ہم نے غیر متعلق جزئیات کو نظرانداز کر کے اور مثبت انداز میں مولانا معین الدین کا کردار بیان کیا ہے. یہ معلومات بیش تر زبانی روایات پر مبنی ہیں رُواۃ ہیں مولانا کے برادر زادے مولانا حکیم نصیر الدین ندوی (نظامی دوا خانہ کراچی) ‘مولانا حکیم پیر ہاشم جان سرہندی مرحوم‘ مولانا سید حاتم علی رام پوری‘ مولانا سید منتخب الحق‘ مولانا عبدالشاہد شیروانی مرحوم ‘مولانا سید نجم الحسن خیر آبادی‘ حکیم مولوی پیر سلیم جان سرہندی (ماتلی) .ان حضرات کے علاوہ مولانامعین الدین کا ایک مکتوب (بنام مولانا عبدالباری فرنگی محلی) بھی پیش نظر ہے‘ مگر ماہنامہ میثاق لاہور کا ایک شمارہ جنوری ۱۹۸۴ء کا پیش نظر ہے جس کے مطالعے کے بعد چند توضیحات کی ضرورت محسوس ہوتی ہے. میثاق کے مقالے سے جو سوالات سامنے آئے ہیں ان کے جوابات عرض ہیں.

پہلی بات یہ کہ مولانا کی یہ تقریر کس اجلاس میں ہوئی تھی ؟ یوسف سلیم چشتی مرحوم کا یہ بیان تو بالکل ہی بے اصل ہے کہ ۱۹۲۲ء کے اجلاس میں ہوئی تھی‘ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ مرورِ زمانہ اور بعض اور اسباب سے کئی حضرات کو اجلاس کا سال صحیح یاد نہیں رہا‘ مولانا غلام رسول مہر‘ ملک نصر اللہ خان عزیز کے بیانات میثاق میں نقل ہو چکے ہیں کہ وہ اجلاس جس میں بیعت ہونا تھی مگر مولانا معین الدین وغیرہ کی وجہ سے نہیں ہو سکی. ۱۹۲۱ء میں مولانا مودودی نے بھی میرے نام ایک مکتوب میں لکھا تھا:

’’جہاں تک مجھے یاد ہے یہ اجتماع لاہور میں ہوا تھا نہ کہ دہلی میں … جمعیت علمائِ ہند کے اس اجلاس میں ‘ مَیں شریک تھا‘ مجھے صرف اتنا یاد ہے کہ امام الہند کے انتخاب میں بعض اکابر علماء مانع ہوئے تھے اور یہ انتخاب نہ ہو سکا تھا.‘‘

مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ واقعہ جمعیت کے دوسرے سالانہ اجلاس منعقدہ دہلی نومبر۱۹۲۰ء میں ہوا تھا‘ ہمارے سامنے خود مولانا معین الدین کا ایک مکتوب (ملک مولانا حکیم نصیر الدین ندوی) ہے جو۲ستمبر۱۹۲۱ء کو لکھا گیا ہے. اور اس میں اس واقعہ کا ذکر ہے اور ظاہر ہے کہ جب یہ تقریر ۲ستمبر۱۹۲۱ء سے پہلے ہو چکی تھی تو مجلس منتظمہ کا اجلاس اور سالانہ اجلاس لاہور کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جو بالترتیب ۱۷/۱۸ ستمبر۱۹۲۱ء اور نومبر۱۹۲۱ء کو ہوئے‘مولانا لکھتے ہیں:

’’خالی الذہن علماء ان (مولانا آزاد) کی تقریر سے متأثر ہوئے اور اگر من جانب فقیر 
اس (انتخاب امامت) کے التوا کے متعلق مختصر و جامع تقریر نہ ہوتی تو کچھ عجب نہ تھا کہ حاضرین علماء اسی وقت اس مسئلے کو طے کر دیتے.‘‘

