قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ  

’’لَـیَأتِیَنَّ عَلٰی اُ مَّتِیْ مَا اَ تٰی عَلٰی بَـنِی اِسْرَائِیْلَ حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ‘‘ 

رَواہُ التِّرمِذِیُّ ؒ عَنْ عَبْدِ ؓ اللّٰہِ ابْنِ عَمرٍوؓ 

O
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہماراوی ہیں کہ آنحضور  نے فرمایا:
’’میری امت پر بھی وہ تمام احوال وارد ہو کر رہیں گے جو بنی اسرائیل پر ہوئے، بالکل ایسے جیسے ایک جوتا دوسرے جوتے سے مشابہ ہوتا ہے‘‘ 

پیش نظر کتابچہ میری جس تحریر پر مشتمل ہے وہ ۱۹۷۴ء کے اواخر میں ماہ رمضانِ مبارک کے دوران بحالت اعتکاف سپرد قلم ہوئی تھی. اور اولاً ماہنامہ ’میثاق‘ کی اکتوبر ونومبر ۷۴ء کی مشترک اشاعت میں شائع ہوئی تھی. 

اس سے چند ماہ قبل ۲۱؍ جولائی کو راقم ایک مفصل تقریر میں ’تنظیمِ اسلامی‘ کے قیام یا صحیح تر الفاظ میں احیاء کا اعلان کر چکا تھا. اس تقریر کا اکثر حصہ ’میثاق‘ بابت ستمبر۷۴ء میں شائع ہو چکا تھا. اور بقیہ متذکرہ بالا مشترک اشاعت میں شامل تھا. 

بعدازاں ۱۹۷۹ء میں ان دونوں کو یکجا کتابی صورت میں ’’سرافگندیم‘‘ کے نام سے شائع کر دیا گیا تھا. ادھر ایک عرصے سے یہ کتاب نایاب تھی. اب مذکورہ تقریر سلسلۂ اشاعت تنظیم اسلامی نمبر۱ کی حیثیت میں ’’عزمِ تنظیم‘‘ کے عنوان سے شائع ہو چکی ہے. چنانچہ یہ تحریر سلسلۂ اشاعت نمبر۲ کی حیثیت سے پیش خدمت ہے. 

اس تحریر کا اصل مقصد تو یہ تھا کہ اس امر کی وضاحت کی جائے کہ بیسویں صدی عیسوی کے وسط اور چودھویں صدی ہجری کے نصف آخر میں امت مسلمہ کے طول وعرض میں جو ’’ہمہ جہتی احیائی عمل‘‘ جاری ہوا اور از مشرقِ بعید تا مغربِ اقصیٰ مختلف تحریکوں اور تنظیموں کے ذریعے جو تجدیدی مساعی منظر عام پر آئیں، ذاتی طور پر راقم الحروف اور اجتماعی حیثیت میں تنظیمِ اسلامی کی جدوجہد ان کے کس گوشے سے تعلق رکھتی ہے. (چنانچہ اس تحریر کا بڑا حصہ اسی موضوع سے متعلق ہے.) لیکن چونکہ بفحوائے الفاظِ قرآنی 
کُنۡتُمۡ اَمۡوَاتًا فَاَحۡیَاکُمۡ ۚ ثُمَّ یُمِیۡتُکُمۡ ثُمَّ یُحۡیِیۡکُمۡ (البقرہ ۲۸’احیاء‘ سے قبل کسی موت کا تصور لازمی ولابدی ہے، لہٰذا ذہن امت کے عروج وزوال کی تاریخ کی جانب منتقل ہوا. اور اسی اثناء میں کہ راقم امت کی تاریخ کے نشیب وفراز میں غلطاں وپیچاں (۱تھا، اچانک ایک حدیثِ نبویؐ ذہن میں بجلی کے مانند کوند گئی جس نے بعینہٖ وہی کام کیا جو ایک بہت بڑے خزانے کو کھولنے کے لئے ایک چھوٹی سی کنجی کرتی ہے. چنانچہ نبی اکرم  کے قول مبارک ’’لَیَأتِیَنَّ عَلٰی اُ مَّتِیْ مَا اَ تٰی عَلٰی بَنِی اِسْرَائِیْلَ حَذْ وَالنَّعْلِ بِالنَّعْلِ .....‘‘ کی عظیم کلید (۲نے مجھ پر امتِ مسلمہ کی چودہ سو سالہ تاریخ مختلف ادوار کے علم وفہم کا وہ خزانہ منکشف فرما دیا جو ؎’’خوشتر آں باشد کہ سِرِّ دلبراں. گفتہ آید درحدیث دیگراں!‘‘ (۳کے مصداق سابقہ امتِ مسلمہ یعنی بنی اسرائیل کی دو ہزار سالہ تاریخ کے مختلف ادوار کے تذکرہ پر مشتمل سورۂ بنی اسرائیل کی چند ابتدائی آیات میں مضمر تھا! فَلَہٗ الْحَمْدُ َوالمنّہ. 

