بنی اسرائیل جب فلسطین میں داخل ہوئے تو … انہوں نے اپنی کوئی متحدہ سلطنت قائم نہ کی. وہ قبائلی عصبیت میں مبتلا تھے. ان کے ہر قبیلے نے اس بات کو پسند کیا کہ مفتوح علاقے کا ایک حصہ لے کر الگ ہو جائے.
۱. عروجِ اول: عہدِ زریں
آخر کار بنی اسرائیل کو ایک فرمانروا کے تحت اپنی ایک متحدہ سلطنت قائم کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی اور ان کی درخواست پر حضرت سموئیل نبی نے ۱۰۲۰قبل مسیح میں طالوت کو ان کا بادشاہ بنایا.
اس متحدہ سلطنت کے تین فرمانروا ہوئے. طالوت (۱۰۲۰ تا ۱۰۰۴ ق م) ، حضرت داؤد علیہ السلام (۱۰۰۴ تا ۹۶۵ ق م) اور حضرت سلیمان علیہ السلام (۹۶۵ تا ۹۲۶ ق م). ان فرمانرواؤں نے اس کام کو مکمل کیا جسے بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد نامکمل چھوڑ دیا تھا.
۲. زوال اور عذاب کا پہلا دور
حضرت سلیمان ؑکے بعد بنی اسرائیل پر دنیا پرستی کا پھر شدید غلبہ ہوا اور انہوں نے آپس میں لڑ کر اپنی دو الگ سلطنتیں قائم کر لیں. شمالی فلسطین اور شرق اردن میں سلطنت اسرائیل، جس کا پایۂ تخت آخر کار سامریہ قرار پایا. اور جنوبی فلسطین اور ادوم کے علاقے میں سلطنت یہودیہ جس کا پایۂ تخت یروشلم رہا. ان دونوں سلطنتوں میں سخت رقابت اور کشمکش اول روز سے شروع ہو گئی اور آخر تک رہی.
ان میں سے اسرائیلی ریاست کے فرمانروا اور باشندے ہمسایہ قوموں کے مشرکانہ عقائد اور اخلاقی فساد سے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ متاثر ہوئے اور یہ حالت اپنی انتہا کو پہنچ گئی. حضرت الیاس اور حضرت الیسع علیہما السلام نے اس سیلاب کو روکنے کی انتہائی کوشش کی مگر یہ قوم جس تنزل کی طرف جا رہی تھی اس سے باز نہ آئی. آخر کار اللہ کا غضب اشوریوں کی شکل میں دولت اسرائیل کی طرف متوجہ ہوا اور نویں صدی قبل مسیح سے فلسطین پراشوری فاتحین کے مسلسل حملے شروع ہو گئے. اس دور میں عاموس نبی (۷۸۷ تا ۷۴۷ قبل مسیح) اور پھر ہو سیع نبی (۷۴۷ تا ۷۳۵قبل مسیح) نے اٹھ کر اسرائیلیوں کو پے درپے تنبیہات کیں، مگر جس غفلت کے نشے میں وہ سرشار تھے وہ تنبیہہ کی ترشی سے اور زیادہ تیز ہو گیا. اس کے بعد کچھ زیادہ مدت نہ گزری تھی کہ خدا کا عذاب اسرائیلی سلطنت اور اس کے باشندوں پر ٹوٹ پڑا. ۷۲۱ قبل مسیح میں اشور کے سخت گیر فرمانروا سارگون نے سامریہ کو فتح کر کے دولت اسرائیل کا خاتمہ کر دیا، ہزار ہا اسرائیلی تہ تیغ کئے گئے، ۲۷ ہزار سے زیادہ بااثر اسرائیلیوں کو ملک سے نکال کر اشوری سلطنت کے مشرقی اضلاع میں تتر بتر کر دیا گیا اور دوسرے علاقوں سے لا کر غیر قوموں کو اسرائیل کے علاقے میں بسایا گیا جن کے درمیان رہ بس کر بچا کھچا اسرائیلی عنصر بھی اپنی قومی تہذیب سے روز بروز زیادہ بیگانہ ہوتا چلا گیا.
