ہجرت کے موقع پر یا فتح ِمکہ ّکے بعد؟ 

اسلام کا وہ اصل انقلابی فکر کیا ہے جس نے اب سے چودہ سو سال قبل ریگزارِ عرب میں اس انقلاب کو جنم دیا تھا جسے پوری دنیا نے تاریخ انسانی کا عظیم ترین‘ جامع ترین اور صالح ترین انقلاب تسلیم کیا ہے‘ اور جس کے نتیجے میں ’’خلافت ِراشدہ‘‘ کی صورت میں وہ نظامِ عدلِ اجتماعی‘ خواہ تھوڑی مدت ہی کے لیے سہی‘ لیکن بالفعل قائم ہو گیا تھا جس میں انسانی حریت‘ اخوت اور مساوات کی جملہ اعلیٰ اقدار کو نہایت صحیح اور موزوں نسبت و تناسب اور توازن و اعتدال کے ساتھ سمو دیا گیا تھا‘ اور جس کی یاد اب نوعِ انسانی کے اجتماعی حافظے میں ایک حسین خواب کے مانند محفوظ ہے؟ پھر خلافت ِراشدہ کے اختتام پر‘ جب مسلمانوں کا نظام حکومت تدریجاً پہلے مجرد ’’خلافت‘‘ اور اس کے بعد با ضابطہ ’’ملوکیت‘‘ میں تبدیل ہو گیا تو اس سے دین و دنیا اور مذہب و سیاست میں جو علیحدگی ہوئی اس سے مسلمانوں کے دینی فکر اور مذہبی تصورات میں کیا تنزل رونما ہوا جو مغربی استعمار کے دو سو سالہ دور میں اپنی منطقی انتہا کو پہنچ گیا؟

پھر بیسویں صدی عیسوی کے آغاز میں اسلام کے انقلابی فکر کا تدریجی احیاء کن عظیم شخصیتوں کے ہاتھوں ہوا؟ بالخصوص برعظیم پاک و ہند میں اس ضمن میں پہلے علامہ اقبال نے اپنی پُر شکوہ اور جذبہ پرور شاعری اور پھر مولانا مودودی نے اپنی سلیس‘ عام فہم اور دلنشین نثر کے ذریعے کیا کردار ادا کیا؟ پھر جماعت اسلامی میں کچھ عرصہ فعال اور سرگرم رہنے اور اس فکر کے پُر جوش مبلغ اور پرچارک رہنے کے بعد جب بھارت اور پاکستان میں کچھ لوگ جماعت سے از خود علیحدہ ہو گئے یا اس سے ’’خارج‘‘ کر دیے گئے تو وہ اس فکر کو کس طرح مسخ اور مجروح کر کے اس کے رُخ کو دوبارہ دورِ انحطاط کی جانب موڑنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ یہ موضوع نہایت اہم ہونے کے ساتھ طوالت طلب بھی ہے … تاہم سر دست صرف اس تحریر کے بارے میں کچھ گزارشات پیش کرنی مقصود ہیں جو اولاً ایک قومی روزنامے میں چار اقساط میں اور پھر ایک دوسرے روزنامے میں یکمشت لیکن کسی قدر فرق کے ساتھ شائع ہوئی ہے. اس ضمن میں پہلے تین باتیں تمہیدی نوعیت کی ہیں‘ اور پھر تین ہی باتیں اصل بحث کے متعلق.

تمہیدی باتوں میں اولین یہ کہ میں ایک دوسرے صاحب ِقلم کی طرح جن کے فرمودات پر اس سے قبل تبصرہ کیا جا چکا ہے‘ اس مقالے کے فاضل مقالہ نگار کا بھی ممنون ہوں کہ انہوں نے بھی اس منہج انقلاب کی تعبیر (دو غلطیوں کے سوا) بہت حد تک صحیح کی ہے جو میں نے سیرت النبی  سے اخذ کیا ہے. اس سے امید ہوتی ہے کہ ؎

دیکھا کیے وہ مست نگاہوں سے بار بار
جب تک شراب آئی‘ کئی دور چل گئے!

کے مصداق میری اپنی تحریر کے مکمل ہونے سے پہلے اگر اس کے خلاصے کی اس طرح ’’گردان‘‘ ہوتی رہی تو ان شاء اللہ کم از کم قارئین کو تو وہ ازبر ہو جائے گا. 
فجزاھما اللّٰہ احسن الجزاء ! 

دوسری بات یہ کہ میں اس امر پر تعجب کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ان حضرات کو اس معاملے میں اس قدر عجلت کیوں ہے کہ میری بات پوری ہونے سے پہلے ہی اس کی تردید پر کمربستہ ہو گئے ہیں. کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ ذرا توقف کر لیا جائے اور میری بات کو مکمل ہو لینے دیا جائے. اس سے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بعض غلط فہمیوں کا ازالہ 
ہو جائے. بصورت دیگر تنقید زیادہ جامع بھی ہو گی اور جاندار بھی. تاہم اس کے فیصلے کا اختیار ان ہی کے ہاتھ ہے!

