حضرت شیخ الہندؒ ایک بھولی بسری شخصیت قاری حمید انصاری


قاری حمید انصاری حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ کے معتمد علیہ رفیق کار مولانا محمد میاں منصور انصاری مرحوم و مغفور کے چھوٹے صاحبزادے ہیں. ان کے والد ماجد کے تعارف کے لیے مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ نے اپنی خود نوشت سوانح حیات میں جو کچھ تحریر فرمایا ہے وہ نہ صرف یہ کہ کفایت کرتا ہے ‘بلکہ ’سند‘ کا درجہ بھی رکھتا ہے. لہٰذا اس کا عکس ذیل میں درج کیا جا رہا ہے:

(۴) مولانا منصور صاحب انصاری مرحوم ‘ان کا اصلی نام محمد میاں تھا. موصوف حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمہ اللہ علیہ بانی دار العلوم دیوبند کے نواسے اور پیرجی عبداللہ صاحب انصاری مرحوم ناظم دینیات علی گڑھ یونیورسٹی کے بڑے صاحبزادے تھے. حضرت شمس العلماء مولانا حافظ احمد صاحب مرحوم ناظم اعلیٰ دارالعلوم دیوبند کے حقیقی بھانجے تھے. ان کا اصلی وطن انبہٹہ ضلع سہارنپور تھا. دارالعلوم دیوبند میں تکمیل کرنے کے بعد مختلف مقامات میں خدماتِ تدریسیہ انجام دیتے رہے. دارالعلوم معینیہ اجمیر میں بعہدہ صدر مدرسی عرصہ تک کام کیا. اس کے بعد حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ علیہکی خدمت میں اعانت ترجمہ قرآن کی خدمات انجام دینے کے لیے مقرر کیے گئے .حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ علیہ نے ان کو اپنے مشن کا ممبر بنایا اور اسکیم میں شریک کر لیا. جمعیۃ الانصار میں بھی مولاناعبیداللہ صاحب مرحوم کے ساتھ ان کے نائب بن کر عرصہ تک کام کرتے رہے. نہایت مستقل مزاج‘ ذکی الطبع رازدار اور قابل اعتماد تھے. انہوں نے مشن کے کاموں کو نہایت زیادہ رازداری سے انجام دیا‘ لوگوں (اعزہ و احباب نے) ان کو بہت کوشش کے ساتھ توڑنا چاہا مگر یہ نہ ٹوٹے اور ہمیشہ حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ علیہ سے وابستہ رہے. ان کو ڈگمگا دینے والے خطرات سے دوچار ہونا پڑا مگر یہ ثابت قدم رہے. حضرت شیخ الہندؒ کے ساتھ سفر حجاز میں رفاقت کی خدمات انجام دیتے رہے. مکہ معظمہ میں گورنر حجاز غالب پاشا کی ملاقات ہونے اور ہدایات و تعلیمات ضروریہ حاصل کرنے کے بعد حضرت شیخ الہندؒ نے ان کو ہندوستان واپس کیا اور اس پر مامور کیا کہ وہ ہندوستان جا کر حسب تعلیمات غالب پاشاؒ کارہائی متعلقہ انجام دیں اور مشن کے ممبروںکی رہنمائی فرماتے رہیں. حسب بیان رولٹ رپورٹ غالب نامہ اُن کے پاس تھا‘ موصوف جب حسب ہدایت ہندوستان پہنچے تو ریشمی خط انگریزوں کو مل چکا تھا.

