سالانہ محاضراتِ قرآنی کی روداد اورشرکاء کے موقف کا جائزہ

از قلم: ڈاکٹر اسرار احمد 
(شائع شدہ ’’حکمت قرآن‘‘ مئی ۱۹۸۵ء)
مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کے زیر اہتمام جو سالانہ ’’محاضراتِ قرآنی‘‘ اس سال ۲۳ تا ۲۸ مارچ ۱۹۸۵ء ‘ قرآن اکیڈمی‘ ماڈل ٹاؤن‘ لاہور میں منعقد ہوئے ان کے لیے جن علماء کرام کو بلاواسطہ یعنی انجمن کے دفتر سے براہِ راست‘ یا بالواسطہ یعنی بعض مقامات کے رفقاء و احباب کی معرفت دعوت نامے ارسال کیے گئے تھے ان کی کل تعداد لگ بھگ ایک صد تھی.

ان میں سے جن حضرات نے بالفعل شرکت فرمائی ان کی تعداد ۲۱ ہے. جن میںایک تقسیم تو اس اعتبار سے ہے کہ دس حضرات کا تعلق لاہور سے ہے‘ آٹھ کا بیرونِ لاہور لیکن اندرونِ پاکستان سے اور تین کا ہندوستان سے اور ایک دوسری تقسیم اس اعتبار سے ہے کہ ان میں سے دو تہائی یعنی پندرہ حضرات بلاشک و شبہ ملک گیر شہرت کے حامل اور مختلف مکاتب فکر کے علماء و زعماء کی صف اول سے متعلق ہیں اور ایک تہائی تعداد نسبتاً نوجوان علماء پر مشتمل ہے ان حضرات کے اسماءِ گرامی حسب ذیل ہیں: 

لاہور سے 

(۱) مولانا محمد مالک کاندھلوی (۲) مفتی محمد حسین نعیمی
(۳) حافظ عبدالقادر روپڑی (۴) سید محمد متین ہاشمی 
۵) پروفیسر حافظ احمد یار (۶) ڈاکٹر بشیر احمد صدیقی
(۷) حافظ عبدالرحمن مدنی (۸) قاری سعید الرحمن علوی
(۹) ڈاکٹر خالد علوی (۱۰) حافظ نذر احمد 

بیرون لاہور سے 

(۱) مفتی سیاح الدین کاکا خیل (اسلام آباد) (۲) سید مظفر حسین ندوی (مظفر آباد)
(۳) سید عنایت اللہ شاہ بخاری (گجرات) (۴) مولانا عبدالغفار حسن (فیصل آباد)
(۵) مولانا عبدالوکیل خطیب (کراچی) (۶) مولانا محمد اسحاق روپڑی (کراچی)
(۷) مولانا الطاف الرحمن (بنوں) (۸) مولانا شبیر احمد نورانی (کراچی) 

ہندوستان سے 

(۱) مولانا وحید الدین خان (دہلی) (۲) قاری محمد عبدالعلیم (حیدر آباد)
(۳) میر قطب الدین علی چشتی (حیدر آباد)

راقم الحروف کے پاس الفاظ نہیں ہیں جن کے ذریعے ان حضرات کا شکریہ ادا کیا جا سکے کہ انہوں نے اپنی شدید مصروفیات اور وقیع مشاغل میں سے وقت نکالا اور راقم کی درخواست کو قبول کرتے ہوئے شرکت فرمانے کی زحمت گوارا کی. بالخصوص وہ حضرات جنہوں نے سفر کی صعوبت برداشت کی ‘ راقم اور اس کے جملہ رفقاء کے خصوصی شکریے کے مستحق ہیں. اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے. (آمین)

اس فہرست میں تین نوجوان علماء کا اضافہ تو اس پہلو سے ہے کہ ان میں سے ایک صاحب یعنی مولانا عبدالرؤف (خطیب آسٹریلیا مسجد‘ لاہور) جو باضابطہ مدعو تھے‘ ایک دن تشریف لائے تو وقت کی کمی کے باعث راقم نے ان سے معذرت کر لی اور اگلے دن کا وعدہ لے لیا لیکن دوسرے روز وہ تشریف نہ لا سکے ایک صاحب یعنی کوٹ رادھا کشن کے مولانا عبدالحکیم سیف صاحب‘ جنہوں نے از خود حصہ لینے کی خواہش کی اور مقالہ پیش کیا. اور ایک صاحب ‘یعنی اکبر الدین قاسمی جو اپنے ذاتی جذبے اور شوق کے تحت حیدر آباد دکن سے تشریف لائے‘ لیکن چونکہ آخری وقت پہنچ پائے لہٰذا عملاً حصہ نہ لے سکے راقم ان تینوں حضرات کا بھی تہ دل سے ممنون ہے اور ایک بزرگ شخصیت یعنی مولانا سعید احمد اکبر 
آبادی کا اس اعتبار سے کہ اگرچہ وہ شرکت کی شدید خواہش کے باوجود اپنی شدید علالت اور معالجین کی قطعی ممانعت کے باعث تشریف تو نہ لا سکے لیکن ان کا ایک پینتیس منٹ کا ٹیپ شدہ خصوصی پیغام اور انٹرویو پہلے اجلاس میں سنوایا گیا گویا سلسلۂ محاضرات کا ’’افتتاح‘‘ اسی سے ہوا اس طرح مولانا موصوف کی بھی ’’بالفعل‘‘ نہیں تو ’’بالقوہ‘‘ شرکت ان محاضرات میں ہوگئی. اس حساب سے ان محاضرات کے ’’شرکاء‘‘ کی کل تعداد ۲۵ بنتی ہے.

عجیب حسن اتفاق ہے کہ ٹھیک یہی تعداد ان حضرات کی ہے جنہوں نے مصروفیت یا کسی دوسرے عذر کی بنا پر شرکت سے معذرت کی‘ یا مزید برآں اجمالی تائید و تصویب سے بھی نوازا‘ یابھرپور تائید و تحسین فرمائی یا اجمالی اختلافات کا اظہار فرمایا یا بعض نکات پر تفصیلی اختلافی تحریریں ارسال فرمائیں یا شدید اظہارِ بیزاری و اعلانِ براء ت فرمایا!عجیب تر اتفاق یہ ہے کہ ان میں سے بھی بائیس حضرات تو وہ ہیں جنہیں ہماری جانب سے دعوت نامہ ارسال ہوا تھا اور تین وہ ہیں جنہوں نے از خود ’’کرم‘‘ فرمایا اور اپنے جذبۂ نصح و اخلاص کے تحت ہماری ’’رہنمائی‘‘ کی خدمت سرانجام دی راقم الحروف ان تمام حضرات کا بھی بلااستثناء تہہ دل سے ممنون ہے اور اپنی اور اپنے جملہ رفقاء کی جانب سے ان کی خدمت میں ہدیۂ تشکر و امتنان پیش کرتا ہے عمومی دلچسپی کے لیے ان حضرات کے اسماء گرامی کی فہرست بھی ذیل میں درج کی جا رہی ہے :

(۱) مولانا سید ابوالحسن علی ندوی (لکھنؤ) (۲) مولانا محمد منظور نعمانی (لکھنؤ)
(۳) مولانا اخلاق حسین قاسمی (دہلی) (۴) مولانا عبدالکریم پاریکھ (ناگپور)
(۵) مولانا سید شمس پیرزادہ (بمبئی) (۶) مولانا نور الحق ندوی وازہری (پشاور)
(۷)حضرت مولانا خان محمد (کندیاں شریف) (۸) مولانا گوہر رحمان صاحب (مردان)
(۹) مولانا محی الدین لکھوی(دیپالپور) (۱۰) مولانا محمد اسحق صدیقی (کراچی)
(۱۱) مولانا سمیع الحق (اکوڑہ خٹک) (۱۲) مولانا عبدالحق حقانی (اکوڑہ خٹک)
(۱۳) مولانا قاضی شمس الدین (گوجرانوالہ) (۱۴) مولانا محمد طاسین (کراچی)
(۱۵) مولانا بدیع الدین شاہ (پیر جھنڈا‘ سندھ) (۱۶) مولانا محمد یوسف لدھیانوی (کراچی)
(۱۷) مولانا محمد ازہر (ملتان) (۱۸) مولانا محمد عبداللہ (اسلام آباد)
(۱۹) سید اسعد گیلانی (لاہور) (۲۰) مولانا نعیم صدیقی (لاہور)
(۲۱) حافظ احسان الٰہی ظہیر (لاہور) (۲۲) پروفیسر طاہر القادری (لاہور) 
(اوراز خود ’’کرم ‘‘فرمانے والے ) (۲۳) جناب جاوید احمد(لاہور)
(۲۴) جناب عبدالمجیب (کراچی) اور (۲۵) جناب محمد عبداللہ (لاہور)
راقم الحروف ایک بار پھر ان تمام حضرات کی خدمت میں ہدیۂ تشکر پیش کرتا ہے اور اُمید رکھتا ہے کہ آئندہ بھی یہ حضرات اسی طرح تعاون فرماتے رہیں گے‘ بقول غالبؔ ؎

ہاں بھلا کر ترا بھلا ہو گا اور درویش کی صدا کیا ہے!

