تاریخی گوشے: حکیم محمود احمد برکاتی

انتخاب ِامام الہندؒ جمعیت علماءِ ہند‘ شیخ الہند مولانا محمود حسن اور مولانا ابوالکلام آزاد کی نسبت و حوالہ سے ایک اہم مسئلہ ’’نظم جماعت اور انتخابِ امام الہند‘‘کا ہے‘ جس کی بہت سی تفصیلات قارئین ‘ محترم ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کی متعدد تحریروں کے ساتھ ساتھ بعض دوسرے مضامین میں بھی پڑھ چکے ہیں.

خاص طو رپر ڈاکٹر صاحب نے اپنے تفصیلی مضامین میں اس مسئلہ پر بڑی شرح و بسط سے لکھا ہے اور یہ ثابت کیا کہ مختلف مراحل سے گزر کر یہ مسئلہ اس موڑ پر پہنچ چکا تھا کہ مولانا ابوالکلام آزاد کی امامت پر شیخ الہند ؒ سمیت اکثر و بیشتر حضرات متفق ہو چکے تھے بلکہ شیخ الہندؒ تو نہایت درجہ حساس تھے اور چاہتے تھے کہ جلد از جلد یہ مسئلہ طے ہو اور وہ سب سے پہلے خود بیعت کرنے پر آمادہ تھے.

جمعیت کا ۱۹۲۰ء کا اجلاس جو حضرت شیخ الہندؒ کی زندگی کا پہلا اور آخری اجلاس تھا (اس لیے کہ ۱۹۱۹ء کے اجلاس میں شیخ الہند جیل میں تھے اور ۱۹۲۰ء کے بعد جلد ہی ان کا انتقال ہو گیا) وہ اس لحاظ سے فیصلہ کن تھا اور عام طور پر اُمید ہو چلی تھی کہ یہ بات طے ہو جائے گی لیکن ہندوستان کی ایک علمی تحریک ’’خیر باد‘‘ کے گل سرسبد علامۃ الہند مولانا معین الدین اجمیری قدس سرہ کی مخالفت نے سارے منصوبے کو ایسا التوا میں ڈالا کہ پھر اس سلسلہ میں کوئی مزید پیش رفت نہ ہو سکی. اس کے بعد جلد ہی حضرت شیخ الہندؒ انتقال کر گئے. ایک مضبوط اور ذمہ دارشخصیت کے اٹھ جانے کا اثر سبھی پر ہوا. خود مولانا آزاد کے جذبات بھی سرد پڑ گئے اور ۱۹۲۱ء میں جب لاہور میں اجلاس ہوا تو بقول ملک نصر اللہ خان عزیز اور ڈاکٹر شیر بہادر خان پنی توقع ہی نہیں ‘یقین تھا کہ اب ضرور کچھ ہو گا‘ لیکن ایسا نہ ہوا. جس کا راز بعد میں یہی کھلا کہ مولانا اجمیری بنیادی طور پر اس معاملہ کے التوا کا باعث بنے تھے‘ البتہ بعد ازاں بعض دوسرے علماء بھی جن میں مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ کا نام نمایاں ہے‘ تجویز کے مخالف ہو گئے تھے. اس ضمن میں پروفیسر یوسف سلیم چشتی صاحب نے مولانا عبدالماجد دریابادی بدایونی سے سنے 
ہوئے چند جملے نقل کیے تھے جو مبینہ طورپر اس سلسلہ میں مولانا اجمیری نے مولانا آزاد سے مخاطب ہو کر کہے تھے جن میں یہ تیکھے الفاظ بھی شامل تھے کہ : 

’’ایاز قدر خود بشناس‘‘ 

سلسلہ خیر باد کے ایک فاضل حکیم محمود احمد برکاتی نے اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے اور ایک لمبی تحریر کے ذریعہ یہ ثابت کرنا چاہا ہے کہ مولانا اجمیری نے یہ جملہ نہیں کہا تھا اور بعد میں ان کے مولانا آزاد سے تعلقات و مراسم بہت اچھے رہے.
ہمیں تعلقات و مراسم کی اچھائی کا انکار بالکل نہیں لیکن یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ برکاتی صاحب یہ تسلیم فرماتے ہیں کہ اس مسئلہ کے سلسلہ میں علماء بے حد حساس تھے ‘ ایسا کرنا چاہتے تھے لیکن۱۹۲۰ء کے اجلاس میں ایسا نہ ہو سکا تو آخر کیوں؟ اور پھر ۱۹۲۱ء کے اجلاس میں لوگوں کی توقع کے باوجود اس کا کسی نے ذکر تک نہ کیا تو اس کا سبب کیا ہے؟
ہم ان کی بات تسلیم کر لیتے ہیں کہ مولانا آزاد اور علامہ اجمیری کے تعلقات بڑے خوشگوار رہے اور ایسا ہونا باعث تعجب اس لیے نہیں کہ شرفاء تعلقات کے معاملہ میں بڑے وضع دار ہوتے ہیں.

لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ مولانا اجمیری نے یہ جملہ نہیں کہا اور وہ اس کے معرضِ التوا میں ڈالنے کا سبب نہیں بنے یہ جملہ نہ سہی تو اس کے قریب قریب کوئی جملہ کہا ہوگاآخر اتنی اہم تجویز جس پر شیخ الہند جیسا انسان مصر ہے‘ اسے روکنے کی غرض سے کسی بھاری پتھر کی ضرورت تو رہتی ہی ہے اور وہ بھاری پتھر مولانا اجمیری کا یہ نہ سہی تو اس کے قریب قریب کوئی چبھتا ہوا جملہ ہوگا. اس لیے ڈاکٹر صاحب نے اپنے مضامین میں جو تفصیلات دی ہیں ان کی سچائی اپنی جگہ باقی رہتی ہے اور ان کا انکار ممکن نہیں.

بہرطور تاریخ کے اس پیچیدہ موضوع کی اہمیت کے پیش نظر محترم برکاتی صاحب کا مضمون پیش خدمت ہے. شاید کوئی ’’رجل رشید‘‘ ان کڑیوں کے سلسلہ میں مزید خامہ فرسائی کر سکے.

ہمارے لیے سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ملت کی اصلاح و بقا کی غرض سے ایک اہم منصوبہ ایسے معرضِ التوا کا شکار ہوا کہ پھر اس کی صدائے بازگشت مدتوں نہ سنی گئی.

’’تنظیم اسلامی‘‘ کے نام سے محترم ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے حال ہی میں جس کوشش کا آغاز کیا ہے‘ وہ درحقیقت اسی منصوبہ کی صدائے بازگشت ہے‘ انہوں نے انہی اصولوں اور مقاصد کو سامنے رکھ کر ایک قافلہ کی ترتیب کی کوشش کی ہے اور اللہ تعالیٰ کا 
لاکھ لاکھ شکر ہے کہ لوگ اس طرف متوجہ ہو رہے ہیں‘ انہوں نے اس رخ پر سوچنا شروع کر دیا ہے‘ اور اس کی اہمیت کا احساس بڑھنا شروع ہو گیا ہے. ہماری دعا ہے کہ رب العزت ڈاکٹر صاحب اور ان کے رفقاء و شرکاء کو دولت ِخلوص و اخلاص سے نوازیں اور ان کی مساعی بارآور ہوں. یہ درخت ہرا بھرا ہو اور اس کے سایہ و ثمر سے اُمت ِمسلمہ بھرپور فائدہ اٹھائے ؏ ’’ایں دعا از من و از جملہ جہاں آمین باد!!‘‘

واضح رہے کہ حکیم محمود احمد برکاتی ‘ مولانا سید برکات احمد رحمہ اللہ علیہ کے پوتے ہیں جن کے شاگرد رشید تھے مولانا معین الدین اجمیریؒ اور جو خود شاگردِ رشید تھے مولانا عبدالحق خیرآبادی کے خلف الرشید مولانا فضل حق خیرآبادی رحمہ اللہ علیہ کے. (ادارہ)

۱۹۲۰ء/۱۳۳۹ھ میں مولانا معین الدین نے جمعیت العلماء ہند کے سالانہ اجلاس میں شرکت کی اور اس اجلاس کی ایک نہایت اہم تجویز کے سلسلے میں نمایاں کردار ادا کیا.

مولانا ابوالکلام آزاد‘ مولانا سیدسلیمان ندوی اور مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد بہاری کئی سال سے برعظیم کے مسلمانوں کو ایک اہم دینی و ملی فریضے کی طرف اپنے خطبات و مقالات کے ذریعے دعوت دے رہے تھے. یہ حضرات مسلمانوں کو دعوت دے رہے تھے کہ نظم جماعت قائم کر کے نصب امامت کریں‘ مسلم حکومت کے زوال اور غیر مسلم حکومت کے استیلانی حالت میں مسلمانوں کے لیے شرعاً صرف دو ہی صورتیں جائز و باقی رہ جاتی ہیں یا وہ اس ملک سے ہجرت کر جائیں یا پھر نظم قائم کرکے اپنے لیے ایک امیر یا امام کا انتخاب اور نصب کر لیں‘ ورنہ ان کی زندگی غیر شرعی و جاہلی زندگی ہو گی.