جگہ جگہ تفتیش اور پکڑ دھکڑ ہو رہی تھی. بدخواہوں نے ان کے گرفتار کرانے کی کوشش کی. ان کو پتا چل گیا اور بھیس بدل کر انہوں نے فرائض ہدایات انجام دیے اور روپوش ہو کر یاغستان روانہ ہو گئے. سی آئی ڈی نے بہت کوشش کی مگر یہ ہاتھ نہ آئے اور یاغستان (آزاد علاقہ) میں بال بچوں (اہلیہ محترمہ دو صاحبزادوں وغیرہ) کو وطن میں چھوڑ کر چلے گئے اور بخیر وعافیت وہاں پہنچ گئے. وہاں کچھ عرصہ رہ کر پھر افغانستان (کابل) چلے گئے. امیر حبیب اللہ خاں صاحب کے اخیر زمانہ میں مولانا سیف الرحمن صاحب کے ساتھ گورنمنٹ ہند کی پروٹسٹ کی بنا پر کابل سے یاغستان کو روانہ کر دیے گئے. انہوں نے یاغستان پہنچنے کے پہلے سے جب کہ بھیس بدلا تھا‘ اپنا نام بھی بدل کر محمد منصور انصاری رکھ لیا تھا جس سے سی آئی ڈی کو گرفتاری میں بڑی ناکامی ہوئی. امیر امان اللہ خاں صاحب کے زمانہ میں پھر کابل واپس ہوئے اور اپنی علمی استعداد وغیرہ کی وجہ سے بڑے علمی اور سیاسی عہدوں پر فائز ہوئے. جو مشن افغانستان سے استنبول امیر امان اللہ صاحب کے سریر آرائے سلطنت ہونے کے بعد بھیجا گیا تھا ‘اس میں موصوف بھی تھے. بعہدہ وزیر مختار سفیر افغانستان کے ساتھ فرائض عہدہ انجام دیتے رہے. پھر ماسکو میں افغانی سفارت فوق العادت میں بحیثیت مشیر شریک رہے. کابل میں انہوں نے مختلف سیاسی اسلامی رسائل بھی تصنیف کیے جو کہ شائع ہو چکے ہیں ٭ ان کی روانگی کے بعد چونکہ ان کے متعلقین معاشی تنگیوں میں مبتلا ہو گئے تھے اس لیے ڈاکٹر انصاری مرحوم ۳۰ روپے ماہوار سے تکفل فرماتے رہے .انہوں نے یاغستان میں شادی بھی کر لی تھی. ان کے بڑے صاحبزادے مولانا حامد انصاری صاحب ہیں جو عرصہ دراز تک مدینہ بجنور کی ایڈیٹری کی خدمات نہایت لیاقت اور دانائی کے ساتھ انجام دیتے رہے اور پھر بمبئی چلے گئے اور روزنامہ جمہوریت جاری فرمایا. چھوٹے صاحبزادے والدہ ماجدہ کے انتقال کے بعد کابل چلے گئے اور ان دنوں وہیں مقیم ہیں. منصور صاحب کا انتقال کابل میں ہو گیا رحمہ اللہ تعالیٰ ورضی عنہ وارضاہ آمین. 

قاری حمید انصاری مولانا محمد میاں منصور انصاری مرحوم و مغفور کے وہی چھوٹے بیٹے ہیں جن کا ذکر مندرجہ بالا عبارت کے آخر میں ہوا ہے. وہ پچاس سال تک افغانستان میں مقیم رہے اور اس عرصے کے دوران امان اللہ خان‘ بچہ سقہ‘ نادر شاہ اور پھر ظاہر شاہ کی طویل بادشاہت کا زمانہ دیکھا اور اس کے بعد سردار داؤد اور پھر کمیونسٹوں کے دورِ اقتدار کے بھی سال ڈیڑھ سال کے حالات کا بچشم سر مشاہدہ کیا اور بالآخر ۱۹۷۹ء میں ’’مہاجر‘ ‘ہو کر پاکستان تشریف لے آئے ساری عمر’’مہاجرت‘‘ کی کیفیت میں رہنے کے باعث شادی کی نوبت بھی نہیں آئی. اس وقت اسّی برس کی عمر ہے لیکن صحت بحمد للہ اچھی ہے. اُن کے پاس اپنے والد ماجد کے چند مخطوطات محفوظ ہیں جنہیں وہ سینے سے لگائے 
٭ ان کے نام مندرجہ ذیل ہیں: (۱) حکومت ِالٰہی (۲) اساسِ انقلاب یا مراقبہ نماز (۳) مجمل بیعت تابعیت (۴) دستور امامت اُمت (۵) انواع الددل وغیرہ. پھر رہے ہیں . اگر اللہ نے توفیق دی تو انہیں’’میثاق‘‘ کے ذریعے سلسلہ وار ہدیۂ قارئین کیا جائے گا. سردست ان کا ایک مکتوب شائع کیا جارہا ہے پچاس سال افغانستان میں گزارنے کے باعث ان کی اردو بہت کمزور ہو گئی ہے لیکن ہم چاہتے ہیں کہ اُن کے جذبات من وعن قارئین کے سامنے آئیں ‘لہٰذا اس میں زیادہ ترمیم یا اصلاح نہیں کی جا رہی. (عاکف سعید)

محترم المقام حضرت مولانا ڈاکٹر اسرار احمد صاحب دامت فیوضکم!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