اس سال کے ’’محاضرات‘‘ متعدد اعتبارات سے منفرد شان کے حامل تھے :

اوّلاً اس اعتبار سے کہ مسلسل چھ دن روزانہ ساڑھے تین چار گھنٹے ایک ہی موضوع پر اوسطاً روزانہ چار حضرات نے اظہارِ خیال فرمایا‘ لیکن آخر وقت تک نہ مقررین کے جوش و خروش میں کوئی کمی آئی نہ سامعین کے ذوق و شوق اور دلچسپی ہی میں کسی کمی کا احساس ہوا.

ثانیاًًحاضرین و سامعین کی تعداد بھی گزشتہ سالوں کے مقابلے میں بہت زیادہ رہی. حالانکہ قرآن اکیڈمی شہر سے بہت دور اور ٹریفک کے ذرائع کے اعتبار سے بہت الگ تھلگ جگہ پر واقع ہے اور رات کے نو دس بجے کے بعد وہاں سے واپسی کے لیے کسی چیز کا دستیاب ہونا بہت دشوار ہے. تاہم اس کا ایک ظاہری سبب یہ تھا کہ چونکہ اسی موقع پر اور اُسی جگہ ’’تنظیم اسلامی پاکستان‘‘ کا سالانہ اجتماع بھی ہو رہاتھا اور ساڑھے تین صد کے قریب لوگ تو وہاں مستقل مقیم ہی تھے‘ لہٰذا شہر سے روزانہ دو ڈھائی صد حضرات کی شرکت سے بھی بھرپور جلسے کا سماں بندھ جاتا تھا.

ثالثاًًاور اہم ترین یہ کہ ان محاضرات کے ’’موضوعِ بحث‘‘کے طور پر قرآن حکیم کے ایک طالب علم اور اللہ کے دین متین کے ایک خادم نے‘ جو دینی و ملی خدمات کے میدان میں ایسا نووارد بھی نہیں بلکہ لگ بھگ چالیس برس سے سرگرمِ عمل ہے اور تقریباً بیس سال سے تو اپنی انفرادی سوچ اور آزادانہ نقطۂ نظر کے ساتھ بحمد اللہ پوری تندہی کے ساتھ دینی خدمت میں مشغول ہے‘ اپنے دینی فکر کا ’’لبّ لباب‘‘اپنے مطالعے کا نچوڑ اور بالخصوص اپنے ’’تصورِ فرائض دینی کا خلاصہ‘‘ متعین الفاظ میں مرتب کر کے پیش کیا تھا. اور اس پر ’’موافقین‘‘ اور ’’مخالفین‘‘ سب کو آزادانہ اظہار خیال کی کھلی دعوت دی تھی . راقم نے جب اس کا فیصلہ کیا تھا تو اس کے حاشیہ خیال میں بھی یہ بات نہ تھی کہ وہ کوئی بہت انوکھا اور نادر کام کرنے چلا ہے . لیکن جب محاضرات کے دوران بلا استثنائے واحد جملہ مقررین و مقالہ نگار حضرات‘ بالخصوص’’ ناقدین‘ ‘ و’’مخالفین‘‘نے برملا اعتراف کیا کہ ’’ایسا کم از کم معلوم تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے!‘‘ اور ’’اس 
وسعت قلب کی کوئی دوسری مثال نظر نہیں آتی!‘‘ اور ’’عام طور پر تو لوگ اختلاف کرنے والوں کو اپنے پلیٹ فارم کے قریب تک بھی پھٹکنے نہیں دیتے!‘‘ اور ’’یہ ایک نہایت اعلیٰ مثال ہے!‘‘ اور ’’اُمید ہے کہ اس سے بہت اچھی اور مبارک و مستحسن روایت قائم ہو گی اور مفید نتائج برآمد ہوں گے‘‘. وغیرہ وغیرہ تو راقم کے قلب کی گہرائیوں سے شکر خداوندی کا جذبہ بالکل (امام راغب کی بیان کردہ مثال کے مطابق) ’’عینٌ شکرٰی‘‘ کی سی کیفیت کے ساتھ ابھرا. اور راقم نے اپنے اس اقدام کی برکات کو جو خالصتاًاللہ تعالیٰ کی رہنمائی اور توفیق ہی کی بنا پر ممکن ہوا تھا چشم باطن ہی نہیں سر کی آنکھوں سے بھی دیکھا. فَلِلّٰہِ الحمد والمنۃ!!! 

رابعاًًًیہ کہ محاضرات کے پورے سلسلے کے دوران نہایت خوشگوار فضا قائم رہی اور خالص افہام و تفہیم کا ماحول برقرار رہا. چھ دن میں کوئی ایک چھوٹی سے چھوٹی مثال بھی تلخی یا ناخوشگواری کی پیش نہیں آئی. حالانکہ سامعین کی غالب اکثریت ان لوگوں پر مشتمل تھی جو راقم کے دروس و خطابات اور تحریر و تقریر سے متأثر ہو کر اس کے رفیق و شریک کار اور اعوان و انصار بنے ہیں اور دُور ہی دُور سے کسی کا متفق یا مداح ہونا دوسری بات ہے‘ کسی دینی کام میں عملی شرکت اس کے بغیر نہیں ہوتی کہ اس کے داعی و قائد کے ساتھ صرف اتفاقِ رائے اور ہم خیالی ہی نہیں کسی نہ کسی درجہ میں محبت و عقیدت کا تعلق قائم نہ ہو جائے ادھر ان محاضرات کے دوران راقم کے دینی فکر پر شدید تنقیدیں ہی نہیں ہوئیں اس کے بارے میں استہزائیہ انداز بھی اختیار کیا گیا لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل و احسان ہے کہ راقم اور اس کے ساتھیوں نے یہ سب کچھ نہایت خندہ پیشانی اور صبر و تحمل کے ساتھ سنا اور ایک لمحے کے لیے بھی تلخی و ناگواری تو دور کی بات ہے ماحول پر تکدر بھی طاری نہ ہونے دیا بلکہ اس کے برعکس بحمد اللہ وبفضلہ ایک شگفتگی کی سی کیفیت مسلسل طاری رہی! 
ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَائُ وَاللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ! 

یہ ناقابل یقین کیفیت ایسے ہی پیدا نہیں ہو گئی بلکہ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے راقم الحروف کو بروقت کچھ فیصلے کرنے کی توفیق عطافرمائی جو یہ ہیں:

ایک یہ کہ راقم نے محاضرات کے آغاز سے ہفتہ عشرہ قبل ہی’’ بالکل‘‘ اس طرح جیسے نماز یا روزہ سے قبل نیت ’’باندھی‘‘ جاتی ہے اپنی اس نیت کو شعوری طور پر پختہ کیا کہ میں ان محاضرات کے دوران علمائِ کرام کے ارشادات کو اپنے فکر کے جملہ صغریٰ کبریٰ اور تمام تانے بانے کو امکانی حد تک ذہن سے نکال کر مقدور بھر کھلے کانوں سے سنوں گا اور کھلے دل و دماغ 
کے ساتھ ان پر غور کروں گا اور اگر مجھے کہیں کوئی ’’روشنی‘‘ ملی اور دل نے گواہی دی کہ میں نے کسی معاملے میں افراط و تفریط سے کام لیا ہے تو اس کا کھلا اعتراف کرتے ہوئے اپنی پوری سوچ کو از سر نو استوار کرنے سے دریغ نہ کروں گا . پھر میں نے یہ ’’نیت‘‘ صرف ’’سرًّا‘‘ ہی نہیں ’’جہرًا‘‘ اور ’’علانیۃً‘‘ علیٰ رئوس الاشہاد بھی کی چنانچہ اپنے خطابِ جمعہ میں مسجد دارالسلام ‘ باغ جناح‘ لاہور کے بھرے مجمع میں اس کا اعلان کیا جدید سائیکالوجی کے ماہرین خواہ اسے ’’خود تلقینی‘‘ (auto suggestion) سے تعبیر کریں‘ لیکن میں نے اس طرزِ عمل کو بہت مفید پایا ہے اور میرے نزدیک یہی حکمت نماز کے لیے نیت ’’باندھنے‘‘ یا روزہ کے لیے نیت کے مسنون الفاظ زبان سے ادا کرنے کی ہے!

