امت مسلمہ کے عروج وزوال کے دو ادوار
(تاریخ بنی اسرائیل کے پس منظر میں ) 


اور

موجودہ احیائی مساعی کا اجمالی جائزہ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ 

سُبۡحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسۡرٰی بِعَبۡدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اِلَی الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا الَّذِیۡ بٰرَکۡنَا حَوۡلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنۡ اٰیٰتِنَا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡبَصِیۡرُ ﴿۱﴾وَ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ وَ جَعَلۡنٰہُ ہُدًی لِّبَـنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اَلَّا تَتَّخِذُوۡا مِنۡ دُوۡنِیۡ وَکِیۡلًا ؕ﴿۲﴾ذُرِّیَّۃَ مَنۡ حَمَلۡنَا مَعَ نُوۡحٍ ؕ اِنَّہٗ کَانَ عَبۡدًا شَکُوۡرًا ﴿۳﴾وَ قَضَیۡنَاۤ اِلٰی بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ فِی الۡکِتٰبِ لَتُفۡسِدُنَّ فِی الۡاَرۡضِ مَرَّتَیۡنِ وَ لَتَعۡلُنَّ عُلُوًّا کَبِیۡرًا ﴿۴﴾فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ اُوۡلٰىہُمَا بَعَثۡنَا عَلَیۡکُمۡ عِبَادًا لَّنَاۤ اُولِیۡ بَاۡسٍ شَدِیۡدٍ فَجَاسُوۡا خِلٰلَ الدِّیَارِ ؕ وَ کَانَ وَعۡدًا مَّفۡعُوۡلًا ﴿۵﴾ثُمَّ رَدَدۡنَا لَکُمُ الۡکَرَّۃَ عَلَیۡہِمۡ وَ اَمۡدَدۡنٰکُمۡ بِاَمۡوَالٍ وَّ بَنِیۡنَ وَ جَعَلۡنٰکُمۡ اَکۡثَرَ نَفِیۡرًا ﴿۶﴾اِنۡ اَحۡسَنۡتُمۡ اَحۡسَنۡتُمۡ لِاَنۡفُسِکُمۡ ۟ وَ اِنۡ اَسَاۡتُمۡ فَلَہَا ؕ فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ الۡاٰخِرَۃِ لِیَسُوۡٓءٗا وُجُوۡہَکُمۡ وَ لِیَدۡخُلُوا الۡمَسۡجِدَ کَمَا دَخَلُوۡہُ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّ لِیُتَبِّرُوۡا مَا عَلَوۡا تَتۡبِیۡرًا ﴿۷﴾عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یَّرۡحَمَکُمۡ ۚ وَ اِنۡ عُدۡتُّمۡ عُدۡنَا ۘ وَ جَعَلۡنَا جَہَنَّمَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ حَصِیۡرًا ﴿۸﴾اِنَّ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ یَہۡدِیۡ لِلَّتِیۡ ہِیَ اَقۡوَمُ وَ یُبَشِّرُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ الَّذِیۡنَ یَعۡمَلُوۡنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَہُمۡ اَجۡرًا کَبِیۡرًا ۙ﴿۹﴾وَّ اَنَّ الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَۃِ اَعۡتَدۡنَا لَہُمۡ عَذَابًا اَلِیۡمًا ﴿٪۱۰﴾ 

(بنی اسرائیل) 

ہمارے نزدیک بیسویں صدی عیسوی کو امتِ مسلمہ کی تاریخ میں ایک فیصلہ کن موڑ (Turning point) کی حیثیت حاصل ہے، چنانچہ اس کے رُبعِ اول کے خاتمے کے لگ بھگ جب کہ امت کے ایک حساس اور درد مند فرد کے دل کی گہرائیوں سے یہ درد انگیز صدا بلند ہوئی ؎
پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے
اسلام کا گر کر نہ ابھرنا دیکھے
مانے نہ کبھی کہ مد ہے ہر جزر کے بعد
دریا کا ہمارے جو اترنا دیکھے!

(حالیؔ)
تاریخ ایک کروٹ لے چکی تھی اور ملتِ اسلامی کے تنِ مردہ میں حیاتِ تازہ کے کچھ آثار ظاہر ہونے شروع ہو چکے تھے.