تیسری بات متذکرہ بالا دو غلطیوں سے متعلق ہے… یعنی ایک یہ کہ میں نے انقلابی جدو جہد کے جن چھ مراحل کا استنباط سیرت النبی  سے کیا ہے ان میں کبھی ’’ہجرت‘‘ کو مستقل مرحلے کی حیثیت سے شمار نہیں کیا. اس سے قبل پہلے فاضل مضمون نگار نے بھی ہجرت کا تذکرہ کیا تھا لیکن چونکہ اس میں حوالہ مولانا امین احسن اصلاحی کی معرکۃ الآراء تصنیف ’’دعوتِ دین اور اس کا طریق کار‘‘ کا تھا اس لیے میں نے سکوت اختیار کیا تھا. اس لیے کہ میں اس کتاب کی علمی قدر و قیمت اور صحت ِاستدلال کا تہہ دل سے قائل ہوں‘ تاہم اب چونکہ بات بلا حوالہ آئی ہے تو عرض ہے کہ اگرچہ میرے نزدیک آنحضور  کی انقلابی جدو جہد کے چوتھے مرحلے یعنی صبر محض یا عدم انتقام کے دور سے نکل کر پانچویں مرحلے یعنی اقدام‘ چیلنج اور جوابی کارروائی کے دور میں داخلے کے ضمن میں ہجرت مدینہ کو فیصلہ کن دخل حاصل ہے‘ اور اب بھی اگر حالات تقاضا کریں اور بالفعل کوئی ’’دار الہجرت‘‘ موجود بھی ہو تو یہ راستہ اختیار کیا جا سکتا ہے (جیسے کہ حال ہی میں جہادِ افغانستان کے سلسلہ میں ہوا!) تاہم تمدنی ارتقاء کے نتیجے میں جس طرح مسلح تصادم لازم نہیں رہا بلکہ احتجاجی تحریک اور ترکِ موالات کے ذریعے بھی انقلاب کا آخری مرحلہ سر کیا جا سکتا ہے اسی طرح ’’ہجرت‘‘ کا مرحلہ بھی لازمی نہیں رہا. ہاں ایک ہجرت لازمی ہے‘ یعنی وہ جس کی وضاحت نبی اکرم  نے اس سوال کے جواب میں فرمائی تھی کہ ’’یا رسول اللہ! سب سے افضل ہجرت کون سی ہے؟‘‘ تو آپؐ نے جواباً ارشاد فرمایا تھا: ’’اَنْ تَھْجُرَ مَا کَرِہَ رَبُّکَ‘‘ یعنی ’’تم ہر اس چیز یا عمل کو ترک کر دو جو تمہارے رب کو نا پسند ہے!‘‘ (نسائی ؒ ‘ عن عبد اللہ بن عمرو بن العاصi) . تاہم اس ہجرت کا تعلق انقلابی جدو جہد کے تیسرے مرحلے یعنی ’’تربیت‘‘ سے ہے. 

اسی طرح ’’خاموش اکثریت‘‘ کے بارے میں بھی میرے موقف کی تعبیر صحیح طور 
پرنہیں کی گئی. میرے نزدیک ’’خاموش اکثریت‘‘ خاموش تو ہوتی ہے‘ اندھی بہری نہیں ہوتی‘ اور جب وہ انقلاب کے داعیوں اور کارکنوں کی سیرت و کردار اور قربانی و ایثار‘ اور ان پر ہونے والے ظلم و تشدد کا مشاہدہ کرتی ہے تو اس کی ہمدردیاں رفتہ رفتہ ان کے ساتھ ہوتی چلی جاتی ہیں اور آخری تصادم کے مرحلے میں یہ تبدیلی فیصلہ کن ثابت ہوتی ہے. 

اصل بحث کی طرف آیئے تو اس کے ضمن میں اہم ترین معاملہ ایک ’’مغالطہ‘‘ کا ہے (جس کے بارے میں نہیں کہا جا سکتا کہ وہ مقالہ نگار کو کسی غلط فہمی کے باعث لاحق ہو گیا ہے یا وہ ضدم ضدا کے باعث اسے جان بوجھ کر دوسروں کو لاحق کرنے کی کوشش کر رہے ہیں) اور وہ یہ کہ ہجرت کے فوراً بعد بلکہ اس سے بھی قبل مدینہ منورہ میں انقلاب کی تکمیل ہو چکی تھی اور وہاں صرف ’’دعوت‘‘ کے نتیجے میں ایک اسلامی حکومت یا ریاست قائم ہو چکی تھی. گویا اس کے بعد کے مراحل انقلاب کی توسیع کے ہیں‘ نفس ِانقلاب کے نہیں! جبکہ میرا موقف یہ ہے کہ ہجرت کے بعد اگرچہ مدینہ منورہ میں مسلمانوں کو 
’’دارالامن‘‘ میسر آ گیا تھا جسے ’’دار السلام‘‘ بھی قرار دیا جا سکتا ہے‘ اور مجاز یا استعارہ کے طور پر اسلامی حکومت یا ریاست سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے (جیسے کہ بعض دوسرے مصنفین کی طرح بعض مواقع پر خود میں نے کیا ہے)‘ لیکن یہ بات بادنیٰ تامل سمجھ میں آسکتی ہے کہ حکومت اور ریاست کی اصطلاح سے جو چیز آج کی دنیا میں معروف ہے وہ جزیرہ نمائے عرب میں فتح مکہ کے بعد قائم ہوئی تھی. اس سے قبل مسلمانوں کی اصل حیثیت ایک انقلابی جماعت کی تھی اور نبی اکرم  کی بنیادی حیثیت تو یہ تھی کہ آپؐ اللہ کے نبی اور رسول تھے اور دوسری یہ کہ آپؐ مسلمانوں کی اس جماعت کے امیر اور امام تھے!
حکومت اور جماعت کے مابین بنیادی فرق یہ ہوتا ہے کہ جماعت کی کوئی علاقائی عملداری 
(territorial jurisdiction) نہیں ہوتی اور اس میں شرکت و شمولیت بھی اختیاری (voluntary) ہوتی ہے. یہی وجہ ہے کہ علیحدگی کا اختیار بھی ہر دم حاصل رہتا ہے. پھر اس میں کام بھی رضا کارانہ کیا جاتا ہے اور کارکنوں سے زیادہ تندہی سے کام کرانے کے لیے صرف ترغیب و تشویق سے کام لیا جاتا ہے‘ یا زیادہ سے زیادہ جماعت سے اخراج کی وعید سنائی جا سکتی ہے‘ کوئی عملی سزا نہیں دی جا سکتی… جبکہ حکومت کی ایک علاقائی عملداری ہوتی ہے‘ اور اس علاقے میں رہنے والے سب لوگ اس میں لا محالہ شامل ہوتے ہیں اور انہیں اس کے احکام کی اطاعت مجبوراً کرنی پڑتی ہے اور اس علاقے سے نکلے بغیر اس کے احکام سے سرتابی جرم یا بغاوت کے ہم معنیٰ قرار پاتی ہے جس کی سزا لازمی ہوتی ہے. 