بہرحال اپنے اسی شعوری فیصلے کے منطقی نتیجے کے طور پر راقم نے بعض ایسے تنظیمی امورسے متعلق فیصلوں کو بھی ملتوی کر دیا جن کا اعلان اسی سالانہ اجتماع کے موقع پر ہونے والا تھا.اور اپنے ساتھیوں سے صاف عرض کر دیا کہ ان معاملات پر اب ان محاضرات کے بعد از سر نو غورہو گا! اپنے اسی فیصلے پر باحسن وجوہ عمل کرنے کے لیے راقم نے اپنے لیے طے کر لیا تھا کہ اس کی حیثیت ان محاضرات میں محض ’’سامع‘‘ کی ہو گی. اگر کسی موقع پر ناگزیر ہی ہو گیا تو صرف خالص استفہامی انداز میں سوال کرلوں گا.اپنے اس فیصلے کی اہمیت کا احساس بھی راقم الحروف کو اس وقت ہوا جب مولانا وحید الدین خاں صاحب نے دہلی سے آمد کے فوراً بعد فرمایا کہ اس قسم کے موضوعات پر بحث کھلے مجمعوں میں ہونی درست نہیں ہے اور اس پر راقم نے عرض کیا کہ اس میں میری حیثیت صرف ’’سامع‘‘ کی ہو گی. اگر شدید ضرورت محسوس کی تو بھی میں صرف سوال کروں گا جوابی تقریر ہرگز نہیں کروں گا تو وہ فوراً مطمئن ہو گئے (عجیب حسن اتفاق یا سوئِ اتفاق ہے کہ پورے محاضرات کے دوران راقم نے صرف ایک سوال کیا اور وہ مولانا وحید الدین خاں صاحب ہی سے تھا‘ اور اس پر جب انہوں نے صاف اعتراف کر لیا کہ اس سوال کا میرے پاس کوئی جواب نہیں ہے!! اگرچہ اس سے ان کی تقریر کا تأثر مجروح ہو گیا لیکن میرے دل میں ان کی محبت و عظمت پہلے سے دوچند ہو گئی!!
دوسرے یہ کہ راقم نے محاضرات کے آغاز سے ایک دن قبل رفقائے تنظیم اسلامی کے اجتماع میں اسی کی تلقین اپنے رفقاء کو کی‘ بلکہ صحیح تر الفاظ میں اس کا حکم دیا کہ (i)جملہ علماء کرام خواہ وہ ہمارے موافق ہوں یا ناقد ہمارے محسن ہیں‘ ان کی تشریف آوری ایک عظیم تعاون ہے‘ لہٰذا ان کا ادب پورے طور پر ملحوظ رہے. (ii)ان کی تقاریر کو کھلے کانوں 
اور کھلے دلوں کے ساتھ سنیں اور کھلے ذہن کے ساتھ ان پر غور کریں.اگرچہ جذباتی طور پر متأثر ہونا درست نہ ہو گا‘ بلکہ ہمیں ان کے دلائل کو اپنے دینی فکر کے صغریٰ کبریٰ کے ساتھ تقابل کر کے پورے شعو ر و ادراک کے ساتھ رد یا قبول کرنا ہے لِیَھْلِکَ مَنْ ھَلَکَ عَنْ بَـیِّنَۃٍ وَّیَحْیٰی مَنْ حَیَّ عَنْ بَـیِّنَۃٍ (iii)محاضرات کے دوران نظم پوری طرح برقرار رہے اور کسی ناگواری کیا بے چینی تک کا اظہار نہ ہو‘ اختلافی باتیں پورے صبر و تحمل سے سنیں اور سوالات بھی صرف بغرض استفہام ہوں. ان میں نہ ’’جارحیت‘‘ ہو نہ ’’جرح‘‘ کا انداز!!

راقم اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے کہ اس نے اسے اور اس کے رفقاء کو ان فیصلوں پر الفاظِ ظاہری اور روح باطنی دونوں کے اعتبار سے بتمام و کمال عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائی . ؎

’’ایں سعادت بزورِ بازو نیست! تا نہ بخشد خدائے بخشندہ!‘‘

بدقسمتی سے اس تصور کا دوسرا رخ اتنا شاندار نہیں ہے. راقم الحروف ؏ ’’خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے!‘‘کے مصداق علماء کرام بالخصوص اکابر علماء سے معذرت کے ساتھ عرض کرنے کی اجازت چاہتا ہے کہ ان کا ادب و احترام اپنی جگہ‘ محاضرات میں شرکت کی صورت میں ان کے تعاون و احسان کا بارِ گراں برحق‘ لیکن ان کی اکثریت نے موضوعِ بحث کاحق ادا نہیں کیا. اور اکثر و بیشتر نے صرف متفق علیہ امور پر وعظ و نصیحت پر اکتفا کی. اگرچہ یہ بات اپنی جگہ ان کے عظمت و کردار کی مظہر ہے کہ بعض حضرات نے بلاعذر اعتراف کیا اور بعض نے متعین عذرات کی بنا پر وضاحت فرمائی کہ وہ اصل موضوع پر بحث کی تیاری کا حق ادانہ کرسکے اور ان شاء اللہ آئندہ کسی موقع پر مزید تفصیل اور وضاحت کے ساتھ بات کریں گے چنانچہ بعض حضرات نے اس قسم کے مباحث و مذاکرات کے لیے ایک مستقل فورم یا پلیٹ فارم کے قیام کی تجویز پیش فرمائی راقم کے لیے یہ بات نہایت خوش آئندہے. اس لیے کہ اس کا ذہن اور مزاج ابتدا ہی سے یہی ہے‘ اور اگرچہ اپنے کام میں شدید مشغولیت و انہماک کے باعث وہ علماء کرام سے ذاتی سطح پر زیادہ ربط ضبط قائم نہ رکھ سکا لیکن اس نے ’’قرآن کانفرنسوں‘‘ اور ’’محاضراتِ قرآنی‘‘ کے ذریعے دراصل اسی نوع کے مشترک پلیٹ فارم کے قیام کی سعی کی ہے. پھر تنظیم اسلامی میں ’’حلقہ ٔ مستشارین‘‘ کا قیام بھی اس کے اسی اندازِ فکر اور افتادِ طبع کی عکاسی کرتا ہے. اور جب اور جہاں ممکن ہوتا ہے وہ علماء
کرام کی خدمت میں طالب علمانہ حاضری کو اپنی سعادت سمجھتا ہے ! وَاللّٰہُ عَلٰی مَا اَقُوْلُ وَکِیْلٌ !! بہرحال اس سال کے محاضراتِ قرآنی ان شاء اللہ العزیز اس سلسلے میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوں گے اور خاص اس موضوع پر مزید مجالس مذاکرہ کا انعقاد انجمن خدام القرآن اور تنظیم اسلامی کے زیر اہتمام وقتاً فوقتاً کیا جاتا رہے گا. بید اللّٰہ التوفیق والتیسیر. 

آئندہ مزید غور و فکر کے دروازے کو کھلا رکھتے ہوئے‘ ان محاضرات کی حد تک راقم الحروف کو اپنے عجز بیان‘ بالخصوص اندازِ تحریر کی خامی سے پیدا شدہ چند غلط فہمیوں پر تنبہ کے سوا اپنے اساسی موقف کی کسی غلطی یا اپنے فکر کے صغریٰ کبریٰ کی کسی خامی یا اُن سے حاصل شدہ نتائج کے ضمن میں کسی افراط یا تفریط کا سراغ نہیں ملا بلکہ اس کے برعکس راقم کو ان امور کے ضمن میں متعدد علماء کرام کی جانب سے نہایت زوردار تصویب و تائید حاصل ہوئی ہے اور بحمداللہ ان محاضرات کے نتیجے میں راقم اپنے موقف پر پہلے سے زیادہ جازم و عازم ہے! تاہم جیسا کہ عرض کیاجا چکا ہے. مزید گفت و شنید اور بحث و تمحیص کا سلسلہ پوری ذہنی و قلبی آمادگی کے ساتھ جاری رہے گا.

