احادیث ِنبویہ علیٰ صاحبہا الصّلٰوۃ والسّلام

مقدمہ جورمضان المبارک ۱۴۰۷ھ کے آخری عشرے میں مکہ مکرمہ (زاد اللہ شرفھا) میں قلمبند ہوا 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ 
زیر نظر کتاب راقم الحروف کی چند تحریروں اور تقریروں کا مجموعہ ہے جو ۸۵.۱۹۸۴ء کے دوران اکثر وبیشتر ماہنامہ ’’میثاق‘‘ اور بعض مجلّہ ’’حکمت قرآن‘‘ میں شائع ہوئیں.

ان کی وہ قدر مشترک‘جو ان کی کتابی صورت میں تالیف کا سبب بنی‘یہ ہے کہ ان میں علماِءکرام ‘بالخصوص منتسبین حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن رحمہ اللہ علیہ سے خطاب اور عرض معروض بھی ہے.

اور ان میں سے بعض حضرات کے اعتراضات کا جواب اور شکوک و شبہات کا ازالہ بھی.

یہ بحث دو اسباب سے شروع ہوئی:
ایک: یہ کہ راقم نے اپنی ایک پرانی تحریر جو ’’میثاق‘‘ کی ستمبر و اکتوبر ۱۹۷۵ء کی مشترک اشاعت میں ’’مولانا ابوالکلام آزاد‘جمعیت علماء ہنداور حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ ‘‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی تھی بطور ’’قندمکرر‘ ‘جنوری ۱۹۸۴ء کے پرچے میں دوبارہ شائع کر دی.
جس پر طنزوطعن سے بھرے ہوئے دو خطوط کہروڑپکا (ضلع ملتان) کے مولانا اللہ بخش ملکانوی صاحب کے موصول ہوئے جن میں متحدیانہ انداز کے سوالات بھی تھے.

میں‘اپنی دعوت و تحریک کی مصلحتوں کے پیشِ نظر‘طعن و طنز سے صرف نظر کرتے ہوئے ازالۂ شبہات کی موزوں اور مناسب صورت کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ ان کی ایک تیزو تند تحریر ماہنامہ ’’الخیر‘‘ ملتان میں بھی شائع ہو گئی.

جس کے نتیجے میں‘مجبوراً راقم کو بھی وضاحتی جواب ’’میثاق‘‘ میں شائع کرنا پڑا.
……(اس ضمن میں راقم نے خود بھی ’’میثاق‘‘ میں مولانا ملکانوی کے دونوں خطوط اور ’’الخیر‘‘ میں شائع شدہ تحریر شائع کر کے جوابی گزارشات پیش کی تھیں… اور علماء کرام سے متوقع اخلاق عالیہ اور صحافتی و تصنیفی روایات کے پیش نظر معاصر ’’الخیر‘‘ سے بھی درخواست کی تھی کہ وہ بھی میری وضاحتی گزارشات کو اپنے مؤقر مجلے میں شائع فرما دیں… یا کم از کم ہمیں اپنے قارئین کے پتے فراہم کر دیں تاکہ ہم ان کی خدمت میں ’’میثاق‘‘ کا وہ شمارہ ارسال کر سکیں… لیکن ؏ ’’اے بسا آرزو کہ خاک شدہ!‘‘)

دوسرے: یہ کہ ان ہی دنوں لاہور میں ایک ایسی نوجوان شخصیت ابھر کر سامنے آئی جس نے مولانا امین احسن اصلاحی کو اپنا ’’استاد‘‘ قرار دے کر‘حد رجم کے ضمن میں جہاں مولانا اصلاحی کی رائے کی انتہا ہوئی تھی‘ وہاں سے آغاز فرماتے ہوئے شریعت اسلامی کے پورے ڈھانچے کو درہم برہم اور تہہ و بالا کرنے کا بیڑا اٹھا لیا.

اور چونکہ یہ نوجوان زبان و قلم کی استعدادات سے بخوبی مسلّح تھا‘لہٰذا دیکھتے ہی دیکھتے لاہور کے دین پسند نوجوانوں میں اس کا ایک حلقۂ اثر پیدا ہو گیا.

جہاں تک مولانا اصلاحی کا تعلق ہے‘رجم کے ضمن میں ان کی عظیم غلطی اور بعض دوسرے معاملات میں ان کے شذوذ کے ساتھ ساتھ ان کی دینی و علمی خدمات بھی نہایت شاندار ہیں جن کا انکار ممکن نہیں. 

جن میں سرفہرست تو بلاشبہ خدمت قرآن کے ضمن میں ان کی عمر بھر کی مساعی ہیں جن کے ذریعے انہوں نے نظم قرآن‘اسالیب قرآن اور تفسیر القرآن بالقرآن کے ضمن میں اپنے استاذ و امام مولانا حمید الدین فراہیؒ کے کام کو آگے بڑھایا. 

پھر اسی پر بس نہیں‘ انہوں نے شریعت اسلامی کے بعض اہم مسائل‘بالخصوص عائلی قوانین کے ضمن میں مغربی رجحانات کی مذمت و مخالفت اور احکامِ شرعی کی حفاظت و مدافعت کے سلسلے میں جو مؤثر خدمات سرانجام دیں ان کا لوہا ہر شخص مانتا ہے.

چنانچہ‘اس کے باوجود کہ بعض دوسرے حوادث و واقعات کی بنا پر مولانا سے راقم الحروف کا ملنا جلنا ۱۹۷۶ء سے بند تھا‘ اور’’حدرجم‘‘کے بارے میں ان کی رائے کی بنا پر تو راقم نے ۱۹۸۲ء میں ان کی جملہ تصانیف کا حق اشاعت بھی انہیں واپس کر دیا تھا اور ان سے اپنے تعلق کے کامل انقطاع کا اعلانِ عام بھی کر دیا تھا‘(شائع شدہ ’’حکمت قرآن‘‘ بابت جولائی و اگست۱۹۸۲ء)

تاہم… راقم کو یہ اندیشہ نہیں تھا کہ مولانا کی اس غلطی کی بنیاد پر کوئی فتنہ کھڑا ہو سکتا ہے.

لیکن… متذکرہ بالا نوجوان کے طرزِعمل سے راقم کو یہ تنبّہ ہوا کہ ایک عظیم فتنہ شروع ہوا چاہتا ہے جس کی سرکوبی ’’گربہ کشتن روزِاوّل‘‘ کے مصداق ابتدا ہی میں لازمی ہے.
چنانچہ راقم نے اپنی بساط کی حد تک اس کی کوشش کی.

اور الحمدللہ کہ اس کے خاطر خواہ نتائج بھی برآمد ہوئے.
(اس معاملے میں راقم کے احساسات کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس نوجوان کے ساتھ ربط ضبط بڑھانے اور اس کے ساتھ ایک تنظیمی سلسلے میں منسلک ہوجانے کی بنا پر راقم نے اپنے ایک دیرینہ سرپرست اور تنظیم اسلامی کے حلقۂ مستشارین میں شامل شخصیت مولانا سید وصی مظہر ندوی سے بھی قطع تعلق کر لیا.)

اس کے ساتھ ہی راقم کو یہ احساس بھی ہوا کہ ماضی قریب میں قرآن کے نام پر اٹھنے والی تحریکوں سے اسی طرح فتنے جنم لیتے رہے ہیں.

اور غالباً یہی سبب ہے کہ ؏ ’’سنگ اٹھا یا تھا کہ سریاد آیا!‘‘ … کے مصداق علماء کرام خدمت دین کی نئی تحریکوں اور بالخصوص قرآن کے نام پر اٹھنے والی دعوتوں کے بارے میں ’’اندیشہ ہائے دور و دراز‘‘ میں مبتلا ہو جاتے ہیں!

اس ضمن میں یہ عملی مسئلہ بھی راقم کے سامنے آن کھڑا ہوا کہ اس صورتِ حال کا سدّباب کیسے کیا جا سکتا ہے…… اور خود راقم الحروف اور اس کی دعوت و تحریک کو اس انجامِ بد سے بچنے کے لیے کیا اقدامات کرنے چاہئیں اور کون سی احتیاطیں ملحوظ رکھنی چاہئیں؟
چنانچہ رمضان المبارک ۱۴۰۴ھ کے جمعۃ الوداع میں راقم نے اس موضوع پر ایک مفصل تقریر کی جو ’’میثاق‘‘ بابت ستمبر ۱۹۸۴ء میں شائع ہوئی.

اس پر جہاں بعض اکابر کا بحیثیت مجموعی موافق و تائیدی ردّعمل سامنے آیا‘جیسے: ……مولانا سعید احمد اکبر آبادی مرحوم و مغفور‘سابق صدر شعبۂ معارف اسلامیہ‘ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ‘و سابق صدر شیخ الہندؒ اکیڈمی‘دیوبند……مولانا اخلاق حسین قاسمی مدظلہ‘مہتمم و شیخ التفسیر‘جامعہ رحیمیہ‘دہلی…اور……مولانا سیدحامد میاں مدظلہ‘مہتمم و شیخ الحدیث‘جامعہ مدنیہ‘لاہور وہاں معاصر ’’الخیر‘ ‘ملتان اور ’’بیّنات‘‘ کراچی نے مخالفانہ مہم بھی شروع کر دی‘ جس پر ردّ و قدح اور قال و اقول کا سلسلہ شروع ہو گیا.

جو ان حضرات کی جانب سے تو تاحال جاری ہے‘البتہ راقم نے ۸۵.۱۹۸۴ء میں ضروری وضاحتوں کے بعد اپنی جانب سے بحث منقطع کر دی تھی.

تاہم…اب لگ بھگ دو سال بعد اس’’مقدمہ‘‘ کا پورا ریکارڈعلماء کرام‘بالخصوص منتسبینِ حضرت شیخ الہندؒ کی خدمت میں فوری حوالے کے لیے یکجا صورت میں حاضر ہے
تاکہ…… وہ احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کا فریضہ علیٰ و ‘جہ البصیرت ادافرما سکیں…

اور

اگرچہ ہمیں شدت کے ساتھ احساس ہے کہ علماءِ حق اس کے محتاج نہیں‘
تاہم ’’کَلَّا اِنَّھَا تَذْکِرَۃ‘‘ کے مصداق اس گزارش میں مضائقہ بھی نہیں‘کہ وہ… تنظیم اسلامی… اور اس کے داعی و مؤسس کے بارے میں رائے قائم فرماتے ہوئے حسبِ ذیل قرآنی ہدایات کو ملحوظ خاطر رکھیں:

وَاِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا 
کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَآئَ لِلّٰہِ وَلَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِالْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ
کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ لِلّٰہِ شُہَدَآئَ بِالْقِسْطِ وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلاَّ تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ہُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی 

(۲) 
’’تنظیم اسلامی‘‘ کی تأسیس بالفعل تو مارچ ۱۹۷۵ء میں ہوئی تھی.
لیکن اس کے قیام کے فیصلے کا اعلان راقم الحروف نے جولائی ۱۹۷۴ء میں مسلم ہائی اسکول لاہور میں منعقدہ اکیس روزہ قرآنی تربیت گاہ کے آخری دن اپنی اختتامی تقریر میں کیا تھا. (یہ تقریر اب ’’عزمِ تنظیم‘‘ کے نام سے طبع ہوتی ہے!)