اس اصولی فرق و تفاوت کو سامنے رکھتے ہوئے اب فتح مکہ سے قبل اور اس کے بعد کے حالات پر نظر ڈالیے تو یہ فرق صاف نظر آتا ہے کہ شوال ۳ ھ میں غزوۂ اُحد کے موقع پر ’’مسلمانوں‘‘ کی جماعت میں سے ایک تہائی تعداد میدانِ جنگ سے واپس ہو گئی لیکن اس پر نہ کسی باز پرس کا ذکر سیرتِ مطہرہ میں ملتا ہے نہ سزا یا عقوبت کا! (حالانکہ ظاہر ہے کہ یہ معاملہ کسی ’’حکومت‘‘ میں ہو تو کورٹ مارشل اور سخت ترین سزا لازم ہے!) اسی طرح ۶ھ میں عمرہ کے لیے چلنے کے لیے نفیر عام تھی‘ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ نہیں گئے ان پر سورۃ الفتح میں شدید تنقید تو کی گئی اور زجر و توبیخ سے بھی کام لیا گیا‘ لیکن معلوم ہے کہ اس پر نہ کسی معین شخص کا کوئی محاسبہ کیا گیا نہ سزا دی گئی … جبکہ اس کے برعکس غزوۂ تبوک کے موقع پر جو لوگ بغیر پیشگی اجازت حاصل کیے عملاً شریک نہ ہوئے ان کا محاسبہ بھی ہوا‘ اور صرف ان منافقین سے اعراض کرتے ہوئے جنہوں نے جھوٹی قسموں کو ڈھال بنا کر اپنے آپ کو بچا لیا‘ جن مخلص مسلمانوں نے قصور کا اعتراف کیا انہیں بالفعل سزا دی گئی‘ اور منافقوں کے خلاف بھی اگرچہ فرداً فرداً تو کوئی اقدام نہیں کیا گیا لیکن ان کے مسجد نما مرکز (مسجد ضِرار) کو مسمار کر دیا گیا. 

مزید برآں غور کیجیے کہ کیا کوئی ’’حکومت‘‘ ایسی بھی ہو سکتی ہے جس کے شہریوں کو یہ اختیار حاصل ہو کہ چاہیں تو اپنے مقدمات حکومت کی قائم کردہ عدالتوں سے طے کرائیں اور چاہیں تو کہیں اور لے جائیں. اور کیا کسی حکومت کے لیے جائز ہے کہ 
اپنے شہریوں کے مقدمات کا فیصلہ کرنے اور ان کے جھگڑوں کو چکانے سے احتراز کرے… جبکہ واقعہ یہ ہے کہ فتح مکہ سے قبل تک مدینہ منورہ میں بالفعل یہ بھی ہوتا تھا کہ اوس اور خزرج کے منافق اپنے مقدمات نبی اکرم  کی بجائے یہود کی عدالتوں میں لے جاتے تھے اور خود آنحضور کو بھی اجازت تھی کہ آپؐ چاہیں تو ان کے مقدموں اور جھگڑوں کا فیصلہ کریں اور چاہیں تو انکار کر دیں. (۱

یہ سب کچھ اس لیے تھا کہ ہجرت کے بعد بھی کم از کم فتح مکہ تک ابھی انقلابی جدوجہد کا سلسلہ جاری تھا‘ اور مسلمانوں کی حیثیت ایک انقلابی جماعت کی تھی. یہی وجہ ہے کہ سورۃ البقرۃ اور سورۂ آل عمران میں تو ان کے لیے ’’امت‘‘ یعنی ہم مقصد لوگوں کا لفظ استعمال ہوا ہے اور سورۃ المائدہ اور سورۃ المجادلہ میں 
’’حزبُ اللہ‘‘ یعنی اللہ کی پارٹی یا جماعت کا! حکومت یا ریاست کا لفظ تو خیر پورے قرآن میں کہیں آیا ہی نہیں‘ اس کے مترادف الفاظ بھی کہیں استعمال نہیں کیے گئے … اس لیے کہ با ضابطہ ’’حکومت‘‘ قائم ہی اُس وقت ہوئی تھی جب وحی کی ’’تنزیل‘‘ اختتام کو پہنچ رہی تھی. واقعہ یہ ہے کہ حکومت و ریاست اور کسی باقاعدہ اور با ضابطہ نظام کا بالفعل ظہور تو در اصل ’’خلافت راشدہ‘‘ کے دوران ہوا ہے!

مزید غور کرنے سے صاف نظر آتا ہے کہ ہجرت کے بعد بھی کئی سال تک مسلمانوں کی ’’جماعت‘‘ میں یہ درجہ بندی برقرار رہی کہ عہد حاضر کی اصطلاح کے 
(۱) سَمّٰعُوۡنَ لِلۡکَذِبِ اَکّٰلُوۡنَ لِلسُّحۡتِ ؕ فَاِنۡ جَآءُوۡکَ فَاحۡکُمۡ بَیۡنَہُمۡ اَوۡ اَعۡرِضۡ عَنۡہُمۡ ۚ وَ اِنۡ تُعۡرِضۡ عَنۡہُمۡ فَلَنۡ یَّضُرُّوۡکَ شَیۡئًا ؕ وَ اِنۡ حَکَمۡتَ فَاحۡکُمۡ بَیۡنَہُمۡ بِالۡقِسۡطِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُقۡسِطِیۡنَ ﴿۴۲﴾ (المائدہ) 

’’(یہ یہودی) جاسوسی کرنے والے ہیں جھوٹ بولنے کے لیے اور بڑے حرام کھانے والے ہیں. سو اگر یہ آپؐ کے پاس (اپنے مقدمات لے کر) آئیں تو (آپؐ کو اختیار ہے کہ) خواہ آپؐ ان کے مابین فیصلہ کر دیں یا ان سے منہ پھیر لیں. اور اگر آپؐ ان سے منہ پھیر لیں گے تو یہ آپؐ کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے. اور اگر آپؐ فیصلہ کریں تو پھر ان کے مابین انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیجئے. یقینا اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے.‘‘ 
مطابق اصل ’’ارکانِ جماعت‘‘ تو صرف وہ مہاجرین مکہ تھے ( رضوان اللہ علیہم اجمعین) جو مکہ مکرمہ میں نبی اکرم  کی تعلیم اور تربیت و تزکیہ سے بھی بھر پور طور پر فیض یاب ہو چکے تھے‘ اور نہ صرف یہ کہ وہاں شدید مصیبتوں اور آزمائشوں کی بھٹیوں میں سے گزر کر کندن بن چکے تھے بلکہ گھر بار اور اہل و عیال کو کفارِ مکہ کے رحم و کرم پر چھوڑ کر مدینہ ہجرت کر کے اپنے ایمان و یقین اور خلوص و اخلاص کا آخری ثبوت بھی فراہم کر چکے تھے … جبکہ انصارِ مدینہ کی اصل حیثیت ’’معاونین‘‘ اور ’’پناہ دینے والوں‘‘ کی تھی.