اور اگر ذرا بنظرِغائر مشاہدہ کیا جائے تو اس صدی کا درمیانی نصف تو ایک نہایت ہی عجیب نقشہ پیش کرتا ہے. یعنی یہ کہ ایک طرف تنزل اور انحطاط 
(۱کا عمل بھی جاری رہا اور نکبت وادبار (۲کے سائے مزید گہرے ہوتے چلے گئے جس کا نقطئہ عروج (Climax) ۶۷ ء اور ۷۱ء کی ذلت ورسوائی ہے (۳اور دوسری طرف ایک گھمبیر اور ہمہ جہتی احیائی عمل کا آغاز بھی ہو گیا جس کا نقطئہ آغاز۲۰-۲۵ء کا زمانہ ہے. گویا مسلسل بچاس (۱) پستی (۲) بدحالی ومفلسی (۳) اب معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی خوش فہمی ہی تھی. امت مسلمہ کے دوسرے دور زوال کی انتہا شاید اب آیا چاہتی ہے.(جنوری۱۹۹۱ء) برس تک یہ دونوں مَرَجَ الۡبَحۡرَیۡنِ یَلۡتَقِیٰنِ ﴿ۙ۱۹﴾بَیۡنَہُمَا بَرۡزَخٌ لَّا یَبۡغِیٰنِ ﴿ۚ۲۰﴾ کی سی شان کے ساتھ پہلو بہ پہلو جاری رہے. 
اس اجمال کی تفصیل کے ضمن میں ہم پہلے امت مسلمہ کے عروج وزوال کا ایک اجمالی خاکہ تاریخی ترتیب 
(Chronological Order) کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کریں گے، تاکہ ایک طرف ’عروج‘ کے ضمن میں ملتِ اسلامی کی عظمت وسطوتِ گزشتہ کی ایک جھلک سامنے آئے اور علامہ اقبال کے اس شعر کے مطابق کہ ؎

کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے؟
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا!

مسلمان نوجوان کو معلوم ہو کہ ایک وقت وہ بھی تھا جب عرب افواج جبرالٹر (جبل الطارق) سے شمال مشرق کی جانب بڑھتی ہوئی فرانس کے عین قلب تک جاپہنچی تھیں اور پھر ایک وقت وہ بھی آیا جب ترک افواج پورے مشرقی یورپ کو روندتی ہوئی ’’وی آنا‘‘ کے دروازوں تک جا پہنچی تھیں. شاید کہ اسی طرح کچھ نوجوانوں کے دل میں ملتِ اسلامی کی تجدید اور اس کی عظمت وسطوتِ گزشتہ کی بازیافت 
(۱کا جذبہ پیدا ہو جائے. اور دوسری طرف ’زوال‘ کے ضمن میں یہ حقیقت واضح ہو جائے کہ خدا کا عدل بے لاگ ہے اور اس کا قانون اٹل اور غیر مبدل. اس نے جو معاملہ سابق امتِ مسلمہ یعنی بنی اسرائیل کے ساتھ کیا بعینہٖ وہی ہمارے ساتھ کیا، حتیٰ کہ ہماری اور ان کی تاریخ میں ایک حد درجہ حیرت انگیز مشابہت موجود ہے اس پہلو سے کہ یہود پر بھی اللہ تعالیٰ کے عذاب کے دو دور آئے اور ہم پر بھی دو ہی دور آئے. اگرچہ امتِ محمدعلیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی وسعت کی نسبت سے (۴) سورۃ الرحمن ، آیات ۱۹، ۲۰: ’’چلائے دو دریا ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ، (لیکن) دونوں کے مابین ایک پردہ (حائل ) ہے کہ باہم ایک دوسرے پر غالب نہ آسکیں!‘‘ 

ہمارے نکبت وادبار کے یہ دور بھی یہود کے مقابلے میں بہت طویل رہے اور جس طرح بنی اسرائیل کی تولیت (۱کے زمانے میں بیت المقدس کے ناموس کا پردہ ؎

اسکندر و چنگیز کے ہاتھوں سے جہاں میں
سو بار ہوئی حضرتِ انساں کی قبا چاک!

کے مصداق دو بار چاک ہوا، اسی طرح ہمارے عہد ِ تولیت میں بھی مسجد ِ اقصیٰ کی حرمت دو ہی مرتبہ پامال ہوئی. 

اس کے بعد ہم اس گھمبیر اور ہمہ جہتی ’’احیائی عمل‘‘ کا اجمالاً جائزہ لیں گے تاکہ ایک طرف لوگوں کا افق ذہنی وسیع ہو اور وہ مختلف احیائی کوششوں کو ان کے صحیح پس منظر میں دیکھ سکیں اور دوسری طرف یہ بھی واضح ہو جائے کہ ہم خود اس ہمہ جہتی احیائی عمل کے کس گوشے میں ایک حقیر سی خدمت سرانجام دینے کی کوشش کر رہے ہیں. تاکہ 
لِّیَہۡلِکَ مَنۡ ہَلَکَ عَنۡۢ بَیِّنَۃٍ وَّ یَحۡیٰی مَنۡ حَیَّ عَنۡۢ بَیِّنَۃٍ (۲کے مصداق جو ہمارا ساتھ دینا چاہے وہ بھی پورے انشراحِ صدر کے ساتھ دے اور جو تنقید کی ’خدمت‘ سرانجام دینا چاہے وہ بھی ہمارے موقف کو اچھی طرح سمجھنے کے بعد ہی اس اہم مگر نازک فرض کی ادائیگی پر کمربستہ ہو!