یادش بخیر‘اس تربیت گاہ کی افتتاحی تقریب کے مہمانِ خصوصی شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوریؒ کے فرزندار جمندو خلف الرشید مولانا عبیداللہ انورؒ تھے.

…(اس تقریب کا یہ واقعہ بھی ریکارڈ پر آ جائے تو اچھا ہے کہ جب راقم نے اپنے استقبالی سپاس نامے میں مولانا موصوفؒ سے بصد ادب و احترام یہ شکوہ کیا کہ ان کے برادر بزرگ مولانا حبیب اللہؒ کے حجاز ہجرت کر جانے اور برادر خورد مولانا حمیداللہؒ کے انتقال فرما جانے کے بعد سے جامع مسجد شیرانوالہ میں درس قرآن کا سلسلہ بند ہے تو انہوں نے پورے کھلے دل کے ساتھ اور نہایت برملا الفاظ میں اعترافِ تقصیر فرمایا اور خود راقم الحروف کے بارے میں اقبال کا یہ مصرعہ پڑھتے ہوئے کہ ؏ ’’پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے‘‘ اس اطمینان کا اظہار فرمایا کہ بحمداللہ خدمت قرآن کا یہ سلسلہ جاری ہے اور جاری رہے گا.)

باز آمدم بر سر مطلب… اس کے بعد’ میثاق‘ کی اکتوبر‘نومبر ۱۹۷۴ء کی مشترک اشاعت میں راقم کی ایک طویل تحریر شائع ہوئی جس کا اصل مقصد یہ تھا کہ’ ’تنظیم اسلامی‘‘ کے عنوان سے دین کی جس خدمت کا بیڑا اٹھانا مقصود ہے امتِ مسلمہ کی چودہ سوسالہ تاریخ کے پس منظر اور معاصر دینی تحریکوں اور تنظیموں کے تناظر میں اس کا موقف و مقام کیا ہے. (یہ تحریر بھی اب ’’تنظیم اسلامی کا تاریخی پس منظر‘‘ کے نام سے طبع ہوتی ہے.)
چنانچہ اپنی اس تحریر میں راقم نے امت مسلمہ کی چودہ سوسالہ تاریخ کے دوران عروج اور زوال کے مختلف ادوار کا مختصر جائزہ بھی پیش کیا…

اور ’’موجودہ ہمہ جہتی احیائی عمل‘‘ اور اس میں شامل تحریکوں اور تنظیموں کے بارے میں اپنی رائے بھی پیش کی.

راقم کے نزدیک اس ’’ہمہ جہتی احیائی عمل‘‘ کے تین نمایاں منفرد اور ممتاز گوشے ہیں:
……ایک :خالص قومی و ملی تحریکیں جن کا اصل موضوع ہے جہاد ِحریت و استخلاصِ دیارِ مسلمین‘یعنی مسلم ممالک کی سیاسی غلامی کا خاتمہ اور آزادی کا حصول.

……دوسرے: علماءِ کرام کی مساعی جن کا اصل ہدف ہے تصحیح عقائد و اعمال‘
تعلیم کتاب و سنت‘حفاظت دین و شریعت…اور باطل فرقوں کا ابطال اور جدید فتنوں کا استیصال.

……تیسرے: مثبت احیائی و تجدیدی مساعی جن کا معین مقصود ہے اسلام کی نشأۃِ ثانیہ اور غلبۂ دین حق‘یا بالفاظ دیگر اللہ کی زمین پر اللہ کی حکومت کا قیام! ثانیہ اور غلبۂ دین حق‘یا بالفاظ دیگر اللہ کی زمین پر اللہ کی حکومت کا قیام!

اور یہ تینوں گوشے مل جل کر‘اور یہ جملہ مساعی بحیثیت مجموعی تسلسل ہیں اُمتِ محمدﷺ کی تاریخ کے ’’الفِ ثانی‘‘ (یعنی دوسرے ہزار سال) کی تجدیدی مساعی کے سنہری سلسلے کا!

راقم کے نزدیک ‘بر ِعظیم پاک و ہند کی بیسویں صدی عیسوی کی مسلمان تحریکوں میں سے ’’تحریک پاکستان‘‘ گوشۂ اوّل سے تعلق رکھتی ہے‘جبکہ علماءِ کرام کی جملہ جمعیتیں اور ادارے اور بالخصوص تبلیغی جماعت کا تعلق دوسرے گوشے سے ہے‘جبکہ تیسرے سلسلے کے داعیٔ اوّل کی حیثیت مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم و مغفور کو حاصل ہے!

’’الف ثانی‘‘ کے تجدیدی کارنامے کا نقطۂ آغاز اور گیارہویں صدی ہجری کے مجدّدِاعظم تو بلاشک و شبہ شیخ احمد سرہندیؒ ہیں… لیکن ان کے ہم عصر شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ کی علمی خدمات بھی یقینا قابل تحسین ہیں.

اسی طرح بارہویں صدی ہجری کے مجدّدِ اعظم تو بلاشائبہ ریب و شک امام الہند 
شاہ ولی اللہ دہلویؒ ہیں لیکن شیخِ نجد محمد ابن عبدالوہابؒ کی اصلاحی کوششیں بھی یقینا قابلِ تعریف ہیں.

اسی طرح تیرہویں صدی ہجری کے اصل مجدّد تو مجاہد کبیر سید احمد بریلویؒ ہیں‘تاہم ان کے نائب و معاون شاہ اسماعیل شہیدؒ ‘بھی ان کے ساتھ برابر کے شریک اور سہیم ہیں!
چودھویں صدی ہجری کے بارے میں راقم کا یہ گمان رفتہ رفتہ یقین کے درجے تک پہنچ گیا ہے کہ اس کے مجدّدِ اعظم حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ ہیں… (اگرچہ بعض دوسرے اصحاب دعوت و عزیمت کے علاوہ ایک ؏ ’برہمن زادۂ رمز آشنائے روم و تبریزاست‘‘ کی سچی تصویر اور ؏ ’’اگرچہ سرنہ تراشد قلندری داند‘‘ کا مصداقِ اتم ّ اور ڈاڑھی منڈا عاشق احمد مرسلﷺ و پروانۂ احمد سرہندیؒ یعنی علامہ اقبال مرحوم و مغفور کی مساعی بھی حد درجہ دُور رس اور از بس نتیجہ خیز ہیں!)

عجیب بات ہے کہ اپنے انتقال کے قریب حضرت شیخ الہندؒ نے ’’خرقۂ خلافت‘‘عطا فرمادیا ایک ایسے شخص کو جو نہ صرف یہ کہ نہ ان کے تلامذہ میں سے تھا‘نہ حلقہ دیوبند سے تعلق رکھتا تھا‘بلکہ علماء کے دیگر معروف حلقوں اور سلسلوں میں سے بھی کسی سے منسلک نہ تھا…

حتیٰ کہ علماء کی سی وضع قطع بھی نہ رکھتا تھا ‘بلکہ بقول خود ’’گلیم زہد اور ردائے رندی‘‘ دونوں کو بیک وقت زیب تن کرنے کے ’’جرم‘‘ کا مرتکب تھا……

اور عجیب اتفاق ہے کہ اس کا نام بھی احمد ہی تھا‘اگرچہ وہ مشہور یا اپنی کنیت سے ہوا یا تخلص سے ‘یعنی ’’ابوالکلام آزاد‘‘ 

یہ ہمارے ماضی ٔ قریب کی تاریخ کا نہایت اہم واقعہ ہے جس پر معاصرانہ چشمک نے انتہائی دبیز پردہ ڈال دیا ہے! 
لیکن ؎

’’سِرِّخدا کہ عارف و سالک بہ کس نہ گفت
در حیرتم کہ بادہ فروش از کجا شنید!‘‘

کے مصداق اس ’’راز‘‘کی بھنک پروفیسر یوسف سلیم چشتی مرحوم و مغفور کی زبانی راقم الحروف کے کان میں پڑ گئی. اگرچہ ان کی بیان کردہ روایت میں زمانی و مکانی ہر نوع کے سقم تھے‘ تاہم یہی سقم تحقیق و تفتیش کا سبب بن گئے. اور اس طرح مسلم انڈیا کی ماضی ٔ قریب کی تاریخ کا ایک اہم لیکن گم شدہ باب روشنی میں آگیا. اور اس تحقیق و تفتیش کے اضافی ثمرے کے طور پر‘راقم الحروف پر حضرت شیخ الہندؒ کی عظمت بہ تمام و کمال منکشف ہو گئی.
فَلِلّٰہِ الحمد! 

بہرحال اب اس بات کے سامنے آ جانے کے بعد ہر اس شخص پر جو حضرت شیخ الہندؒ سے کسی بھی درجہ میں قلبی تعلق یا نسبت عقیدت رکھتا ہو ‘لازم ہے کہ وہ:

…اولاً اس واقعہ کی اپنے طور پر مزید تحقیق کرے ‘اور اگر اسے درست پائے تو 
……پھر: غور کرے کہ اس کے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں؟ ان شاء اللہ العزیز‘اس سے اس کے فکر و نظر کو جلا اور قلب و ذہن کو وسعت حاصل ہو گی اور امتِ مسلمہ بالخصوص مسلمانانِ برعظیم پاک وہند کے موجودہ ظروف و احوال اور ان کے تاریخی پس منظر کے بارے میں گہری بصیرت حاصل ہو جائے گی. 

مولانا ابوالکلام آزاد کا سن پیدائش ۱۸۸۸ء ہے.
۱۹۱۲ء میں چوبیس برس کی عمر میں انہوں نے ’’الہلال‘‘ جاری کیا. 

’’الہلال ‘‘ کے مضامین کا نقطہ ماسکہ‘جسے اس کی علامت و عنوان قرار دیا جا سکتا ہے ’’دعوت رجوع الی القرآن‘‘ تھا!
اس کی دعوت کا دوسرا اہم نکتہ تھا جہاد و قتال فی سبیل اللہ… اور اس کی تمہید کے طور پر ’’امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘‘! 