بنی اسرائیل کی دوسری ریاست جو یہودیہ کے نام سے جنوبی فلسطین میں قائم ہوئی، وہ بھی حضرت سلیمان علیہ السلام کے بعد بہت جلدی شرک اور بداخلاقی میں مبتلا ہو گئی مگر نسبتہً اس کا اعتقادی اور اخلاقی زوال دولتِ اسرائیلی کی بہ نسبت سست رفتار تھا، اس لئے اس کو مہلت بھی کچھ زیادہ دی گئی. پھر جب حضرت یسعیاہ اور حضرت یرمیاہ کی مسلسل کوششوں کے باوجود یہودیہ کے لوگ بت پرستی اور بداخلاقیوں سے باز نہ آئے تو ۵۹۸ قبل مسیح میں بابل کے بادشاہ بخت نصر نے یروشلم سمیت پوری دولت یہودیہ کو مسخر کر لیااور یہودیہ کا بادشاہ اس کے پاس قیدی بن کر رہا. یہودیوں کی بداعمالیوں کا سلسلہ اس پر بھی ختم نہ ہوا اور حضرت یرمیاہ کے سمجھانے کے باوجود وہ اپنے اعمال درست کرنے کے بجائے بابل کے خلاف بغاوت کر کے اپنی قسمت بدلنے کی کوشش کرنے لگے. آخر ۵۸۷ قبل مسیح میں بخت نصر نے ایک سخت حملہ کر کے یہودیہ کے تمام بڑے چھوٹے شہروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی. یروشلم اور ہیکل سلیمانی کو اس طرح پیوند خاک کیا کہ اس کی ایک دیوار بھی اپنی جگہ کھڑی نہ رہی، یہودیوں کی بہت بڑی تعداد کو ان کے علاقے سے نکال کر ملک ملک میں تتر بتر کر دیا اور جو یہودی اپنے علاقے میں رہ گئے وہ بھی ہمسایہ قوموں کے ہاتھوں بری طرح ذلیل اور پامال ہو کر رہے. یہ تھا وہ پہلا فساد جس سے بنی اسرائیل کو متنبہ کیا گیا تھا اور یہ تھی وہ پہلی سزا جو اس کی پاداش میں ان کو دی گئی.
جہاں تک سامریہ اور اسرئیل کے لوگوں کا تعلق ہے، وہ تو اخلاقی واعتقادی زوال کی پستیوں میں گرنے کے بعد پھر نہ اٹھے، مگر یہودیہ کے باشندوں میں ایک بقیہ ایسا موجود تھا جو خیر پر قائم اور خیر کی دعوت دینے والا تھا. اس نے ان لوگوں میں بھی اصلاح کا کام جاری رکھا جو یہودیہ میں بچے کھچے رہ گئے تھے اور ان لوگوں کو بھی توبہ وانابت کی ترغیب دی جو بابل اور دوسرے علاقوں میں جلاوطن کر دیئے گئے تھے. آخر کار رحمت الہٰی ان کی مددگار ہوئی. بابل کی سلطنت کو زوال ہوا. ۵۳۹ قبل مسیح میں ایرانی فاتح سائرس (خورس یا خسرو) نے بابل کو فتح کیا اور ا س کے دوسرے ہی سال اس نے فرمان جاری کر دیا کہ بنی اسرائیل کو اپنے وطن واپس جانے اور وہاں دوبارہ آباد ہونے کی عام اجازت ہے چنانچہ اس کے بعد یہودیوں کے قافلے پر قافلے یہودیہ کی طرف جانے شروع ہو گئے جن کا سلسلہ مدتوں جاری رہا. آخر داریوس (دارا) اول نے ۵۲۲ ق م میں یہودیہ کے آخری بادشاہ کے پوتے زروبابل کو یہودیہ کا گورنر مقرر کیا اور اس نے حجی نبی، زکریا نبی اور سردار کاہن یشوع کی نگرانی میں ہیکل مقدس نئے سرے سے تعمیر کیا. پھر ۴۵۸ ق م میں ایک جلا وطن گروہ کے ساتھ حضرت عزیر (عزرا) یہودیہ پہنچے.
۳. عروجِ ثانی: دولتِ مکابی
حضرت عزیر نے دین موسوی کی تجدید کا بہت بڑا کام انجام دیا. انہوں نے یہودی قوم کے تمام اہل خیر وصلاح کو ہر طرف سے جمع کر کے ایک مضبوط نظام قائم کیا. بائبل کی کتب خمسہ کو جن میں تورات تھی، مرتب کر کے شائع کیا. یہودیوں کی دینی تعلیم کا انتظام کیا، قوانین شریعت کو نافذ کر کے ان اعتقادی اور اخلاقی برائیوں کو دور کرنا شروع کیا جو بنی اسرائیل کے اندر غیر قوموں کے اثر سے گھس آئی تھیں، ان تمام مشرک عورتوں کو طلاق دلوائی جن سے یہودیوں نے بیاہ کر رکھے تھے اور بنی اسرائیل سے از سرنو خدا کی بندگی اور اس کے آئین کی پیروی کا میثاق لیا.