امتِ مسلمہ کے عروج وزوال کے تاریخی خاکے کے ضمن میں دو باتیں پیشگی سمجھ لینی چاہئیں:

ایک یہ کہ اپنی ہیٔتِ تشکیلی کے اعتبار سے امتِ محمد c کے دو حصے ہیں. پہلا 
اُمیِّیِّن یعنی بنی اسمٰعیل پر مشتمل ہے اور اسے اس امت کے قلب یا مرکز (Nucleus) کی حیثیت حاصل ہے اور دوسرا اٰخَرِین یعنی دیگر اقوام پر مشتمل (۱) سربراہی ، نگرانی(۲) سورۃ الانفال آیت ۴۲: ’’تاکہ ہلاک ہو جسے ہلاک ہونا ہے حجت قائم ہو چکنے کے بعد اور جئے جسے جینا ہو واضح دلیل کے ساتھ!‘‘ ہے خواہ وہ کُرد ہوں یا ترک، اہلِ فارس ہوں یا اہلِ ہند، افغان ہوں یا مغل، اہلِ حبش ہوں یا بربر، مشرقِ بعید یعنی ملایا اور انڈونیشیا سے تعلق رکھتے ہوں یا مغربِ بعید یعنی مراکو اور موریطانیہ سے. 

دوسرے یہ کہ جغرافیائی اعتبار سے بھی عالمِ اسلام کو تین حصوں میں منقسم سمجھنا چاہئے. یعنی ایک قلب، دوسرے میمنہ اور تیسرے میسرہ. اگر دنیا کے نقشے کو سامنے رکھ کر عالمِ اسلام پر نگاہ جمائی جائے تو وہ ایک ایسے عقاب کے مانند نظر آئے گا جو اپنے دونوں بازوؤں کو پوری طرح پھیلائے محوِ پرواز ہو. جزیرہ نمائے عرب، عراق، فلسطین، شام اور ایشیائے کوچک جو عالمِ اسلام کے قلب کی حیثیت رکھتے ہیں اس عقاب کے جسم کے مانند نظر آئیں گے، جن میں سے ایشیائے کوچک کو اس کے سر اور چونچ سے مشابہت ہے اور جزیرہ نمائے عرب کے جنوبی حصے کو اس کے دُم کے پھیلے ہوئے پروں سے. اس عقاب کا دایاں بازو (میمنہ) ایران، ترکستان، افغانستان اور برصغیر ہندوپاک سے ہوتا ہوا ملایا اور انڈونیشیا تک پھیلا ہوا ہے اور بایاں بازو (میسرہ) پورے شمالی افریقہ کو لپیٹ میں لیتا ہوا سپین تک چلا گیا ہے.
اب آیئے تاریخی خاکے کی طرف:

سنِ عیسوی 
(۱کے حساب سے امتِ مسلمہ کی تاریخ کا آغاز ساتویں صدی سے ہوتا ہے، اس لئے کہ آنحضور  کی ولادت باسعادت اغلباً ۵۷۱ء میں ہوئی. ۶۱۰ء میں آپؐ نے اپنی دعوت کا آغاز فرمایا اور محتاط ترین حساب کے مطابق اپریل ۶۳۲ء میں آپ جزیرہ نمائے عرب کی حد تک’اسلامی انقلاب‘ کی تکمیل فرما کر ’’رفیق اعلیٰ‘‘ سے جا ملے، فصلی اللہ علیہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا. اصحابِ ثلٰثہ یعنی حضرات ابوبکر صدیق، عمر فاروق اور عثمان غنی رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عہدِ خلافت کے دوران اُمیِّیِّن ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے میں تلوار لے کر ایک سیلاب کے مانند جزیرہ نمائے عرب سے نکلے اور انہوں نے ایک ربع صدی سے بھی کم میں ایران وعراق، 
(۱) چونکہ اکثر لوگوں کے اذہان سنِ عیسوی ہی کے ساتھ زیادہ مانوس ہیں لہٰذا یہاں اسی کو پیش نظر رکھا جا رہا ہے. 
شام وفلسطین اور مصر کے علاوہ شمالی افریقہ کے بڑے رقبے پر اسلام کا پرچم لہرادیا. حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عہد ِ خلافت میں تو یہ عمل رکا رہا، لیکن بنوامیہ کے دور کے آغاز کے ساتھ ہی اس سیلاب نے دوبارہ آگے بڑھنا شروع کر دیا اور تھوڑے ہی عرصے میں ایک طرف مشرق میں ترکستان، افغانستان اور سندھ تک اور دوسری طرف مغرب میں پورے شمالی افریقہ کے علاوہ سپین سمیت مغربی یورپ کا وسیع علاقہ اُمیِّیِّن کے زیر نگیں آگیا اور عالم اسلام کی سرحدیں تین براعظموں تک وسیع ہو گئیں. یہی وہ زمانہ تھا جب عرب افواج اندلس سے پیش قدمی کرتے ہوئے فرانس کے عین قلب تک جا پہنچی تھیں. 