ابوالکلام کی اس دعوت کی توثیق و تصویب اور تعریف و تحسین حضرت شیخ الہندؒ نے ان الفاظ کے ذریعے فرمائی کہ ’’اس نوجوان نے ہمیں ہمارا بھولا ہوا سبق یاد دلا دیا ہے!‘‘ (راقم الحروف کو حضرت شیخ الہندؒ کے اس مشہور قول کی سند مولانا محمد یوسف بنوریؒ سے بالمشافہہ حاصل ہو گئی تھی!)

۱۹۱۳ء میں مولانا آزاد نے ایک جانب قرآن کے مبلّغ و معلّم تیار کرنے کے لیے کلکتہ میں ’’دارالارشاد‘‘ قائم کیا‘اور دوسری جانب اقامت دین اور اعلائِ کلمۃ اللہ کے لیے ’’حزب اللہ‘‘قائم کی جس کی اساس ’’بیعت‘‘ پر استوار کی!

۱۹۱۵ء میں انہوں نے خود (گویا اپنے جملہ مبایعین سمیت) حضرت شیخ الہندؒ سے بیعت کرلی! (اس بات کی تردید متعدد حضرات کی جانب سے ہوئی‘ اور اب خود مجھے بھی یاد نہیں آ رہا ہے کہ یہ میں نے کہاں پڑھا تھا!)

اور مولانا سعید احمد اکبر آبادی مرحوم کے قول کے مطابق اسی سال حضرت شیخ الہندؒ نے ان کے بارے میں اپنے جذبات اس شعر کے ذریعے ظاہر فرمائے کہ ؎

کامل اس طبقہ زہاد سے اٹھا نہ کوئی 
کچھ ہوئے تو یہی رندانِ قدح خوار ہوئے!

مولانا موصوف پیدائشی طور پر حد درجہ ذہین و فطین بلکہ نابغۂ عصر تو تھے ہی‘
اس پر مستزاد‘انہیں متعدد مسلمان ممالک کے حالات کا بچشم سرمشاہدہ کرنے کا موقع ملا تھا.

مزید برآں‘انہوں نے مغربی فکر و فلسفہ… اور خاص طور پر سیاسیات و عمرانیاتِ جدیدہ کا بھی گہرا مطالعہ کیا تھا.

چنانچہ انہیں خوب معلوم تھا کہ ……فی الوقت برعظیم پاک وہند میں کسی عسکری تحریک کا کوئی امکان نہیں!

……کسی دوسرے مسلمان ملک سے مدد کا بھی کوئی سوال نہیں‘گویا اب کوئی احمد شاہ ابدالی مسلمانانِ ہند کی مدد کے لیے نہیں آ سکتا!

……بلکہ اب ’’استخلاصِ وطن‘‘ کی جدوجہد ہو یا غلبۂ اسلام اوراقامتِ دین کی سعی‘تمام کام خالص مقامی لیکن عوامی تحریکوں کے ذریعے ہی ہو سکیں گے! لہٰذا‘ان کا مشورہ یہ تھا کہ حضرت شیخ الہندؒ ہندوستان ہی میں رہ کر عوامی تحریک برپا کریں.

لیکن افسوس کہ اُس وقت حضرت شیخ الہندؒ نے اپنے ان مشیروں کی رائے پر عمل کیا جو دینی علم میں تو بہت دسترس رکھتے تھے لیکن ان کا ہاتھ حالاتِ جدیدہ کی نبض پر نہ تھا! 
اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ:

اُدھر بیرونِ ہند نام نہاد مسلمان امراء و سلاطین نے غداری کی اور ایک طرف شریف حسین والی ٔ مکہ نے حضرت شیخ الہندؒ ‘ کو گرفتار کر کے گویا چاندی کی طشتری میں سجا کر انگریزوں کے سامنے پیش کر دیا‘ جنہوں نے انہیں ہندوستان کی کسی جیل میں نہیں بلکہ مالٹا میں نظر بند کیا!

……(راقم کے نزدیک علامہ اقبال مرحوم کا یہ شعربہ تمام و کمال صادق آتا ہے حضرت شیخ الہندؒ ‘کی مالٹا کی اسیری پر کہ ؎

اقبال کے نفس سے ہے لالے کی آگ تیز
ایسے غزل سرا کو چمن سے نکال دو!

یہی سلوک افغانستان میں امیر کابل کے ہاتھوں حضرت شیخ الہندؒ کے سفیر اور معتمد خصوصی مولانا عبیداللہ سندھی مرحوم کے ساتھ ہونے والا تھا کہ انہیں بروقت اطلاع مل گئی اور وہ روس کی جانب فرار ہو گئے!

اِدھر اندرونِ ملک ریشمی رومالوں کے راز کے افشا پر علماء کرام اور خادمانِ دین متین نے تو ؏ ’’من از سر نو جلوہ دہم دار و رسن را!‘‘ کے مصداق پکڑ دھکڑ‘قید و بند اور تعذیب و ابتلا کے نئے باب رقم کیے.لیکن چونکہ ملک میں کوئی عوامی تحریک موجود نہ تھی ‘لہٰذا نہ زمین پر کوئی ہلچل برپا ہوئی ‘نہ فضا میں کوئی ارتعاش پیدا ہوا!

۱۹۲۰ء میں حضرت شیخ الہندؒ اسیری سے رہائی پا کر واردِہند ہوئے تو انہوں نے کمالِ ضعف و نقاہت اور شدتِ مرض و علالت کے باوجود چھ ماہ کے مختصر سے عرصے میں تین اہم کام سر انجام دیے:

……ایک: اپنے تلامذہ اور مسترشدین کو ہدایت کہ اپنی تمام تر توجہات کو خدمتِ قرآن پر مرکوز کردیں… جس کا مظہرا تم آپؒ ‘کا خطبۂ دیو بند ہے! (بروایت حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ )

……دوسرے: قدیم اور جدید تعلیم… اور قومی و ملی اور دینی و مذہبی تحریکوں کے مابین فصل و بُعد کو کم کرنے کی کوشش… جس کا سب سے بڑا مظہرآپؒ کا سفر علی گڑھ اور تأسیس جامعہ ملّیہ ہے!

تیسرے: علم جہاد بلند کرنے کے لیے ایک عوامی تحریک کے آغاز کے لیے کسی صاحب دعوت و عزیمت اور حامل فہم و بصیرت بالخصوص موجودہ زمانے کے سیاسی و عمرانی ظروف و احوال سے کماحقہ ٗواقف شخص کے ہاتھ پر بیعت کی تجویز اور اس کے لیے مولانا ابوالکلام آزاد کی تعیین!… جس کے ضمن میں حضرت شیخ الہندؒ کے اضطرار و اصرار کا مظہر ان کا یہ قول ہے کہ ’’میری چارپائی سٹیج پر لے جائی جائے تاکہ میں خود بیعت کر لوں‘اس لیے کہ میں دنیا سے بغیر بیعت کیے رخصت ہونا نہیں چاہتا‘‘ (روایت بالمعنی)

تو…… اگرچہ اصلاً مشیت خداوندی اور ظاہراً بعض علماء کی جانب سے فوری طور پر اختلاف اور بعدازاں باقاعدہ مخالفت کی بنا پر شیخ الہندؒ ‘کی یہ تجویز ناکام ہو گئی.

تاہم……یہ ثابت ہو گیا کہ جہاں علم و فضل اور تقویٰ و تدین کے میدان میں حضرت شیخ الہندؒ ‘کی جانشینی کا شرف حاصل ہے مولانا حسین احمد مدنی‘ؒ ‘مولانا انور شاہ کاشمیریؒ اور مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ وغیرہم کو … وہاں دعوت و تحریک کے میدان میں حضرت شیخ الہندؒ کے اصل خلیفہ ٔمجاز تھے مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم و مغفور!

جہاں تک مولانا آزاد کی ۲۱.۱۹۲۰ء کے بعد کی زندگی کا تعلق ہے تو اگرچہ وہ اصلاً راقم کا موضوع نہیں ہے‘ تاہم دلائل و شواہد سے جو بات ظاہر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ:

علماءِ کرام کی عمومی مخالفت… جس کا آغاز تو بعض غیر دیوبندی علماء کی جانب سے ہوا تھا ‘لیکن بعدازاں اس میں بہت سے دیوبندی علماء حتیٰ کہ حضرت شیخ الہندؒ کے بعض تلامذہ بھی شامل ہو گئے تھے…… سے بددل ہو کر انہوں نے ’’بیعت‘‘ کی ٹھیٹھ شرعی اساس پر ایک خالص دینی تحریک کا خیال دل سے نکال دیا.

اور اگرچہ اپنی روایتی و ضع داری کے تحت انہوں نے جمعیت علماء کے جلسوں میں اکثر و بیشتر خاموش سامع و ناظر کی حیثیت سے شرکت جاری رکھی تاہم اپنے اصل میدانِ عمل کے اعتبار سے انہوں نے: 

اولاً…… تحریک خلافت کے ذریعے ایک ملی جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کی.
اور اس کے بعد مستقل طور پر جہادِ حریت و استخلاصِ وطن کو اپنا اصل موضوع بنا کر انڈین نیشنل کانگرس کے پلیٹ فارم کو اختیار کر لیا.

جس پر وہ ع ’’وفاداری بشرطِ استواری اصل ایمان ہے!‘‘ کی سی شان کے ساتھ آخر دم تک قائم رہے!