محض 
تَحْدِیْثًا لِّلنِّعْمَہ عرض ہے کہ اس سے ذاتی طور پر راقم کے سرمایۂ ایمان ویقین میں تین اعتبارات سے گراں قدر اضافہ ہوا، چنانچہ ایک جانب میرے قلب پر عظمتِ قرآن کا نقش مزید گہرا ہوا، خصوصاًاس پہلو سے جس کا ذکر نبی اکرم  نے ان الفاظ مبارکہ میں فرمایا ہے کہ فِیْہِ نَـبَأُ مَا قَبْلَـکُمْ وَخَبَرُ مَا بَعْدَکُمْ وَحُکْمُ مَا بَیْنَـکُمْ (ترمذیؒ ودارمیؒ عن علی ؓ ). دوسری جانب حدیث نبوی علی صاحبہ الصلوٰۃ والسلام کی عظمت آشکارا ہوئی کہ علم وحکمت کے کیسے کیسے قیمتی ہیرے اور خوبصورت موتی اس میں موجود ہیں، اور تیسری جانب قرآن اور حدیث کے مابین ربط کی اہمیت کا اندازہ ہوا کہ دین کے عملی پہلوؤں یعنی احکام شریعت کے ضمن میں تو کتاب اللہ اور سنتِ رسولؐ کا باہمی لزوم واضح اور مسلم ہے ہی، قرآن حکیم کے علم وحکمت اور ہدایت ومعرفت کے خزانوں کے لئے بھی نبی اکرم کے چھوٹے چھوٹے فرمودات کلید کی حیثیت رکھتے ہیں! (۱) الجھا ہوا (۲) کنجی (۳) اس پر خوشی حاصل کرو کہ آپ کے محبوب کا راز دوسروں کے احوال میں بیان کردیا گیا ہے بہرحال ان گہرے تاثرات کے ساتھ جب قلم حرکت میں آیا تو ایک سیلاب کی سی ’آمد‘ کے ساتھ وہ تحریر صادر ہو گئی جس پر دوسروں نے جو خراجِ تحسین ادا کیا اس سے قطع نظر، اب سولہ سال بعد ’نظرثانی‘ کی غرض سے جب خود میں نے اسے پڑھا تو حیران رہ گیا کہ ؏ ’’ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی‘‘ . اس لئے کہ اس کے ذریعے امت مسلمہ کی چودہ صد سالہ تاریخ کے وہ جملہ اہم نقوش غایتِ اختصار کے ساتھ کل بارہ صفحات میں ثبت ہو گئے ہیں، جن کا علم تجدید واحیائے دین کی خواہش رکھنے والے ہر شخص کے لئے تو لازمی ولابدی ہے ہی، عام مسلمانوں کے لئے بھی بہت مفید ہے.

راقم کی اپنی تحریر میں امت مسلمہ کی تاریخ کے مختلف ادوار کے سلسلے میں تاریخ بنی اسرائیل کے حوالے محض ضمناً آئے ہیں، لیکن اب اس کی افادیت میں اضافے کی غرض سے تاریخ بنی اسرائیل کا ایک خاکہ بھی بطور ضمیمہ شامل کر دیا گیا ہے. اس ضمیمے کے صرف عنوانات راقم نے قائم کئے ہیں، باقی سارا مواد سید ابو الاعلیٰ مودودی مرحوم کے ان تفسیری حواشی سے ماخوذ ہے جو ’’تفہیم القرآن‘‘ جلد دوم میں سورۂ بنی اسرائیل کے پہلے رکوع کے ذیل میں درج ہیں. 
(۱
ان دونوں کے تقابلی مطالعے سے، ان شاء اللہ العزیز، علم وحکمت کے ہر طالب پر کسی مسلمان امت کی تشکیل وتأسیس کی اصل بنیاد اور اس کے عروج وزوال کے اسباب وعلل ایسے اہم مسائل کے ضمن میں فلسفۂ تاریخ وعمرانیات کے فہم اور تفقہ کا دروازہ کھل جائے گا. اس سلسلہ میں چند اضافی نکات کی جانب اجمالی اشارہ سطورِ ذیل میں کیا جا رہا ہے، 
فَافْھَمُوا وَتَدَبَّرُوا! 

۱. امت مسلمہ کی تشکیل کی اساس کتابِ الٰہی ہے، یہی وجہ ہے کہ تاریخ بنی اسرائیل کا آغاز تورات کے حوالے سے کیا گیا، اور بحیثیت امت مسلمہ ان کے دور کے خاتمے اور نئی 
(۱)مختصر ترین الفاظ میں یہ مضمون راقم کی تالیف ’’استحکامِ پاکستان‘‘ کے باب نہم میں بھی دیکھا جا سکتا ہے. امت مسلمہ یعنی امت محمدؐ کے دور کا آغاز کا اعلان قرآن کے حوالے سے کیا گیا.