آٹھویں، نویں اور دسویں صدی عیسوی کا زمانہ عربوں کے عروج کا دور ہے جس کے دوران اسلام کی علمبرداری اور عالم اسلام کی سیادت دونوں 
اُمیِّیِّن کی دو اہم شاخوں یعنی بنوامیہ اور بنو عباس کے پاس رہیں (۱اور روئے ارضی کے ایک بڑے حصے پر ان کے دین ومذہب، ان کے تہذیب وتمدن، ان کے علوم وفنون اور ان کی شان وشوکت کا سکہ رواں رہا. لیکن جیسے جیسے دنیوی جاہ وجلال میں اضافہ ہوا، جذباتِ دینی اور حرارتِ ایمانی میں کمی آتی چلی گئی اور اس طرح یہ تناور درخت اندر سے کھوکھلا ہوتا چلا گیا. اس اندرونی اضمحلال کے اثرات کے ظاہر ہونے میں کچھ مدت ضرور صرف ہوئی لیکن دسویں صدی عیسوی ہی کے (۱) ان میں سے بھی صرف بنو امیہ کے دور حکومت کو خالص عرب غلبہ واقتدار کا دور قرار دیا جا سکتا ہے. اس لئے کہ بنو عباس کے دور حکومت میں ابتدا ہی سے اہل عجم کو حکومت وسلطنت کے معاملات میں فیصلہ کن دخل حاصل ہو گیا تھا اور دراصل اسی نے عرب اقتدار کے تناور درخت کو اندر ہی اندر گھن کی طرح چٹ کر لیا، ورنہ خالص عرب خون میں جو حرارت تھی اور قوتِ مقاومت موجود تھی اس کا ثبوت اس سے ملتا ہے کہ بنوامیہ کی ایک شاخ جس نے اندلس میں قدم جمائے وہ عالم اسلام کے قلب سے عرب قوت کے کلی خاتمے کے بھی تین صدی بعد تک پھلتی پھولتی رہی اور اس کا خاتمہ کہیں پندرہویں صدی عیسوی میں جا کر ہوا. 
دوران واضح ہو گیا تھا کہ عرب اپنے عالم پیری میں قدم رکھ چکے ہیں.

گیارہویں صدی عیسوی کے دوران 
اُمیِّیِّن کا انحطاط اور زوال اپنی آخری حدوں کو پہنچ گیا اور اس طرح عالمِ اسلام کے قلب میں قوت کا ایک خلا (Power Vacuum) پیدا ہو گیا. 

خوش قسمتی سے قوت کے دباؤ میں اس کمی 
(Depression) کے نتیجے میں عالم اسلام کی شمال مشرقی سرحدوں سے جو قبائل قلبِ اسلام کی طرف کھنچ کر آئے وہ پہلے ہی سے مسلمان ہو چکے تھے. یعنی کُرد اور ترکانِ سلجوقی جنہوں نے گیارہویں صدی عیسوی کے دوران شام، فلسطین اور مصر میں مضبوطی کے ساتھ قدم جمائے اور اس طرح عالمِ اسلام کے قلب کی حفاظت اور مدافعت کے لئے کسی قدر تازہ دم قوت فراہم ہو گئی. (۱

بارہویں اور تیرہویں صدی عیسوی کے دوران میں امت مسلمہ پر گویا عذابِ خداوندی کے ’’وعدہ اولیٰ‘‘ کا ظہور ہوا اور ہو بہو 
بَعَثۡنَا عَلَیۡکُمۡ عِبَادًا لَّنَاۤ اُولِیۡ بَاۡسٍ شَدِیۡدٍ فَجَاسُوۡا خِلٰلَ الدِّیَارِ (۲کا نقشہ کھنچ گیا. چنانچہ پہلے شمال سے صلیبی طوفان کے ریلے آنے شروع ہوئے. (۳اور ۱۰۹۹ء میں نہ صرف یہ کہ مسجدِ اقصیٰ کے ناموس کا پردہ چاک ہوا بلکہ بیت المقدس میں وہ قتلِ عام ہوا جس کا تذکرہ کرتے ہوئے مغربی مؤرخین بھی کانپ جاتے ہیں پورے اٹھاسی برس تک بیت المقدس پر صلیبیوں کا قبضہ رہا. اس لئے کہ دولت عباسی تو ’’مرنے والی امتوں کے عالمِ پیری‘‘ کا نقشہ پیش کر رہی تھی، گویا(۱) یہ اسی دور کی بات ہے کہ افغان قبائل نے جنوب مشرق کا رخ کیا اور ہندوستان پر حملے شروع کئے جس سے ہند میں مسلمانوں کی عظیم الشان مملکت کے قیام کی راہ ہموار ہوئی.

