باب پنجم: صرف وعظ و نصیحت اور تعلیم و تلقین یا کچھ اور بھی؟

منہجِ انقلابِ نبویؐ ‘‘ کی وضاحت کے سلسلہ میں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ایک نظر ان خیالات پر بھی ڈال لی جائے جو ہماری معروضات پر تنقید اور تبصرے کے ضمن میں ایک فاضل مضمون نگار کی اس تحریر میں سامنے آئے ہیں جو ایک قومی روزنامے میں دو اقساط میں شائع ہوئی ہے‘ اس لیے کہ اس میں انہوں نے نہایت اختصار لیکن جامعیت کے ساتھ ایک خاص مکتب فکر کی کامل ترجمانی کر دی ہے جس سے قارئین کے لیے اس کے بارے میں رائے قائم کرنا آسان ہو گیا ہے‘ جس کے لیے ہم ان کے ممنون ہیں. فاضل مضمون نگار اس اعتبار سے بھی ہمارے شکریے کے مستحق ہیں کہ انہوں نے پوری دیانت داری کے ساتھ ایسے بہت سے خیالات و نظریات کی علیحدہ علیحدہ تصویب و تائید کر دی ہے جن کو اگر جمع اور مرتب کر لیا جائے تو ’’منہجِ انقلاب‘‘ کی مکمل تصویر سامنے آجاتی ہے ! فَالْحَمْدُ ﷲِ عَلٰی ذٰلِکَ. 

اس بات میں تو ہرگز کسی اختلاف کی گنجائش نہیں ہے کہ انفرادی سطح پر ایک مسلمان کے دینی فرائض یہی ہیں کہ وہ اپنے عقائد کی تصحیح اور ایمان میں اضافے کے لیے مسلسل کوشاں رہے‘ صوم و صلوٰۃ اور دیگر جملہ فرائض و واجبات پابندی سے ادا کرتا رہے‘ حلال پر اکتفا کرے اور حرام سے اجتناب کرے‘ حتی المقدور اور حسب ِصلاحیت دوسروں کو خیر کی دعوت دیتا رہے‘ نیکیوں کی تلقین کرتا رہے‘ بدی سے روکتا رہے 
وَقِسْ عَلٰی ذٰلک! لیکن اب ذرا ایک نظر اجتماعی نظام اور اس کی اہمیت پر بھی ڈال لینی چاہیے اور حسب ذیل سوالات پر غور کرنا چاہیے:

(۱) کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ عہد ِحاضر کا انسان اجتماعی نظام میں جس طرح جکڑا ہوا ہے‘ پہلے کبھی نہ تھا. چنانچہ موجودہ دور میں جو بھی پولیٹیکو سوشیو اکنامک سسٹم 
(Politico- Socio- Economic System) کسی ملک اور معاشرہ میں قائم ہو اس کا 
ہمہ گیر اور ہمہ جہت جبر ہر انسان کو اپنے چنگل میں پوری طرح جکڑ لیتا ہے؟

(۲) پھر کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ اگر یہ نظامِ اجتماعی‘ جبر و استبداد اور ظلم و استحصال پر مبنی ہو جس سے انسان ایک جانب ’’مُستکبِرین‘‘اور ’’مُستضعَفین‘‘میں اور دوسری جانب ’’مُترِفین‘‘اور ’’محرومِین‘‘ میں تقسیم ہو کر رہ جائیں تو اس صورت میں انفرادی دعوت و تبلیغ اور وعظ و تلقین کا دائرہ بہت محدود‘ اور اثرات تقریباً معدوم ہو کر رہ جاتے ہیں؟ مثلاً کیا شاہ ولی اللہ دہلویؒ کا یہ تجزیہ درست نہیں ہے کہ جس معاشرے میں تقسیم ِدولت کا نظام غلط ہو جائے وہاں ایک جانب دولت کے انبار لگ جاتے ہیں جس سے عیاشیاں اور بدمعاشیاں جنم لیتی ہیں‘ اور دوسری جانب عوام کی عظیم اکثریت ڈھورڈنگر اور بار برداری کے جانور بن کر رہ جاتی ہے اور ان کے لیے کسی اعلیٰ خیال تک رسائی ہی محال ہو جاتی ہے‘ کجا اللہ کی معرفت کا حصول اور اس سے لو لگانے کا معاملہ!