…(اس ضمن میں بطور تحدیث نعمت ایک واقعہ کا ذکر مناسب ہے. آج سے لگ بھگ پچیس سال قبل زندگی میں پہلی بار حیدر آباد دکن جانا ہوا تو وہاں درسِ قرآن اور خطاباتِ عام کی بیسیوں مجالس کے علاوہ ایک خطاب مولانا ابوالکلام آزاد انسٹیٹیوٹ میں منعقدہ جلسے میں بھی ہوا ‘جس میں وہاں کے احباب کے بقول حیدر آباد کے تمام مسلمان اربابِ فکر و نظر اور اصحابِ علم و دانش جمع تھے. اس موقع پر جب راقم نے یہ نکتہ بیان کیا کہ ’’مولانا آزاد مرحوم کی زندگی کے دو دور بالکل مختلف اور متمائز تھے. ایک ۱۹۱۲ء سے ۲۱.۱۹۲۰ء تک کا دور جو اصلاً تسلسل تھا تحریک شہیدینؒ کا… اور دوسرا ۱۹۲۱ء کے بعد کا دور جو حقیقتاً تعلق رکھتا تھا ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی سے!‘‘ تو ایک جانب تو صدر جلسہ نے جو پرانے کانگریسی رہنما اور تحریک آزادی کے صف اوّل کے کارکنوں میں سے تھے‘ اور آزادی کے بعد بھارت کے متعدد صوبوں کے گورنر رہ چکے تھے اور اب ضعیف و نحیف ہی نہیں علیل و صاحبِ فراش بھی تھے‘بڑے رقت آمیز انداز اور بھرائی ہوئی آواز میں فرمایا: ’’مولانا! آپ نے تو بہت سی پرانی یادیں تازہ کر دیں اور پرانے زخموں کو ہرا کر دیا!‘‘ … اور دوسری جانب ایک صاحب نے جو عثمانیہ یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کی صدارت سے ریٹائر ہوئے تھے‘فرمایا کہ ’’میں نے درجنوں طلبہ کو تحریک آزادیٔ ہند کے مختلف گوشوں اور بالخصوص مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت و سیاست کے موضوع پر پی ایچ ڈی کرا دی ‘لیکن واقعہ یہ ہے کہ خود مجھے مولانا مرحوم کی سیرت و شخصیت کاجو فہم آج حاصل ہوا ہے‘وہ اس سے قبل نہ تھا!‘‘)

جس طرح بارہویں صدی ہجری کے مجدّدِ اعظم شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی عظمت و جلالت اور خصوصاً جامعیت کبریٰ کا مظہران کی تصانیف ہیں‘اسی طرح چودھویں صدی کے مجدد شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ کی عظمت و جامعیت کے مظہر کامل ان کے عظیم تلامذہ ہیں.
اگر شیخ الہندؒ ‘کی تجویز کامیاب ہو جاتی تو کم از کم اس ’’جماعت شیخ الہندؒ ‘‘ کا شیرازہ قائم رہتا اور اب اس کا اندازہ بصد حسرت و یاس ہی کیا جا سکتا ہے کہ اس صورت میں اس جماعت کی قوت و شوکت کس قدر ہوتی!

لیکن افسوس کہ حضرت شیخ الہندؒ کی تجویز کی ناکامی کے باعث ان کے انتقال کے بعد 
رفتہ رفتہ یہ شیرازہ بکھرتا چلا گیا.

تاہم…… جس طرح امام الہندؒ ‘کو یہ کشف ہوا تھا کہ ’’میں قائم بالزماں ہوں اور اللہ تعالیٰ جس خیر کا ارادہ فرماتا ہے‘ اس کے لیے مجھے بطور آلہ استعمال فرماتا ہے‘‘

بالکل اسی طرح… واقعہ یہ ہے کہ شیخ الہندؒ کے بعد کم از کم برعظیم پاک و ہند کی حد تک جو خیر بھی ظاہر ہوا‘اس میں ان کے تلامذہ کا حصہ نمایاں نظر آتا ہے.

چنانچہ:
……خالص جہادِ حریت و استخلاصِ وطن کے میدان میں انڈین نیشنل کانگرس کے پلیٹ فارم سے مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم اور جمعیت علماء ہند کے پلیٹ فارم سے مولانا حسین احمد مدنی ؒ اور بے شمار علمائِ کرام نے جو کردار اداکیا وہ نہایت تابناک ہے.

(اگرچہ بعد میں کانگرس اور مسلم لیگ کے سیاسی تصادم اور مسلم انڈیا کے مستقبل کے بارے میں اختلافِ رائے اور اس کے ضمن میں پیدا ہونے والی تلخی نے ان حضرات کے کردار کی عظمت کو مسلمانانِ ہند کی عظیم اکثریت کی نگاہوں سے اوجھل کر دیا اور وہ متنازعہ شخصیتوں کی حیثیت اختیار کرتے چلے گئے.) اسی طرح مسلمانانِ ہند کی قومی تحریک اور اس کے نتیجے میں پاکستان کے قیام کے ضمن میں نہایت عظیم اور فیصلہ کن خدمات سرانجام دیں حضرت شیخ الہندؒ کے دوسرے معتمد علیہ رفیق اور شاگرد علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ اور ان کے رفقاء نے‘جن کے ذریعے جماعت شیخ الہندؒ ‘کا پیوند تحریک پاکستان میں لگ گیا.

……(اس ضمن میں اس حقیقتِ واقعی کا استحضار بہت اہم ہے کہ حضرت شیخ الہندؒ نے اپنی زندگی ہی میں اپنی ملی مساعی کے سلسلے میں اپنا دستِ راست مولانا عثمانی ؒ کو بنا دیا تھا. چنانچہ شیخ الہندؒ ‘کا خطبہ علی گڑھ بھی ان کے حسب منشا مولانا عثمانی ؒ ہی نے تحریر کیا تھا‘اور جمعیت علماء ہند کے اجلاس دہلی‘منعقدہ نومبر ۱۹۲۰ء کا خطبۂ صدارت بھی ان کے زیرہدایت انہی نے لکھا بھی تھا اور ان کے نمائندے کی حیثیت سے پڑھ کر سنایا بھی تھا!)

……اسی طرح خالص علمی خدمات کے میدان میں کارہائے نمایاں سرانجام دیے بیہقی ٔ وقت مولانا سید انور شاہ کاشمیریؒ اور ان کے تلامذہ نے ‘جن کی ایک تابناک مثال مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ تھے!

……رہے مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم تو وہ خود تو ریشمی رومالوں کی تحریک کی ناکامی کے بعد طویل عرصے تک جلا وطن رہے‘تاہم ان کے دو شاگردوں یعنی مولانا عبدالحی فاروقی ؒ اور مولانا احمد علی لاہوریؒ نے ارضِ لاہور میں ’’قرآن کی انقلابی دعوت‘‘ کے شجرۂ طیبہ کی تخم ریزی اور آبیاری کے ضمن میں نمایاں کردار ادا کیا.

(چنانچہ لاہور میں راقم کی دعوتِ قرآنی کو جو پذیرائی حاصل ہوئی اس کا ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ یہاں کی فضا میں خواجہ عبدالحی فاروقی ؒ اور مولانا احمد علی لاہوریؒ کے دروسِ قرآن کے اثرات موجود تھے… اور اگرچہ راقم نے خواجہ صاحب کو تو دیکھا تک نہیں‘حضرت لاہوریؒ ‘کی زیارت بھی صرف ایک بار ہوئی اور کسی قریبی رابطے کی سعادت حاصل نہیں ہوئی‘تاہم راقم کا گمان غالب ہے کہ اگر اسے نہیں تو اس کی قرآنی تحریک کو بلاشائبہ ریب و شک ان دونوں بزرگوں سے نسبت اویسیؒ حاصل ہے…… اس کے دو مظاہر بھی قابل ذکر ہیں:
ایک یہ کہ جامع مسجد خضراء سمن آباد‘جس میں راقم کی دعوتِ قرآنی کا پودا ابتداء ً پروان چڑھا اور جہاں لگ بھگ دس سال تک اس دعوت کا غلغلہ پوری شدت کے ساتھ بلند ہوتا رہا اور ذرائع آمد و رفت کی شدید دشواریوں کے باوجود لاہورکے کونے کونے سے لوگ وہاں پہنچتے رہے… اس کے بارے میں ایک عرصے کے بعد راقم کو معلوم ہوا کہ اس کا سنگ بنیاد مولانا احمد علی لاہوریؒ کے دستِ مبارک کا رکھا ہوا تھا! 

دوسرے یہ کہ جب لگ بھگ ستر برس کی عمر کے ایک بزرگ نے میرے تین چار دروس ہی میں شرکت کے بعد ایک روز اچانک میرا ہاتھ کھینچ کر اور اس پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے یہ الفاظ کہے کہ ’’میں اقامتِ دین اور اعلائِ کلمۃ اللہ کی جدوجہد کے لیے آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہوں!‘‘ تو فوری طور پر تو میں حیران و ششدر رہ گیا‘اس لیے کہ اس وقت تک میں نے تنظیم اسلامی کے قیام کا فیصلہ بھی نہیں کیا تھا‘کجا یہ کہ بیعت کا خیال دل میں آتا… لیکن بعد میں جب یہ معلوم ہوا کہ انہوں نے اپنی نوجوانی میں خواجہ عبدالحی فاروقی ؒ کے دروس سنے تھے‘بعدازاں حضرت لاہوری ؒ سے نہ صرف دورۂ تفسیر قرآن بلکہ سلوک کی بھی تکمیل کی تھی‘تو حیرت ختم ہو گئی اور یہ احساس ہوا کہ ؏ ’’پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا!‘‘ یہ بزرگ تھے حاجی عبدالواحد مرحوم و مغفور. ان کے انتقال پر جو نوٹ ’’میثاق‘‘ میں شائع ہوا تھا‘ وہ بھی اس کتاب میں شامل کیا جا رہا ہے.)

اسلام کی نشأۃِ ثانیہ کی مثبت دعوت… اور دین حق کے غلبہ و اقامت کی راست تحریک کے میدان میں جو خلا مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم کی بد دلی اور پسپائی کے باعث پیدا ہوا تھا اسے قدرت نے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی مرحوم ومغفور کے ذریعے پُر کرایا.

جنہوں نے مولانا آزاد مرحوم کے انتقالِ موقف کے لگ بھگ نو دس سال بعد ہی اپنی دعوت و تحریک کے لیے ابتدائی اور تمہیدی کام شروع کر دیا. اور ’’حزب اللہ‘‘ کے خاتمے کے تقریباً بیس سال بعد ’’جماعت اسلامی‘‘ کے نام سے ایک نیا قافلہ تشکیل دیا!

وہ اگرچہ… نہ براہِ راست حضرت شیخ الہندؒ کے تلمیذ یا مسترشد تھے‘نہ باضابطہ طور پر کبھی مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم سے منسلک رہے تھے‘تاہم حقیقت وہی ہے جو مولانا اخلاق حسین قاسمی مدظلہ نے بیان فرمائی کہ وہ تھے علماءِ دیوبند ہی کے تربیت یافتہ. اس لیے ان کی صحافتی زندگی کی ابتدا اور تصنیف و تالیف کے شغل کا آغاز جمعیت علمائِ ہند کے آرگن روزنامہ ’’الجمعیۃ‘‘ ہی کی ادارت سے وابستگی کی صورت میں ہوا تھا.

