مسجد دارالسلام لاہور‘ ۲۹؍مارچ۱۹۸۵ء

٭ پروفیسر یوسف سلیم چشتی مرحوم و مغفور کی یاد میں جلسہ 
٭ سالانہ محاضراتِ قرآنی کی شاندار کامیابی پر اللہ کا شکر
٭ نصرتِ خداوندی کے حصول کا یقینی طریقہ : نصرتِ خداو رسولؐ یعنی غلبہ و اقامت دین کی جدوجہد مولانا سید مظفر حسین ندوی (مظفر آباد) کی تقریر کے حوالے سے!

مرتبہ: شیخ جمیل الرحمن
(’تذکرہ و تبصرہ‘ ماہنامہ ’میثاق‘ بابت مئی ۱۹۸۵ء)

خطبہ مسنونہ اور دعا کے بعد:

حضرات! آپ میں سے اکثر کو اس کا اندازہ ہے کہ ۲۲؍مارچ سے کل ۲۸؍مارچ تک پورا ہفتہ میرا اور میرے ساتھی یعنی تنظیم اسلامی کے رفقاء اور مرکزی انجمن خدام القرآن کے جو فعال وابستگان ہیں‘ ان کا وقت شدید مصروفیت اور مشقت میں گزرا ہے. ۲۲؍مارچ کے جمعہ کی تقریر‘ خطبہ اور نماز ہوئی. پھر اسی شام کو مغرب کے بعد ہم نے پروفیسر یوسف سلیم چشتی مرحوم و مغفور کی یاد میں ایک جلسہ منعقد کیا . الحمد للہ ثم الحمد للہ کہ وہ جلسہ بہت کامیاب رہا. جلسہ کے صدر جناب چیف جسٹس (ریٹائرڈ) شیخ انوار الحق صاحب تھے. موصوف اپنی ایک دوسری مصروفیت کی وجہ سے دورانِ جلسہ اجازت لے کر چلے گئے تھے. بعدہ جلسہ جناب علامہ شبیر احمد بخاری سابق وائس چانسلر جامعہ اسلامیہ بہاولپور کی صدارت میںجاری رہا. مقررین نے بڑے ذوق و شوق کے ساتھ شرکت کی اور سامعین نے بھی ہمیں مایوس نہیں کیا. بلکہ واقعتا ہماری توقع سے کہیں بڑھ کراس اجلاس میں شرکاء کی تعداد تھی پھر ہفتہ کی صبح کوہماری مرکزی انجمن خدام القرآن کا ایک فنکشن تھا. وہ بھی صبح نو بجے سے شروع ہو کر ایک بجے دوپہر کو ختم ہوا. پھر اسی شام سے محاضراتِ قرآنی کا قرآن اکیڈمی میں سلسلہ شرو ع ہو گیا جو جمعرات ۲۸؍مارچ کی شب تک چلتا رہا اور ہر اجلاس عموماً رات کو ۱۰ بجے تک جاری رہتا تھا. پھر اتوار کی صبح سے تنظیم اسلامی کے دس سالہ اجتماع کا آغاز ہوا جو کل ۲۸؍تاریخ کو ظہر کے وقت اختتام پذیر ہوا. اس طرح روزانہ صبح آٹھ بجے سے لے کر ایک بجے تک اور شام کو عصر سے لے کر رات دس بجے تک ہماری شدید ترین مصروفیت رہی ہے.