یہی وجہ ہے کہ غزوۂ بدر سے قبل کی آٹھ مہموں میں‘ جن میں سے بعض سرایا تھے اور بعض غزوات (اس لیے کہ ان میں خود آنحضور  نے بھی بنفس ِنفیس شرکت فرمائی تھی) صرف مہاجرین کو شریک کیا گیا تھا اور کسی انصاری کو شامل نہیں کیا گیا … یہاں تک کہ غزوۂ بدر سے قبل کی مشاورت میں بھی جبکہ آنحضور  کو وحی الٰہی نے مطلع فرما دیا تھا کہ ایک لشکر ِجرار مکہ سے روانہ ہو چکا ہے‘ آپؐ نے انصارِ مدینہ کو مہم میں شرکت کا ’’حکم‘‘ نہیں دیا بلکہ مشورہ طلبی کے جواب میں مہاجرینؓ کی جاں نثارانہ اور سر فروشانہ تقاریر کے باوجود مزید توقف فرما کر صرف اپنا عندیہ ظاہر کیا تھا ‘جس پر رئیس انصار حضرت سعد بن عبادہi بول اٹھے کہ: ’’یا رسول اللہ! غالباً آپؐ کا روئے سخن ہماری جانب ہے!‘‘ اس کے بعد بھی انہوں نے حوالہ ’’بیعت ِسمع و طاعت‘‘ کا نہیں دیا (اس لیے بھی کہ آنحضور  نے کوئی حکم تو دیا ہی نہیں تھا کہ اطاعت کا سوال پیدا ہوتا اور اس لیے بھی کہ بیعت ِعقبہ کے موقع پر طے یہ ہوا تھا کہ اگر مدینہ پر حملہ ہوا تو ہم آپ کی حفاظت بالکل اسی طرح کریں گے جیسی اپنے اہل و عیال کی کرتے ہیں اور یہاں ابھی مدینہ پر حملہ کی صورت پیش نہیں آئی تھی!) بلکہ یہ عرض کیا کہ ’’ہم آپؐ پر ایمان لا چکے ہیں اور ہم نے آپؐ کی تصدیق کی ہے!‘‘ … تو غور فرمایئے کہ یہ ساری صورت ’’رضا کارانہ‘‘ تعاون کی ہے یا حکومت کے فوجی ڈسپلن کی جس میں فوج کے لیے رضا کارانہ بھرتی ہوتی ہے تب بھی سب شہریوں میں سے یکساں طور پر‘ اور اگر جبری خدمت لی جاتی ہے تب بھی سب سے برابری کے ساتھ… لہٰذا اگر وہاں معاملہ ’’انقلاب‘‘ کی تکمیل اور اسلامی حکومت کے قیام کے بعد انقلاب کی توسیع کا ہوتا تو کسی بھی مرحلے پر مہاجرین اور انصار کے مابین کوئی فرق ہرگز روا نہ رکھا جاتا.

اس سلسلے میں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ غزوۂ بدر کے بعد سورۃ الانفال نازل ہوئی تو اس میں بھی مسلمانوں کی جماعت کے ان دونوں حصوں کے لیے جدا جدا الفاظ استعمال ہوئے ‘یعنی مہاجرین کے لیے 
وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ ہَاجَرُوۡا وَ جٰہَدُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ (الانفال:۷۴’’یقینا وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا‘‘ … اور انصارِ مدینہ کے لیے صرف یہ کہ وَ الَّذِیۡنَ اٰوَوۡا وَّ نَصَرُوۡۤا ’’اور وہ جنہوں نے پناہ دی اور مدد کی!‘‘ البتہ فتح مکہ کے بعد جب معاملہ ’’حکومت‘‘ کی صورت اختیار کر گیا اور سب اس کے یکساں شہری بن گئے تو سورۃ التوبہ میں مہاجرین اور انصار کو ان الفاظ میں یکجا اور یکساں کر دیا گیا کہ: 

وَ السّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الۡمُہٰجِرِیۡنَ وَ الۡاَنۡصَارِ وَ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُمۡ بِاِحۡسَانٍ ۙ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ 
(آیت ۱۰۰
’’مہاجرین اور انصار میں سے جو لوگ السابقون الاوّلون میں شامل ہیں‘ اور وہ جنہوں نے حسن و خوبی کے ساتھ ان کی پیروی کی‘ اللہ بھی ان سب سے راضی ہوگیا‘ اور وہ سب بھی اللہ سے راضی ہو گئے!‘‘ 