اس کے ساتھ ساتھ وہ ’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ‘‘ والے ابوالکلام کی دعوت سے بے حد متأثر تھے‘اور انہوں نے ان کے قرآنی فکر اور جہاد فی سبیل اللہ سے متعلق نظریات سے بھرپور استفادہ کیا تھا.
……(اس سلسلے میں اگرچہ یہ بات تو نہایت افسوس ناک ہے کہ خود انہوں نے کبھی اس حقیقت کا بر ملا اعتراف نہیں کیا… تاہم دو مواقع پر غالباً کسی کیف کے عالم میں جو الفاظ ان کے قلم سے ٹپک گئے ان سے یہ حقیقت پوری طرح آشکار ہو جاتی ہے ‘یعنی ایک…وہ الفاظ جن کے ذریعے انہوں نے یہ اعتراف کیا کہ اس دور میں جس شخص سے اسلام کی نشأۃ ثانیہ کی سب سے زیادہ امیدیں وابستہ تھیں وہ مولانا آزاد تھے‘ اور دوسرے…… اس سے کہ انہوں نے مولانا آزاد کو ان کی زندگی ہی میں ’’مرحوم‘‘ قرار دیا‘ جس سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ مولانا آزادکی ۱۹۱۲ء سے ۱۹۲۰ء تک کی دعوت اور تحریک کے ساتھ ان کی فکری اور جذباتی وابستگی کس درجہ کی تھی اور اس سے ان کی پسپائی کا انہیں کس قدر صدمہ ہوا تھا!)
راقم کے نزدیک مولانا مودودی مرحوم کی سب سے بڑی کمزوری ان کی ’’انتہا پسندی‘‘ تھی‘ جس نے ایک مختصر سے دور کے سوا‘ان کی پوری زندگی کو ’’تضادات‘‘ کا مرقع اور رجعتوں کی داستان بنا کر رکھ دیا…… اور بالآخر یہی انتہا پسندی ان کی ناکامی کا اصل سبب بنی!
اگرچہ فوری نتائج کے اعتبار سے یہی ان کی سب سے بڑی ’’خوبی‘‘ اور ابتدائی کامیابیوں کا ’’راز‘‘ بن گئی… اس لیے کہ جو کوئی ایک بار ان کا گرویدہ ہواوہ قطعی اور مستقل طور پر بقیہ تمام اکابر امت سے ذہناً و قلباً منقطع اور دوسری تمام دینی تحریکوں اور تنظیموں سے کلیۃً بیزار ہو کر رہ گیا…

اور اس طرح ’’جماعت بندی‘‘ کا کٹھن مرحلہ آسان ہو گیا!

ان کی اس ’’انتہا پسندی‘‘کا اوّلین مظہر یہ تھا کہ انہوں نے ’’متحدہ قومیت‘‘ کو نہایت شدّومد کے ساتھ ’’کفر‘‘ قرار دیا… اور کانگرسی مسلمانوں اور جمعیت علماء ہند اور اس کی قیادت پر نہایت جارحانہ ہی نہیں حد درجہ دل آزار تنقیدیں کیں.

اس سے یہ تو ضرور ہوا کہ … ایک جانب‘مسلمانانِ ہند کی قومی تحریک کو تقویت حاصل ہوئی اور… دوسری جانب‘خود انہیں نہایت وسیع حلقے میں پذیرائی نصیب ہوئی.
لیکن جمعیت علماء ہند سے وابستہ علماء کرام اور خاص طور پر مولانا حسین احمد مدنی ؒ کے عقیدت مندوں کا اکثر وبیشتر حلقہ ان سے شدید بیزار ہو گیا. ……دوسرے دین حق کے غلبہ و اقامت یا با لفاظ دیگر ’’اسلامی انقلاب‘‘ کے لیے حرکت و جہاد‘جس کے لیے ’’تنظیم اسلامی‘‘ قائم ہوئی اور اس کی تنظیمی اساس ’’بیعت جہاد و سمع و طاعت فی المعروف‘ ‘پر استوار ہوئی. 

جہاں تک راقم کی دعوتِ قرآنی کا تعلق ہے‘اس کے بارے میں کچھ عرض کرنا تحصیل حاصل ہے. 
اس لیے کہ‘اگرچہ اس کے ضمن میں تصنیف و تالیف کی مقدار کم رہی‘لیکن درس و خطاب اور آڈیو/ ویڈیو کیسٹوں (اور سی ڈیز/ڈی وی ڈیز کے علاوہ ٹی وی چینلز)کے ذریعے اس کا چرچا دنیا کے کونے کونے میں ہے.

مزید برآں‘لگ بھگ چالیس سالہ مساعی کے نتیجے میں قرآن کے نوجوان داعیوں اور مبلغوں کی ایک ٹیم بھی تیار ہو چکی ہے.

اور الحمدللہ کہ ان دروس و خطابات کے ذریعے قرآن کے جس فہم و فکر کی اشاعت ہو رہی ہے‘وہ کسی ایک لکیر کے فقیر یا کنویں کے مینڈک کے مانند نہیں ہے.

بلکہ اس میں کم از کم چار منبعوں سے پھوٹنے والے سوتوں کا ’’قِرانُ السُّعدائ‘‘ موجود ہے. یعنی:

…… ایک :حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیو بندیؒ اور شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ کا ’’رُسوخ فی العلم‘‘ .جس کی وساطت سے اس تحریک کا تعلق اسلاف کے ساتھ قائم ہے.
…… دوسرے :ڈاکٹر محمد اقبال مرحوم اور ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم کی جدید فلسفہ و سائنس اور جدید سیاسیات و اقتصادیات کے ضمن میں تنقیدی بصیرت!
……تیسرے: مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم اور مولانا ابو الاعلیٰ مودودی مرحوم کا جذبۂ حرکت و عمل اور تصورِ جہاد فی سبیل اللہ!‘ اور 
……چوتھے: مولانا حمید الدین فراہیؒ اور مولانا امین احسن اصلاحی مرحوم کا تعمق و تدبّرِ قرآن کا اسلوب و منہاج!

(الحمدللہ کہ راقم اس ’’دعوتِ رجوع الی القرآن‘‘ اور اس کے ’’منظرو پس منظر‘‘ کے بارے میں تفصیلاً لکھ چکا ہے‘جو اب کتابی شکل میں مطبوعہ موجود ہے!)

اور الحمدللہ کہ ؏ ’’شادم از زندگی خویش کہ کارے کردم!‘‘ کے مصداق راقم کو پورا اطمینان حاصل ہے کہ اس نے اپنی حیاتِ دُنیوی کے چالیس سال ’’دعوت اس موضوع پر راقم کو اس وقت زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت اس لیے نہیں ہے کہ:

……اولاً اس کی اصل دلچسپی اسلام کی نشأۃِ ثانیہ اور غلبہ ٔدین حق کی اس اصل اصولی و انقلابی تحریک سے ہے جس کے دو منفصل اَدوار کا ذکر اوپر ہوا ہے… نہ کہ مولانا مودودی کے اس سے ماقبل یا مابعد کے افکار و نظریات یا پالیسی اور حکمت عملی سے!
……ثانیاً اس اصولی اسلامی انقلابی موقف سے مولانا مودودی کے انحراف یا انقلابِ حال کے موضوع پر راقم کی ایک مفصل تالیف ’’تحریکِ جماعتِ اسلامی:ایک تحقیقی مطالعہ‘‘ کے نام سے موجود ہے.

ورنہ واقعہ یہ ہے کہ مولانا مودودی مرحوم… اور جماعت اسلامی کی پالیسیوں کے تضادات کی داستان بہت طویل ہے. 

لیکن جیسے کہ اس سے قبل عرض کیا جا چکا ہے‘راقم کی اصل دلچسپی ان موضوعات سے نہیں ہے‘ بلکہ اسے افسوس اور تشویش صرف اس پر ہے کہ اسلام کی اصولی ‘انقلابی دعوت اور غلبۂ دینِ حق کی منہاجِ نبوت و رسالت والی تحریک

؏ ’’اِک دمکتا چراغ تھا‘نہ رہا!‘‘ کی مصداق بن گئی.
فَوَا حَسْرَتَا و یَااَسَفَا! 

اور اسی خلا کو پُر کرنےاور براہِ راست ’’اسلام کی نشأۃِ ثانیہ‘‘ کی دعوت و تحریک اور ’’غلبہ و اقامتِ دین‘‘ کی جدوجہد کے تسلسل کو برقرار رکھنے کی کوشش کا مظہر ہے ’’تنظیم اسلامی‘‘

جو راقم کی نسبت سے تو یقینا نہایت حقیر بھی ہے اور بے وقعت بھی لیکن اپنے ہدف و مقصود اور اپنے تاریخی پس منظر کے اعتبار سے نہایت اہم بھی ہے اور عظیم بھی!
چنانچہ راقم سے واقفیت رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ راقم کی دعوت و تحریک کے بھی دو حصے اور شعبے ہیں:

……ایک ’’دعوت رجوع الی القرآن‘‘… جس کے لیے اَوّلاً ’’مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور‘‘قائم ہوئی اور ’’قرآن اکیڈمی‘‘ تعمیر ہوئی (اور پھر ذیلی انجمنوں اور اکیڈمیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا). ……دوسرے دین حق کے غلبہ و اقامت یا با لفاظ دیگر ’’اسلامی انقلاب‘‘ کے لیے حرکت و جہاد‘جس کے لیے ’’تنظیم اسلامی‘‘ قائم ہوئی اور اس کی تنظیمی اساس ’’بیعت جہاد و سمع و طاعت فی المعروف‘ ‘پر استوار ہوئی. 

جہاں تک راقم کی دعوتِ قرآنی کا تعلق ہے‘اس کے بارے میں کچھ عرض کرنا تحصیل حاصل ہے. 

اس لیے کہ‘اگرچہ اس کے ضمن میں تصنیف و تالیف کی مقدار کم رہی‘لیکن درس و خطاب اور آڈیو/ ویڈیو کیسٹوں (اور سی ڈیز/ڈی وی ڈیز کے علاوہ ٹی وی چینلز)کے ذریعے اس کا چرچا دنیا کے کونے کونے میں ہے.

مزید برآں‘لگ بھگ چالیس سالہ مساعی کے نتیجے میں قرآن کے نوجوان داعیوں اور مبلغوں کی ایک ٹیم بھی تیار ہو چکی ہے.

اور الحمدللہ کہ ان دروس و خطابات کے ذریعے قرآن کے جس فہم و فکر کی اشاعت ہو رہی ہے‘وہ کسی ایک لکیر کے فقیر یا کنویں کے مینڈک کے مانند نہیں ہے.

بلکہ اس میں کم از کم چار منبعوں سے پھوٹنے والے سوتوں کا ’’قِرانُ السُّعدائ‘‘ موجود ہے. یعنی:

…… ایک :حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیو بندیؒ اور شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ کا ’’رُسوخ فی العلم‘‘.جس کی وساطت سے اس تحریک کا تعلق اسلاف کے ساتھ قائم ہے.

…… دوسرے :ڈاکٹر محمد اقبال مرحوم اور ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم کی جدید فلسفہ و سائنس اور جدید سیاسیات و اقتصادیات کے ضمن میں تنقیدی بصیرت!

……تیسرے: مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم اور مولانا ابو الاعلیٰ مودودی مرحوم کا جذبۂ حرکت و عمل اور تصورِ جہاد فی سبیل اللہ!‘ اور 

……چوتھے: مولانا حمید الدین فراہیؒ اور مولانا امین احسن اصلاحی مرحوم کا تعمق و تدبّرِ قرآن کا اسلوب و منہاج!