ایرانی سلطنت کے زوال اور سکندر اعظم کی فتوحات اور پھر یونانیوں کے عروج سے یہودیوں کو کچھ مدت کے لئے ایک سخت دھکا لگا. سکندر کی وفات کے بعد اس کی سلطنت جن تین سلطنتوں میں تقسیم ہوئی تھی، ان میں سے شام کا علاقہ اُس سلوقی سلطنت کے حصے میں آیا جس کا پایہ تخت انطاکیہ تھا اور اس کے فرمانروا انٹیوکس ثالث نے ۱۹۸ ق م میں فلسطین پر قبضہ کر لیا. یہ یونانی فاتح، جو مذہباً مشرک اور اخلاقاً اباحیت پسند تھے، یہودی مذہب وتہذیب کو سخت ناگوار محسوس کرتے تھے. انہوں نے اس کے مقابلے میں سیاسی اور معاشی دباؤ سے یونانی تہذیب کو فروغ دینا شروع کیا.
۱۷۵ ق م میں انٹیوکس چہارم جب تخت نشین ہوا تو اس نے پوری جابرانہ طاقت سے کام لے کر یہودی مذہب وتہذیب کی بیخ کنی کرنی چاہی. لیکن یہودی اس جبر سے مغلوب نہ ہوئے اور ان کے اندر ایک زبردست تحریک اٹھی جو تاریخ میں مکابی بغاوت کے نام سے مشہور ہے. عام یہودیوں میں حضرت عزیر کی پھونکی ہوئی روحِ دینداری کا اتنا زبردست اثر تھا کہ وہ سب مکابیوں کے ساتھ ہو گئے اور آخر کار انہوں نے یونانیوں کو نکال کر اپنی ایک آزاد دینی ریاست قائم کر لی جو ۶۷ ق م تک قائم رہی. اس ریاست کے حدود پھیل کر رفتہ رفتہ اس پورے رقبے پر حاوی ہو گئے جو کبھی یہودیہ اور اسرئیل کی ریاستوں کے زیر نگیں تھے، بلکہ فلستیہ کا بھی ایک بڑا حصہ اس کے قبضے میں آگیا جو حضرت داؤد وسلیمان علیہما السلام کے زمانے میں بھی مسخر نہ ہوا تھا.
مکابیوں کی تحریک جس اخلاقی ودینی روح کے ساتھ اٹھی تھی وہ بتدریج فنا ہوتی چلی گئی اور اس کی جگہ خالص دنیا پرستی اور بے روح ظاہرداری نے لے لی. آخر کار ان کے درمیان پھوٹ پڑ گئی اور انہوں نے خود رومی فاتح پومپی کو فلسطین آنے کی دعوت دی. چنانچہ پومپی ۶۳ ق م میں اس ملک کی طرف متوجہ ہوا اور اس نے بیت المقدس پر قبضہ کر کے یہودیوں کی آزادی کا خاتمہ کر دیا. انہوں نے فلسطین میں اپنے زیر سایہ ایک دیسی ریاست قائم کر دی جو بالآخر ۴۰ ق م میں ایک ہوشیار یہودی ہیرود نامی کے قبضے میں آئی. یہ شخص ہیرود اعظم کے نام سے مشہور ہے. اس کی فرمانروائی پورے فلسطین اور شرق اردن پر ۴۰ سے ۴ قبل مسیح تک رہی.
اس نے ایک طرف مذہبی پیشواؤں کی سرپرستی کر کے یہودیوں کو خوش رکھا اور دوسری طرف رومی تہذیب کو فروغ دے کر اور رومی سلطنت کی وفاداری کا زیادہ سے زیادہ مظاہرہ کر کے قیصر کی بھی خوشنودی حاصل کی. اس زمانے میں یہودیوں کی دینی واخلاقی حالت گرتے گرتے زوال کی آخری حد کو پہنچ چکی تھی.
ہیرود کے بعد اس کی ریاست تین حصوں میں تقسیم ہو گئی.