اس بحث کا دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ نبی اکرم  کی بعثت کے وقت اگرچہ جزیرہ نمائے عرب میں کوئی با ضابطہ حکومت یا سلطنت قائم نہیں تھی‘ تاہم اگر کسی درجہ میں ایک ڈھیلی ڈھالی ’’مذہبی حکومت‘‘ قائم تھی تو اس کا صدر مقام مکہ تھا. یہی وجہ ہے کہ اسے 
اُمَّ الۡقُرٰی (الشوریٰ: ۷یعنی بستیوں کی ماں یا جڑ سے تعبیر کیا گیا. عرب کے حاکموں کی حیثیت اگر کسی کو حاصل تھی تو وہ صرف قریش تھے. یہی وجہ ہے کہ نص قرآنی میں بھی انہیں اَئِمَّۃَ الۡکُفۡرِ (التوبۃ:۱۲قرار دیا گیا اور حدیث ِنبویؐ نے بھی الائمّۃ مِن قُرَیْشٍ (رواہ احمد ؒ ، عن ابی ہریرہؓ ) کے الفاظ کے ذریعے اس کی مزید تاکید کر دی. گویا جب تک مکہ پر فتح کا پرچم نہ لہرا دیا جاتا عرب میں نہ کسی حکومت کے قیام کا سوال پیدا ہو سکتا تھا نہ انقلاب کی تکمیل کا. اس سے قبل کسی محدود علاقے میں مسلمانوں کو ’’دار الامن‘‘ میسر آجانا اور اس میں ایک محدود حد تک نبی اکرم  کے احکام کا ان لوگوں پر جاری ہو جانا جو از خود رضا کارانہ طور پر اس کے خواہاں ہوں بالکل دوسری بات ہے. (چنانچہ ہجرتِ مدینہ سے قبل یہی حیثیت مکہ میں ’’دارِ ارقم ؓ ‘‘ کی تھی جو ان سب نوجوان مسلمانوں کے لیے پناہ گاہ بن گیا تھا جنہیں گھروں سے نکال دیا جاتا تھا. اس سے بھی قبل یہی معاملہ خود حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے مکان یعنی کاشانۂ نبوتؐ کا تھا کہ اس کی چار دیواری کے اندر ’’اسلامی حکومت‘‘ بالفعل قائم تھی‘ جہاں نبی اکرم  حضرت خدیجہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کی معیت میں ’’نمازِ با جماعت‘‘ بھی ادا فرماتے تھے‘ اور ظاہر ہے کہ آپؐ کے احکام بھی جاری و نافذ تھے!)

الغرض‘ یہ خیال کہ مدینہ منورہ میں ہجرت سے قبل ہی ’’انقلاب‘‘ کی تکمیل ہو گئی تھی اور ہجرت کے فوراً بعد ایک اسلامی حکومت یا ریاست قائم ہو گئی تھی صرف ’’خیالِ خام‘‘ ہی نہیں‘ تاریخی حقائق کا منہ چڑانے کے مترادف ہے!

یہیں سے ایک نہایت مشکل سوال کا آسان حل بھی مل جاتا ہے‘ یعنی یہ کہ کیا وجہ ہے کہ مکہ مکرمہ میں نبی اکرم  بنفس ِنفیس بارہ برس تک دعوت و تبلیغ اور تعلیم و تلقین کے فرائض ادا کرتے رہے لیکن وہاں آپؐ کی ’’دعوت‘‘ سے تو انقلاب نہیں آیا بلکہ حالات رفتہ رفتہ اس درجہ نا موافق اور نا مساعد ہوتے چلے گئے کہ آپؐ کو اور آپؐ کے ساتھیوں کو وہاں سے ہجرت کرنی پڑی‘ جبکہ یثرب میں ابھی آپؐ کے قدم مبارک پہنچے بھی نہیں تھے کہ اوّلاً حج کے موقع پر چند لوگوں کے ایمان لانے اور بعد ازاں ان کی اور آپؐ کے مکہ سے بھیجے ہوئے ایک دو جاں نثاروں کی دعوت و تبلیغ سے دیکھتے ہی دیکھتے اتنی کامیابی حاصل ہو گئی کہ وہ ’’دار الہجرت‘‘ بننے کی سعادت کا اہل ہو گیا؟ ہمیں نہیں معلوم کہ فاضل مقالہ نگار نے اس اہم سوال پر غور کیا 
ہے یا نہیں‘ اگر کیا ہے تو ان کے پاس اس کا کیا جواب ہے. بہر حال ہمارے نزدیک اس کا جواب یہ ہے کہ مکہ مکرمہ نہ صرف یہ کہ پورے عرب کی بے ضابطہ مذہبی حکومت کا صدر مقام تھا بلکہ بجائے خود بھی صرف ایک قبیلہ کا شہر ہونے کی بنا پر ایک نہایت مضبوط ’’حکومت‘‘ کا حامل تھا‘ جس کی ایک پارلیمینٹ بھی تھی (دار الندوہ) اور مختلف منصب اور عہدے بھی تھے. لہٰذا وہاں انقلاب کی تکمیل کے تقاضے زیادہ کٹھن تھے. جبکہ یثرب میں اس اعتبار سے ایک ’’خلا‘‘ کی سی کیفیت تھی اور اس کی حیثیت پانچ قبیلوں کے مابین ایک ایسے ڈھیلے ڈھالے ’’وفاق‘‘ کی تھی جس میں کوئی ’’مرکزی حکومت‘‘ سرے سے موجود ہی نہیں تھی. پھر ان پانچ قبیلوں میں سے بھی جو دو قبیلے اصل ’’مالکانِ دیہہ‘‘ کی حیثیت رکھتے تھے‘ یعنی اوس اور خزرج‘ ان کے مابین کچھ ہی عرصہ قبل طویل اور نہایت خوں ریز جنگ ہو چکی تھی. گویا وہ سر زمین کسی ’’ثالث بالخیر‘‘ کی منتظر تھی جو اسے محمد رسول اللہ  کی صورت میں میسر آ گیا اور آپؐ نے کمال تدبر و فراست کے ساتھ متذکرہ بالا ’’خلا‘‘ کو اپنی اس ’’جماعت‘‘ کے ذریعے پُر کر کے جو مکی دور کے بارہ سالہ عمل ِدعوت و تبلیغ‘ تربیت و تزکیہ اور تنظیم و صبر محض کے نتیجے میں ہر اعتبار سے ع ’’چوں پختہ شوی خود را بر سلطنت ِجم زن‘‘ کی اہل ہو چکی تھی‘ اسے اپنے مقصد ِبعثت یعنی غلبہ ٔدین حق کی ’’انقلابی جدو جہد‘‘ کے لیے استعمال فرما لیا.