راقم کو اپنے عجز بیان اور اظہار مافی الضمیر کی کوتاہی کا یوں تو مستقلاً ہی اقرارو اعتراف ہے‘ تاہم ان محاضرات کی موضوعِ بحث تحریر کا معاملہ یہ ہے کہ یہ بہت رواداری میں لکھی گئی تھی‘ لہٰذا اس میں بعض فاش غلطیاں ایسی ہو گئیں جنہوں نے شدید مغالطوں کو جنم دیا‘ چنانچہ ان میں سے بعض کا راقم نے جمعہ ۲۲ مارچ کو مسجد دارالسلام میں خطابِ جمعہ میں اعتراف و اعلان بھی کر دیا تھا. تاہم چونکہ مقررین حضرات تو وہاں موجود نہ تھے. لہٰذا مجھے ان سے کوئی گلہ نہیں کہ اکثر ناقدین نے ان ہی کو اپنے اظہارِ خیال کا موضوع بنایا بہرحال راقم ان کے شکریے کے ساتھ ان امور کے ضمن میں اپنے اصل موقف کو درج ذیل کر رہا ہے:

(۱) ان میں سب سے پہلی ’’غلطی‘‘ یہ ہوئی کہ راقم نے علماء کرام کے نام اپنے خط کے آخر میں یہ الفاظ استعمال کر دیے کہ:

’’آخر میں جناب سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ اپنی گوناگوں مصروفیات اور تمام تر مشاغل کے باوجوداس کام کے لیے ضرورت وقت نکالیں. اس لیے کہ کسی دینی خدمت و تحریک کی بروقت رہنمائی‘ خصوصاً جبکہ اُس کا محرک و داعی خود اس کے لیے 
مستدعی ہو ایک اہم دینی فرض ہے! بصورت دیگر میں اپنے آپ کو یہ کہنے میں حق بجانب سمجھتا ہوں کہ میری جانب سے اللہ تعالیٰ کے حضور میں آپ پر ایک حجت قائم ہوجائے گی کہ میں نے تو رہنمائی چاہی تھی ‘جناب ہی نے توجہ نہ فرمائی.‘‘

اب اسے میں اپنی بدقسمتی کے سوا اور کسی چیز پر محمول نہیں کر سکتا کہ بعض علماء کرام نے اس کا مطلب یہ سمجھا کہ میں گویا اس کا مدعی ہوں کہ میں نے ان پر ’’اتمامِ حجت‘‘ کر دیا ہے کہ وہ میری تنظیم میں شامل اور میری بیعت میں داخل ہوں. ’’معاذ اللہ‘‘ ؏ ’’یہ تاب‘ یہ مجال‘ یہ طاقت نہیں مجھے!‘‘اور حاشا و کلا میرے ذہن کے کسی دور دراز گوشے میں بھی ایسی کوئی بات موجود نہیں ہے!

(۲) دوسری اہم غلطی یہ ہوئی کہ راقم نے ایک مسلمان کے تین اساسی دینی فرائض میں سے اوّلین یعنی’’یہ کہ وہ خود صحیح معنی میں اللہ کا بندہ بنے!‘‘ کی وضاحت کے ضمن میں سورۃ البقرۃ کی آیت ۸۱ کا جو حوالہ دیا اس سے بجا طور پر مغالطہ ہوا کہ شاید میں بھی معتزلہ کی طرح ’عصاۃِ اہل ایمان ‘ کے لیے 
’’خلود فی النار‘‘ کے امکان کا قائل ہوں. میں اس سے بھی اظہارِ براء ت کرتا ہوں. میرے نزدیک صحیح بات وہی ہے جو احادیث صحیحہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام سے ثابت ہے ‘یعنی جس شخص کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو گا اگر اس کے گناہوں کا وزن نیکیوں سے بڑھ کر ہوا تو وہ اپنے گناہوں کے بقدر سزا بھگت کر بالآخر دوزخ سے نکال لیا جائے گا اور جنت میں داخل کر دیا جائے گا.

میں تسلیم کرتا ہوں کہ اس مقام پر اس آیۂ مبارکہ کا حوالہ بے محل اور غلط ہے رہا یہ سوال کہ اس آیت کا صحیح مدلول میرے نزدیک کیا ہے تو میرے نزدیک یہ آیت اپنے نفس مضمون کے اعتبار سے ان احادیث نبویہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام سے مشابہت رکھتی ہے جن میں تنبیہہ اور ترہیب کی غرض سے بعض اعمال پر نفی ایمان کی وعید سنائی گئی ہے. ان آیاتِ مبارکہ اور احادیث ِ شریفہ کے ضمن میں نہ یہ روش درست ہے کہ ان کے ظاہری الفاظ سے بالکل قانونی اور منطقی معانی نکالے جائیں جس سے شدید مایوسی پیدا ہو جائے‘ نہ یہ صحیح ہے کہ ان کی ایسی توجیہیں کی جائیں کہ ان کی تاثیر ہی ختم ہو کر رہ جائے اور بے خوفی اور لاپرواہی جنم لے لے! بلکہ دوسری آیات و احادیث کی روشنی میں ان کی ایسی تعبیر کی جانی چاہیے جس سے سامع او ر قاری میں 
’’بین الخوفِ والرّجائ‘‘ کی کیفیت قائم رہے. واللہ اعلم بہرحال اس مسئلے کا اصل تعلق ایمان اور عمل کے باہمی لزوم یا عدم لزوم اور ایمان میں کمی بیشی کے امکان یا عدم امکان کے ضمن میں اس اختلاف سے ہے جو ہمارے یہاں اسلاف سے چلا آرہا ہے اور جس کے ضمن میں تاحال راقم کی رائے یہ ہے کہ اس دنیا کی حد تک اور قانونی و فقہی سطح پر صحیح بات یہی ہے کہ ایمان جدا ہے اور عمل جدا‘ اور نفس ایمان میں کمی بیشی نہیں ہوتی لیکن حقیقت کے اعتبار سے صحیح بات یہ ہے کہ نہ صرف یہ کہ ایمانِ حقیقی یعنی یقین قلبی گھٹتا بھی ہے اور بڑھتا بھی بلکہ ایمان اور عمل صالح لازم و ملزوم ہیں اور یہ لزوم دو طرفہ ہے ‘یعنی ایمان بڑھے گا تو عمل صالح میں بھی لازماً اضافہ ہو گا اور معاصی میں لامحالہ کمی آئے گی اور ایمان گھٹے گا تو عمل صالح میں کمی واقع ہو گی اور معاصی میں اضافہ ہو گا اور اسی طرح عمل صالح بڑھے گا تو اس سے ایمان میں بھی اضافہ ہو گا اور عمل صالح میں کمی آئے گی اور معاصی بڑھیں گے تو اس سے ایمان بھی متأثر ہو گا اور اس میں لازماً کمی آئے گی اور اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے اپنی پناہ میں رکھے بہرحال اس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ امکان کے درجے میں یہ احتمال موجود ہے کہ اعمالِ صالحہ کے مسلسل فقدان اور معاصی پر دوام و اصرار بالخصوص اکل حرام پر جان بوجھ کر استمرار و مداومت کے نتیجے میں ایمان کی پونجی بالکل ختم ہو جائے اور احادیث ِ نبویہؐ میں وارد شدہ الفاظ : لَـیْسَ وَرَائَ ذٰلِکَ مِنَ الْاِیْمَانِ حَبَّۃُ خَرْدَلٍ یا آیَۃُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ… وَاِنْ صَامَ وَصَلّٰی وَزَعَمَ اَنَّــہٗ مُسْلِمٌ … کا مصداق وجود میں آجائے!! اور ظاہر ہے کہ اگر اسی حالت میں موت واقع ہو جائے تو ایسے شخص کا معاملہ اس کا سا نہیں ہو گا جو ایمان کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوا ہو خواہ گناہوں کا بہت سا انبار اپنے ساتھ لے گیا ہو. ھذا ما عندی حتی الوقت والعلم عند اللّٰہ وارجو ان ینبھنی اللّٰہ والذین اوتوا العلم ان کنت خاطیا !! بہرحال جو شخص ایمان کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوا ہو خواہ اس کی مقدار کتنی ہی قلیل کیوں نہ ہو اس کا معاملہ اس سے بالکل جدا ہے اور اس کے ضمن میں میرا موقف وہی ہے جو جملہ اہل سنت کا ہے اور مجھے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے پوری اُمید ہے کہ اسی پر میری موت واقع ہو گی!