اس کا ایک بیٹا ارخلاؤس سامریہ، یہودیہ اور شمالی ادومیہ کا فرمانروا ہوا مگر۶ء میں قیصر آگسٹس نے اس کو معزول کر کے اس کی پوری ریاست اپنے گورنر کے ماتحت کر دی اور ۴۱ء تک یہی انتظام قائم رہا. یہی زمانہ تھا جب حضرت مسیح علیہ السلام بنی اسرائیل کی اصلاح کیلئے اٹھے اور یہودیوں کے تمام مذہبی پیشواؤں نے مل کر ان کی مخالفت کی اور رومی گورنر پونتس پیلاطس سے ان کو سزائے موت دلوانے کی کوشش کی. (اور اپنے خیال کے مطابق تو ان کو سولی پر چڑھوا ہی دیا!)
ہیرود کا دوسرا بیٹا ہیرود اینٹی پاس شمالی فلسطین کے علاقہ گلیل اور شرق اردن کا مالک ہوا اور یہی وہ شخص ہے جس نے ایک رقاصہ کی فرمائش پر حضرت یحییٰ علیہ السلام کا سر قلم کر کے اس کی نذر کیا.
اس کا تیسرا بیٹا فلپ، کوہ حرمون سے دریائے یرموک تک کے علاقے کا مالک ہوا اور یہ اپنے باپ اور بھائیوں سے بھی بڑھ کر رومی ویونانی تہذیب میں غرق تھا.
۴۱ء میں ہیرود اعظم کے پوتے ہیرود اگرپا کو رومیوں نے ان تمام علاقوں کا فرمانروا بنا دیا جن پر ہیرود اعظم اپنے زمانے میں حکمراں تھا. اس شخص نے برسراقتدار آنے کے بعد مسیح علیہ السلام کے پیروؤں پر مظالم کی انتہا کر دی اور اپنا پورا زور خدا ترسی واصلاحِ اخلاق کی اس تحریک کو کچلنے میں صرف کر ڈالا جو حواریوں کی رہنمائی میں چل رہی تھی.
۴. زوال وعذاب کا دوسرا دور
اس پر تھوڑا زمانہ ہی گزرا تھا کہ یہودیوں اور رومیوں کے درمیان سخت کشمکش شروع ہو گئی اور ۶۴ء اور ۶۶ء کے درمیان یہودیوں نے کھلی بغاوت کر دی. ہیرود اگرپا ثانی اور رومی پروکیوریٹر فلورس، دونوں اس بغاوت کو فرو کرنے میں ناکام ہوئے. آخرکار رومی سلطنت نے ایک سخت فوجی کارروائی سے اس بغاوت کو کچل ڈالا اور ۷۰ء میں ٹیٹس نے بزور شمشیر یروشلم کو فتح کر لیا. اس موقع پر قتل عام میں ایک لاکھ ۳۳ ہزار آدمی مارے گئے، ۶۷ ہزار آدمی گرفتار کر کے غلام بنائے گئے، ہزار ہا آدمی پکڑ پکڑ کر مصری کانوں میں کام کرنے کیلئے بھیج دیئے گئے، ہزاروں آدمیوں کو پکڑ کر مختلف شہروں میں بھیجا گیا تاکہ ایمفی تھیٹروں اور کلوسیموں میں ان کو جنگلی جانوروں سے پھڑوانے یا شمشیر زنوں کے کھیل کا تختۂ مشق بننے کیلئے استعمال کیا جائے. تمام دراز قامت اور حسین لڑکیاں فاتحین کیلئے چن لی گئیں اور یروشلم کے شہر اور ہیکل کو مسمار کر کے پیوندِ خاک کر دیا گیا. اس کے بعد فلسطین سے یہودی اثر واقتدار ایسا مٹا کہ دوہزار برس تک اس کو پھر سراٹھانے کا موقع نہ ملا اور یروشلم کا ہیکل مقدس پھر کبھی تعمیر نہ ہو سکا. بعد میں قیصر ہیڈریان نے اس شہر کو دوبارہ آباد کیا مگر اب اس کا نام ایلیا تھا اور اس میں مدت ہائے دراز تک یہودیوں کو داخل ہونے کی اجازت نہ تھی.
یہ تھی وہ سزا جو بنی اسرائیل کو دوسرے فسادِ عظیم کی پاداش میں ملی.