خالص احیائی محاذ‘ جس پر ’’تجدید و احیائے دین‘‘ کا معرکہ گرم تھا. 
بر عظیم پاک و ہند میں اول الذکر محاذ مسلم لیگ نے سنبھالا جس کی تاسیس ۱۹۰۶ء میں ہوئی اور کل اکتالیس برس کی جدو جہد کے ذریعے اس نے پاکستان قائم کر کے بر عظیم پاک و ہند کے کم از کم دو تہائی مسلمانوں کو بیک وقت انگریزوں اور ہندوؤں دونوں کی غلامی سے نجات دلوا دی. دوسرے محاذ پر پہلے ’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ‘‘ والے ابو الکلام آزاد اٹھے جنہوں نے ۱۹۱۳ء میں ’’حزب اللہ‘‘ قائم کی اور ’’حکومت ِالٰہیہ‘‘ کے قیام کی زور دار اذان دی ‘لیکن ابھی لوگ جمع ہو ہی رہے تھے کہ بظاہر ذاتی ’’امامت‘‘ منعقد نہ ہونے کے باعث اور در حقیقت ان اسباب کی بناء پر جن کا ذکر اوپر ہو چکا ہے‘ پوری بساط ہی لپیٹ کر رکھ دی. اس کے کچھ عرصے بعد مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی مرحوم ’’تجدید و احیائے دین‘‘ کے داعیے اور ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ کے ولولے کے ساتھ سامنے آئے (واضح رہے کہ یہ دونوں مولانا کی دو شہرۂ آفاق تالیفات کے نام ہیں!) اور اس زور دار دعوت کے ساتھ ’’جماعت اسلامی‘‘ بھی قائم کر دی اور اس میں اپنی ’’امامت و امارت‘‘ بھی نصب کر دی اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس ’’احیائی محاذ‘‘ پر گراں قدر کامیابیاں حاصل کیں اور نمایاں پیش قدمی کا مظاہرہ کیا… لیکن ان سطور کے راقم کے نزدیک جماعت اسلامی بھی قیام پاکستان کے وقت ’’راہِ یسیر‘‘ یعنی شارٹ کٹ کی بھول بھلیوں میں گم اور ملکی سیاست کی دلدل میں پھنس اور دھنس کر رہ گئی … اور اب ایک بار پھر ایسے باہمت لوگوں کی ضرورت ہے جو اس شمع کو تیسری نسل میں بھی نہ صرف یہ کہ روشن رکھیں بلکہ احیاء اسلام کی اس جدو جہد کو اور آگے بڑھانے کے لیے تن من دھن وقف کر دیں‘ اور یہ طرز عمل اختیار کریں کہ (بقول فیض) ؎

یہ فصل امیدوںکی ہمدم‘ اس بار بھی غارت جائے گی
سب محنت صبحوں شاموں کی‘ اب کے بھی اکارت جائے گی
دھرتی کے کونوں کھدروں میں‘ پھر اپنے لہو کی کھاد بھرو!
پھر مٹی سینچو اشکوں سے‘ پھر اگلی رُت کی فکر کرو!
پھر اگلی رُت کی فکر کرو‘ جب پھر اِک بار اجڑنا ہے
اک فصل پکی تو بھر پایا‘ تب تک تو یہی کچھ کرنا ہے!!

تقریباً پون صدی پر پھیلی ہوئی اس تاریخ میں اہم ترین اور جامع ترین شخصیت علامہ اقبال کی ہے. ان کے بارے میں جس قدر غور کیا جائے حیرت بڑھتی چلی جاتی ہے کہ ؏ ’’ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی!‘‘ چنانچہ ان کی یہ ’’جامعیت‘‘ حیرت انگیز ہے کہ وہ واحد رہنماہیں جو بیک وقت قومی اور احیائی دونوں محاذوں پر اس درجہ سرگرمِ عمل رہے کہ اگر ایک جانب وہ فکر اسلامی کے ’’مجدد‘‘ ہیں (’’الٰہیات ِاسلامیہ کی تشکیل ِجدید‘‘ ان کے خطبات کا عنوان ہے) تو دوسری جانب تصورِ پاکستان کے ’’خالق‘‘ اور نظریہ پاکستان کے ’’موجد‘‘ بھی ہیں. اسی طرح وہ 
داعی الی القرآن بھی ہیں اور حکیم الاسلام بھی‘ اور اگرچہ ’’دعوت الی القرآن‘‘ کے میدان میں‘ اس کے باوجود کہ اس کا آغاز کرنے والے وہی تھے‘ بعد میں کچھ عرصہ زیادہ گھن گرج مولانا ابو الکلام کی سنائی دیتی رہی تھی … تاہم جہاں تک قرآن کے فلسفہ و حکمت کے بحر عمیق میں غواصی کا تعلق ہے تو اس میدان میں تو وہ بالکل تنہا ہیں اور ان کا کوئی دوسرا شریک یا مثیل ہے ہی نہیں!