ایک عرصے سے آپ حقائق اور دین اسلام کی حقیقت ِ خاصہ پر جو تشریحات اور نکاتِ انقلابی‘ اسلامی لہجہ اور بے ٹوک اپنے مؤقر ماہنامے کے ذریعے اور اکثر اوقات مختلف مقامات میں خطبات کی صورت بیان فرما رہے ہیں‘ میں پڑھ رہا ہوں‘ اس قحط الرجال اور پرُفتن زمانے میں یہ چیز اسلام دوست اور دین پسند مسلمانوں کے لیے ایک آبِ حیات اور امیدوں کی کرن ثابت ہو رہی ہے. خداوند تعالیٰ آپ کو اور آپ کے رفقائے کار اور معاونین کو تادیر زندہ و سلامت اپنے حفظ و امان میں رکھ کر اپنے پاک دین اور خدا تعالیٰ کی حاکمیت ِ مطلقہ کے لیے اجتہادی اور جہادی خدمت لیتا رہے. آمین ثم آمین. آپ کا مؤقر ماہنامہ ایک ہفتہ ہوا ہے کہ اسلام آباد میں اپنے ماموں زاد بھائی جناب ڈاکٹر محمد سعود صاحب ریڈر ادارہ تحقیقاتِ اسلامی جامعہ اسلام آباد کے یہاں مجھے ملا. یہ پرچہ جلد ۳۳ نمبر۱ ربیع الثانی ۱۳۰۴ھ مطابق جنوری ۱۹۸۴ء کا تھا جو کہ آج کل زیر مطالعہ ہے. عرضِ احوال‘ الہدیٰ‘ اسلام کا جماعتی نظام‘ شرک اور اقسامِ شرک کا بغور مطالعہ کیا. اب پھر ان کو دوبارہ پڑھ کر اپنے کو ایک نئی دنیا میں محسوس کیا (اگرچہ یہ تمام حقائق اور نکات وہی ہیں جو کہ آج سے چودہ سو سال پہلے حضور اکرم و خلفائے راشدین نے عملی صورت اور علمی حقائق کے طور پر ہمارے لیے لائحہ عمل کے طور پر بتلا اور سمجھا دیے تھے ‘مگرہمیں آج وہ نئے اور اجنبی معلوم ہو رہے ہیں) جس کی وجہ ہماری اسلامی علوم اور سیرت نبی اکرم اور حضرات شیخین رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اسلامی عملی زندگی سے ناواقفیت ہے مگر’ ’قند ِمکرر‘‘ میں آپ کی جو تحریر مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم اور جمعیت علمائے ہند اور مخدومنا ومولانا مجاہد احیاءِ مجدد اسلام محمود الحسن صاحب (حضرت شیخ الہندؒ رحمہ اللہ علیہ) کامطالعہ میرے لیے بہت ہی خوشی و تعجب کا باعث ہوا. میں عرصے سے پاکستان میں ہوں مگر میں نے اس عرصے 
میں پاکستان کے کسی اخبار یا رسالے ‘ یا ہفتہ وار مجلے میں مجاہد اعظم حضرت شیخ الہند کا نام تک نہیں پڑھا اور نہ کسی مجلس یا کسی شخص کی زبانی ان کی خدمات اور مجاہدات کے بارے میں کچھ سنا (حالانکہ یہاں کے اخباروں اور رسالوں میں ‘ پیروں فقیروں اور بزرگانِ دین اور بعض گزرے ہوئے لوگوں کے حالات ‘ کرامات‘ خدمات بڑی بڑی جاذب نظر سرخیوں کے ساتھ دیکھنے میں آتے ہیں) مگر جن مردانِ حق نے ’’دین مبین ‘‘ کے ارتقاء اور اس کی اصلی روح کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک اسلامی انقلاب کے لیے طوفانوں سے مقابلہ اور شدائد اور قید و بند کی تکالیف برداشت کیں ان کا نام‘ ان کا تذکرہ اور ان کے کارنامے آج ہم بھلا بیٹھے ہیں. ان حضرات میں مخدومنامجاہد اعظم حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب رحمہ اللہ علیہ بھی ہیں. حضرت شیخ الہندؒ کا جو مشن (پان اسلام ازم) اور جو پروگرام (ہندوستان کے مسلمانوں کی آزادی حاصل کر کے اس کی قوت سے عالمِ اسلام اور اسلامی حکومتوں کو آزاد کرا کے مسلمان حکومتوں کا متحدہ وفاق بنانا اور تمام بشریت کو اسلامی عدل و انصاف اور مساوات برادری و برابری کے نظام کے تحت لا کر تمام دنیا میں حکومت ِ الٰہیہ کو عام کرنا تھا) مگر ہماری بدبختی تھی کہ حضرت شیخ الہندؒ کی زندگی نے وفا نہ کی. اور حضرت اپنے تمام مشن کے پروگرام انجام تک نہ پہنچا سکے. حضرت شیخ رحمہ اللہ علیہ کی وفات کے بعد نہ ان کے جانشین حضرت مولانا حسین احمد صاحبؒ نے حضرت کے پروگرام کو اپنا کر آگے چلایا اور نہ حضرت شیخ کے کسی اور مخلص نے یہ جرأت کی کہ حضرت شیخ کے حقیقی پروگرام کو اگر عملی صورت میں ممکن نہ تھا تو کم از کم تحریری صورت میں ہی حضرت کے پروگرام اور مشن کی حقیقت لوگوں تک پہنچا دیتے.