(۳) تیسرا سلسلۂ مغالطات پیدا ہوا راقم کی حسب ذیل عبارت ہے:

’’فریضۂ ثالث کے ضمن میں ’’بیعت سمع و طاعت فی المعروف‘‘ کی صورت لازمی و لابدی ہے. چنانچہ اس کا لزوم ثابت ہوتا ہے مسلم کی روایت 
(عن عبد اللّٰہ بن عمر رضی اللّٰہ عنہما) سے جس میں آنحضور کے یہ الفاظ مبارکہ وارد ہوئے ہیں کہ ’’من مات ولیس فی عنقہ بیعۃ مات میتۃً جاھلیۃً !‘‘ واضح رہے کہ دو ہی صورتیں ممکن ہیں: (i) اگر کم سے کم شرائط و معیارات پر اترنے والا صحیح اسلامی نظامِ حکومت قائم ہے تو اس کے سربراہ سے بیعت سمع و طاعت ہو گی اور (ii)اگر ایسا نہیں ہے تو صحیح اسلامی حکومت کے قیام کے لیے جدوجہد کرنے والی جماعت کے امیر کے ہاتھ پر بیعت سمع و طاعت ہو گی اور تیسری کوئی صورت ممکن نہیں!‘‘

(i)اس سے بعض حضرات نے تو یہ نتیجہ اخذ فرما لیا کہ راقم بزعم خویش اس مقام پر فائز ہو گیا ہے کہ سب مسلمانوں پر شخصاً اس کی بیعت لازم ہو گئی ہے. اس سے تو اسی نوع کا اظہارِ براء ت کافی ہے جس نوع کا اظہارِ براء ت میں ابتدامیں پہلی غلطی کے ضمن میں کر چکا ہوں راقم کے نزدیک حال تو کجا مستقبل میں بھی جتنی دور تک نگاہ فی الوقت جا سکتی ہے اس کا کوئی امکان نظر نہیں آتا کہ کسی ایک امام کی بیعت اس طرح لازم ہو جائے کہ اس کے دائرے سے باہر لازماً کفر ہو. اس کا نظری امکان اگر کوئی ہے تو صرف اس آخری زمانے میں جبکہ حضرت عیسیٰ علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے نزول کے بعد کوئی صورت ایسی بن جائے کہ پورے کرۂ ارضی پر ایک ہی اسلامی ریاست بالفعل قائم ہو جائے اس سے پہلے اس کا کوئی نظری امکان بھی موجود نہیں ہے کجا راقم الحروف کی بیعت! ؏ ’’زعشق تابہ صبوری ہزار فرسنگ است‘‘.

(ii)ایک دوسرا مغالطہ جو میری تحریر سے پیدا ہوا وہ یہ ہے کہ میںصحیح مسلمؒ کی محولہ بالا حدیث مبارک کو بالکل ظاہری اور قانونی معنوں میں لے رہا ہوں اور میرے نزدیک بیعت سمع و طاعت فی المعروف کا لزوم ہر شخص کے لیے اور ہر حال میں ہے اور اس میں کوئی استثناء نہیں ہے. میں تسلیم کرتا ہوں کہ میں اس مغالطے میں فی الواقع مبتلا رہا ہوں‘ لیکن اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے رفیق مکرم ڈاکٹر تقی الدین احمد صاحب کو کہ انہوں نے لگ بھگ چھ ماہ قبل صحیحین کی ایک حدیث کی جانب توجہ مبذول کرائی جس سے یہ ’’تیسری‘‘ امکانی صورت بھی سامنے آتی ہے کہ کم از کم معیار پر پوری اترنے والی اسلامی حکومت کے موجود نہ ہونے کی صورت میں: اگر انسان کو (ا) اقامت دین کی جدوجہد کے لیے کوئی ایسی جماعت بھی نظر نہ آئے جس پر اس کا دل مطمئن ہو سکے اور (ب) خود وہ دیانتاً محسوس کرے کہ اس میں وہ ہمت و صلاحیت موجود نہیں ہے کہ خود داعی کی حیثیت سے کھڑا ہو اور ایک قافلہ ترتیب دے تو اس کے لیے جائز ہو گا کہ وہ انفرادی مساعی پر ہی اکتفا کرے چنانچہ راقم نے اس معاملے میںاپنا موقف تبدیل کر لیا تھا لیکن کچھ اس بناپر کہ جو خیال دل میں برسوں بیٹھا رہا ہو اسے خواہ شعوری طور پر دل سے نکال بھی دیا جائے اس کے کچھ نہ کچھ اثرات کچھ عرصے تک غیر شعوری طور پر برقرار رہتے ہیں اور کچھ اس بنا پر کہ‘جیسے کہ ابتدا میں عرض کیا جا چکا ہے‘ یہ تحریر بہت 
’’رواداری‘‘ میں سپردِ قلم ہوئی تھی یہ الفاظ قلم سے نکل گئے کہ ’’اور تیسری کوئی صورت ممکن نہیں ہے!‘‘ بہرحال راقم اس سے محاضرات سے قبل ہی رجوع کر چکا تھا. جس کا ثبوت یہ ہے کہ ’’حکمت قرآن‘‘ میں اشاعت کے وقت یہ الفاظ حذف کر دیے گئے تھے!!

اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے ذاتی سطح پر میرے مشفق و مربی اور تنظیم اسلامی کی سطح پر حلقہ ٔمستشارین کے رکن رکین مولانا سید حامد میاں صاحب کو کہ اگرچہ وہ اپنی شدید مصروفیات کے باعث اس بار محاضرات کے لیے کوئی تحریر تو سپرد قلم نہ کر سکے لیکن انہوں نے خاص اس غلطی پر تنبیہہ فرمانے کے لیے راقم کو طلب فرمایا اور قدرے برہمی کے انداز میں فرمایا کہ ’’اس حدیث سے یہ مطلب تو کسی نے بھی نہیں لیا اور ہمارے تو اسلاف میں بے شمار لوگ ایسے گزرے ہیں جنہوں نے نہ کسی سے بیعت سمع وطاعت کی نہ لی!‘‘ تواگرچہ فوری طور پر میرے ذہن میں ایک خیال کلبلایا کہ ’’کسی شے کا عدمِ ذکر یا عدمِ ثبوت اس کے وجود کی نفی کو مستلزم نہیں ہے!‘‘ (اس لیے کہ میرے علم میں استاذی المکرم مولانا منتخب الحق قادری کا بیان کردہ یہ واقعہ ہے کہ ایک بار اچانک علامۃ الہند مولانا معین الدین اجمیریؒ کے ذاتی کتب خانے کی ایک خاص الماری کی صفائی کرتے ہوئے جس کی چابی وہ کبھی کسی کو نہیں دیتے تھے اور اس موقع پر کسی خاص مجبوری سے مولانا کے حوالے کی تھی ‘اچانک ان کی نگاہ سے ایک رجسٹر گزراجس میں ان لوگوں کے نام اور پتے درج تھے جنہوں نے حضرت مولاناؒ سے بیعت جہاد کی ہوئی تھی مولانا منتخب الحق صاحب کا فرمانا ہے کہ اس روز میری سمجھ میں یہ بات بھی آئی کہ کیوں مولانا نے اپنی رہائش قبرستان میں ایک بالکل ویران و سنسان جگہ پر رکھی ہوئی تھی!) لیکن میں نے اس معاملے میں بحث کی طوالت سے بچنے کے لیے عرض کیاکہ ’’مولانا!اگر اس حدیث ِ نبویؐ ‘کو ظاہری اور قانونی معنوں میں نہ لیا جائے لیکن اس کا حوالہ بیعت جہاد اور بیعت سمع و طاعت فی المعروف کے لیے تشویق و ترغیب کے طور پر دیا جائے تو …؟‘‘ اس پر مولانا نے فوراً بلا توقف فرمایا: ’’اس میں کوئی حرج نہیں ہے!‘‘ گویا موضوع زیر بحث کی حد تک اس حدیث مبارکہ کا حاصل بھی وہی ہے جو سورۃ البقرۃ کی آیت ۸۱ کا!!

(iii) بعض حضرات کو یہ غلط فہمی بھی لاحق ہوئی کہ شاید میرے نزدیک اگر کوئی شخص ایک بار مجھ سے بیعت سمع و طاعت فی المعروف میں منسلک ہو جائے تو پھر اگر وہ کسی بھی صورت میں اس بیعت کا حلقہ اپنی گردن سے نکال دے گا تو 
’’مَنْ شَذَّ شُذَّ فِی النَّارِ‘‘ کی وعید شدید کا مستحق ہوگا. میں اس سے بھی علیٰ رئووس الاشہاد اعلانِ براء ت کرتا ہوں. میرے نزدیک یہ معاملہ اس ’’الجماعۃ‘‘ کا ہے جو اصلاً تو دورِ نبویؐ میں نبی اکرم کی زیر امارت قائم تھی اور تبعاً صرف خلافت راشدہ تک قائم رہی جبکہ اُمت میں دینی و مذہبی ‘ سیاسی و ملی‘ ملکی و علاقائی اورحکومتی وانتظامی ہر اعتبار سے وحدت کلی برقراررہی ‘ اس کے بعد سے آج تک‘ اور مستقبل میں دُور دُور تک اس ’’الجماعۃ‘‘ کا حقیقی اور واقعی اعتبار سے وجود خارج از بحث ہے. البتہ نظری طور پر کہا جا سکتا ہے کہ پوری اُمت ِ مسلمہ بحیثیت ِمجموعی اسی ’’الجماعۃ‘‘ کے حکم میں ہے!