(الحمدللہ کہ راقم اس ’’دعوتِ رجوع الی القرآن‘‘ اور اس کے ’’منظرو پس منظر‘‘ کے بارے میں تفصیلاً لکھ چکا ہے‘جو اب کتابی شکل میں مطبوعہ موجود ہے!)

اور الحمدللہ کہ ؏ ’’شادم از زندگی خویش کہ کارے کردم!‘‘ کے مصداق
راقم کو پورا اطمینان حاصل ہے کہ اس نے اپنی حیاتِ دُنیوی کے چالیس سال ’’دعوت الی القرآن‘‘ اور ’’تحریک تعلیم و تعلّمِ قرآن‘‘کی جس جدوجہد میں صرف کیے اس سے اعلیٰ اور ارفع کام اور کوئی نہیں!

اور راقم کو خوف ہے تو صرف اس کا کہ کہیں اس میں نفس اور شیطان کی وسوسہ اندازیوں کے باعث ریا اور سمعہ کا دخل نہ ہو گیا ہو.

ورنہ رجا اور استبشار کے لیے تو نبی اکرمﷺ کے یہ دو ارشادات کفایت کرتے ہیں کہ 
……… ’’خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہٗ‘‘ …اور
…… ’’وَمَنْ دَعَا اِلَـیْہَ فَقَدْ ھُدِیَ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ‘‘ 


البتہ جہاں تک تحریک و تنظیم کا تعلق ہے ‘راقم کو بر ملا اعتراف ہے کہ اس کی تینتیس سالہ مساعی کا حاصل کم از کم بظاہر احوال بہت کم ہے!

اور الحمدللہ کہ اس کے سبب کے بارے میں بھی راقم کو نہ کوئی مغالطہ لاحق ہے‘نہ ہی وہ اپنے آپ کو دھوکا دینے کے مرض میں مبتلا ہے.

چنانچہ اسے خوب معلوم ہے کہ اس کا اصل سبب یہی ہے کہ اقامتِ دین کے بلند و بالانصب العین اور ’’اظہارُ دینِ الحقّ علی الدّین کلّہ‘‘ یا بالفاظ دیگر ’’اسلامی انقلاب‘‘ کی جاں گسل جدوجہد‘بالخصوص اس کی قیادت و رہنمائی کے لیے جو کم از کم استعدادات اور صلاحیتیں درکار ہیں وہ ان سے بھی تہی دست ہے!

گویا معاملہ وہی ہے جو مولانا حسرتؔ موہانی کے اس شعر میں بیان ہوا کہ : ؎
غمِ زندگی کا حسرت سبب اور کیا بتائیں
مری ہمتوں کی پستی‘مرے شوق کی بلندی!

صرف اس فرق کے ساتھ کہ جہاں تک راقم کا تعلق ہے معاملہ ’’شوق‘‘ کا نہیں‘خالص ’’احساسِ فرض‘‘کا ہے!

چنانچہ……یہی احساسِ فرض تھا جس کے تحت راقم نے عمر عزیز کے پورے دس سال ’’تحریک جماعت اسلامی‘‘ کی نذر کیے اور اس عرصے کے دوران ایک ادنیٰ کارکن کی حیثیت سے ‘لیکن نہایت فعال انداز میں کام کیا.

پھر جب اس سے مایوس ہو کر علیحدگی اختیار کی تو آٹھ برس اس انتظار میں بسرکیے کہ جماعت سے علیحدہ ہونے والے بزرگ علماء میں سے کوئی صاحب عزیمت و ہمت نیا قافلہ تشکیل دے تو راقم اس میں ایک ادنیٰ کارکن کی حیثیت سے شامل ہو کر اپنے فرض سے عہدہ بر آ ہو سکے!

اور جب اس جانب سے بھی مایوسی کا سامنا ہوا تو مجبوراً خود اس کانٹوں بھری وادی میں قدم رکھنے کے فیصلے کے ساتھ دوبارہ واردِ لاہور ہوا!

اور پورے دس برس صرف ’’قرآن کی انقلابی دعوت‘‘ کی نشرواشاعت کا کام کیا‘ 
(سات سال خالص انفرادی حیثیت میں اور تین سال ’’مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور‘‘کے زیر عنوان)

اور بالآخر جب ۱۹۷۴ء میں ’’عزمِ تنظیم‘‘ کا اعلان کیا اور مارچ ۱۹۷۵ء میں ؏ ’’ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا!‘‘ کے مصداق ’’تنظیم اسلامی‘‘ کے نام سے ایک نیا قافلہ ترتیب دیا… تب بھی ہیئت تنظیمی کے ضمن میں آخری فیصلہ نہیں کیا‘بلکہ اسے اس خیال سے مؤخر رکھا کہ کوئی بزرگ شخصیت بھی شامل ہو تو اس کی صوابدید کے مطابق اقدام کیا جائے!

اور دو ڈھائی سال کے لا حاصل انتظار کے بعد تنظیمی ڈھانچے کی اساس کے طور پر ’’بیعت ِسمع و طاعت فی المعروف‘ ‘کے اس اصول کو اختیار کرنے کا اعلان کر دیا جو راقم کے نزدیک اسلامی اجتماعیت کی واحد منصوص و مسنون بنیاد ہے!

اس طرح‘الحمدللہ کہ ’’استدار الزّمان کھیئتہ یوم خلق اللّٰہ السمٰوات والارض‘‘ کے مانند غلبہ و اقامت دین کی جدوجہد کے تنظیمی ڈھانچے کی ہیئت ‘جو ٹھیٹھ اسلامی مدار سے ہٹ گئی تھی‘ دوبارہ اپنے صحیح نہج پر استوار ہو گئی.

ان سطور کے عاجز و ناچیز راقم کو اپنی جملہ کوتاہیوں اور کمزوریوں اور تمام تر بے بضاعتی اور تہی دامنی کے ساتھ ساتھ‘الحمدللہ کہ یہ اطمینان حاصل ہے کہ:

اولاً :اسے اپنی بے بضاعتی اور تہی دامنی کا پورا شعور و ادراک حاصل ہے.ژ ثانیاً: وہ سلفِ صالحین اور علماءِ ربانیین کے حلقے سے ذہناً و قلباً منسلک ہے‘ 

اُحبّ الصَّالحینَ ولستُ منھم
لعلّ اللّٰہَ یرزقنی صلاحًا 
ثالثاً: اس کے فکر و نظر میں نہ تنگی ہے‘نہ افراط وتفریط… چنانچہ اس کے باوجود کہ اس کے دینی فکر کا تانا بانا اصلاً علامہ اقبال اور تبعاً مولانا آزاد اور مولانا مودودی کے فکر پر مبنی ہے‘اس کی قلبی محبت و عقیدت کا رشتہ اصلاً حضرت شیخ الہندؒ اور تبعًا مولانا مدنی ؒ اور علامہ عثمانی ؒ کے ساتھ ہے… اور ان دونوں مؤخرالذکر بزرگوں کے ضمن میں بھی راقم اپنے باطن میں ایک عجیب توازن کی لذت و حلاوت محسوس کرتا ہے‘کہ اگر اصابت فکر و نظر کے ضمن میں راقم زیادہ قائل ہے علامہ عثمانی ؒ کا… تو تقویٰ و تواضع اور عزیمت و استقامت کے ضمن میں زیادہ معترف ہے مولانا مدنی ؒ کا!

مزید برآں‘… اس کے نزدیک مسلمانوں کا غیر مسلموں کے ساتھ کسی متحدہ قومیت میں شامل ہونا اصلاًتو غلط ہے‘تاہم کسی وقتی اور فوری دفاعی تدبیر کے طور پر اس کا استعمال ہرگز حرام نہیں ہے.رہی مسلمانوں کی دُنیوی فلاح و بہبود کے لیے کی جانے والی ’’قومی‘‘ مساعی تو وہ تو راقم کے نزدیک احیائے ملت کے وسیع پروگرام کا ایک جزوِ لاینفک ہیں… اگرچہ خالص غلبۂ اسلام اور اقامت دین کے لیے اٹھنے والی ٹھیٹھ تجدیدی مساعی کو ان دونوں سے بالاتر ہو کر خالص اصولی‘انقلابی خطوط پر استوار ہونا چاہیے!

رابعاً: اسے نہ کوئی غرور لاحق ہے نہ زعم… بلکہ وہ شدید احتیاج محسوس کرتا ہے علماء ربانیین بالخصوص منتسبین حضرت شیخ الہندؒ ‘کی سرپرستی اور تعاون کی!
چنانچہ اسی کے حصول کی کوشش کی مظہر ہے اس کتاب کی تالیف و اشاعت!!
’’گر قبول افتد ‘زہے عزو شرف!‘‘

(واضح رہے کہ یہ تحریر سرزمین حرم پر یہیں تک سپرد قلم ہو سکی تھی اور اس کے آخری الفاظ ۲۷ رمضان المبارک ۱۴۰۷ھ مطابق ۲۴ مئی ۱۹۸۷ء کو مکہ مکرمہ زاداللہ شرفہا‘میں ضبط تحریر میں آئے تھے. اس کا باقی حصہ واپسی پر لکھا گیاہے.)

(۳) 
اس وقت پوری دنیا میں اسلام اور مسلمان جس حال میں ہیں وہ اظہر من الشمس ہے. 
یعنی یہ کہ … اگرچہ بظاہر مسلمان ممالک کی عظیم اکثریت مغربی سامراج کی غلامی سے نجات حاصل کر چکی ہے (چنانچہ اِس وقت یو این او کے کل ۱۹۲ ممبر ممالک میں سے ۴۸ کی تعداد مسلمان ممالک پر مشتمل ہے!)

لیکن ایک جانب… یہ تمام مسلمان ملک جدید ٹیکنالوجی اور خاص طور پر اسلحہ کے لیے بالکلیہ دوسروں کے دستِ نگر اور کسی نہ کسی سپرپاور کے فتراک کے نخچیر ہونے کے علاوہ اکثر و بیشتر باہم دست و گریباں ہیں.

تو دوسری جانب…… ’’اسلام‘‘ فرمانِ نبویؐ بَدَأَ الْاِسْلَامُ غَرِیْبًا وَسَیَعُوْدُ کَمَا بَدَأَ کی کامل تصویر ہے. اور اس کے بارے میں لگ بھگ ایک صدی قبل کے یہ اشعار آج بھی صد فی صد درست ہیں کہ ؎

پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے
اسلام کا گر کر نہ ابھرنا دیکھے!
مانے نہ کبھی کہ مدّ ہے ہر جزر کے بعد
دریا کا ہمارے جو اترنا دیکھے!