آج میں اپنے آپ کو بہت خوش نصیب محسو س کر رہا ہوں کہ ایک عرصے کے بعد حضرت شیخ کے حالات اور بعض ان کے فرمائے ہوئے نکات آپ کے مؤقر رسالے میں پڑھ کر خوش ہوں کہ اس پرُفتن زمانے میں بھی ایسی ہستیاں موجود ہیں جو (گاہے گاہے باز خواں ایں قصۂ پارینہ را) کو قند ِمکرر کے معنی خیز عنوان سے حضرت شیخ کی یاد اور ان کے کارناموں اور اخلاقی اور انسانی خصائص ایک بہت فصیح اور دردمندانہ طریقے سے یاد فرما رہے ہیں (این کاراز تو آید و مرداں چنیں کنند) کا مصداق بنے ہیں.

اگرچہ حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ علیہ کی سوانح حیات اور حضرت کی آزادی ٔ وطن اور احیائے مجدد دین اسلام کے سلسلہ میں اکثر حضرات نے بہت لکھا ہے. اپنی تحریروں میں حضرت کے مشن 
اور پروگراموں کا بھی ذکر کیا ہے‘ مگر کسی سوانح نگار یا مضمون نگار نے مشن اور پروگراموں کے سلسلے میں حضرت شیخ کی کوئی ایسی صریح اور صاف الفاظ میں یہ نہیں لکھا کہ حضرت شیخ کا مشن کیا تھا اور اس کی کامیابی کے لیے کیا کیا پروگرام کس وقت اور کہاں کہاں بنے. اور ان پر کتنا علمی اور عملی اقدام کے بعد کامیابی ہوئی یاناکامی اور اس کے اسباب و علل کیا تھے. مولانا محمد میاں مرحوم دیوبندی نے ایک کتاب تحریک حضرت شیخ الہندؒ . کون کیا تھا ‘لکھی. لیکن اس کتاب میں چونکہ انگریزوں کی سی آئی ڈی کی گمراہ کن رپوٹوں کو ‘ جو لندن کی لائبریری میں محفوظ ہیں‘ اساس بنایا گیا ہے ‘لہٰذا اس کے ذریعے شیخ الہندؒ کی شخصیت اپنے اصل رنگ میں سامنے نہیں آ سکی. 

(میثاق‘ اپریل ۱۹۸۷ء)


حضرت شیخ الہندؒ ‘کی عظمت کے عناصر ترکیبی پرایک معروضی نظر!

جمعیت علماءِ ہند کے زیر اہتمام دہلی میں منعقدہ شیخ الہند سیمینار میں پیش ہونے والا ایک مقالہ ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہان پوری تاریخ عالم میں بہت سی ایسی شخصیتیں گزری ہیں جنہیں بڑا کہاجاتا ہے. یہ شخصیتیں علم و عمل کے مختلف میدانوں میں اپنے خصائص و خدمات کی بنا پر بڑی کہلاتی ہیں. ملت اسلامیہ پاک و ہند کی تاریخ بھی بڑے بڑے علمائے دین ‘ صوفیاءِ کرام‘ مشائخ عظام اور ادیبوں‘ مصنفوں‘ مدبروں‘ مفکروں اور قومی خدمت گزاروں کے ذکر سے خالی نہیں. ان کے نام ہماری زبان پر اور ان کے تراجم و تذکار زیر تحریر و مطالعہ آتے ہیں تو ہمارا سر فخر سے بلند ہوجاتا ہے.