محاضراتِ قرآنی کے ضمن میں اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہوا ہے اور میرے پاس الفاظ نہیں ہیں جن کے ذریعہ میں اللہ سبحانہ ٗ کا شکر ادا کر سکوں. ان محاضرات کو جو گوناگوں کامیابی حاصل ہوئی ہے وہ ہماری ہرتوقع سے بڑھ کر ہے. ہم نے قریباً اسّی اہل علم و فضل حضرات کو ان محاضرات میں شرکت کی دعوت دی تھی کہ وہ ان محاضرات کے موضوع ’’قرآن کا تصور فرائض دینی‘‘ پر اظہار خیال فرمائیں میں نے قرآن حکیم‘ سنت و سیرتِ محمد علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے معروضی مطالعہ سے فرائض دینی کا جو جامع تصور اخذ کیا ہے جس کے پیش نظر عملی جدوجہد کے لیے میں قریباً بیس سال سے ہمہ تن لگا ہوا ہوں‘ اس کا خلاصہ بھی ان حضرات کی خدمت میں ارسال کر دیا تھا اور ان سے استدعا کی تھی کہ علماء کرام اور اصحابِ دانش تشریف 
لائیں اور رہنمائی فرمائیں کہ اس تصورِ دینی میں کیا صواب ہے اور کیا خطا یا تقصیر ہے! ان مدعوین میں سے پچیس تیس کے مابین حضرات تشریف لائے. ان میں ہمارے ملک کے چوٹی کے علماء بھی شامل ہیں. حضرت مولانا سید عنایت اللہ شاہ بخاری مدظلہ گجرات والے جو ایک خاص مکتبہ فکر اور مسلک کے چوٹی کے علماء میں سے ہیں (۱. حضرت مولانا محمد مالک کاندھلوی (۲شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ لاہور نہ صر ف یہ کہ ملک گیرشہرت کے حامل ہیں بلکہ وہ ضیاء صاحب کی نامزد کردہ مجلس شوریٰ کے بھی رکن رہے ہیں اور اس اعتبار سے بھی نمایاں ہوئے ہیں. مولانا مفتی سیاح الدین صاحب کاکا خیل مدظلہ ٗ جو اسلامی نظریاتی کونسل کے قریباً مستقل رکن رہے ہیں اور بہت معروف شخصیت ہیں. ان کا زیادہ تر اتفاق‘ تعاون اور اشتراکِ عمل جماعت اسلامی کے ساتھ ہے (۳.مولانامفتی محمد حسین نعیمی مدظلہ ٗ بریلوی مکتب فکر کی ایک نمایاں شخصیت ہیں (۴.وہ بھی مجلس شوریٰ کے کافی عرصہ رکن رہے ہیں.ویسے تو موصوف ملک کی سطح پر معروف ہیں لیکن لاہور کی تو بہرحال وہ ایک نمایاں شخصیت ہیں. مولانا عبدالغفار حسن صاحب مدظلہٗ اصلاً اہل حدیث مسلک سے تعلق رکھنے والی ایک معروف شخصیت ہیں. انہوں نے جماعت اسلامی میں ایک طویل عرصہ گزارا ہے اور ۱۹۵۳ء کی اینٹی قادیانی تحریک کے سلسلہ میں جب مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی مرحوم و مغفور اسیر رہے تھے تو کچھ عرصہ مولانا موصوف جماعت اسلامی کے امیر بھی رہے ہیں. پھر وہ اسی زمانہ یعنی ۱۹۵۷ء میں علیحدہ ہوئے تھے جس زمانہ میں چند دوسرے حضرات اور میں خود علیحدہ ہوا تھا. پھر مولانا نے طویل عرصہ تک تدریس حدیث کی ذمہ داری جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں ادا کی ہے. مزید یہ کہ وہ بھی اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن رہے ہیں اور شوریٰ کے بھی (۵پھر مولانا عبدالقادر (۱) شاہ صاحب قبلہ نے پورے خاکہ کی تصویب و توثیق فرمائی. (مرتب)

(۲) مولانا موصوف مدظلہٗ نے جماعت سازی میں اندیشوں کا اظہار فرمایا. (مرتب)

(۳) مفتی صاحب قبلہ نے بیعت کے مسئلہ کے سوا پورے خاکہ سے اتفاق فرمایا. بیعت کے مسئلہ پر گفتگو کسی آئندہ موقع کے لیے ملتوی فرما دی. (مرتب)

(۴) مفتی صاحب موصوف نے ’’قرآن کے تصور فرائض دینی‘‘ کے جزو اوّل و دوم سے اور جماعت کے التزام سے کامل اتفاق فرمایا لیکن بیعت اور جہاد بالسیف کو چند اہم شرائط سے مشروط قرار دیا. (مرتب)

(۵) مولانا موصوف مدظلہ نے ہر نوع کی دینی جماعت بنانے سے بھرپور اختلاف کیا. (مرتب) 
صاحب روپڑی (۱مدظلہ ٗ اہل حدیث علماء میں چوٹی کی شخصیتوں میں سے ہیں یہ سب شریک ہوئے.میںیہ تو نہیں کہتا کہ شرکت کرنے والے جن حضرات کے نام میں نے آپ کو بتائے ہیں یہ اپنے اپنے حلقوں کی چوٹی کی شخصیتیں ہیں لیکن یہ ضرورجانتا ہوں کہ یہ حضرات کرام اپنے اپنے حلقہ کی چوٹی کی شخصیتوں میں سے ضرور ہیں. اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں. ان کے علاوہ بھی اپنے اپنے مقام و مرتبہ کے لحاظ سے پاکستان کے بہت سے علماء نے شرکت فرمائی.