اور ؎

اے خاصۂ خاصانِ رسل وقت دعا ہے
امت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے
وہ دیں جو بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغربا ہے!


اس لیے کہ ان نام نہاد مسلمان ممالک میں قیادت و سیادت کی باگ ڈور اور حکومت و سیاست کی زمامِ کار گورے یوروپین لوگوں کے جانے کے بعد ان لوگوں کے ہاتھوں میں آ گئی ہے جو صرف چمڑی کی رنگت کے سوا ذہن و فکر اور تہذیب وتمدن ہر اعتبار سے خالص ’’یوروپین‘‘ ہیں!

اہل تشیع تو پھر بھی فخر کے ساتھ سر اونچا کر سکتے ہیں کہ انہوں نے اپنے واحد اکثریتی ملک میں اپنے نظریات کے مطابق ’’اسلامی انقلاب‘‘ برپا کر دیا اور اس سے قطع نظر کہ یہ انقلاب عارضی ثابت ہوتا ہے یا پائیدار‘کم از کم فی الوقت ایک وسیع و عریض ملک پر اپنے عقائد او ر اپنی فقہ کی غیر مشروط بالادستی بالفعل قائم کر دی.

پوری سنّی دنیا کے لیے تو ؎
’’یارانِ تیزگام نے محمل کو جا لیا
ہم محوِ نالۂ جرسِ کارواں رہے!‘‘

کے مصداق واقعتاً ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ ان کے درجنوں اکثریتی ممالک میں سے‘سوائے ایک سعودی عرب کے‘کسی ایک جگہ بھی شریعت اسلامی کی بالا دستی قائم نہیں! اور خود سعودی عرب میں بھی اگرچہ داخلی طور پر نظامِ عبادات کے سرکاری سطح پر قیام و اہتمام‘اور شریعت اسلامی کی جزوی تنفیذ و ترویج کی برکات نظر آتی ہیں…

تاہم ایک مستبد بادشاہت اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم نے اسے پوری بیرونی دنیا کے لیے نفرت و حقارت کا ہدف اور تمسخر و استہزاء کا موضوع بنا کر رکھ دیا ہے.

گویا آج پوری سُنّی دنیا کم از کم قومی و اجتماعی اور ملی و ملکی سطح پر شہادتِ حق کی بجائے شہادتِ زُور پر عمل پیرا ہے… اور نوعِ انسانی کو اسلام کی دعوت دینے اور اس پر حجت‘قائم کرنے کی بجائے عملی اعتبار سے خود اسلام سے نفرت اور بیزاری کا اظہار کر رہی ہے!

ادھر برعظیم ہند کی تقسیم سے ۱۹۴۷ء میں وقت کی جو عظیم ترین مسلمان مملکت وجود میں آئی تھی وہ سینتیس سال قبل ایک عظیم حادثے سے دوچار ہو گئی‘جس نے نہ صرف یہ کہ اسے دولخت کر دیا بلکہ ایک نہایت شرمناک شکست اور ذلت آمیز ہزیمت کا کلنک کا ٹیکہ پوری اُمتِ مسلمہ کی پیشانی پر لگا دیا.

نتیجتاً آج وہ اندیشہ واقعہ کی صورت اختیار کر کے سامنے آ گیا ہے‘جس کا اظہار اب سے لگ بھگ تین چوتھائی صدی قبل کچھ مخلصانِ ملت نے کیا تھا… یعنی یہ کہ مسلمانانِ برعظیم تین حصوں میں تقسیم ہو کر ضعیف و غیر مؤثر ہو گئے ہیں!

اور نوبت بایں جارسید‘کہ آئے دن بھارت کا کوئی نہ کوئی علاقہ ؏ 
’’ہو گیا مانندِ آب ارزاں مسلماں کا لہو!‘‘

کا نقشہ پیش کرتا رہتا ہے‘لیکن بنگلہ دیش کے پندرہ کروڑ اور بچے کھچے پاکستان کے سترہ کروڑ مسلمان چند ایک اخباری مضامین و بیانات… اور ایک آدھ چھوٹے موٹے مظاہرے کے سوا اور کچھ نہیں کر سکتے!

رہا یہ بچا کھچا پاکستان!… تو دیکھنے والے دیکھ رہے ہیں کہ یہ رفتہ رفتہ خوفناک ترین تباہی کی جانب بڑھ رہا ہے…اور وَ کُنۡتُمۡ عَلٰی شَفَا حُفۡرَۃٍ مِّنَ النَّارِ کا کامل مصداق بن چکا ہے.
اور اگر جلد ہی مشیت و قدرتِ خداوندی کا کوئی خصوصی اور معجزانہ ظہور نہ ہوا… اور 
یہاں اسلامی انقلاب نہ آیا تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کے چار ٹکڑے ہوں گے یا پانچ ! بہرصورت بھارت میں مسلم دشمنی ہی نہیں باضابطہ مسلم کشی کی تیز و تند لہر… اور پاکستان میں نسلی‘لسانی اور علاقائی عصبیتوں کے بڑھتے ہوئے طوفان کے پیش نظریہ اندیشہ اور خطرہ موہوم نہیں‘واقعی اور حقیقی ہے کہ برعظیم پاک و ہند میں ؏ 
’’ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات!‘‘

کاوہ اٹل قانونِ قدرت نافذ نہ ہو جائے جو آج سے ٹھیک پانچ سو برس قبل سپین میں ہوا تھا!
؏ ’’حذراے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں!‘‘

…(اس موضوع پر الحمدللہ کہ راقم کی دو کتابیں شائع ہو کر منظر عام پر آچکی ہیں یعنی ’’استحکامِ پاکستان‘‘ اور ’’استحکامِ پاکستان اور مسئلہ سندھ‘‘لہٰذا اس مقام پر کسی تفصیل کی ضرورت نہیں ہے!)

(۴) 
ان حالات میں ضرورت تو اس امر کی ہے کہ طبقۂ علماء میں سے کوئی عظیم شخصیت ایسی ابھر کر سامنے آئے جو مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندیؒ ‘امام الہند شاہ ولی اللہ دہلویؒ اور مجاہد کبیر سید احمد بریلویؒ کی سی عظمت و جلالت نہ سہی کم از کم شیخ الہند محمود حسن دیوبندیؒ کی سی جامعیت ووسعت کی توحامل ہو……جو

اولاً … ؏ ’’کرتا ہوں جمع پھر جگرِ لخت لخت کو!‘‘
کے مصداق ’’جماعت شیخ الہند‘‘ کے باقیات الصالحات کو جمع کرے اور اس کی منتشر لڑیوں کو ازسرِ نو ایک مضبوط رسّی کی صورت میں بٹ دے!

ثانیاً ……ان جملہ دینی عناصر کو جمع کرنے کی کوشش کرے جو جمعیت علماء ہند کے ابتدائی دور میں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو گئے تھے.

……(واضح رہے کہ اُس وقت مسلمانانِ ہند کے اس مشترک دینی و سیاسی اتحاد سے صرف مولانا احمد رضا خاں صاحب بریلوی کے فرزند ہی باہر رہ گئے تھے‘باقی جملہ قابل ذکر حنفی اور اہل حدیث علماء اس اتحاد میں شامل تھے)

اس لیے کہ اس کے بغیر پاکستان میں کسی اسلامی انقلاب کے خواب دیکھنا جنت الحمقیٰ میں رہنے کے مترادف ہے! تاہم جب تک کوئی ایسی صاحب ہمت و عزیمت شخصیت سامنے نہیں آتی‘ ان سطور کا عاجزو نا چیز راقم اپنی بساط بھر کوشش کرتا رہے گا کہ غلبۂ اسلام اور اقامت دین کی اس راست تحریک کے تسلسل کو قائم رکھے ‘جس کے بیسویں صدی کے داعی ٔ اوّل تھے مولانا ابو الکلام آزاد مرحوم اور داعی ٔ ثانی تھے مولانا ابو الاعلیٰ مودودی مرحوم 
اور … بحمداللہ… وہ اس پر پوری طرح مطمئن ہے کہ خواہ اسے تنظیم کی وسعت کے اعتبار سے تاحال نمایاں اور محسوس کامیابی حاصل نہیں ہوئی‘تاہم اسے اللہ نے توفیق عطا فرمائی کہ اس نے:

دروسِ قرآن اور خطاباتِ عام‘اور ان کی آڈیو اور ویڈیو کیسٹوں کے ذریعے وسیع پیمانے پر نشرواشاعت کے ذریعے‘نہ صرف یہ کہ دین اور فرائض دینی کا جامع اور ہمہ گیر تصور بہت بڑے حلقے میں عام کیا‘بلکہ مطالعہ قرآن کے ایک منتخب نصاب کے ذریعے اس کا نہایت مضبوط و مستحکم تعلق قرآن حکیم کے ساتھ استوار کر دیا ہے.

مزید برآں‘انقلاب اسلامی کے اساسی لوازم اور تدریجی مراحل کو وضاحت کے ساتھ معین کیا… اور اس کا گہرارشتہ سیرت النبیﷺ کے ساتھ اس طرح قائم کر دیا کہ ’’لا یصلح آخر ھذہ الامۃ الابما صلح بہ اولھا‘‘ کی حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی.(اس موضوع پر راقم کی تالیف ’’منہجِ انقلابِ نبویؐ ‘‘ اور اس کا خلاصہ ’’رسولِ انقلابﷺ کا طریق انقلاب) مطبوعہ موجود ہیں!)

اور…ثم الحمدللہ… کہ وہ اس پر پوری طرح راضی ہے کہ اگر اسے معاشرے اور قوم کے اکابر و اصاغر سے تائید و تعاون حاصل نہ ہو تو وہ یہی دو کام کرتا ہوا دنیا سے رخصت ہو جائے!
تاہم… پاکستان کے علماء حقانی اور صلحاء ربانی کی خدمت میں یہ کتاب مَنۡ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ ؕ کی صدا کے ساتھ پیش ہے‘مبادا وہ یہ کہیں کہ تم نے ہمیں کبھی پکارا ہی نہیں!
ورنہ وَ مَا النَّصۡرُ اِلَّا مِنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ کے مطابق نصرت تو بالکلیہ اللہ ہی کی جانب سے ہے.

(۵) 
اس کتاب میں اس مقدمے کے بعدبابِ اوّل ایک تمہید کی حیثیت رکھتا ہے‘جس میں ایک خط قاری حمید انصاری صاحب کا شامل ہے اور ایک تحریر ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہان پوری کی.