تاہم تھا یہ صرف ایک جماعتی نظام جس کے ساتھ یثرب کا قدیم قبائلی نظام جس پختگی کے ساتھ برقرار رہا تھا اس کا اندازہ اس سے بخوبی کیا جا سکتا ہے کہ ہجرت کے چھٹے سال اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت کے سلسلے میں نبی اکرم  کو جتنی اذیت رئیس المنافقین عبد اللہ بن اُبی سے پہنچی وہ آپؐ کے ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ: ’’کیا کوئی بھی ایسا شخص موجود نہیں ہے جو مجھے اس شخص سے بچا سکے جو مجھے میرے گھر والوں کے بارے میں ایذا دے رہا ہے؟‘‘ (زاد المعاد‘ جلد دوم) لیکن مدینہ کا قبائلی نظام اتنا محکم تھا کہ رئیس خزرج حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہما نے آنحضور  کو تو صرف ’’مصلحت بینی‘‘ کا مشورہ دینے پر اکتفا کی‘ لیکن اوس کے سردار حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ سے یہاں تک کہہ دیا کہ تم عبد اللہ بن اُبی کی مخالفت میں اتنے تیز و تند جذبات کا مظاہرہ اس لیے کر رہے ہو کہ وہ قبیلۂ خزرج سے تعلق رکھتا ہے‘ جس کا جواب حضرت اسیدؓ نے بھی ترکی بہ ترکی دیا …تاہم عبد اللہ بن اُبی کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی جا سکی! … تو غور فرمایئے کہ یہاں آنحضور  کی حیثیت ایک ’’حاکم‘‘ کی نظر آ رہی ہے یا ایک ایسی جماعت کے امیر اور امام کی جس کی ریڑھ کی ہڈی تو مہاجرین پر مشتمل تھی لیکن تعداد کے اعتبار سے زیادہ اور اہم تر لوگ اوس اور خزرج سے تعلق رکھنے والے وہ انصار تھے جن میں جہاں مومنین صادقین بھی کثیر تعداد میں موجود تھے‘ وہاں معتدبہ تعداد میں ضعفاء اور منافقین بھی شامل تھے! ان سب کا تعلق جہاں ایک جانب بحیثیت مسلمان آنحضور  کے ساتھ قائم ہو گیا تھا وہاں اپنے قبائلی نظام کے ساتھ بھی پوری طرح شدت کے ساتھ برقرار تھا!

اس مرحلے پر‘ ان لوگوں سے قطع نظر جو اسلامی انقلاب کی جدو جہد کو ؏ ’’کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا!‘‘ کے مترادف سمجھتے ہوں اور اپنے ذہن و فکر کی جملہ صلاحیتوں کو ؎

’’تپتی راہیں مجھ کو پکاریں دامن پکڑے چھاؤں گھنیری!‘‘

کے مصداق اس سے گریز اور فرار کی راہیں تلاش کرنے ہی میں صرف کرنا چاہیں‘ ایسے تمام لوگوں کو جو اسلامی انقلاب سے حقیقی اور عملی دلچسپی رکھتے ہوں اپنی بصیرت میں اضافے کے لیے اس سوال پر غور کر لینا چاہیے کہ اگر مکہ مکرمہ میں آنحضور  کا اپنی انقلابی جدو جہد کو جاری رکھنا اس لیے مشکل ہو گیا تھا کہ وہاں ایک حکومتی نظام موجود تھا‘ چنانچہ اس جدو جہد کو جاری رکھنے اور آگے بڑھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اور آپؐ کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مدینہ منورہ میں ’’پناہ دی‘‘ 
(الانفال: ۲۶(۱جہاں حکومت کا ’’خلا‘‘ تھا … تو آج کی دنیا میں جہاں ہر جگہ مضبوط حکومتیں قائم ہیں جو اپنے ملک میں رائج اجتماعی نظام یعنی ’’پولیٹیکو سوشیو اکنامک سسٹم‘‘ کی محافظ ہوتی ہیں اور جن کے پاس بری‘ بحری اور فضائی افواج کی کثیر تعداد کے علاوہ سول آرمڈ فورسز کی بھی بڑی جمعیت موجود ہوتی ہے‘ کوئی انقلابی جدو جہد کیسے کامیاب ہو سکتی ہے؟

اس سوال کا ’’اشکال‘‘ مزید بڑھ جاتا ہے اگر اس حقیقت کو بھی پیش نظر رکھا جائے کہ نبی اکرم  کے دست ِمبارک سے کُل بیس برس کی قلیل مدت میں انقلاب کی معجزانہ تکمیل میں جہاں اصل دخل آپؐ کی بے داغ سیرت اور معجزانہ کردار‘ اور آپؐ کی اور آپؐ کے صحابہؓ کی بے مثال محنت و مشقت اور عدیم النظیر قربانیوں‘ جان فشانیوں اور سرفروشیوں کو حاصل تھا‘ وہاں کچھ نہ کچھ عمل دخل اس کیفیت کو بھی تھا کہ اُس وقت جزیرہ نمائے عرب میں کوئی ایسی منظم اور مستحکم حکومت قائم نہیں تھی جو انقلاب کا راستہ پوری قوت کے ساتھ روک سکتی. اس پر فطری طور پر یہ سوال زیادہ گھمبیر اور شدید ہو جاتا ہے کہ آج کسی ایسے ملک مثلاً پاکستان میں انقلاب کا خواب کیسے دیکھا جا سکتا ہے جہاں ایک مستحکم حکومتی نظام اپنے پورے لاؤ لشکر کے ساتھ موجود ہو ‘جو رائج الوقت سیاسی و معاشی نظام یعنی جاگیرداری اور سرمایہ داری ہی کے بل پر وجود میں بھی آتا ہو اور پھر اپنی پوری قوت کے ساتھ اس کی حفاظت بھی کرتا ہو!