(۲) سورۃ بنی اسرائیل آیت ۵: ’’بھیجے ہم نے تم پر اپنے بندے سخت جنگجو، جو گھس گئے اور پھیل گئے شہروں کے مابین‘‘

(۳) جیسے بنی اسرائیل پر بھی پہلی تباہی شمال سے حملہ آور ہونے والے آشوریوں کے ہاتھوں آئی تھی. 
اُمیِّیِّن میں تو سرے سے دم خم باقی ہی نہ رہا تھا. بالآخر اٰخَرِین کے تازہ وگرم خون نے مجاہد ِ کبیر صلاح الدین ایوبیؒ کی سرکردگی میں ۱۱۸۷ء میں بیت المقدس کو صلیبیوں کے قبضے سے نجات دلائی اور اس طوفان کا رخ موڑا. اور پھر مشرق کی جانب سے آیا فتنۂ تاتار کا وہ طوفانِ عظیم جس نے پہلے افغانستان اور ایران کو پامال کیا اور ہرجگہ کشتوں کے پشتے لگا دیئے اور بالآخر ۱۲۵۸ء میں بغداد میں وہ تباہی مچائی کہ رہے نام اللہ کا. لاکھوں مسلمان تہِ تیغ ہوئے، بغداد کی گلیاں خون کی ندیاں بن گئیں اور الف لیلیٰ کے اس رومانوی شہر کی اینٹ سے اینٹ بج گئی اور بعینہٖ وہ کیفیت پیدا ہو گئی جو کم وبیش دو ہزار سال قبل بخت نصر کے حملے سے بیت المقدس کی ہوئی تھی. نتیجۃً زوالِ ملکِ مستعصم امیر المومنین کے ساتھ ہی خلافتِ عباسی کا ٹمٹماتا ہوا چراغ بالکل گُل ہو گیا اور نہ صرف یہ کہ امتِ مسلمہ پر عذابِ خداوندی کا یہ پہلا دور تکمیل کو پہنچا بلکہ کم از کم اُمیِّیِّن کی حد تک تو وَ اِنۡ تَتَوَلَّوۡا یَسۡتَبۡدِلۡ قَوۡمًا غَیۡرَکُمۡ ۙ ثُمَّ لَا یَکُوۡنُوۡۤا اَمۡثَالَکُمۡ (۱کی وعید بھی پوری ہو گئی اوروہ عالم اسلام کی سیادت وقیادت کے منصب سے معزول کر دیئے گئے. دو سال بعد یعنی ۱۲۶۰ء میں اس طوفان کا رخ بھی اٰخَرِین ہی نے پھیرا جس سے کم از کم اسلام کا مغربی بازو اس کی تاخت وتاراج سے محفوظ رہ گیا.

بارہویں اور تیرہویں صدی عیسوی کے دوران عالمِ اسلام کا قلب بعینہٖ وہی نقشہ پیش کر رہا تھا جسے دیکھ کر کبھی حضرت عزیر علیہ السلام کی زبان سے بے اختیار یہ الفاظ نکل گئے تھے کہ 
اَنّٰی یُحۡیٖ ہٰذِہِ اللّٰہُ بَعۡدَ مَوۡتِہَا (۲لیکن پھر امتِ مسلمہ کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کی وہی شان ظاہر ہوئی جس کا ظہور بنی اسرائیل کے حق میں ہوا تھا یعنی: (۱) سورۃ محمدؐ آیت ۳۸: ’’اگر تم پیٹھ موڑ لو گے تو (اللہ) تمہاری جگہ کسی دوسری قوم کو کھڑا کر دے گا‘‘