اقامت ِ دین اور اعلائے کلمۃ الحق کے لیے قائم ہونے والی کسی بھی جماعت میں شمولیت اور اس کے امیر سے سمع و طاعت فی المعروف کی بیعت انسان پر اس وقت لازم ہوتی ہے جب دو شرطیں پوری ہو جائیں: ایک یہ کہ اس کے دینی فکر اور طریق کار سے مجموعی طور پراتفاق ہو اور دوسرے یہ کہ اس کے خلوص و اخلاص پر دل گواہی دے دے. پھر اس بیعت پر قائم رہنا بھی اسی وقت تک لازم ہو گاجب تک یہ دونوں باتیں برقرار رہیں بصورت دیگر اگر (i)انسان کے علم میں ایسے شواہد آئیں جن کی بنا پر اس خلوص و اخلاص پر اعتماد متزلزل ہو جائے یا (ii)انسان دیانتاً یہ محسوس کرے کہ داعی نے جو راستہ ابتداء ً اختیار کیا تھا اور جس کی اس نے دعوت دی تھی وہ اس سے منحرف ہو گیا ہے یا(iii)خود انسان کا ذہن بدل جائے اور وہ خود اس طریق کار پر مطمئن نہ رہے جس پر تحریک کا آغازکیا گیا تھا یا (iv)اسے کوئی ایسی جماعت نظر آجائے جو اس سے بہتر طریق پر‘ اور اس سے بہتر قائد کی قیادت میں اقامت ِ دین کی جدوجہد کر رہی ہو ‘ تو اس کا بیعت کو فسخ کرنا جائز ہی نہیں واجب ہو جائے گا اِلاّ یہ کہ باطن میں پیچھے ہٹنے کااصل سبب تو کمزوری اور بزدلی یا کوئی ذاتی مصلحت و منفعت ہو لیکن ظاہری سہارا انسان متذکرہ بالا چار صورتوں میں سے کسی کا لے لےتو اس صورت میں چاہے دنیا میں اس پر کوئی حکم نہ لگایا جا سکے لیکن عند اللہ وہ ضرور قابل مؤاخذہ ہو گا! البتہ جب تک کسی شخص میں کسی قائد یا امیر سے بیعت سمع و طاعت کے ضمن میں وہ دونوں مثبت اساسات برقرار رہیں جن کا ذکر اوپر ہو چکا ہے اور ان چار منفی کیفیات میں سے کوئی کیفیت پیدا نہ ہو جو فسخ بیعت کے ضمن میں بیان ہو چکی ہیں اس وقت تک اس کا اس جماعت میں شامل رہنا اور بیعت کا وہ حق ادا کرنا لازم ہوگا جو صحیحین میں حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں بایں الفاظ بیان ہوا ہے : 

بَایَعْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ  عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ فِی الْعُسْرِ وَالْیُسْرِ وَالْمَنْشَطِ وَالْمَکْرَہِ وَعَلٰی اَثَرَۃٍ عَلَیْنَا وَعَلٰی اَنْ لاَ نُنَازِعَ الْاَمْرَ اَھْلَہٗ وَعَلٰی اَنْ نَقُوْلَ 
ِّ حَیْثُمَا کُنَّا لَا نَخَافُ فِی اللّٰہِ لَوْمَۃَ لَائِمٍ 
صرف اس فرق کے ساتھ کہ نبی اکرم کے بعد ہر بیعت سمع و طاعت میں 
’’فِی الْمَعْرُوْفِ‘‘ کی قید بہتر تو یہ ہے کہ لفظاًہو ‘ورنہ معناً لازماً مراد ہو گی!

الغرض 
راقم ان محاضرات کے بعد بھی ‘ ان تصریحات اور ان سے لازم آنے والی حدود و قیود کے ساتھ‘ فرائض دینی کے جامع تصور کے ضمن میں اپنے موقف پر جازم و عازم ہے. ان محاضرات کے نتیجے میں توراقم کو اپنے موقف میں کسی اساسی اور بنیادی تبدیلی کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی. اب اللہ ہی سے دعا ہے کہ اگر میرے اس فکر میں کوئی کجی یا غلطی ہے تو اپنے خصوصی فضل و کرم اور کسی خاص ذریعے سے مجھے متنبہ فرما دے. 
اَللّٰھُمَّ اَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَّارْزُقْنَا اتِّبَاعَہٗ وَاَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا وَّارْزُقْنَا اجْتِنَابَہٗ آمِین یَا رَبَّ الْعَالَمِیْن! 

راقم الحروف کو پورا احساس ہے کہ قارئین ’’حکمت‘‘ محاضرات کے جملہ بالفعل و بالقوہ اور حاضرانہ و غائبانہ شرکاء کے افکار و خیالات سے فرداً فرداً واقف ہونا چاہیں گے. اس ضمن میں یہ گزارش ہے کہ ہم تک تحریریں تو صرف معدودے چند حضرات کی پہنچی ہیں. اکثر و بیشتر حضرات نے تقاریر کی تھیں. مقدم الذکر حضرات سے ہم یہ درخواست کریں گے کہ وہ اپنی تحریروں پر ہماری مندرجہ بالا تصریحات کی روشنی میں نظر ثانی فرما لیں تو بہتر ہو گا‘ تاکہ وقت اور قلم و قرطاس کا ضیاع کم ہو اور فائدہ زیادہ! اور مؤخر الذکر حضرات سے مزید درخواست یہ ہوگی کہ ہماری ان تصریحات کو بھی مدّنظر رکھ کر اپنی تقاریر کے خلاصے خود مرتب فرما دیں تاکہ انہیں سلسلہ وار شائع کر دیا جائے سردست مؤیدین و موافقین اور مختلفین و ناقدین کا مختصر جائزہ پیش خدمت ہے:

راقم کو سب سے زیادہ کھلی اور بھرپورتائید و تصویب بلکہ حد درجہ حوصلہ افزائی تو ملی ہے مولانا سعید احمد اکبر آبادی مدظلہٗ سے ‘جوبلاشبہ برصغیر پاک و ہند کے چوٹی کے علماء میں سے ہیں اور اس اعتبار سے تو ’’آپ اپنی مثال‘‘ کے مصداقِ کامل ہیں کہ ایک طرف دارالعلوم دیوبند کے فارغ التحصیل اور عرصہ ٔ دراز سے اس کی مجلس شوریٰ کے رکن ہیں اور مختلف اوقات میں دارالعلوم ڈابھیل اور مدرسہ عالیہ فتح پوری میں مدرس رہے ہیں تو دوسری جانب سینٹ سٹیفن کالج دہلی کے لیکچرار ‘ مدرسہ عالیہ کلکتہ کے پرنسپل اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے ڈین آف 
تھیالوجی رہے ہیں اور ایک طرف عربی زبان اور علومِ دینیہ پر عبور رکھتے ہیں تو دوسری طرف انگریزی زبان و فکر پر پوری قدرت رکھتے ہیں. اور ان سب پر مستزاد ہے ان کی ۱۹۳۸ء سے تاحال ’’ندوۃ المصنفین‘‘ دہلی کی رکنیت اور ماہنامہ ’’برہان‘‘ کی ادارت اور بیسیوں اعلیٰ پایہ کی علمی کتب کی تصنیف اور اب حضرت شیخ الہندؒ اکیڈمی‘ دیوبند کی سربراہی.