(۳) اگر ان دو سوالات کا جواب اثبات میں ہے‘ تو کیا اس استبدادی اور استحصالی نظام کا خاتمہ ضروری نہیں ہے؟ کیا اس کی جگہ عدل و قسط پر مبنی اور سماجی انصاف کی ضمانت دینے والا نظام قائم کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت نہیں ہے؟ اور کیا کتاب و سنت اس بارے میں بالکل خاموش ہیں؟ کیا سورۃ الحدید کی آیت ۲۵ میں یہ نہیں فرمایا گیا : 

لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا رُسُلَنَا بِالۡبَیِّنٰتِ وَ اَنۡزَلۡنَا مَعَہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡمِیۡزَانَ لِیَقُوۡمَ النَّاسُ بِالۡقِسۡطِ ۚ وَ اَنۡزَلۡنَا الۡحَدِیۡدَ فِیۡہِ بَاۡسٌ شَدِیۡدٌ ّ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَ لِیَعۡلَمَ اللّٰہُ مَنۡ یَّنۡصُرُہٗ وَ رُسُلَہٗ بِالۡغَیۡبِ 

’’ہم نے اپنے رسولوں کو واضح نشانیوں اور تعلیمات کے ساتھ بھیجا‘ اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان (یعنی عدلِ اجتماعی کی ضمانت دینے والی شریعت) نازل کی‘ تاکہ لوگ عدل و انصاف پر قائم ہوں. اور ہم نے لوہا بھی اتارا‘ جس میں جنگ کی شدید صلاحیت ہے‘ اور لوگوں کے لیے دوسرے فائدے بھی ہیں‘ تاکہ اللہ دیکھے کہ کون ہیں وہ (وفا دار بندے) جو غیب کے باوجود اللہ اور اس کے رسولوں کی مدد کرتے ہیں.‘‘

اور کیا سورۃ النساء اور سورۃ المائدہ کی ان آیاتِ مبارکہ میں امر کا صیغہ وارد نہیں ہوا کہ: 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ بِالۡقِسۡطِ شُہَدَآءَ لِلّٰہِ 
(النسائ: ۱۳۵
’’اے اہل ایمان! عدل و قسط کو پوری قوت کے ساتھ قائم کرنے والے اور اللہ کے حق میں گواہی دینے والے بنو! ‘‘

اور 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ لِلّٰہِ شُہَدَآءَ بِالۡقِسۡطِ ۫ (المائدۃ: ۸
’’اے اہل ایمان! اللہ کے لیے پوری طاقت کے ساتھ کھڑے ہو جائو‘ عدل و انصاف کے گواہ بن کر!‘‘ 

اور اگر ان میں امر کا صیغہ ہی استعمال ہوا ہے تو آیا ان سے وجوب ثابت ہوتا ہے یا نہیں؟
(۴) پھر اگر ان سوالات کے جوابات بھی اثبات میں ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسے اہم مقاصد کے لیے طریق کار اور لائحہ عمل کی رہنمائی سے کتاب و سنت خالی ہیں؟ کیا اسوۂ رسول صرف داڑھی کے طول اور پائجاموں کی اونچائی ہی سے متعلق ہے یا اس اہم انسانی اور دینی فریضے کے ضمن میں بھی رہنمائی کرتا ہے؟ یقینا کسی مسلمان کا خیال یہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ سنت اور اسوۂ رسول  صرف 
ظاہری وضع قطع تک محدود ہیں ‘اور اگر خدا نخواستہ ہو تو اس کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ ؎

تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
ورنہ گلشن میں علاجِ تنگی ٔداماں بھی ہے!

(۵) پھر کیا یہ واقعہ نہیں کہ رسول اللہ  نے بالفعل یہ کارنامہ سر انجام دیا کہ انسانوں کے مابین اونچ نیچ‘ جبر و استبداد اور ظلم و استحصال کی جڑ کاٹ کر رکھ دی اور ’’دین الحق‘‘ یعنی نظامِ عدل و قسط کو قائم کر کے دکھا دیا؟ اگر یہ حقیقت ِواقعی کسی مسلمان کو نظر نہ آئے تو سوائے ماتم کے اور کیا کیا جا سکتا ہے کہ ؏ ’’جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے‘ باغ تو سارا جانے ہے!‘‘ اس لیے کہ اغیار اور اعداء سمیت پوری دنیا تو اس عظیم حقیقت کا برملا اعتراف کرتی ہے!

اب اگر یہ ساری باتیں صحیح ہیں‘ تو ہمارا ’’دعویٰ‘‘ صرف یہ ہے کہ سیرت النبی  ہی اس عظیم انقلاب کے طریق کار اور لائحہ عمل کا واحد منبع اور سر چشمہ ہے‘ لہٰذا ہم اس کی جانب رجوع اس مجبوری کے تحت کر رہے ہیں کہ ؎

جز دار اگر کوئی مفر ہو تو بتاؤ
ناچار گنہگار سوئے دار چلے ہیں!