(۲) سورۃ البقرہ آیت ۲۵۹: ’’کیسے زندہ کرے گا اللہ اسے، اس کی موت کے بعد‘‘ 
ثُمَّ رَدَدۡنَا لَکُمُ الۡکَرَّۃَ عَلَیۡہِمۡ وَ اَمۡدَدۡنٰکُمۡ بِاَمۡوَالٍ وَّ بَنِیۡنَ وَ جَعَلۡنٰکُمۡ اَکۡثَرَ نَفِیۡرًا (۱صرف اس فرق کے ساتھ کہ چونکہ سابقہ امت مسلمہ ایک ہی نسل پر مشتمل تھی لہٰذا اس کی ’نشأۃ ثانیہ‘کا یہ عمل بھی لامحالہ اسی نسل کے اندر واقع ہوا. لیکن امتِ محمد علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے معاملے میں یہ مجبوری نہ تھی، لہٰذا یہاں ’تجدیدِ ملت‘ کا یہ کام اٰخَرِین کی مختلف اقوام سے لے لیا گیا. چنانچہ نہ صرف یہ کہ خود انہی ترکانِ چنگیزی کا بڑا حصہ اسلام لے آیا (۲جن کے ہاتھوں عالمِ اسلام پر ہولناک تباہی آئی تھی بلکہ انہی کے قبیل کے وحشی قبائل میں سے دو قبیلوں کو یہ توفیق ارزانی ہوئی کہ وہ حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے اور ان میں سے ایک یعنی ترکانِ تیموری نے ہندوستان میں ایک عظیم الشان مسلم سلطنت کی بنیاد رکھ کر عالمِ اسلام کے دائیں بازو کی توسیع کی اور دوسرے یعنی ترکانِ عثمانی نے ابتداءً ایشیائے کوچک میں قدم جمائے اور پھر رفتہ رفتہ اس عظیم الشان مسلمان مملکت کی بنیاد رکھی جس نے ایک طرف پورے مشرقی یورپ پر اپنی بالادستی کا سکہ جمایا، یہاں تک کہ ایک موقع پر اٹلی کے دروازوں تک دستک دی اور دوسری طرف شمالی افریقہ سمیت پورے عالمِ اسلام کے قلب کی حفاظت وسیادت کی ذمہ داری سنبھالی تاآنکہ خلافت کا بھی احیاء کیا. اور اس طرح گویا عالمِ اسلام کے قلب کی عظمت وسطوتِ گزشتہ پھر پوری طرح لوٹ آئی. اگرچہ عربوں کے ذریعے نہیں بلکہ ترکوں کے واسطے سے.

قدرت کے کھیل بھی عجیب ہیں. ادھر تو خلافتِ عثمانی کے استحکام کے ذریعے عالم اسلام کے قلب میں گویا ملت کی نشاۃِ ثانیہ ہوئی اور ادھر یورپی استعمار کے سیلاب کی صورت 
(۱) سورۃ بنی اسرائیل آیت ۶: ’’پھر ہم نے تمہیں ان پر دوبارہ غلبہ عطا فرمایا اور تمہاری مدد کی مال واسباب اور بیٹوں سے اور کر دی تمہاری نفری سب سے زیادہ‘‘

(۲) ہے عیاں فتنۂ تاتار کے افسانے سے پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے (اقبالؔ) 
میں امتِ مسلمہ پر عذابِ الٰہی کے دوسرے اور نہایت طویل دور کا آغاز ہو گیا جس کا اصل زور عالمِ اسلام کے میسرہ اور میمنہ کی جانب رہا. 

یہ ایک ناقابلِ تردید تاریخی حقیقت ہے کہ یورپ میں احیاء 
(Renaissance) کا پورا عمل اسلام ہی کے زیرِ اثر شروع ہوا اور یہ مسلمان ہی تھے جنہوں نے یورپ کو مشرق ومغرب کے علوم وفنون سے روشناس کرایا لیکن جیسے ہی یورپ میں بیداری پیدا ہوئی اور وہاں قوت کا دباؤ (Power Potential) بڑھا، گویا عالمِ اسلام کی شامت آگئی.

یورپ مشرق ومغرب دونوں اطراف سے مسلمانوں کے شکنجے میں جکڑا ہوا 
(Locked) تھا. لیکن مشرق میں عذاب کے وعدۂ اولیٰ کے بعد نشاۃِ ثانیہ کا عمل ظاہر ہو چکا تھا اور عظیم سلطنتِ عثمانیہ عالمِ اسلام کے قلب کے محافظ سنتری کی حیثیت سے کھڑی تھی البتہ مغرب میں اب دولتِ ہسپانیہ ’’مرنے والی امتوں کے عالمِ پیری‘‘ کا نقشہ پیش کر رہی تھی. لہٰذا ’’ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات‘‘ کے مصداق یورپی استعمار کا اولین شکار وہی بنی اور پندرہویں صدی عیسوی کے دوران اس عظیم سلطنت کا قلع وقمع ہو گیا. یہاں تک ۱۴۹۲ء میں سقوطِ غرناطہ کے بعد تو بعینہٖ وہ صورت پیدا ہو گئی جس کا نقشہ قرآن مجید میں عذابِ استیصال کا نوالہ بننے والی قوموں کے بیان میں کھینچا جاتا ہے یعنی : کَاَنۡ لَّمۡ یَغۡنَوۡا فِیۡہَا ؕ ھود:68) اور لَا یُرٰۤی اِلَّا مَسٰکِنُہُمۡ ؕ (احقاف:25) ’’جیسے کہ وہ کبھی وہاں آباد ہی نہ تھے‘‘ اور ’’اب ان کے ویران مسکنوں کے سوا اور کچھ نظر نہیں آتا‘‘.

