محترم و مکرم جناب 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 

مزاج گرامی!

جناب کے علم میں ہے کہ راقم الحروف اللہ کی کتابِ حکیم کا ایک ادنیٰ طالب علم اور اس کے دین متین کا ایک حقیر خادم ہے. اُس نے ایک انجمن ’’مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور‘‘ کے نام سے۱۹۷۲ء میں قائم کی تھی جس کا وہ تاحیات صدر ہے. اور ایک دینی جماعت ’’تنظیم اسلامی‘‘ کے نام سے ۱۹۷۵ء میں قائم کی تھی جس کا وہ امیر ہے!

انجمن کے جملہ وابستگان اور تنظیم کے تمام شرکائ‘ ظاہر ہے کہ ‘ راقم ہی کے دروسِ قرآن ‘ اورتحریروں اور تقریروں سے متأثرہو کر راقم کے معاون و مددگار بنے ہیں لیکن ’الحمدللہ‘کہ میرا مزاج ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ اپنے رفقاء و معاونین کو صرف اپنے ہی مہم و فکر کے حصار میں محصور نہ رکھوں‘ بلکہ وسیع تر حلقے سے ذہنی و فکری استفادے کی تلقین بھی کروں اور اس کے مواقع بھی پیدا کروں چنانچہ انجمن کے زیر اہتمام جو سالانہ ’’قرآن کانفرنسوں‘‘ اور ’’محاضراتِ قرآنی‘‘ کے انعقاد کا سلسلہ جاری رہا ہے اور اُن میں جملہ مکاتب فکر کے علماء کرام اور اصحابِ علم و فضل حصہ لیتے رہے ہیں تو اس سے دوسرے مقاصد کے ساتھ ساتھ یہ مقصد بھی پیش نظر رہا ہے کہ وابستگانِ انجمن اور رفقاءِ تنظیم کا ذہنی افق وسیع ہو اور وہ جس راہ پر چلیں‘ علیٰ وجہ البصیرت‘ چلیں!

اس سال ’’محاضراتِ قرآنی‘‘ کے ضمن میں راقم نے طے کیا ہے کہ اصحابِ علم و فضل کو اپنے دینی فکر‘ بالخصوص ’’تصورِ فرائض دینی‘‘ پر تنقید کی دعوت دے تاکہ اگر انہیں اس میں کوئی غلطی نظر آئے تو اُس کی نشاندہی فرمائیں‘بصورت دیگر تائید و تصویب سے نوازیں ‘ اس مقصد کے لیے راقم نے اپنی دینی سوچ‘ خصوصاً اپنے تصور فرائض دینی کا ایک ’’خلاصہ‘‘ مرتب کیا ہے جو جناب کی خدمت میں اس عریضے کے ساتھ ارسال ہے! جیسے کہ جناب منسلکہ اوراق میں ملاحظہ فرما لیں گے کہ راقم کا تصور فرائض دینی چھ عنوانات کے ذیل میں مندرج ہے. تین اساسی فرائض‘ اور تین ان کے لوازم‘ ادھر محاضرات بھی ان شاء اللہ چھ یوم جاری رہیں گے . بنا بریں مناسب تقسیم یہ رہے گی کہ روزانہ ایک ایک عنوان زیر بحث آئے‘ چنانچہ اگر جناب ان میں سے کسی ایک عنوان پر اظہار خیال فرمانا چاہیں تو اگر دنوں کی ترتیب کے لحاظ سے پروگرام بنا لیں تو انسب ہو گا‘ اگر بحیثیت مجموعی پورے تصور فرائض پر گفتگو کرنی مقصود ہو تو وہ کسی بھی دن کی جا سکے گی. بہرحال اس ضمن میں کوئی چیز بھی’’شرط‘‘ کے درجے میں نہیں ہے!

اسی طرح ’’ان شاء اللہ العزیز‘‘ سوائے ایک وقت کی پابندی کے اور کوئی پابندی کسی مقررپر نہیں ہو گی اور آزادانہ اظہارِ خیال کا پورا موقع ہو گا اس ضمن میں اس بات کی وضاحت بھی مناسب ہے کہ ان اجتماعات میں راقم خود بھی سراپا گوش رہے گا اور امکانی حد تک ’’استفادے‘‘ کی کوشش کرے گا اور صورت ہرگز کسی بحث مباحثے کی نہیں بنے گی.
آخر میں جناب سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ اپنی گوناگوں مصروفیات اور تمام تر مشاغل کے باوجوداس کام کے لیے ضرور وقت نکالیں. اس لیے کہ کسی دینی خدمت و تحریک کی بروقت رہنمائی‘ خصوصاً جبکہ اُس کا محرک و داعی خود اس کے لیے مستدعی ہو ایک اہم دینی فریضہ ہے! بصورت دیگر میں اپنے آپ کو یہ کہنے میں حق بجانب سمجھتا ہوں کہ میری جانب سے اللہ تعالیٰ کے حضور میں آپ پر ایک حجت قائم ہو جائے گی کہ میں نے تو رہنمائی چاہی تھی ‘جناب ہی نے توجہ نہ فرمائی. فقط والسلام مع الاکرام.

رہنمائی کا طالب
خاکسار اسرار احمد عفی عنہ
لاہور . ۱۲؍فروری۸۵ء 
(نوٹ: یہ عریضہ کم و بیش یک صد علماء کرام کی خدمت میں ارسال کیا گیا)