یہ صورت تو اس وقت ہوتی ہے جب ہمارے ہاتھ میں ایک حقیقت پسند مؤرخ کا قلم ہوتا ہے اور ہمارا ذہن تعصب سے اور زبان مبالغہ سے قطعاً ناآشنا ہوتے ہیں. مجرد و منفرد عظمتوں کا یہی ذکر جب نیاز مند زبان پرآتا ہے تو قلب عقیدت سے جھوم جھوم اٹھتا ہے. اگر دردمندی پہلو میں ہو اورارادت سے قلم کا سر جھک جائے تو ممدوح کے محاسن کی ایک ایک خوبی کو سو سو انداز سے بیان کرنے کو جی چاہتا ہے‘ لیکن جب حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی کے بارے میں ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ اس عہد کی ایک عظیم اور نادر روزگار شخصیت اور مذہب و سیاست میں سلطانِ وقت و سکندر اعظم تھے تو یہ ایک روادار قلم کی تحریر اور عقیدت مند قلب کا فیصلہ نہیں ہوتا‘ نہ یہ بات تحریر کرتے ہوئے ان کی کوئی مجرد خوبی ذہن میں آتی ہے. اگر کسی مجرد خوبی ہی کی بنا پر کوئی شخص عظمت کے تاج کا مستحق قرار پائے تو یقین کرنا چاہیے کہ تاریخ ملت اسلامیہ پاک و ہند میں ایسے بے شمار علماء کے نام ملتے ہیں جن کے علمی و تصنیفی کارنامے بے حد و حساب ہیں‘ ایسے صوفیاء و مشائخ ہیں جن کے مریدوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچتی ہے‘شعلہ بیان و آتش نوا خطیبوں کی بھی تاریخ میں کمی نہیں ‘فلسفہ و کلام کے ایسے ماہر ہیں جن کی نکتہ آفرینیوں کا کوئی جواب نہیں‘ ایسے حکماء عقلاء ہیں جن کی حکمت و دانائی نے دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے‘ بے مثال شاعر‘ لاجواب ادیب اور 
ایسے صاحب ِ طرز انشاء پرداز ہیں جن کے کلام و انشاء کی دل ربائیوں نے لاکھوں قارئین ادب کے الگ الگ حلقے اور مستقل مکاتب فکر و فن پیدا کر دیے ہیں‘ کتنے ہی مدبر اور مفکر ہیں جن کے افکار نے زندگی کی تعمیر میں حصہ لیا ہے. مختلف علوم و فنون کی تاریخ میں ان کے نام عزت و احترام سے جگہ پانے کے مستحق ہیں‘ لیکن علم و فکر اور فلسفہ و عمل کے تمام اعتراف کے باوجود‘ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ’’شیخ الہند‘‘ ان میں کوئی نہیں.

اگر ہم انسانی عظمت کے بجائے علم و عمل کی کسی ایک خوبی اور فکر و سیرت کے کسی خاص حسن کے شیدائی ہوتے تو ہمارا مرجع اور مرکز ِ عقیدت کوئی اور شخصیت بھی ہو سکتی تھی اور تعجب نہ ہوتا کہ ہم حضرت ہی کے حلقے کے کسی صاحب علم و فن کو اپنی نیازمندی کے اظہار کے لیے منتخب کر لیتے کہ اس حلقے میں بے مثال ادیب و خطیب‘ محدث و مفسر‘ شیخ و صوفی‘ مدرس و معلم اور صحافی و مبلغ سے لے کر حکیم الامت تک موجود تھے. یہ نہ سمجھ لیجیے کہ میں ان خصائص و محاسن کا منکر ہوں لیکن مجھے ایک جامع الصفات عظیم انسان کی تلاش ہے. کسی ایسی عمارت کی ضرورت نہیں جو اپنی تاریخ رکھتی ہو لیکن فیضانِ الٰہی کی بخششوں سے مالامال نہ ہو اور اپنے حسن تعمیر میں آگرے کے تاج اور نظارۂ جمال میں لاہور کے شالامار کی طرح کسی آمر کے حکم اور کسی سرمایہ دار کی دولت کی رہین منت ہو. میں کسی ایسی عورت کے حسن کا متلاشی نہیں جسے قیمتی پتھروں کے استعمال سے رنگین و سنگین بنایا گیا ہو. میں ایک ایسی انسانی سیرت کا جویا ہوں جسے فکر و عمل کے حسن و توازن اور جامعیت نے عظیم بنایا ہو ‘جس کا تعلق اسی عہد سے ہو اور جس کا نام ہماری سماعت اور فہم کے لیے مانوس ہو ‘جس کا فکر بلند‘ قلب فراخ اور نظر وسیع ہو جو اپنے مذہبی عقائد میں محکم اور سیرت اسلامی میں پختہ ہو‘ جو مسلمانوں کے لیے ایک آبرومندانہ زندگی کا خواہاں ہو.