۲. امت محمدؐ دونوں قبلوں کی متولی بنا دی گئی. چنانچہ سورۂ بنی اسرائیل کا آغاز آنحضورؐ کے سفرِ معراج کے پہلے اور زمینی حصے یعنی مسجد ِحرام سے مسجد ِ اقصیٰ تک کے ذکر سے کیا گیا. 

۳. کتاب اللہ کی تعلیم کا لُبِّ لباب توحید ہے، اور توحید کا خلاصہ یہ ہے کہ توکل اللہ کے سوا اور کسی ہستی یا چیز پر نہ رہے! 
اَلَّا تَتَّخِذُوۡا مِنۡ دُوۡنِیۡ وَکِیۡلًا ؕ﴿۲﴾ (بنی اسرائیل:2) 

۴ . امت محمدؐ کے عروج اول کا دور حیاتِ نبویؐ ہی میں شروع ہو گیا تھا اس لئے کہ اللہ نے آپؐ کے دستِ مبارک ہی سے انقلاب کی تکمیل کرا دی تھی. جب کہ سابقہ امت کا عروجِ اول اپنے رسول یعنی حضرت موسیٰؑ اور ان کو کتاب دیئے جانے کے لگ بھگ تین سو سال بعد شروع ہوا، اس لئے کہ بنی اسرائیل کی بزدلی کے باعث حضرت موسیٰؑ کی حیاتِ دنیوی کے دوران انقلاب کی تکمیل نہیں ہو پائی تھی. سورئہ بنی اسرائیل کے پہلے رکوع میں تاریخ بنی اسرائیل کے اس دور کا ذکر موجود نہیں ہے. 

۵. زوالِ اول کے ضمن میں عذابِ الٰہی کے کوڑے دونوں امتوں پر دو مرحلوں میں پڑے: بنی اسرائیل پر پہلے اشوریوں کے ہاتھوں جو شمال سے حملہ آور ہوئے، اور بعدازاں کلدانیوں کے ہاتھوں جو مشرق سے حملہ آور ہوئے. اور مسلمانوں پر پہلے صلیبیوں کے ہاتھوں جو شمال مغرب سے آئے، اور پھر تاتاریوں کے ہاتھوں جن کا سیلاب مشرق کی جانب سے آیا. 
۶. سابقہ امت مسلمہ چونکہ صرف ایک ’قوم‘ یعنی بنی اسرائیل پر مشتمل تھی لہٰذا اس میں تجدید واحیاء کا کام بھی لامحالہ ان ہی کے ذریعے ہوا. امتِ محمدؐ چونکہ واضح طور پر دو حصوں پر مشتمل ہے یعنی اُمیّیّن اور اٰخَرِین پر ،لہٰذا اس کے ضمن میں 
یَسۡتَبۡدِلۡ قَوۡمًا غَیۡرَکُمۡ (محمد ۳۸پر عمل ہوا، اور عروج ثانی عربوں کی قیادت میں نہیں بلکہ ترکوں کی قیادت میں ہوا. ۷. دونوں امتوں پر زوال کا دوسرا اور طویل تر دور یورپی اقوام کے ہاتھوں آیا. بنی اسرائیل پر رومیوں کے ہاتھوں، اور مسلمانوں پر فرانسیسیوں، انگریزوں، ولندیزیوں اور اطالویوں وغیرہ کے ذریعے!

۸. بعثتِ محمدیؐ کے موقع پر سابقہ امت کے لئے رحمتِ خداوندی کے سایہ تلے آنے کا آخری موقع پیدا ہوا تھا جسے اس نے اپنی شامتِ اعمال سے کھودیا، لہٰذا ان کا دوسرا دورِ زوال تا حال جاری ہے. چنانچہ ان پر 
وَ اِنۡ عُدۡتُّمۡ عُدۡنَا ۘ (بنی اسرائیل:8) کی وعیدکا ظہور تسلسل کے ساتھ جاری رہا. جس کی نمایاں ترین مثال نصف صدی پیشتر کا وہ عذاب ہے جو ان پر جرمنوں کے ہاتھوں آیا. اور جسے یہ ہالوکاسٹ (Holocaust) سے تعبیر کرتے ہیں. تاہم اس کا اصل نقطئہ عروج خروجِ دجال اور نزولِ مسیحؑ کے موقع پر ہو گا. جس کا وقت اب زیادہ دور محسوس نہیں ہوتا. 