تاہم اگر کسی کے پاس کوئی متبادل لائحہ عمل ہو تو لائے اور پیش کرے ؏ ’’آئے یہ گوئے ہے‘ اور یہ چوگان!‘‘ … ہمیں تو علیٰ وجہ البصیرت معلوم ہے کہ ’’جا ایں جاست‘‘ … اور ؎

بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر باو نہ رسیدی تمام بولہبی است!

کے مطابق سیرت النبیؐ کے راستے کے سوا سارے راستے کسی نہ کسی دوسری منزل کی جانب لے جانے والے ہیں‘ اللہ کے عطا کردہ نظامِ عدل و قسط کے قیام کی جانب نہیں!
ترسم کہ بہ کعبہ نہ رسی اے اعرابی
کیں راہ کہ تو می روی بہ ترکستان است!

ہاں اس کے ہم بھی یقینا قائل ہیں کہ بدلے ہوئے حالات کے مطابق جہاں جہاں ضرورت ہو اجتہاد سے کام لیا جانا چاہیے. اس ضمن میں فاضل مضمون نگار نے تو صرف ایک فرق کی جانب توجہ دلائی ہے کہ آنحضور  نے کام کفار میں کیا تھا‘ اب ہمیں مسلمانوں میں کرنا ہے ‘جبکہ ہمارے سامنے تو دو امور اور بھی ہیں‘ یعنی ایک یہ کہ آنحضور  کے زمانے میں عرب میں کوئی منظم حکومت قائم نہیں تھی اور مسلح تصادم کے آغاز کے وقت بھی اسلام اور کفر کی طاقت میں نسبت تناسب (تعداد اور اسلحہ کے فرق دونوں کے مجموعی اعتبار سے) ایک اور دس سے زیادہ کا نہیں تھا جب کہ آج جو پولیٹیکو سوشیو اکنامک سسٹم قائم ہیں ان کی پشت پر بے پناہ قوتوں سے مسلح مقامی حکومتیں ہی نہیں عظیم عالمی قوتیں بھی ہیں ‘جن کے ساتھ عوام کے مسلح تصادم کا معاملہ تقریباً محال کے درجہ میں آ چکا ہے … دوسرے یہ کہ آج بحمد ِاللہ شہریوں کے بنیادی حقوق کا تصور موجود ہے جو اُس وقت نہیں تھا. چنانچہ مسلح تصادم سے کم تر ذرائع سے بھی ’’انقلاب‘‘ برپا کیا جا سکتا ہے. لیکن ان امور کے ضمن میں ہمارا موقف یہ ہے کہ ’’منہجِ انقلابِ نبویؐ ‘‘ کو اصل اور بنیاد قرار دے کر معین طور پر طے کرنا ہو گا کہ کس ضرورت کے تحت اس میں کس مقام پر کیا اجتہادی تبدیلی ضروری یا مناسب ہے! یہ طرز عمل قطعاً غلط ہو گا کہ ان تین امور کی اساس پر نبویؐ طریق کو سرے سے ترک کر کے پورا نقشہ کار اپنے ذہن و فکر اور اپنی ترجیحات کی بنیاد پر وضع کر دیا جائے. 

الحمد للہ 
کہ فاضل مضمون نگار نے بعض باتیں بہت صحیح اور بالکل درست فرمائی ہیں. اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کو جمع کر لیا جائے اور ان کے درمیان حکیمانہ تالیف و تدوین کی صورت پیدا کر دی جائے. مثلاً:

(۱) ایک یہی بات کہ ’’سیاسی اور تمدنی ارتقاء کے حوالے سے مغرب نے ایسے 
تجربے ضرور کیے ہیں جو اسلامی اصولوں کے خلاف نہیں!‘‘ ہمارے نزدیک یہ بات اس اعتبار سے بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ مغرب کے ان تجربات ہی کے ذریعے ’’انسانی حقوق‘‘ کا وہ تصور دنیا میں دوبارہ پیدا ہوا جو مسلمانوں میں ملوکیت کے رواج کے بعد دنیا سے ناپید ہو گیا تھا‘ جس کا حوالہ ہم اوپر دے آئے ہیں. لیکن سوال یہ ہے کہ ان تجربات کے لیے مغرب والوں نے کوئی جدو جہد کی تھی یا نہیں‘ اور اپنا خون بھی دیا تھا یا نہیں؟ یہ انسانی سعی و ُجہد اور ایثار و قربانی کے ذریعے ہوئے تھے یا خود بخود آسمان سے ٹپک پڑے تھے؟ اور کیا یہ فرائض اب بھی صرف مغرب ہی کے لیے ہیں اور ہمارے لیے ’’فقط اللہ ہو‘ اللہ ہو‘ اللہ ہو‘‘ ہی ہے؟ بَیِّنُوا تُؤجرُوا ! 