قصہ یہ ہے کہ قیامِ نظم جماعت اور نصب امام کی دعوت تو کئی سال 
(۱سے دی جارہی تھی مگر شیخ الہند کی رہائی اور مراجعت ہند (جون ۱۹۲۰ء) کے بعد اس تحریک میں جان پڑ گئی تھی اور شیخ الہند ‘ مولانا آزاد اور ان کے الہلال سے متأثر اور قدر شناس تھے اور اب ان کی نظر میں مولانا آزاد ہی اس منصب کے اہل تھے. شیخ الہند ہی کے اثر سے مفتی کفایت اور مولانا احمد سعید دہلوی نے تجویز و تائید میں حصہ لیاتھا مگر باقی تمام شرکائِ اجلاس یا خالی الذہن اور لاعلم تھے یا جن کو اس کی سن گن لگ گئی تھی وہ مختلف جہات سے مولانا آزاد کی امامت سے خوش نہیں تھے بعض اختلاف مسلک فقہی کے زیر اثر‘ بعض مولانا آزاد کی بعض غیر ثقہ عادات (مثلاً تمباکوکشی) غیر عالمانہ سج دھج اور رئیسانہ طرزِ معاشرت‘ اور بعض مولانا کی کم عمری کے پیش نظر متذبذب اور متأمل تھے‘ لیکن ہمت وجرأت نہ ہونے کی بنا پر دم بخود تھے اور جب مولانا معین الدین نے ان کے جذبات کو زبان دی اور انتخاب ملتوی کروا دیا تو پھر علماء کے مختلف گروہ بیدار و فعال ہو گئے اور تحریک پس منظر میں چلی گئی. مولانا آزاد اوران کے ہم نوا اور معتقدین کی کوششیں جاری رہیں اس لیے ستمبر ۱۹۲۱ء میں جمعیت کی مجلس منتظمہ کا اجلاس بلایا گیا مگر اب (۱) عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس کے محرک اوّل مولانا آزاد تھے مگر ایک نقطۂ نظر یہ ہے کہ اس کے محرک اوّل مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد بہاری تھے. مولانا سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:

’’مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد بہاری پہلے شخص تھے جنہوں نے اس بھولے ہوئے سبق کو یاد دلایا.‘‘(ص ۹ ہندوستان اور مسئلہ امارت‘ از مولانا عبدالصمد رحمانی‘ ۱۹۶۹ء)

مولانا ابوالحسن علی لکھتے ہیں:
’’اس سلسلے میں قیادت و رہنمائی اور سبقت و اوّلیت کی سعادت اللہ تعالیٰ نے مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد صاحب بہاری کی قسمت میں لکھی تھی … امارت شرعیہ کے قیام کی تحریک اور اس کا علمی و فقہی دستوری خاکہ مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد صاحب رحمہ اللہ علیہ کے دل درد مند اور فکر ارجمند کا نتیجہ ہے‘‘. (ص ۲۲‘ امارت شرعیہ از مولانا محمد ظفر الدین فتاحی ۱۹۷۴ء)

اسی طرح امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ کے ادبیات میں مولانا آزاد کا نام داعی ٔاوّل کی حیثیت سے نہیں لیا گیا‘ لیکن خود مولانا آزاد کے ایک بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا ابوالمحاسن کومولانا آزاد نے ہی متوجہ کیا تھا‘ جب کہ مولانا کے عہد اسارت میں رانچی (بہار) میں ان سے ملے تھے (خطبہ ٔصدارت ‘اجلاس لاہور) نیز وہ ان کی طرف سے اس کام پر مامور بھی تھے. (ص ۶۴‘ تحریک نظم جماعت ڈاکٹرابوسلمان شاہ جہانپوری) 
ناموافق اور خاموش و مذبذب گروہ فعال ہو چکا تھا. اس لیے اس گروہ نے مولانا معین الدین کو تنظیم کے اجلاس میں شرکت کو مؤکد کرنا چاہا.

’’علماء دہلی کا خیال ہے کہ فقیر خصوصیت سے اس جلسے میں شریک ہو.‘‘ (مکتوب)

مسیح الملک اجمل خاں کے متعلق ان کے فرزند حکیم جمیل خان نے سیرت اجمل میں لکھا ہے کہ وہ: ’’اس تجویز سے سخت مخالفت رکھتے تھے اور اسے خطرناک سمجھتے تھے.‘‘ 

(سیرت اجمل‘ ص ۱۶۵‘ ۱۹۴۶ء) 
بہرحال مجلس منتظمہ نے اس مسئلے کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟ اس کا اندازہ آپ کو مولانا آزاد کے ان الفاظ سے ہو سکتاہے:

’’گزشتہ موسم گرما میں اس طرف سے مایوسی ہو گئی کہ تمام ملک کے لیے کوئی متفقہ و متحدہ نظم قائم ہو.‘‘ (خطبہ صدارت)