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ عہد ِحاضر میں تمدنی ارتقاء کے ذریعے ’’حقوقِ انسانی‘‘ کا جو تصور پروان چڑھا اور پوری دنیا میں تسلیم شدہ ہے اس کی روسے عوام کو
 (۱وَ اذۡکُرُوۡۤا اِذۡ اَنۡتُمۡ قَلِیۡلٌ مُّسۡتَضۡعَفُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ تَخَافُوۡنَ اَنۡ یَّتَخَطَّفَکُمُ النَّاسُ فَاٰوٰىکُمۡ … الخ 

’’اور وہ وقت یاد کرو جب کہ تم (تعداد میں) تھوڑے تھے‘ زمین میں تم کو بے زور سمجھا جاتا تھا‘ تم ڈرتے تھے کہ مبادا لوگ تم کو اچک لیں‘ پھر اس نے تمہیں جائے پناہ مہیا کر دی… ‘‘ 
عقیدہ‘ خیال اور نظریے کی آزادی کے ساتھ یہ حق بھی حاصل ہے کہ اس کا اظہار و اعلان بھی کریں اور تبلیغ و اشاعت بھی. مزید بر آں شہریوں کا یہ حق بھی اب پوری طرح تسلیم شدہ ہے کہ وہ جماعتیں اور تنظیمیں بنائیں اور وقت کی حکومت ہی نہیں رائج الوقت نظام کو بھی بدلنے کی کوشش کریں‘ بشرطیکہ امن عامہ میں خلل نہ ڈالا جائے اور کسی کی جان‘ مال‘ عزت‘ آبرو اور املاک کو نقصان نہ پہنچایا جائے … پھر تبدیلی کی یہ کوشش انتخابات میں حصہ لے کر بھی کی جا سکتی ہے‘ اور پُر امن مظاہروں اور احتجاجی تحریکوں کے ذریعے بھی‘ یہ دوسری بات ہے کہ انتخابات کے ذریعے صرف ’’حکومت‘‘ کو بدلا جا سکتا ہے ’’نظام‘‘ کو نہیں اور انقلاب چونکہ نظام کو بدلنے کا نام ہے لہٰذا اس کے لیے مزاحمتی تحریک (Resistance Movement) کے سوا کوئی اور چارۂ کار موجود نہیں ہے. 

اسی سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ عہد ِحاضر میں ’’انقلاب‘‘ کے لیے ’’مسلح بغاوت‘‘ ضروری نہیں ہے (اگرچہ ہمارے دونوں فاضل مضمون نگار بجا طور پر فقہ اور شریعت کی روسے اس کی مشروط اجازت کے قائل ہیں‘ اور دونوں نے اس کے بارے میں فقہی مباحث پر خواہ مخواہ زورِ انشاء صرف کیا ہے‘ حالانکہ نہ یہ معاملہ مابہ النزاع ہے‘ نہ ہی ہمارے نزدیک عہد حاضر میں انقلاب کے لیے قتال ناگزیر ہے!) … اسی طرح عہد ِ حاضر میں ’’ہجرت‘‘ بھی لازم نہیں رہی ہے (اگرچہ جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ اگر اس کا امکان موجود ہو تو اس سے بلا شبہ انقلابی جدو جہد میں آسانی اور سہولت حاصل ہوسکتی ہے!)

بحث کے آخری اور تیسرے نکتے پر گفتگو کے آغاز کے لیے الحمد للہ کہ ہمارے پاس ایک متفقہ اساس موجود ہے. واقعہ یہ ہے کہ چونکہ راقم الحروف کو زیر تبصرہ مقالہ کے مصنف کی بعض سابقہ تحریروں کی بنا پر یہ گمان تھا کہ شاید وہ بالکلیہ اسی ’’معذرت خواہ‘‘ مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں جو ہندوستان میں انیسویں صدی کے اواخر میں انگریزوں کے عسکری‘ سیاسی‘ سائنسی اور نفسیاتی غلبے کے زیر اثر پیدا ہوا 
تھا‘ لہٰذا ہمیں اس سے بہت خوشی ہوئی ہے کہ انہوں نے نہایت واضح اور برملا الفاظ میں لکھ دیا ہے کہ:

’’قرآن مجید کی روسے رسول اللہ  جزیرہ نمائے عرب میں اس توسیع (یعنی اسلامی انقلاب کی توسیع) کے لیے اسی طرح مامور تھے جس طرح آپؐ کے بعد آپؐ کی یہ امت عالم کے آخری کناروں تک اس کی توسیع کے لیے مامور ہے‘‘ … اور … ’’رسالت مآب  کے بعد صحابہ کرامؓ خلفائے راشدینؓ کی قیادت میں روم و ایران کی بادشاہتوں میں اس کے لیے نکل کھڑے ہوئے تھے اور انہوں نے ان کی سرحدوں پر کھڑے ہو کر کہا تھا: اسلام لاؤ‘ جزیہ دو‘ یا لڑنے کے لیے تیار ہو جاؤ!‘‘

لیکن اب وہ اور ان کے ہم خیال لوگ ذرا غور فرمائیں کہ اس اعتراف اور اعلان کے بعد: (۱) کیا ’’جس کی لاٹھی اُس کی بھینس‘‘ کے طعنے اور اس قبیل کے دوسرے طنز اور استہزاء کے تیر جو انہوں نے ہم پر برسائے ہیں وہ سب کے سب ’’برکلۂ خودمی نما یند!‘‘ کے مصداق ان ہی کی جانب نہیں لوٹ رہے؟ (۲) کیا اس سے ان کا یہ نظریہ کہ انقلاب ’’دعوت اور صرف دعوت‘‘ سے آتا ہے‘ باطل نہیں ہو جاتا؟ … اور (۳) کیا ان کے تجزیے کے مطابق یہ درست نہ ہو گا کہ کوئی سرپھرا پاکستان کے کسی ایک گاؤں میں ’’دعوت اور صرف دعوت‘‘ کے ذریعے ’’انقلاب‘‘ برپا کر کے پہلے پورے پاکستان اور پھر پوری دنیا میں اس کی ’’توسیع‘‘ کے لیے ’’جہاد و قتال‘‘ کا اعلان کر دے؟ اس پر اگر وہ یہ کہیں کہ ان کی مراد پورے ملک سے ہے تو پھر اس کا کیا جواب ہے کہ مدینہ منورہ پورا ملک تھا یا اس کا صرف ایک شہر اور وہ بھی 
’’اُمّ القریٰ‘‘ نہیں بلکہ صرف ایک عام قریہ؟ بَیِّنُوا تُؤجَرُوا! 