(۲) اسی طرح یہ بات بھی نظری طور پر تو صد فی صد درست ہے کہ ’’اگر کسی ملک کے عوام کی اکثریت اسلامی تحریک کی پشت پر ہو تو بلٹ کی بجائے یہ انقلاب بیلٹ کے ذریعے بھی آ سکتا ہے اور جلسے جلوسوں‘ مظاہروں اور سول نا فرمانی کے ذریعے بھی آ سکتا ہے جو آج کے سیاسی منظر میں قابل قبول ہے!‘‘ لیکن واقعی اعتبار سے اس لیے مغالطہ آمیز ہے کہ عوام کی اکثریت کبھی نہیں بدلا کرتی بلکہ ہمیشہ ’’خاموش اکثریت‘‘ 
(silent majority) کی صورت اختیار کیے رہتی ہے اور انقلاب ہمیشہ ایک منظم اور تن‘ من‘ دھن قربان کرنے والی اقلیت کے ذریعے آتا ہے. یہی وجہ ہے کہ انتخابات کے ذریعے کوئی انقلاب یعنی پولیٹیکو سوشیو اکنامک سسٹم میں کوئی اساسی تبدیلی نہیں لائی جا سکتی‘ اس لیے کہ انتخابات میں ’’تعداد‘‘ ہی فیصلہ کن ہوتی ہے… لہٰذا واحد ممکن راستہ دوسرا ہی رہ جاتا ہے‘ یعنی مظاہروں اور سول نا فرمانی کا ‘جس کے کم از کم ’’جواز‘‘ بلکہ غالباً استحباب کا فتویٰ خود فاضل مضمون نگار نے صادر فرما دیا ہے. فجزا اﷲ احسن الجزائ. 

(۳) اسی طرح یہ بات بھی صد فی صد درست ہے کہ ’’جمہور فقہاء نے ایک غیر معیاری مسلم حکومت کے خلاف صرف اس صورت میں خروج (مسلح تصادم) اور مزاحمت کی اجازت دی ہے جب خروج کے لیے اٹھنے والوں کے پاس اتنی سیاسی اور 
عسکری طاقت موجود ہو کہ ان کے غلبے کے امکانات غالب ہوں اور پھر ان میں اتنی صلاحیت نمایاں طور پر نظر آتی ہو کہ وہ غیر صالح نظام کو اکھاڑ کر اس کی جگہ ایک نیا صالح نظام قائم کر سکیں!‘‘ لیکن سوال یہ ہے کہ سیاسی اور عسکری قوت کیا از خود آسمان سے نازل ہو جائے گی یا انسانی کوشش کے ذریعے فراہم کی جائے گی اور اسی طرح مطلوبہ صلاحیت بھی آنِ واحد میں پیدا ہو جائے گی یا اس کے لیے بھی پیہم جدو جہد لازمی ہو گی اور کوئی نظامِ تعلیم و تزکیہ مرتب کرنا پڑے گا؟ اگر جواب یہ ہے کہ یہ سب کچھ کوشش اور جدو جہد کے ذریعے ہی حاصل ہو سکتا ہے تو یہی تو سیرتِ نبویؐ سے ماخوذ طریق انقلاب کے ابتدائی تین مراحل ہیں‘ یعنی (i)دعوت و تبلیغ کے ذریعے انسانوں کی افرادی قوت کی فراہمی (ii)تنظیم کے ذریعے انہیں ایک اجتماعی طاقت اور ’’بنیانِ مرصوص‘‘ بنانا (iii)تعلیم وتزکیہ کے ذریعے ان میں مطلوبہ صلاحیت پیدا کرنا! … ہم تو مسلح تصادم کو بحالاتِ موجودہ تقریباً خارج از امکان سمجھتے ہیں‘ مظاہروں اور سول نا فرمانی کے آغاز سے قبل بھی ان تین مراحل کے مؤثر حد تک پورے ہو جانے کے شدت کے ساتھ قائل ہیں! تو پھر اختلاف ہے کہاں؟