باب دوم کی حیثیت اس پوری کتاب کے ‘مبنیٰ و اساس اور بنیاد کی ہے.
اس میں اولاً راقم کی وہ تحریر شامل ہے جس میں ۲۱.۱۹۲۰ء کے امامت الہند کے مسئلے سے متعلق واقعات کی پوری تحقیق بھی آ گئی ہے‘اور حضرت شیخ الہندؒ ‘کی عظمت کے بارے میں راقم کے تأثرات بھی بیان ہو گئے ہیں. 

پھر دو تائیدی خطوط مراد آباد (بھارت) کے مولانا افتخار احمد فریدی صاحب کے ہیں.
پھر راقم کی تحریر پر مولانا اللہ بخش ملکانوی کے اعتراضات اور ان کے ضمن میں راقم کی وضاحت ہے.

اور آخر میں محترم حکیم محمود احمد برکاتی کی تحریر ہے جس میں بعض واقعات اور اقوال کی روایت پر تنقیدی گرفت کی گئی ہے ‘جس کے ضمن میں ضروری وضاحت ان کے مقالے پر ’’میثاق‘‘ کے ادارتی نوٹ میں موجود ہے.

تیسرا باب ’’فرائض دینی کا جامع تصور‘‘ کے موضوع پر قرآن اکیڈمی‘ماڈل ٹائون‘لاہور میں منعقدہ چھ روزہ محاضرات کی روداد پر مشتمل ہے‘ جس سے دین کا جامع تصور بھی سامنے آ جاتا ہے اور فرائض دینی کاا نقلابی تصور بھی.

چوتھا باب… راقم کی دو تقریروں پر مشتمل ہے‘جو اواخر مارچ ۱۹۸۴ء میں جناح ہال‘لاہورمیں مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کے چھٹے سالانہ محاضراتِ قرآنی میں کی گئیں. ان میں اسلامی انقلاب کی جدوجہد کے دو لازمی اجزاء تفصیلاً زیر بحث آئے ہیں‘ یعنی ایک جہاد بالقرآن اور دوسرے التزامِ جماعت و لزوم بیعت! واضح رہے کہ مولاناابوالکلام آزاد مرحوم کی دعوت و تحریک( ۱۹۱۲ء تا ۱۹۲۰ئ) کے بھی یہی دو اساسی اجزاء تھے!

پانچویں باب کا اصل موضوع مولانا سعید احمد اکبر آبادی مرحوم و مغفور اور ان کی بعض آراء ہیں. چنانچہ اس میں اولاً مولانا اکبر آبادی مرحوم کا ایک مختصر سوانحی خاکہ درج ہے جو موصوف کے خویش پروفیسر اسلم صاحب نے تحریر کیا اور متذکرہ بالا محاضراتِ قرآنی میں پڑھ کر سنایا.

پھر مولانا اکبر آبادی کی ایک طویل تقریر ہے جو انہوں نے مولانا ابو الکلام آزاد مرحوم کی شخصیت اورسیرت کے موضوع پر ان ہی محاضرات میں کی. یہ تقریر اولاً ماہنامہ ’’حکمت قرآن‘‘ میں شائع ہوئی تھی‘ بعد ازاں اسے نہایت آب و تاب کے ساتھ کتابی صورت میں ڈاکٹر ابوسلمان شاہ جہان پوری نے شائع کیا.

پھر مولانا سعید احمد اکبر آبادی کے دو انٹرویو ہیں‘ جن میں انہوں نے راقم الحروف کے بارے میں اپنی رائے وضاحت کے ساتھ پیش کی ہے… جس کے لیے راقم ان کا شکر گزار بھی ہے اور ان کے لیے دعا گو بھی… البتہ اس گفتگو میں بعض دوسری تحریکوں اور شخصیتوں کے ضمن میں جو ریمارکس آ گئے ہیں ان کے ضمن میں مولانا اخلاق حسین قاسمی (دہلی) اور مولانا محمد منظور نعمانی (لکھنؤ) کے جو تردیدی یا وضاحتی خطوط موصول ہوئے ‘وہ بھی شامل کر دیے گئے ہیں. (واضح رہے کہ اس کتاب کے باب چہارم میں شامل راقم کی دونوں تقریروں کے دوران مولانا سعید احمد اکبر آبادی مرحوم بھی موجود تھے. پہلی میں بحیثیت صدر مجلس اور دوسری میں بحیثیت شریک و سامع!)

باب ششم سے اس کتاب کی دوسری اہم بحث کا آغاز ہوتا ہے. اس میں اولاً ’’قرآن کے نام پر اٹھنے والی تحریکات اور ان کے بارے میں علماء کرام کے خدشات‘‘ کے موضوع پر راقم کی ایک مفصل تقریر شامل ہے جو رمضان ۱۴۰۴ھ کے جمعۃ الوداع کو مسجد دارالسلام‘باغ جناح‘لاہور میں کی گئی تھی.

چونکہ ’’میثاق‘‘ کا وہ شمارہ (ستمبر ۱۹۸۴ء) بہت سے معروف علماء کرام اور بعض دینی جرائد کو تبصرے اور اظہار رائے کے لیے بھیجا گیا تھا‘لہٰذا اس باب میں اس کے بعد چار جید علماء کرام اور دو ہفت روزہ جرائد کے تبصرے شامل ہیں جو ’’میثاق‘‘ کی نومبر اور دسمبر ۱۹۸۴ء کی اشاعتوں میں شائع ہوئے.

اور آخر میں ان تبصروں کے ضمن میں راقم کی وضاحتیں ہیں جو دسمبر ۱۹۸۴ء اور جنوری ۱۹۸۵ء کے ’’میثاق‘‘ میں شائع ہو ئی تھیں.

باب ہفتم مولانا اخلاق حسین قاسمی (دہلی) کی ایک تحریر سے شروع ہوتا ہے جس میں انہوں نے ’’جماعت شیخ الہند ؒ ‘‘ کی اصطلاح استعمال فرمائی اور ایک جانب راقم کو کچھ نصیحتیں کیں اور دوسری جانب علماء دیوبند کو راقم کی تائید اور سرپرستی کا مشورہ دیا.
اس کے بعد راقم کی ایک طویل تحریر ہے جو ’’میثاق‘‘ فروری ۱۹۸۵ء میں شائع ہوئی تھی اور جس میں راقم نے ’’جماعت شیخ الہند ؒ ‘‘ کے ضمن میں اپنے تاثرات و احساسات کا تفصیلاً ذکر کیا ہے.

آخر میں مولانا محمد منظور نعمانی (لکھنؤ) کی تالیف کا ایک طویل اقتباس ہے جس میں مسلم انڈیا کی بیسویں صدی عیسوی کے ابتدائی چالیس سال کی تاریخ کے بعض اہم واقعات اور اس دور کے بعض اعاظم رجال کا ذکر ہے.

باب ہشتم میں یہی سلسلہ مضمون آگے بڑھتا ہے لیکن اس میں گفتگو اصلاً مولانا محمد یوسف لدھیانوی ‘ مدیر’’بینات‘‘ کراچی کے اعتراضات کے حوالے سے ہے.

اس میں ’’میثاق‘‘ مارچ ۱۹۸۵ء کا ’’تذکرہ و تبصرہ‘‘ من و عن… اور ستمبر ۱۹۸۵ء کے ’’تذکرہ و تبصرہ‘‘ کے چیدہ چیدہ حصے شامل ہیں. اس باب کے آخر میں ہفت روزہ ’’حرمت‘‘ اسلام آباد میں شائع شدہ ایک مضمون بھی شامل ہے. 

باب نہم اصلاً راقم کے۲۴ اگست ۱۹۸۴ء کے خطاب جمعہ پر مشتمل ہے جو ’’میثاق‘‘ نومبر ۱۹۸۴ء میں شائع ہوا تھا.

اس کے علاوہ اس میں ’’قتل خطا میں عورت کی نصف دیت کا مسئلہ‘‘ کے موضوع پر راقم کی ایک تحریر شامل ہے ‘جو اوّلاً روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ اور پھر ’’میثاق‘‘ دسمبر ۱۹۸۴ء میں شائع ہوئی تھی.

اس کتاب میں ان دونوں کی اشاعت سے مقصود یہ ہے کہ فقہی مسائل کے ضمن میں راقم کا نقطۂ نظر وضاحت سے سامنے آ جائے.

باب دہم…… کچھ’’متفرقات‘‘ پر مشتمل ہے جن کی حیثیت اس کتاب میں ’’ضمیموں‘‘ کی سی ہے… ان میں حسب ذیل چیزیں شامل ہیں:

(ا) آیۂ اظہار دین کے ضمن میں امام الہند شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ علیہ کی وضاحت (ماخوذ از ’’ازالۃ الخفا‘‘ ترجمہ از مولانا عبدالشکور لکھنوی)
(ب) ’’لا یصلح آخر ھذہ الامۃ الا بما صلح بہ اولھا‘‘ کے ضمن میں دو نہایت اہم تحقیقی خطوط 
(ج) ’’علماء کب اٹھیں گے؟‘‘ کے عنوان سے مولانا محمد زکریا‘سربراہ پاکستان سنی اتحاد‘کی ایک جھنجھوڑ دینے والی تحریر
(د) حاجی عبدالواحد مرحوم و مغفور کا سوانحی خاکہ‘جواپنی ذات میں اس دور کی جملہ دینی تحریکوں کی چلتی پھرتی تاریخ تھے اور میرے ہاتھ پر زبردستی بیعت کرنے والے پہلے شخص!
(ھ) مولانا سید عنایت اللہ شاہ بخاریؒ کی ایک تقریر جس میں موصوف نے راقم الحروف کے بارے میں اظہارِ خیال فرمایا ہے.

راقم ان تمام حضرات کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہے جن کی تحریریں مضمون کی مناسبت سے کتاب میں شامل کی گئی ہیں. 

خاکسار اسرار احمد عفی عنہ
لاہور…۱۶ جون ۱۹۸۷ء 
نظر ثانی … ۱۵/جنوری۲۰۰۹ء 

اھم نوٹ

:زیر نظرتالیف میں شامل مضامین ‘مقالات اور خطابات میں سے اکثر گزشتہ چار پانچ سال کے عرصے کے دوران ماہنامہ ’میثاق ‘اور ’حکمت قرآن‘ میں شائع ہو چکے ہیں‘ اور اب اُنہیں عجلت اور کفایت کے پیش نظر بلاترمیم و اضافہ اس کتاب میں شامل کیا جا رہا ہے. مگر اس دوران وقت کے دریا میں بہت سا پانی بہہ گیا اور بہت سی قابل احترام علمی دینی شخصیات جن کا ذکر اس کتاب میں اس انداز سے موجود ہے جیسے وہ ابھی بقید ِحیات ہوں‘ مرحومین کی فہرست میں شامل ہو چکی ہیں. قارئین کرام سے گزارش ہے کہ دورانِ مطالعہ اس حقیقت کو ملحوظ رکھیں. (ناشر)