ہندوستان سے مولاناو حید الدین خاں صاحب 
(۲مدظلہٗ دہلی سے تشریف لائے. بہت معروف شخصیت ہیں. آپ نے شاید نام سنا ہو. ان کو سیرت پر لکھی ہوئی ایک کتاب پر پچھلے سال ایک بڑا انعام ملا تھا. ہمارے صدر ضیاء الحق ہر سال سیرت پر جو فنکشن منعقد کرتے ہیں ‘ اس میں کتابوں پر انعام ملتے ہیں تو یہ عالمی سطح پر مقابلہ ہوتا ہے. اس میں انہیں انعام ملا تھا. طویل عرصہ سے ان کی زیر ادارت دہلی سے ماہنامہ ’’الرسالہ‘‘ نکلتا ہے جو دینی اور علمی حلقوں میں بہت معروف ہے حیدر آباد دکن سے دو علمی شخصیتیں تشریف لائیں.ان میں سے ایک صاحب تو آل انڈیا سطح پر ایک منصب کے حامل ہیں. قراء حضرات کی ایک آل انڈیا تنظیم ہے‘ اس کے وہ اعزازی معتمد اعلیٰ (سیکرٹری جنرل) ہیں. وہ ہیں حضرت مولانا قاری عبدالعلیم صاحب مدظلہ ٗ. وہ اس جمعہ میں بھی تشریف لائے ہوئے ہیں. میں اپنی تقریر کے بعد ان سے مختصر خطاب نیز خطبہ ٔ جمعہ ارشاد فرمانے اور صلوٰۃ جمعہ کی امامت کرنے کی درخواست کروں گا. دوسرے صاحب مولانا قاری قطب الدین علی چشتی مدظلہ ٗ ہیں جو حیدر آباد دکن کی ایک معروف علمی و دینی شخصیت ہیں. یہ دونوں حضرات کل ہی لاہور پہنچے ہیں (۳.حیدر آباد دکن سے تو یہ قریباً پونے دو ہزار میل کا سفر طے کر کے ۱۹؍مارچ ہی کو دہلی پہنچ گئے تھے لیکن پاکستان کا ویزا ملنے میں ان حضرات کو بڑی دشواریوں ‘ دقتوں اور پریشانیوں سے سابقہ پیش آیا. بہرحال یہ حضرات کل ۲۸؍مارچ کو لاہور پہنچ گئے اور کل ان حضرات نے محاضرات کو اپنے قیمتی خیالات سے مستفید فرمایا. (۱) مولانا موصوف مدظلہٗ نے بھی مفتی سیاح الدین کاکا خیل مدظلہ کے مطابق موقف اختیار کیا.(مرتب)

(۲) مولانا موصوف مدظلہ ٗ نے مولانا عبدالغفار حسن کے موقف کی تائید کی. (مرتب)

(۳) ان دونوں حضرات نے بھی ڈاکٹر صاحب کے موقف کی مکمل تائید فرمائی. (مرتب) 
ان محاضرات میں جن پچیس تیس علماء اور اہل علم و فضل حضرات نے اظہارِ خیال فرمایا ان میں سے چند حضرات کے نام میں نے پیش کیے ہیں . میرے لیے بڑا مشکل مسئلہ ہے کہ ان میں سے اور دوسرے حضرات میں سے کس کو صف ِاوّل کی شخصیتیں کہا جائے اور کن کو صف دوم کی شخصیتیں قرار دیا جائے. بہرحال میں اپنی معلومات اور ان حضرات کی اکثریت کو معروف ہونے کے اعتبار سے صف ِ اوّل کی شخصیات قرار دے رہا ہوں ان حضرات کی تشریف آوری اور اشتراک و تعاون کے اعتبار سے میرے نزدیک بہت بڑی کامیابی ہے. برصغیر پاک و ہند کا کوئی نمایاں مکتب ِ فکر ایسا نہیں ہے جس کے چوٹی کے علماء میں سے کوئی نہ کوئی شریک نہ ہوا ہو. پھر یہ کہ ان محاضرات میں جو سنجیدہ و باوقار فضا برقرار رہی وہ نہایت ہی خوش آئند‘ لائق تحسین اور قابل داد ہے. بعض مقررین نے بعض اعتبارات سے میری چند آراء سے کھل کر شدید اختلاف کیا ان پر شدید تنقیدیں کیں.