اس کے فوراً بعد یہ طے کر لیا گیا کہ پہلے صوبوں میں امارتیں قائم کی جائیں. کل ہند امارت کی جلد کوئی توقع نہیں رہی. چنانچہ بہار و اڑیسہ میں تو امارتِ شرعیہ قائم بھی کر دی گئی‘ جو پہلی بھی تھی اور افسوس کہ آخری بھی‘ ضروری اور زیادہ اہم بات یہ کہی گئی ہے کہ مولانا معین الدین نے اپنی تقریر میں مولانا آزاد کو ناموزوں قرار دیتے ہوئے انہیں مخاطب کر کے فرمایا تھا:

’’ایاز قدر خود بشناس! کہاں تم اور کہاں یہ رفیع و عالی منصب‘ تم ایسے نوعمر کو تو اکابر علماء کی موجودگی میں زبان کھولنا بھی مناسب نہیں ہے‘ رہا تمہارا علم و فضل تو اس کا بھانڈا ابھی پھوٹا جاتا ہے‘ ذرا منطق کی فلاں کتاب کی عبارت تو پڑھ کر سنا دو.‘‘ (میثاق)

اور راوی ہیں پروفیسر یوسف سلیم چشتی‘ تو جس طرح چشتی صاحب کے کبرسن کے حافظے نے ۱۹۲۰ء کو ۱۹۲۲ ء بنا دیا تھا اسی طرح یہ تقریر بھی بے اصل و بے اساس ہے.

اوّلاً ‘اس لیے کہ ہم مولانا معین الدین کے اہل حلقہ نے اس واقعے کے سلسلے میں یہی نہیں بلکہ ا س سے ملتی جلتی بات بھی نہیں سنی‘ تاآنکہ مولانا کے متعدد اصحاب سے یہ واقعہ سنا ہے اور انہوں نے خود مولانا سے سنا تھا بلکہ شاید مولانا کے برادر خورد مولانا غازی محی الدین تو اس اجلاس میں شریک بھی تھے.

ثانیاً ‘مولانا معین الدین کا یہ انداز گفتگو ہی نہیں تھا نہ ان جیسے عالی ظرف اور شائستہ 
بزرگ کے شایانِ شان یہ زبان ہے.

ثالثاً‘مولانا معین الدین اور مولانا آزاد کے روابط ہمیشہ مخلصانہ رہے اور دونوں ایک دوسرے کے قدر شناس اور مدح سرا رہے‘ محترم حکیم نصیر الدین ندوی صاحب ان دونوں حضرات کی بہت سی ملاقاتوں‘ طویل طویل نشستوں‘ علمی مذاکرات اور محافل خورد و نوش کے شاہد ہیں.

رابعاً‘مولانا معین الدین خود اس وقت ۳۹ سال کے تھے اس لیے مولانا آزاد پر نوعمری کا طعن تو ان پر سجتا بھی نہیں‘ جو۳۳ سال کے تھے.

خامساً‘منطق کی کسی کتاب کی عبارت تو عبارت خوانی کے امتحان کے لیے موزوں بھی نہیں ہوتی‘ منطق و حکمت کی کتابوں کی عبارات کا مفہوم تو بے شک عسیر الفہم اور عام علماء ہی نہیں خواص کی دسترس سے بھی بلند ہوتا ہے مگر عبارات میں ذخیرہ الفاظ محدود اور زیادہ تر اصطلاحات پر مشتمل ہوتی ہیں. ہاں ادب و تاریخ کی کتابوں میں بے شک ذخیرہ الفاظ و افر و لامحدود ہوتا ہے‘ عبارت آرائی ہوتی ہے‘ زور کلام ہوتا ہے ‘ غرائب اللغات ہوتے ہیں‘ اس لیے عبارت خوانی کے امتحان میں وہ کارآمد اور صلاحیت آزما ہوتی ہیں.

سادساً ‘ خود مولانا آزاد نے اپنے لیے دعوت کب دی تھی ‘ جو ان کی عمر اور ان کے علم کو معرض نقد و افکار میں لایا جاتا.

سابعاً‘ التواءِ انتخاب و بیعت کے لیے یہ نکتہ کیا کم مؤثر تھا کہ اتنا اہم فیصلہ اس عجلت میں مناسب نہیں امتحان لینے کی کیا ضرورت ہے؟

واقعہ یہ ہے کہ غور و فکر کی مہلت طلبی کا کوئی جواب نہیں ہوسکتا تھا چنانچہ مولانا آزاد کے حامیوں کو بھی اس کی معقولیت تسلیم کرنی پڑی اورمذبذبین و منکرین کو بھی حیلہ ہاتھ آ گیا اور انتخاب معرض التوا میں جاپڑا.