لیکن جس کی نظر میں تمام خلق انسانی خدا کا گھرانہ ہو اور وہ اس پورے گھرانے کی فلاح و بہبودکے لیے فکر مند ہو. جس کی ملت پروری کا یہ عالم ہو کہ بلقان کی جنگ اور سمرنا وتھریس اور طرابلس کے میدانوں میں کسی مسلمان کے پیر میں کانٹا چبھے تو وہ دیوبند کی مسند ِ رشد وہدایت پر اور مجلس درس و تدریس میں تڑپ اٹھے لیکن اس کی انسانی ہمدردی و غمگساری کا یہ عالم ہو کہ اپنے غلام ملک میں ایک ایک برادرِ وطن کی آزادی کے لیے اپنی زندگی کی راحتوں کو قربان کر دے‘ جس نے میدانِ جنگ میں خدا اور اس کی بخشی ہوئی آزادی کے دشمنوں سے نفرت کرنا سیکھا ہو. لیکن جو مخلوق خدا سے محبت کرنے اور انہیں ان کی چھینی ہوئی آزادی دلانے کے لیے پیدا ہوا ہو. مجھے ایک ایسے وجود گرامی کی تلاش ہے جس کا تعلق خواہ سہارنپور کے کسی قریے سے ہو‘ لیکن وہ پورے ملک کا افتخار ہو‘ اس کے نام کے ساتھ خواہ دیوبندی لکھا جاتا ہو لیکن اس کی سیرت تمام مکاتب ِ فکر کے لیے محمود ہو‘ اس کا تعلق اگرچہ برصغیر پاک و ہند سے ہو لیکن اس کا قلب پورے ایشیا میں استعمار کے استحصال پر خون کے آنسو روتا ہو اور اگرچہ وہ خودایشیائی ہو لیکن اس کی نظر میں تمام روئے زمین پر بسنے والے انسان آزادی و امن میں برابر ہوں اور دنیا کا ہر مظلوم خواہ اس کا تعلق کسی ملک اور کسی قوم و طبقہ سے ہو‘ وہ یکساں ہمدردی و حمایت کا مستحق ہو.

دنیا میں بہت سے خصائص و فضائل کی پرستش کی جاتی ہے. اس میں طاقت و قوت‘ مال و دولت‘ حسن و جمال‘ حکومت و اقتدار بھی شامل ہیں. پس اگر کوئی شخص انہیں چیزوں کا پرستار ہے تو اسے کون روک سکتا ہے‘ وہ اپنے معبودکے حضور اپنی جبین عجز و نیاز جھکا دے. دنیا کی تاریخ عبودیت و نیاز کے حسین مناظر اور حیرت زا نظارہ ہائے جمال سے بھری پڑی ہے. آپ کے گرد و پیش کی دنیا میں نہ طاقت و قوت کے معبودانِ باطل کی کمی ہے جو 
اَنَا رَبُّــکُمُ الْاَعْلٰی کے نعرہ زن ہیں ‘نہ مال و دولت کے ایسے حسین مناظر کی ‘ جن کی دلفریبیوں نے ایک عالَم کو اپنا گرویدہ بنا لیا ہے اور نہ حکومت و اقتدار کے ایسے ساحروںکی جو درحقیقت خود مسحور ہیں ‘لیکن ان کے اقتدار کی بجلیوں کی چمک اور حکم و صدائے اَنَا وَلَا غَیْرِیْ کی کڑک نے عقلوں کو ماؤف اور ذہنوں کو مسحور کر رکھا ہے. ان کے علاوہ دنیا میں مٹ جانے والی قوت و طاقت‘ متزلزل ہوجانے والے اقتدار اور فانی حسن و جمال کے آگے جھکے ہوئے سروں کی بھی کمی نہیں. خدا کی پھیلی ہوئی زمین پر کسی بھی ملک میں انسانی شرف کی پامالی کا یہ اندوہناک نظارہ کیا جا سکتا ہے.