۹. بعثتِ محمدیؐ کے بعد سے رحمتِ خداوندی میں داخلے کا واحد ’شاہ درہ‘ قرآن حکیم ہے، جس کی جانب اب سے چودہ سو سال قبل بنی اسرائیل کی رہنمائی کی گئی تھی، اور اب امت مسلمہ کے لئے بھی زوالِ ثانی سے نکل کر عروج سوم کی جانب پیش قدمی کا واحد راستہ ’’رجوع الی القرآن‘‘ ہے! یہی وجہ ہے کہ سورۂ بنی اسرائیل کے پہلے رکوع کے آخر میں بھی فرمایا گیا 
اِنَّ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ یَہۡدِیۡ لِلَّتِیۡ ہِیَ اَقۡوَمُ پھر پوری سورۂ مبارکہ کا عمود ہی عظمتِ قرآن کا بیان ہے، بالخصوص یہ آیاتِ مبارکہ نہایت قابلِ توجہ ہیں وَ نُنَزِّلُ مِنَ الۡقُرۡاٰنِ مَا ہُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحۡمَۃٌ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۙ اور وَ لَقَدۡ صَرَّفۡنَا لِلنَّاسِ فِیۡ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنِ مِنۡ کُلِّ مَثَلٍ ۫ اور اختتام سورہ پر تو نہایت پُر شکوہ اور پُر جلال انداز اختیار فرمایا گیا. یعنی وَ بِالۡحَقِّ اَنۡزَلۡنٰہُ وَ بِالۡحَقِّ نَزَلَ ؕ جس کی کامل ترجمانی ہے نبی اکرم  کے اس قول مبارک میں کہ ’’ اِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ بِھَذَا الْکِتٰبِ اَقْوَامًا وَّیَضَعُ بِہٖ اٰخَرِیْن‘‘ (مسلمؒ عن عمرؓ ) چنانچہ اس امر پر اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے کہ تنظیمِ اسلامی کا ’مبنیٰ‘ (۱ہی نہیں ’محور‘ (۲بھی ’’رجوع الی القرآن ‘‘ ہے.

۱۰. امتِ مسلمہ کا تیسرا اور آخری عروج، جس کی جانب پیش قدمی شروع ہو چکی ہے تقدیر مبرم کی طرح لازمی اور اٹل ہے. 
(۳تاہم بفحوائے الفاظ قرآنی وَ اِنۡ اَدۡرِیۡۤ اَقَرِیۡبٌ اَمۡ بَعِیۡدٌ مَّا تُوۡعَدُوۡنَ(الانبیائ: ۱۰۹نہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ مرحلہ ابھی کتنی دور ہے، نہ اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس سے قبل ابھی امت کو اور کون کون سے صدمے جھیلنے اور مصائب برداشت کرنے ہوں گے، مزید براں یہ بھی بعید نہیں کہ اس عروج ثالث کے سلسلے میں تاریخ اپنے آپ کو دہرائے اور قدرتِ خداوندی موجود الوقت جملہ نام نہاد مسلمان اقوام کو رد کر کے کسی بالکل نئی قوم کے ہاتھوں میں اپنے دین کا جھنڈا تھما دے. وما ذلک علی اللہ بعزیز!! 

موجودہ تجدیدی مساعی اور ’’ہمہ جہتی احیائی عمل‘‘ کے جائزے کے بارے میں بھی راقم کو اطمینان ہے کہ بحمدللہ اب سے سولہ سال قبل ضبطِ تحریر میں آنے والا یہ جائزہ بھی نہ صرف یہ کہ نہایت جامع ہے، بلکہ بہت فکر انگیز بھی ہے. اور اس کے ذریعے امید واثق ہے کہ ایک جانب تمام خادمانِ دین اور مخلصینِ ملت کے فکر ونظر کو وسعت حاصل ہو گی اور وہ 
’’انا ولاغیری‘‘ کی تنگ گھاٹی سے نکل آئیں گے اور وسیع تر تناظر میں جملہ احیائی مساعی کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے، اور دوسری جانب تنظیمِ اسلامی کے کارکنان تاریخ کے دھارے میں اپنے مقام، محل، اور موقف کا واضح شعور اور اپنے پیشِ نظر کام کے حدودِ اربعہ اور اصول و قواعد کا واضح فہم حاصل کر کے ذہن و قلب کی پوری یکسوئی کے ساتھ جدوجہد میں منہمک ہو سکیں گے، اور وقتی سیاسی ہنگاموں اور زَبَدًا رَّابِیًا ؕ (الرعد:۱۷کی مانند عارضی اور سطحی جوش وخروش کے ساتھ اٹھنے والی تحریکوں سے متاثر ہو کر اپنا وقت ضائع اور منزل کھوٹی نہیں کریں گے. اللھم امین! 

۱۹ ؍ فروری ۹۱ ؁ 
(۱) بنیاد (۲) مرکزی نقطہ (۳)ملاحظہ ہو میری تالیف ’’استحکامِ پاکستان‘‘ کا باب نہم !