۱۴۹۸ء میں واسکوڈی گاما نے نیا بحری راستہ تلاش کیا اور اس کے فوراً بعد یورپی استعمار کا سیلاب عالمِ اسلام کے میمنہ پر ٹوٹ پڑا اور انڈونیشیا، ملایا اور ہندوستان مختلف یورپی اقوام کے استبدادی پنجوں میں جکڑے گئے اور یہ عمل جس کا آغاز سولہویں صدی عیسوی سے ہوا، اٹھارہویں اور انیسویں صدی عیسوی میں عالمِ اسلام کے دائیں بازو کی حد تک اپنے عروج 
(Zenith) کو پہنچ گیا. اس اثناء میں دولتِ عثمانی بھی اپنے شباب کے دور سے گزر آئی تھی اور اب اس نے بھی ’مردِ بیمار‘ کی حیثیت اختیار کر لی تھی. گویا عالمِ اسلام کے قلب میں آٹھ صدیوں کے بعد پھر وہی قوت کا خلا پیدا ہو گیا جو گیارہویں صدی عیسوی میں دولتِ عباسیہ کے اضمحلال کے باعث پیدا ہوا تھا. اور قوت کے دباؤ کی اس کمی کے باعث مغربی استعمار کا رخ عالمِ اسلام کے قلب کی جانب مڑ گیا اور گویا اس کے اعتبار سے بھی ’’وعدالآخرۃ‘‘ کا وقت آپہنچا.

عالمِ اسلام کے قلب پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کے اس دوسرے دور کا آغاز بیسویں صدی کے شروع میں ہو گیا تھا. چنانچہ پہلی عالمگیر جنگ کے خاتمے پر جب دنیا کا نیا نقشہ سامنے آیا تو معلوم ہوا کہ عظیم دولتِ عثمانیہ سمٹ سمٹا کر ایشیائے کوچک میں محدود ہو گئی اور شمالی افریقہ سمیت پورا عالمِ عرب چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں منقسم ہو کر مختلف یورپی اقوام کے براہِ راست زیرِ نگیں ہو گیا یا بالواسطہ محکومی میں آگیا اور ہوبہو وہی کیفیت پیدا ہو گئی جس کی خبر مخبرِ صادق  نے ان الفاظ میں دی تھی کہ ’’ ایک زمانہ آئے گا کہ اقوامِ عالم ایک دوسرے کو تم پر ٹوٹ پڑنے کی اس طرح دعوت دیں گی جیسے کسی دعوتِ طعام کا اہتمام کرنے والا دسترخوان چُنے جانے پر مہمانوں کو بلایا کرتا ہے‘‘.

اس طرح بحیثیت مجموعی امتِ مسلمہ پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کے دورِ ثانی کی تکمیل اس صدی کے ربعِ اول میں ہو گئی تھی جب کہ پورا عالمِ اسلام مغربی استعمار کے ناپاک شکنجے میں جکڑا گیا. اگرچہ خاص اُمیِّیِّن کے حق میں وعد الآخرۃ کی وہ مکمل صورت جو 
لِیَسُوۡٓءٗا وُجُوۡہَکُمۡ وَ لِیَدۡخُلُوا الۡمَسۡجِدَ کَمَا دَخَلُوۡہُ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّ لِیُتَبِّرُوۡا مَا عَلَوۡا تَتۡبِیۡرًا (۱کے الفاظ میں بیان ہوئی تھی تقریباً نصف صدی بعد ۱۹۶۷ء میں ظاہر ہوئی جب اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی ایک مغضوب وملعون قوم کے ہاتھوں (۱) سورۃ بنی اسرائیل آیت ۷ :’’تو پھر جب آیا وقت دوسرے وعدے کا (تومسلط کئے تم پر وہ لوگ) تاکہ جلیہ بگاڑ دیں تمہارا اور گھس جائیں مسجد (اقصیٰ) میں جیسے کہ گھسے تھے پہلی بار اور تباہ وبرباد کر دیں جس پر بھی قابو پائیں.‘‘ 

ایک شرمناک اور ذلت آمیز شکست دلوائی اور عربوں کے عہدِ تولیت کے دوران ایک بار پھر مسجدِ اقصیٰ (۱کی حرمت پامال ہوئی اور بیت المقدس ان کے ہاتھوں سے نکل کر یہود کے قبضے میں چلا گیا اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس بار یہ قبضہ کتنا طویل ہو گا.