علماءِ ہند کی ایک تعداد مرتبہ ٔ اجمال میں اس تجویز پر تو متفق ہو گئی تھی مگر اس سوال پر گومگو اور کشمکش کا شکار تھی کہ منصب ِامامت کے لیے مختلف اعتبارات سے موزوں تر اور اہل تر فرد کون ہو سکتا ہے؟ایک حلقہ مولانا عبدالباری فرنگی محلی (۱۹۲۶ء) اور ایک حلقہ شیخ الہند مولانا محمود حسن کی طرف رجحان رکھتا تھا اور ایک حلقہ مولانا ابوالکلام آزاد پر دل نہاد تھا. مولانا آزاد کے بعض رفقاء نے ان کے انتخاب کے لیے خطوط اور ملاقاتوں کے ذریعے راہ بھی ہموار کی تھی اور بالخصوص شیخ الہند کو اپنا پرجوش ہم نوا بنا لیا تھا اور وہ کسی امام الہند سے بیعت کے لیے اپنی بے تابی کا اظہار کر چکے تھے اور مولانا آزاد سے بیعت سے متفق بلکہ مؤید تھے. چنانچہ ۱۹/۲۰/۲۱نومبر ۱۹۲۰ء کو جمعیت کے دوسرے سالانہ اجلاس میں شیخ الہند کے حلقے کے علماء نے مولانا آزاد کو 
امام الہند منتخب کر لیے جانے کا منصوبہ بنا لیا تھا. اجلاس میں بقول بعض مفتی کفایت اللہ نے اور بقول بعض مولانا ابوالمحاسن نے تجویز پیش کی‘ شیخ الہند کی حمایت و تائید پہلے ہی معروف تھی آخر میں مولانا آزاد کھڑے ہوئے اور انہوں نے امارتِ شرعیہ کے قیام اور اس کے وجوب اور مصالح و منافع پر ایک نہایت مدلل و مفصل اور مرصع و مؤثر تقریر کی جس سے صرف شیخ الہند ہی کا حلقہ نہیں بلکہ حاضرین اجلاس کی اکثریت ایسی مسحور ہوئی کہ مولانا آزاد کے ہاتھ پر بیعت کے لیے آمادہ و مستعد ہو گئی‘ یہ لمحہ تھا جب مولانا معین الدین نے خطاب کی اجازت مانگی جو بمشکل ملی اور انہوں نے معشر علماء کو اپنے مختصر لیکن مؤثر خطاب میں اس طرف متوجہ کیا کہ :
’’قیامِ جماعت اور نصب امارت و امامت کے وجوب سے کسی کو انکار نہیں مگر کیا یہ ضروری ہے کہ ہم امام الہند کا انتخاب آج ہی کر گزریں اور مولانا آزاد کے ہاتھ پر بیعت امامت کر لی جائے. یہ مسئلہ جتنا اہم ہے اتنے تدبر اور صبر و سکون سے فیصلے کا متقاضی ہے‘ عجلت اور جذباتی فضا میں فیصلہ کر ڈالنا مناسب نہیں ہے‘ ہم سب کو غور و فکر اور تبادلہ ٔ خیال کا موقع ملنا چاہیے‘ تاکہ کوئی صحیح فیصلہ کیا جا سکے.اس لیے میری رائے یہ ہے کہ چند دن کے لیے یہ فیصلہ ملتوی کر دیا جائے.‘‘ 
(اوکما قال) 

اس تقریر نے اجلاس کا رنگ بد
ل دیا‘ ایک طرف وہ جذباتی فضا چھٹ گئی جو متعدد علماء ‘ خصوصاً مولانا ابوالمحاسن اور مولانا آزاد کی پرجوش خطابت سے طاری ہوئی تھی دوسری طرف مولانا معین الدین کے بے باکانہ انداز بیان نے دوسرے شرکاء کو جرأ ت عطا کی. چنانچہ ان کے بعد مولانا انور شاہ کاشمیری اور مولانا شبیر احمد عثمانی نے التوا کی حمایت میں تقاریر کیں اور اب اجتماع کا رنگ یہ تھا کہ گویا یہی بہت سوں کے دل کی آواز ہے اور التوا ضروری ہے.

چنانچہ بیعت کا پروگرام ملتوی کر دیا گیا.

۱۷/۱۸ ستمبر ۱۹۲۱ء جمعیت کی مجلس منتظمہ کا اجلاس دہلی میں منعقد ہوا اس اجلاس کے ایجنڈے میں ضبطی فتویٰ کے علاوہ مسئلہ انتخاب امام ہند تھا. ان علماء دہلی نے جو مولانا آزادکو امام الہند ماننے کے لیے تیار نہیں تھے مولانا معین الدین کو اس اجلاس میں شرکت کا پابند کیا‘ یہ اجلاس ہوا لیکن اس میں بھی کچھ نہ ہو سکا. پھر نومبر۱۹۲۱ء میں تیسرا سالانہ اجلاس ہوا‘ صدارت مولانا آزاد نے فرمائی‘ لیکن اس اجلاس میں بھی صرف یہ ہوا کہ امیر شریعت (امام ہند) کے اختیارات و فرائض کے تعین کے لیے پندرہ علماء پر مشتمل ایک کمیٹی بنا دی گئی تاکہ وہ بدایوں میں ہونے والے اجلاس میں ان اختیارات و فرائض امیر شریعت کا مسودہ پیش کرے.