لیکن آپ مجھے کسی ایسی شخصیت کا پتا اور ایسی عظمت کا نشان بتائیں جو خصائص سیرت و فضائل علمی کی جامع ہو‘ جس کے افکار کی روشنی نے غلامی کی ذلت و نکبت سے آزادی کی عزت و آبرومندانہ زندگی کی طرف رہنمائی کی ہو‘ جس کے پاس حکومت کا اقتدار نہ ہو لیکن وہ دلوں پر حکمران ہو. اس کے پاس مال و دولت نہ ہو لیکن اس کے سرمایۂ ذوقِ عمل سے ایک دنیا اس کی گرویدہ ہو گئی ہو. وہ حسن و جمالِ ظاہری کا مالک نہ ہو لیکن وقت کے تمام سلاطینِ عشق اور شیفتگانِ حریت اس کی زلف کے اسیر ہوں اور اس کے ایک ادنیٰ اشارہ و ایما پر وطن میں اپنی زندگی کی راحتوں کو تج کر غربت اور جلاوطنی کی زندگی کی صعوبتوں کو اپنے لیے سرمایۂ راحت ِ جاں سمجھ کر اپنے سینے سے لگا لیں اور اس کے عشق میں خود اپنے ہاتھوں سے اپنے پیروں کے لیے زنجیر کی کڑیاں ڈھالنے کا کام انجام دیں‘ وہ اپنی صلیب خود اپنے کندھے پر اٹھالیں اور آزاد زندگی کی سیر و گردش کی جگہ اسارت کے حبس اور زنداں کے سیہ خانہ و قید کو قبول کر لیں‘ جس نے زبان سے کبھی حکم نہ چلایا ہو لیکن دنیا نے اس کے نطق و بیان کے موتی چن لینے کے لیے اپنے دامن پھیلا 
دیے ہوں ‘ جس نے دنیا کو اپنی پرستش کے لیے نہ پکارا ہو کہ اس کے عقیدے میں یہ کفر تھا کہ انسانی شرف کو پامال کیا جائے لیکن دنیا نے عقیدت و نیاز کا سر اس کے سامنے جھکا دیا ہو.

حضرات! میرا ذوق ایک ایسی سیرت کے پاک باز حامل کے نظارئہ جمال ہی سے تسکین پا سکتا ہے جو اپنی زندگی کے تمام اعمال‘ روز و شب کے معمولات‘ اپنی شکل و صورت اور وضع قطع میں ایک مذہبی زندگی اورشخصیت کی مثال ہو لیکن وہ ملکی زندگی کے تقاضوںکو بھی سمجھتا ہو اور قومی فرائض کی بجاآوری میں وہ کسی قوم پرست سے پیچھے نہ ہو اور ایک مذہبی عالم ہونے کے ساتھ کہ وہی اسلامی زندگی میں رہنمائی کا سب سے زیادہ مستحق ہو سکتا ہے‘ وقت کی سیاست اور اس کی رفتار کار کااندازہ شناس بھی ہو. مذہب و سیاست کے بام وسنداں پر جس کی گرفت سخت ہو اور دونوں کو باہم آمیز کر کے ان کے دائرہ و حدود کی نزاکت پر نظر رکھ سکے اور شریعت کے خصائص کو عشق کے مطالبوںاور تقاضوں سے پامال نہ ہونے دے اور جس کی سیرت کی یہ خوبی ہو کہ سیاست کے دریا میں اپنی کشتی کی تختہ بندی کر لے اور دریا کے چھینٹوں سے اپنی زندگی کے دامن کو تر بھی نہ ہونے دے.

حضرات!اس تمہید لطیف کو کہاں تک طویل اور اس حکایت ِلذیذ کو کب تک دراز کیا جائے ‘میرے لیے اس حکایت میں خواہ کتنی ہی دل فریبی کا سروسامان ہو‘ لیکن یہ بات کسی طرح مناسب نہیں کہ آپ کی طلب کو اپنے ذوقِ بیان و داستان سرائی کا پابند کروں. میں صاف الفاظ میں اپنے اس عقیدے کا اعلان کردینا چاہتا ہوں کہ ان تمام فضائل و محامد ِ علم و عمل اور خصائص و محاسن فکر و سیرت اور ایثارِ وقت و جان اور جہادِ ملی و قومی کی جامع کوئی شخصیت اگر ہے تو وہ حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن کی ہے.