گویا بات وہی ہے جو ہم عرض کر چکے ہیں کہ فاضل مضمون نگار علیحدہ علیحدہ طور پر ہماری ہر بات کی تصویب کر رہے ہیں‘ البتہ ان کو جمع کر کے ایک وحدت کی صورت دینے سے جو معاملہ سامنے آتا ہے اس سے کنی ّکترانا چاہتے ہیں. ہم ان کے ممنون ہیں کہ انہوں نے ہماری رائے کی نہایت صحیح اور جامع تعبیر فرمائی‘ یعنی ’’ڈاکٹر صاحب کے فلسفہ ٔ انقلاب کی تلخیص یہ ہے کہ یہ سادہ تبلیغ سے شروع ہو کر تنظیم و تربیت اور کشمکش و مزاحمت کے مراحل سے گزرتا ہوا تخت یا تختہ کی جنگ پر منتج ہوتا ہے ‘جس میں یا تو انقلابی گروہ کامیاب ہو کر اسلامی انقلاب برپا کر دیتا ہے یا ناکام ہو کر مظلومانہ شہید ہو جاتا ہے لیکن اللہ کی راہ میں سر خرو ہو جاتا ہے‘‘ … لیکن حیرانی اس بات پر ہے کہ انہوں نے اسے غلط قرار دے کر‘ پھر اس کے ایک ایک جزو کی تصویب بھی فرما دی ہے! اسی طرح یہ بات بھی سمجھ میں نہیں آتی کہ وہ ’’تخت یا تختہ‘‘ سے اس قدر الرجک 
کیوں ہیں جب کہ یہ تو عام محاورہ ہے کہ ’’یا تختہ جگہ آزادی کی‘ یا تخت مقام آزادی کا!‘‘ پھر خود انہوں نے ایران کے انقلاب کی بھی تصویب کی ہے‘ تو کیا وہاں تخت یا تختہ کا معاملہ نہیں تھا اور کیا جناب آیت اللہ خمینی کامیابی کی صورت میں ’’تخت ِحکومت‘‘ پر متمکن نہیں ہو گئے تھے‘ اور اگر وہ ناکام ہو جاتے تو کیا پھانسی کے تختے کے سوا ان کا کوئی اور مقام ہوتا؟ … پھر وہ تاریخ اسلام کے صدرِ اوّل کے واقعات و حوادث میں سے حسینؓ بن علیؓ اور عبد اللہ بن زبیرؓ (رضی اللہ عنہم اجمعین) کی مساعی کو بھی‘بحمد ِاللہ‘ بنظر استحسان دیکھتے ہیں تو کیا وہاں تخت یا تختہ والا معاملہ نہیں ہوا؟ … اب ذرا ایک قدم مزید پیچھے چلے جائیں اور ۱۶ اور ۱۷؍ رمضان المبارک ۲ ھ کی درمیانی شب کی کیفیت پر غور کریں جب فخر موجودات و سید البشر محمد رسول اللہ  زندگی کے طویل ترین سجدے میں دعا کر رہے تھے کہ: اے اللہ! اگر کل یہ مٹھی بھر مسلمان‘جو میری پندرہ برس کی کمائی ہیں‘ سب قتل ہو گئے تو پھر قیامت تک تجھے پوجنے والا کوئی نہیں ہو گا!… تو کیا اُس وقت معاملہ تخت یا تختہ کا نہیں تھا؟ بَیِّنُوا تُؤجَرُوا! 

حاصل ِکلام یہ کہ ’’منہجِ انقلابِ نبویؐ ‘‘ کا ایک ایک جزو اپنی جگہ اتنا حتمی و قطعی‘ واضح و بین اور ظاہر و باہر ہے کہ ہر مسلمان خواہی نخواہی اسے جانتا بھی ہے اور مانتا بھی‘ حتیٰ کہ جو لوگ اس کی نفی کے لیے قلم اٹھاتے ہیں وہ بھی مجبوراً اس کی تائید ہی کرتے ہیں‘ لیکن اصل معاملہ وہ ہوا ہے کہ ؎

اڑائے کچھ ورق لالے نے‘ کچھ نرگس نے‘ کچھ گل نے
چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری!

کے مصداق اس کُل کے اجزاء منتشر ہو گئے ہیں‘ اور اب ضرورت صرف ان کی تالیف اور تدوین کی ہے تاکہ وہ ایک وحدتِ کبریٰ اور حیاتیاتی اکائی کی حیثیت سے ابھر اور نکھر کر نگاہوں کے سامنے جلوہ گر ہو جائے‘ جس سے ان شاء اللہ بہت سے ایسے مخلص لوگوں کی آنکھیں کھل جائیں گی جو اس وقت غلط فہمی میں اِدھر اُدھر کی پگڈنڈیوں میں بھٹک رہے ہیں… 
وما توفیقی الا باللّٰہ!