ان کے ٹیپ شدہ خیالات تو لفظ بلفظ اور من وعن ماہنامہ ’’میثاق‘‘ کی اپریل ہی کی اشاعت میں شائع ہو رہے ہیں ‘ وہاں ملاحظہ فرما لیے جائیں لیکن عند الملاقات جو ایک ’’لطیفہ‘‘ صادر ہوا وہ تفنن طبع کے لیے حاضر خدمت ہے ایک ملاقات میں (مذکورہ ٹیپ شدہ انٹرویو والی نہیں‘ اس لیے کہ اس موقع پر تو راقم موجود نہ تھا) راقم اور اس کے دو رفقاء کی موجودگی میں مولانا نے تائید و تحسین اور حوصلہ افزائی کے ضمن میں بہت کچھ فرما کر اور ڈھیر ساری دعائیں دینے کے بعد فرمایا کہ ’’بس آپ کی ایک بات سے مجھے شدید اختلاف ہے اور اس سے مجھے بہت کوفت اور تکلیف ہوتی ہے!‘‘اس پر راقم سہم کر ہمہ تن گوش ہو گیا تو اس مطلع کا مقطع یہ ارشاد ہوا کہ ’’وہ یہ کہ آپ یہ کیوں کہتے ہیں کہ میں عالمِ دین نہیں ہوں… آپ عالم ہیں ‘ آپ خطیب ہیں‘ آپ ادیب ہیں…‘‘ راقم الحروف کو اس وقت ان کی شخصیت میں حضرت شیخ الہندؒ کے مزاج کی جھلک نظر آئی‘ جنہوں نے اپنے بیٹوں اور شاگردوں کی عمر کے ایک نوجوان کو جو مستند عالم دین بھی نہ تھا اور وضع قطع سے بھی کوئی مذہبی شخصیت نظر نہ آتا تھا ‘جس طرح اپنی آنکھوں پر بٹھایا تھا وہ ان کے معتقدین و متوسلین کی ایک عظیم اکثریت کو آج بھی ناپسند ہے! بہرحال اس ضمن میں کسی کو غلط فہمی نہ ہو. راقم مولانا اکبر آبادی کے ان الفاظ کو صرف دلجوئی اور حوصلہ افزائی پر محمول کرتا ہے اور اپنے بارے میں خود اس کا خیال اوّل و آخر یہی ہے کہ وہ قرآن حکیم کے علم و حکمت کا ایک ادنیٰ طالب علم اور اللہ کے دین متین کا ایک ادنیٰ خادم ہے اور بس!! اور اسے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے پوری اُمید ہے کہ اس کے سوا کوئی اور ’’دعویٰ‘‘ یا ’’ادّعا‘‘ نہ اس کے دل میں آئے گا نہ زبان پر!!
محاضرات کے ’’بالفعل‘‘ اور ’’حاضر‘‘ شرکاء میں سے نو حضرات نے راقم کے دینی فکر اور تصورِ فرائض دینی کی واشگاف اور زوردار یا نسبتاً دبے اور دھیمے الفاظ میں تصویب و تائید فرمائی. پانچ حضرات نے بنیادی اور واضح طور پر اختلاف کیا اور سات حضرات کچھ بین بین رہے. یعنی انہوں نے بعض پہلوئوں کی تصویب و تحسین فرمائی اور بعض کے ضمن میں کچھ احتیاطوں کا مشورہ دیا. راقم کا ظن غالب ہے کہ راقم کی ان پہلی تصریحات کے بعد جو اوپر 
وضاحت کے ساتھ درج ہو چکی ہیں‘ یہ حضرات بھی مؤیدین ہی کی فہرست میں شامل ہوں گے.

قسم اوّل میں سرفہرست ہیں مولانا مفتی سیاح الدین کاکاخیل ‘ جن کا تعلق اصلاً حلقہ ٔ دیوبندسے ہے. ثانوی طور پر ان کا شمار جماعت اسلامی کے ہم خیالوں اور ہم دردوں بلکہ سرپرستوں میں ہوتا ہے‘ ایک طویل عرصہ تک ریاست پاکستان کی اسلامی نظریاتی کونسل کے رُکن رہے ہیں اور فی الوقت اسلامی یونیورسٹی ‘ اسلام آباد کے انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اکنامکس میں کام کر رہے ہیں دوسرے نمبر پر ہیں مولانا سید عنایت اللہ شاہ صاحب بخاری جو مفتی صاحب ہی کی طرح اصلاً حلقہ ٔ دیوبند ہی سے تعلق رکھتے ہیں‘ لیکن سماعِ موتی اور حیات النبی کے مسئلے میں ایک جداگانہ رائے کے حامل ہونے کی بنا پر جداگانہ تشخص رکھتے ہیں اور ’’جمعیت اشاعت التوحید والسنۃ‘‘ کے امیر اور سربراہ ہیں. تیسری اہم شخصیت ہیں مولانا سید مظفر حسین ندوی جو ندوہ میں اپنے زمانہ ٔ تعلیم کے دوران مولانا سید مسعود عالم ندوی مرحوم اور مولانا سید ابوالحسن علی ندوی مدظلہ ٗ دونوں کے یکساں منظورِ نظر شاگرد تھے. ۴۸.۱۹۴۷ء کے جہاد کشمیر میں عملاً حصہ لینے والوں بلکہ اس کا آغاز کرنے والوں میں سے تھے اور ایک طویل عرصہ تک حکومت ِ آزاد کشمیر کے دینی تعلیم و تربیت کے شعبوں میں خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں. چوتھی اہم شخصیت ہے ڈاکٹر بشیر احمد صدیقی صاحب کی جو اصلاً تو شرق پور کے نقشبندی خانوادے سے منسلک ہیں‘ تاہم عرفِ عام میں بریلوی حلقوں سے زیادہ ربط و ضبط رکھتے ہیں اور فی الوقت پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ معارف اسلامیہ میں تدریس کی خدمات سرانجام دے رہے ہیں. پانچویں واضح مؤید ہیں مولانا قاری سعید الرحمن علوی جو ایک عرصہ تک ہفت روزہ ’’خدام الدین‘‘ کی ادارت کے فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں. اور آج کل جامع مسجد‘ شاہ جمال‘ لاہور میں خطیب کی ذمہ داری ادا کر رہے ہیں. بقیہ چار حضرات میں سے دو کراچی کے معروف اہل حدیث علماء و خطباء ہیں یعنی مولانا عبدالوکیل خطیب اور مولانا محمد اسحٰق روپڑی اور دو ہمارے حیدر آباد دکن سے آئے ہوئے مہمان تھے. یعنی مولانا قاری محمد عبدالعلیم اور میر قطب الدین علی چشتی !!

اقامت ِ دین کی فرضیت‘ التزامِ جماعت اور بیعت ہجرت و جہاد فی سبیل اللہ‘ و سمع و طاعت فی المعروف کے لزوم کے تصورات سے مجموعی اور اساسی اختلاف کا اظہار کرنے والوں میں سرفہرست تھے مولانا عبدالغفار حسن مدظلہ ٗ اور مولانا وحید الدین خاں (از دہلی) ان 
کے بارے میں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ماضی میں ان دونوں حضرات کا طویل اور فعال تعلق رہا ہے جماعت اسلامی سے.چنانچہ مولانا عبدالغفار حسن کا شمار جماعت اسلامی پاکستان کی صف اوّل کے رہنمائوں میں ہوتا تھا اور مولانا وحید الدین خان جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن تھے.عجیب بات ہے کہ تیسری حد درجہ تیز و تند اور اختلافی ہی نہیں ’’مخالفانہ‘‘ تقریر تھی ڈاکٹر خالد علوی صاحب کی جو پنجاب یونیورسٹی میں جمعیت طلبہ کے سرپرست شمار ہوتے ہیں. کچھ اسی انداز کی لیکن غیر واضح تقریر تھی حافظ نذر احمد صاحب کی. البتہ اسی فکر کی حامل لیکن حد درجہ دھیمی اور مؤثر تقریر تھی مولانا محمد مالک کاندھلوی مدظلہ ٗ کی. اگرچہ اس میں دلیل و استدلال سے زیادہ تلقین و نصیحت اور جذباتی اپیل کا رنگ تھا واللہ اعلم!!

تیسری فہرست میں نمایاں ترین نام ہیں مولانا مفتی محمد حسین نعیمی‘ مولانا حافظ عبدالقادر روپڑی اور مولانا سید محمد متین ہاشمی کے ‘ پھر نمبر آتا ہے ‘ پروفیسر احمد یار‘ مولانا الطاف الرحمن بنوی ‘ حافظ عبدالرحمن مدنی‘ مولانا عبدالحکیم سیف اور مولانا شبیر احمد نورانی کا. ان حضرات کے بارے میں راقم پہلے ہی عرض کر چکا ہے کہ ان شاء اللہ راقم کی پیش نظر تحریرمیں وارد تصریحات کے بعد ظن غالب یہی ہے کہ انہیں کوئی اختلاف نہیں رہے گا.