اس داستان کا الم ناک ترین باب یہ ہے کہ مغربی استعمار نے امت مسلمہ کی وحدتِ ملی کو پارہ پارہ کر دیا اور اس صدی کے آغاز ہی میں نسلی اور علاقائی عصبیتوں کے وہ بیج مسلمان اقوام کے دلوں میں بو دیئے جو ابھی تک برگ وبار لا رہے ہیں. چنانچہ پہلے انہوں نے عربوں کو ترکوں کے خلاف ابھارا. نتیجۃً عالمِ اسلام کا قلب دولخت ہو گیا. اور وحدتِ ملی کے علامتی ادارے 
(Symbol) یعنی خلافت کا بھی خاتمہ ہو گیا. پھر عالمِ عرب کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں (۱) یہ ایک عجیب تاریخی حقیقت ہے کہ روئے ارضی کے دو قبلوں میں سے بے حرمتی اور پامالی کا معاملہ چاروں مرتبہ مسجد اقصیٰ ہی کے ساتھ ہوا جسے غلطی سے قبلۂ اول کہہ دیا جاتا ہے. واضح رہنا چاہئے کہ قبلۂ اول بیت اللہ اور مسجد حرام ہے بفحوائے الفاظ قرآنی اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا جو خاص معاملہ رہا ہے وہ واقعۂ فیل سے ظاہر ہے. اور راقم کو تو یہی حکمت نظر آتی ہے اس میں کہ مسلمانوں کے سیاسی مرکز کو رفتہ رفتہ اس قبلۂ اول سے دور سے دور تر کیا جاتا رہا تاکہ اس امت کو بھی جب عذابِ الٰہی سے واسطہ پڑے تو اس کے ساتھ خانہ کعبہ کی حرمت بھی مجروح نہ ہو. چنانچہ خلافتِ راشدہ ہی کے اواخر میں مرکزِ عالمِ اسلام مدینہ منورہ سے کوفہ منتقل ہو گیا. پھر وہاں سے بھی دمشق اور بغداد کی جانب نقلِ مکانی ہوئی اور بالآخر انتہائی شمال یعنی قسطنطنیہ کو عالمِ اسلام کے ’دارالخلافہ‘کی حیثیتحاصل ہو گئی. اس طرح بیت اللہ کم از کم اغیار واعداء کی دست بُرد سے ہمیشہ محفوظ رہا. (یہ علیحدہ بات ہے کہ اس کے تقدس پر دو ایک مرتبہ خود ان لوگوں کے ہاتھوں کسی قدر آنچ آئی جو اپنے آپ کو مسلمان کہلواتے تھے!) 
میں اس طرح تقسیم کیا کہ نسلی اور لسانی اشتراک کے باوجود عالمِ عرب کے کامل اتحاد کا امکان تا حال دور دور تک نظر نہیں آتا.

اسی نسلی تعصب کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے اس عذاب کا مزہ بھی امتِ مسلمہ کو چکھنا پڑا جو قرآن مجید میں ان الفاظ میں بیان ہوا ہے کہ 
اَوۡ یَلۡبِسَکُمۡ شِیَعًا وَّ یُذِیۡقَ بَعۡضَکُمۡ بَاۡسَ بَعۡضٍ (سورۃ الانعام ۶۵یعنی تمہیں گروہوںمیں تقسیم کر دے اور پھر چکھائے ایک کو دوسرے کی جنگی قوت کا مزہ! چنانچہ اس صدی کے آغاز میں عربوں کے ہاتھوں ترکوں کا خون بہا اور پھر ۷۱ء میں بنگالی مسلمان کے ہاتھوں غیر بنگالی مسلمان کے خون کی ہولی اور جان ومال اور عزت وآبرو کی دھجیاں بکھرنے کا منظر چشمِ فلک نے دیکھا. فاعتبروا یا اولی الابصار. 

بہرحال ہمارے نزدیک اُمیِّیِّن کے لئے ۶۷ء کی ذلت اور اٰخَرِین کے ایک اہم حصے کے لئے ۷۱ء کی رسوائی کو امتِ مسلمہ کے زوال وانحطاط کی آخری حد کی حیثیت حاصل ہے اور اگرچہ وَ اِنۡ عُدۡتُّمۡ عُدۡنَا (۱کی مستقل وعید اب بھی موجود ہے. تاہم کیا عجب کہ اب عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یَّرۡحَمَکُمۡ ۚ ہی کی شان کا ظہور ہو اور کلنک کا کوئی اور ٹیکہ امتِ محمد علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی پیشانی پر نہ لگے، اگرچہ اس کا تمام تر دارومدار امت کی اپنی اصلاح پر ہے (۲
بقول جگر مراد آبادی مرحوم ؎

چمن کے مالی اگر بنا لیں مواقف اپنا شعار اب بھی 
چمن میں آسکتی ہے پلٹ کر چمن سے روٹھی بہار اب بھی
(۱) سورۃ بنی اسرائیل آیت ۸: ’’بعید نہیں کہ تمہارا رب تم پر رحم فرمائے لیکن اگر تم نے پھر وہی کچھ کیا تو ہم بھی دوبارہ وہی کچھ کریں گے‘‘
(۲) افسوس کہ یہ امید صحیح ثابت نہیں ہوئی (۱۹۹۱ء)