حضرت کی زندگی پر نظر ڈالنے اور آپ کے افکار و خدمات کے بیان و تجزیہ کے کئی انداز ہو سکتے ہیں‘ ان میں سے ایک انداز یہ ہو گا اور عام طو رپر اہل قلم اور اصحابِ نظر اسی کو اختیار فرمائیں گے کہ علم و عمل کے مختلف میدانوں میں آپ کے افکار و خدمات کا جائزہ لیا جائے‘ لیکن ان معنوں میں آپ کی ذات گرامی ایک ذات تھی کہاں؟آپ کا وجود مقدس و گرامی مرتبت علم و ادب‘ فکر و نظر‘ مذہب و سیاست‘ ایثار و عمل‘ اخلاق و سیرت اور مذہبی علوم و فنون کے مختلف دبستانوں کا ایک دبستان اور سینکڑوں انجمنوں کی ایک انجمن تھا. آپ کے وجودِ مقدس سے فیضانِ الٰہی کے سینکڑوں چشمے پھوٹے تھے. آپ کی ذات گرامی کا ایک خاص دور میں ایک محور ضرور تھا‘ لیکن اپنے دور میں آپ خود ایک نظامِ رشد و ہدایت اور مذہب و سیاست کے مرکز و محور تھے. آپ کی خدمات کا جائزہ اس طرح بھی لیا جا سکتا ہے کہ آپ کی دعوت جو تعمیر نو سے لے کر 
انقلاب تک‘ مسند ِ درس و تعلیم اور ذوقِ عمل کی تربیت سے لے کر میدانِ جہاد و عمل تک‘ تالیف و تدوین افکار سے لے کر جہادِ لسانی کے ملی و قومی میدانوں تک‘ مسلمانوں کی عام اجتماعی زندگی سے لے کر بین الملی سطح تک اور مسلمانوں سے لے کر برادرانِ وطن تک‘ ملکی حالات سے لے کر بین الاقوامی مسائل تک اور اسلامی دینی دائرے سے لے کر قومی سیاست کے تمام گوشوں تک پھیلی ہوئی ہے‘ اس پر بھی من حیث القوم نظر ڈالی جائے. دینی و ملی‘ ملکی و قومی اور بین الاقوامی سیاست میں دارالعلوم کی مسند ِ درس و تدریس‘ اصحابِ عمل اور مردانِ کار کی تعلیم و تربیت‘ جمعیت الانصار اور نظارۃ المعارف القرآن کا قیام ترکی کے لیے ایثارِ وقت و مال‘ مولانا عبید اللہ سندھی کا سفرِ کابل‘ خود حضرت کا سفرِحجاز و اسارتِ مالٹا‘ ریشمی رومال کی تحریک ‘ خلافت کی تحریک اور ترکِ موالات‘ہندو مسلم اتحاد‘ دارالعلوم دیوبند اور مدرسۃ العلوم علی گڑھ کا ربط و اتصال‘ حضرت کی دعوت و رہنمائی کے خاص عنوانات ہیں.

حضرات! فرصت کے ان چند لمحوں میں ان تمام دائروں میں حضرت رحمہ اللہ علیہ کی رہنمائی اور سیرت و افکار کے خصائص کا ذکر اجمال سے بھی ممکن نہیں. اب اس صحبت کو ختم کرتا ہوں اور صرف اتنا عرض کروں گا کہ:

امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد نے خانوادہ ولی اللٰہی میں شاہ اسماعیل شہید کو خود شاہ صاحب سے بھی اونچا مقام عطا فرمایا تھا اور یہاں تک لکھ دیا تھا کہ اگر ان کے عہد میں شاہ صاحب بھی ہوتے تو انہی کے جھنڈے کے نیچے ہوتے . میں پوری علمی بصیرت کے ساتھ یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ پورے علمی خانوادہ قاسمی میں جو برصغیر کی تاریخ میں ڈیڑھ سو سال پر پھیلا ہوا ہے ‘ حضرت شیخ الہند کا وہی مقام ہے جو اُس تحریک کے دورِ ثانی میں شاہ اسمٰعیل شہید کا تھا. حضرت شیخ الہند ؒ نے اپنی زندگی میں وہ کارنامہ انجام دیا ہے کہ اگر اس دور میں حضرت قاسم العلوم نانوتوی رحمہ اللہ علیہ ہوتے تو وہ بھی اسی سلطانِ وقت و سکندرِ عزم کے جھنڈے کے نیچے نظر آتے.

برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کا یہ عہد ِسعادت اور دورِ علوم و افکار اسی ذات گرامی اور فضیلت مآب کا ہے جسے تاریخ اسلامیانِ پاک و بھارت میں محمود حسن کے نام‘ دیوبندی کی نسبت اور شیخ الہند کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے. حضرات! اس صحبت و فرصت کے لمحات اختتام کو پہنچے. رخصت چاہتا ہوں. 

وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین: والسلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ! 

(شائع شدہ‘ میثاق‘ اپریل ۱۹۸۶ء)