ہمیں یقین ہے کہ اگر موصوف ان سوالات پر غور کرنے کی زحمت گوارا کر لیں گے تو ان پر یہ بات پوری طرح واضح ہو جائے گی کہ بحمد ِاللہ نظریاتی اعتبار سے ہمارے 
اور ان کے مابین کوئی بنیادی فرق نہیں ہے‘ اور ہم اصلاً ایک ہی فکر کے خوشہ چین ہیں. چنانچہ یہ امور ہمارے مابین متفق علیہ ہیں کہ: (i) نبی اکرم  کا مقصد ِبعثت غلبۂ دین حق تھا. (ii)آپ  دو بعثتوں کے ساتھ مبعوث ہوئے تھے: ایک اہل عرب کی جانب‘ اور دوسری پوری نوعِ انسانی کی جانب. (iii)پہلی بعثت کے جملہ فرائض آپؐ نے اپنی حیات ِطیبہ کے دوران ہی بنفس نفیس پورے کر دیے. چنانچہ اہل عرب پر اتمامِ حجت کا حق بھی ادا کر دیا‘ اور جزیرہ نمائے عرب پر غلبہ ٔدین حق کی تکمیل بھی فرما دی … یہی وجہ ے کہ مشرکین عرب کو سورۃ التوبہ کی آیات ۱ تا ۶ میں آخری الٹی میٹم دے دیا گیا کہ یا ایمان لائیں ورنہ تہ ِتیغ کر دیئے جائیں گے! (یہ دوسری بات ہے کہ بالفعل اس کی نوبت نہیں آئی اور تمام مشرکین عرب ایمان لے آئے.) (iv)بقیہ عالم انسانی کے ضمن میں ان دونوں فرائض کی ادائیگی کا بار امت کے کاندھوں پر ہے‘ جسے صحابہ کرامj نے خلافت ِراشدہ کے دوران ایک حد تک تو پورا کر دیا تھا‘ تاہم ؎

وقت ِفرصت ہے کہاں‘ کام ابھی باقی ہے
نورِ توحید کا اِتمام ابھی باقی ہے!

کے مصداق اس کی تکمیل ابھی امت کے ذمہ قرض ہے! (v)مشرکین عرب کے سوا دنیا کی تمام اقوام کے لیے اسلام کا ابدی منشور یہ ہے کہ ایمان لے آئیں تو 
لِلّٰہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِہٖ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ (المنافقون:۷میں یہ برابر کے حصے دار بن جائیں گے‘ بصورتِ دیگر خواہ یہودی رہیں خواہ عیسائی‘ اور خواہ مجوسی رہیں خواہ ہندو‘ لیکن دین حق کی بالادستی کو تسلیم اور قبول کریں اور جزیہ ادا کریں.تیسری صورت صرف جنگ کی ہے … چنانچہ یہ ’’ابدی منشور‘‘ بھی سورۃ التوبہ ہی کی حسب ذیل آیت میں مذکور ہے: 

قَاتِلُوا الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ لَا بِالۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ لَا یُحَرِّمُوۡنَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَ لَا یَدِیۡنُوۡنَ دِیۡنَ الۡحَقِّ مِنَ 
َ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ حَتّٰی یُعۡطُوا الۡجِزۡیَۃَ عَنۡ ‌یَّدٍ وَّ ہُمۡ صٰغِرُوۡنَ ﴿٪۲۹﴾ 

’’جنگ کرو اہل کتاب میں سے ان لوگوں کے خلاف جو ایمان نہیں لاتے اللہ پر اور نہ روزِ آخر پر اور نہ حرام جانتے ہیں اُس کو جس کو حرام قرار دیا اللہ اور اُس کے رسولؐ نے اور دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے‘ یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں.‘‘

اب وہ ذرا ان امور پر بھی غور کرنے کی زحمت گوارا فرما لیں تو ہمارے اور ان کے مابین اختلاف کی خلیج بالکل ہی ختم ہو جائے گی کہ … (i)سورۃ التوبہ میں وارد ان دونوں آخری اعلانات سے میثاقِ مدینہ سمیت اس سے قبل کے جملہ معاہدات اور وثائق منسوخ اور کالعدم ہو گئے تھے. (ii)اب جو فرض امت کے ذمہ ہے اس کی ادائیگی کی واحد صورت یہ ہے کہ پھر کسی ملک میں از سر نو انقلابی جدو جہد کے ذریعے نام نہاد مسلمانوں کی حکومت نہیں بلکہ ’’حقیقی اسلامی حکومت‘‘ قائم کی جائے. (iii)اس میں ہرگز کوئی شک نہیں کہ اس کے لیے اہم ترین اور اولین کام ’’دعوت‘‘ ہی کا ہے … اور خود اس کا حق وسیع پیمانے پر ادا کرنے کے لیے بھی ’’تنظیم‘‘ اور ’’تربیت‘‘ دونوں لازمی ہیں. (iv)تنظیم کے لیے آپ ’’بیعت سمع و طاعت فی المعروف‘‘ کے الفاظ سے خواہ مخواہ الرجک نہ ہوں … اس لیے کہ کم از کم ایک فردِ نوع بشر نے تو یہ بیعت خود آپ کے ہاتھ پر بھی کی ہوئی ہے. ہماری مراد آپ کی اہلیہ صاحبہ محترمہ سے ہے‘ جو 
فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ کی قرآنی نص (۱کے مطابق آپ کی’’اطاعت فی المعروف‘‘ کی پابند ہیں‘ یہ دوسری بات ہے کہ وہ آپ کو دلیل یا اپیل سے اپنی رائے کا قائل کر لیں … ’’بیعت سمع و طاعت فی المعروف‘‘ کے اصول پر قائم ہونے والی جماعت کی بھی حقیقی نوعیت اس سے زیادہ نہیں ہے ! (۱) سورۃ النسائ: آیت ۳۴