مزید برآں جس طرح ڈیڑھ دو صدی قبل شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ علیہ کی نگاہِ دُور رس نے ’’ہند میں سرمایۂ ملت کی نگہبانی‘‘ کے لیے احمد شاہ ابدالی کا انتخاب کیا تھا اور اسے ہندوستان آنے کی دعوت دی تھی‘ صرف اسی طرح نہیں بلکہ اس سے بھی کہیں بڑھ کر حضرت علامہ کی عقابی نگاہ نے ایک جانب لندن میں جا بسنے والے محمد علی جناح کو ’’قومی ناخدا‘‘ کی حیثیت سے معین کیا‘ اور خود انہیں اس پہلو سے ’’خود شناسی‘‘ کا جوہر عطا کیا‘ جبکہ دوسری جانب حیدر آباد (دکن) میں مقیم ابو الاعلیٰ مودودی کو ’’متکلم اسلام‘‘ ہونے کا اہل سمجھا اور انہیں اس خطے میں منتقل ہونے کی دعوت دی جس کے بارے میں ان کی چشم ِ باطن اور نگاہِ دور بین دیکھ چکی تھی کہ وہاں ایک آزاد مسلمان ریاست کا قیام ’’تقدیر الٰہی‘‘ ہے. (۱۹۳۰ء کا خطبہ الٰہ آباد) 
تاہم امام الہند شاہ ولی اللہ دہلویؒ ہی کی طرح علامہ اقبال بھی بنیادی طور پر صرف مفکر اور ’’مصور‘‘ تھے اور عملی جدو جہد کے میدان میں اتر کر جماعت بنانے اور تحریک برپا کرنے کو ان کے مزاج سے کوئی مناسبت نہیں تھی. چنانچہ انہوں نے عملی کام جو بھی تھوڑا بہت کیا وہ صرف قومی محاذ پر کیا (اور وہ بھی ثانوی حیثیت میں!) … احیائی میدان میں عملی طور پر یا خیری برادران اور علامہ مشرقی اترے یا مولانا آزاد اور مولانا مودودی. ان میں سے بھی پہلے تین تو تاریخ کے اوراق اور ماضی کے دھندلکوں میں گم ہو چکے ہیں‘ البتہ مولانا مودودی اس اعتبار سے زندہ ہیں کہ پاکستان اور بھارت ہی نہیں بنگلہ دیش اور کشمیر میں بھی ان کی قائم کردہ جماعت قائم اور موجود ہی نہیں فعال اور متحرک بھی ہے. باقی رہیں ان کی تصانیف اور تالیفات تو ان کا شہرہ تو پورے عالم اسلامی ہی نہیں پوری دنیا میں ہے!

اِس وقت ہمیں اس امر سے بحث نہیں ہے کہ پاکستان یا بھارت میں مولانا مودودی کی قائم کردہ جماعت ؎

کون سی وادی میں ہے‘ کون سی منزل میں ہے
عشق ِبلاخیز کا قافلۂ سخت جاں!

کے مصداق کہاں کہاں سے ہوتی ہوئی اب کس مقام پر ہے بلکہ صرف اس امر واقعی کا تذکرہ مقصود ہے کہ اس عرصے کے دوران جو لوگ اس قافلے سے علیحدہ ہوئے یا خارج کر دیے گئے ان میں سے اکثر تو جمود اور تعطل کا شکار ہو گئے یا صرف علمی یا تعلیمی سرگرمی تک محدود ہو کر رہ گئے. بقیہ میں سے بھی بعض تو وہ ہیں جو اس کے بنیادی انقلابی فکر کو حرزِجاں بنائے ہوئے اپنے فہم اور استعداد کے مطابق عملی جدو جہد میں مصروف و مشغول ہیں‘ جن میں سے ایک ان سطور کا راقم بھی ہے … لیکن بعض وہ بھی ہیں جو اب اس بنیادی انقلابی فکر ہی کو غلط قرار دے رہے ہیں … ان میں سے ایک نمایاں شخص بھارت میں ہیں یعنی مولانا وحید الدین خاں‘ جو بھارت کے سرکاری حلقوں اور بالخصوص بی جے پی اور آر ایس ایس کے منظورِ نظر ہیں‘ اور ایک پاکستان میں ہیں یعنی علامہ جاوید احمد غامدی جن کا خصوصی ہدف اس وقت یہ خاکسار اور اس کے نظریات ہیں.