جن پچیس حضرات نے ’’محاضرات‘‘ کے لیے تفصیلی تحریریں ارسال فرمائیں یا محض خطوط تحریر فرمائے ان کی تفصیل حسب ذیل ہے:

(۱) مولانا محی الدین لکھوی نے بھرپور تائید کی اور کلی اتفاق کا اظہار فرمایا. مولانا پنجاب کے ایک نہایت مشہور اہل حدیث خاندان سے تعلق رکھتے ہیں. ان کے دادا حافظ محمد لکھویؒ نے پنجاب میں ترویج توحید اور ردِّ بدعات کے ضمن میں نہایت مجاہدانہ کردار ادا فرمایا تھا اور پنجابی میں منظوم تفسیر قرآن لکھی تھی. ان کے والد مولانا محمد علی لکھوی سے راقم کی ملاقات مدینہ منورہ میں ۱۹۷۰ء میں مولانا عبدالغفار حسن مدظلہ ٗ کے مکان پر ہوئی تھی. ان کے چھوٹے بھائی مولانا معین الدین لکھوی اس وقت جمعیت اہل حدیث کے امیر اورپاکستان کی موجودہ نیشنل اسمبلی کے رکن ہیں مولانا خود کبھی جماعت اسلامی میں شامل ہوئے تھے لیکن جلد ہی بددل ہوکر علیحدہ ہو گئے تھے. ۱۹۵۱ء میں جو پہلا الیکشن پنجاب کی صوبائی اسمبلی کا ہوا تھا مولانا اس کے لیے اپنے ذاتی اثر و رسوخ کی بنیاد پر منتخب ہوئے تھے لیکن بعد میں جماعت اسلامی نے انہیں 
’’adopt‘‘ کر لیا تھا. چنانچہ کئی سال تک وہ پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں جماعت اسلامی کے ’’اکلوتے‘‘ نمائندے کی حیثیت سے کام کرتے رہے تھے. مولانا ان معدودے چند لوگوں میں سے ہیں جن میں اہلحدیثیت کی سختی اور درشتی کے ساتھ ساتھ تصوف کی مٹھاس اور چاشنی بھی موجود ہوتی ہے (اس کی ایک نادِرروزگار مثال امرتسر اور لاہور کا خانوادۂ غزنویہ ہے) مولانا اپنا بعض ’’تفردات‘‘ کے باعث کچھ عرصہ سے الگ تھلگ زندگی گزار رہے ہیں لیکن اب اُمید ہے کہ یہ کیفیت ختم ہو جائے گی. اللّٰھُمَّ آمِیْن!! مولاناموصوف کا خط اس شمارے میں شائع کیا جا رہاہے.

(۲) مولانا گوہر رحمن صاحب رکن جماعت اسلامی‘ شیخ الحدیث دارالعلوم تفہیم القرآن مردان اور رکن قومی اسمبلی نے بھی نہایت حوصلہ افزا اور تحسین آمیز خط تحریر فرمایا. ان کا خط بھی شامل اشاعت کیا جا رہا ہے.

(۳) مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نے بھی جوا س وقت بلاشبہ پورے عالم اسلام کی چوٹی کی دینی شخصیتوں میں سے ہیں اگرچہ محاضرات کے نفس موضوع پر تو نہ کچھ تائیداً فرمایا نہ تنقیداً. البتہ راقم الحروف کی دلجوئی اور حوصلہ افزائی کے لیے جو الفاظ تحریر فرمائے وہ خود ان کی عظمت کے تو شاہد عادل ہیں ہی راقم کے لیے تازیست سرمایۂ افتخار رہیں گے. ان کا خط بھی شائع کیا جا رہا ہے.

(۴) پانچ حضرات نے مصروفیت کی بنا پر شرکت سے معذرت کرتے ہوئے راقم اور اس کی مساعی کے لیے نیک خیالات و جذبات کا اظہار فرمایا اور دعائے خیر سے نوازا. راقم کو ایک گونہ فخر ہے اس پر کہ اس فہرست میں حضرت مولانا خان محمد صاحب‘ سجادہ نشین‘ خانقاہ سراجیہ‘ کندیاں شریف‘ مولانا نور الحق صاحب ندوی و ازہری(پشاور) ‘ مولانا اخلاق حسین قاسمی (دہلی)‘ مولانا محمد اسحاق صدیقی (کراچی) اور مولانا سمیع الحق (اکوڑہ خٹک) ایسے حضرات کے اسمائے گرامی شامل ہیں. 

(۵) تین حضرات نے شرکت کا ارادہ ظاہر فرمایا تھا. لیکن بعد میں کسی سبب سے تشریف نہ لاسکے‘ یہ ہیںمولانا عبدالقیوم حقانی (اکوڑہ خٹک)‘ مولانا عبدالکریم پاریکھ (ناگپور‘ انڈیا) اور قاضی شمس الدین صاحب گوجرانوالہ.

(۶) تین حضرات کی جانب سے محض معذرت موصول ہوئی بلاکسی تائید یا تنقید کے یعنی شاہ بدیع‘الدین صاحب پیر آف جھنڈا (سندھ) ‘جناب شمس پیرزادہ (بمبئی) اور حافظ احسان الٰہی ظہیر(لاہور)

(۷) دو حضرات نے مختصر معذرت اور اجمالی اظہارِ اختلاف پر مشتمل خطوط تحریر فرمائے. ایک مولانا محمد منظور نعمانی مدظلہ مدیر ’’الفرقان‘‘ (لکھنؤ) اور دوسرے سید اسعد گیلانی یکے از مرکزی 
قائدین جماعت اسلامی.

(۸) پانچ حضرات نے تفصیلی اختلافی نوٹ ارسال فرمائے. یہ ہیں (i)مولانا محمد طاسین صاحب‘ مدیر مجلس علمی‘ کراچی (ii)مولانا محمد ازہر‘ مدیر ماہنامہ ’’الخیر‘‘ ملتان (iii) پروفیسر طاہر القادری ‘لاہور (vi)جناب جاوید احمد‘ لاہور اور (v)جناب عبدالمجیب‘ کراچی ان میں سے مؤخر الذکر دو حضرات میں متعدد امور مشترک ہیں: ایک یہ کہ دونوں نے ازخود ’’کرم فرمائی‘‘ کی ہے. وہ ہمارے مدعوئین میں شامل نہ تھے. دوسرے یہ کہ دونوں جماعت اسلامی کے ’’سابقین‘‘ کے زمرہ سے تعلق رکھتے ہیں. اور تیسرے یہ کہ دونوں کا موقف وہی ہے جو مولانا عبدالغفار حسن اور مولانا وحید الدین خان کا ہے!

(۹) تین حضرات نے راقم اور اس کی مساعی سے شدید اظہارِ بیزاری اور اعلانِ براء ت فرماتے ہوئے شرکت سے ’’انکار‘‘ فرمایا. یہ ہیں (i)جماعت اسلامی کے حلقے کے مشہور ادیب اور دانشور جناب نعیم صدیقی(ii)ماہنامہ ’’بینات‘‘ کراچی کے مدیر مولانا محمد یوسف لدھیانوی اور (iii)مرکزی جامع مسجد اسلام آباد کے خطیب مولانا محمد عبداللہ صاحب.

(۱۰) ازخود ’’کرم‘‘ فرمانے والوں میں ایک اور صاحب محمد عبداللہ ‘لاہور‘ ہیں جنہوں نے ایک تحریر عنایت فرمائی جو نصف تائید و تحسین اور نصف تنقید و اختلاف پر مشتمل ہے.

راقم ان تمام حضرات کا تہہ دل سے شکریہ پہلے بھی ادا کر چکا ہے. آخر میں دوبارہ ان کی خدمت میں ہدیۂ تشکر پیش کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے کہ انہیں اس تعاون کا بھرپور صلہ عطا فرمائے.

یہ فہرست نامکمل رہ جائے گی اور حق تلفی بھی ہو گی اگر راقم ڈاکٹر غلام محمدمدظلہ ٗ خلیفۂ مجاز مولانا سید سلیمان ندوی ؒ کا شکریہ ادا نہ کرے کہ وہ اپنی شدید مجبوری کے باعث محاضرات میں شرکت سے معذرت پیش فرمانے کے لیے خود چل کر قرآن اکیڈمی تشریف لائے (اس لیے کہ چند روز قبل پنجاب یونیورسٹی کے کسی امتحان کے ضمن میںان کی لاہور تشریف آوری ہوئی تھی لیکن بعض اسباب سے فوری واپسی لازمی تھی!) دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے اخلاقِ عالیہ و کریمانہ کا کوئی ادنیٰ عکس راقم کو بھی عطا فرما دے.

’’محاضرات‘‘ کی بات لمبی ہو گئی. معذرت خواہ ہوں ؏ 
لذیذ بود حکایت دراز تر گفتم!!