اب میری انجمن اور میری تنظیم کا جلسہ ہے‘ میری ہی صدارت میں محاضرات کی تمام نشستیں منعقد ہو رہی ہیں‘ شرکاء کی عظیم ترین اکثریت بھی میرے فکر سے اتفاق رکھنے والے اور میرے کاموں میں دامے درمے سخنے تعاون کرنے والوں پر مشتمل رہی ہے‘ لیکن سب نے ان اختلافات اور تنقیدوں کو بڑے صبر‘ سکون اور تحمل سے سنا اسی لیے تو میں نے ان محاضرات کا موضوع ’’قرآن کا تصور فرائض دینی‘‘ رکھا تھا تاکہ دوسرے اہل علم و فضل کے تائیدی اور اختلافی آراء اور ان کے دلائل ہم سب کے سامنے آ جائیں اور اگر واقعی ہم پر ہماری کوئی غلطی واضح ہو جائے تو اس کی اصلاح کی جا سکے. مجھے خوب معلوم تھا کہ بعض حضرات کی طرف سے اختلافی آراء آئیں گی اور تنقیدیں ہوں گی. اس موقع پر یہ انتقال ذہنی ہے کہ مجھے فوراً یاد آیا کہ قرآن مجید میں سورۂ ہود کی آیت ۱۱۸ کے آخر میں فرمایا: وَّ لَا یَزَالُوۡنَ مُخۡتَلِفِیۡنَ اور اگلی آیت کے درمیان میں فرمایا: وَلِذٰلِکَ خَلَقَھُمْ ط ’’لوگ اختلاف تو کرتے ہی رہیں گے‘‘ اور اسی لیے تو اللہ نے ان کو پیدا فرمایا ہے. یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا اس حکمت پر تخلیق فرمائی ہے کہ اس میں اختلاف ہے. شکلوں کا اختلاف ہے‘ رنگوں کا اختلاف ہے‘ زبانوں کا اختلاف ہے‘ مزاج کا اختلاف ہے‘ اندازِ فکر کا اختلاف ہے‘ آراء کا اختلاف ہے‘ تعبیر و استنباط کا اختلاف ہے. ؏ ’’ہر گلے را رنگ و بوئے دیگر است‘‘ والا معاملہ ہے. صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں بھی اختلاف تھا. کسی کا مزاج کچھ ہے‘ کسی کا دوسرا مزاج ہے. کوئی بالکل درویش منش ہے‘ کوئی کاروباری صلاحیت بہت رکھتا ہے. کوئی مردِ میدان بہت زیادہ ہے‘ بڑا شجاع‘ دلیر اور بہادر ہے. کوئی اعلیٰ پائے کا خطیب ہے. کسی کو ہم کہتے ہیں کہ وہ فقہائے صحابہؓ میں سے ہیں. ان کو دین و شریعت کا خصوصی فہم اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے. وہؓ قانون و قضا میں دور رس نگاہ رکھتے ہیں. کسی کو قراء ت قرآنِ مجید سے بہت زیادہ شغف ہے.کسی پر زہد کا انتہائی غلبہ ہے. کوئی تدبر‘ فراست میں یکتائے زمانہ ہے‘ انتظامی صلاحیتیں ان میں بے انتہا ہیں. تو ہر گلے را رنگ و بوئے دیگر است کا معاملہ تھا. وَلِذٰلِکَ خَلَقَھُمْ .اللہ نے بنا یاہی ایسا ہے. یہ گوناگونی‘ یہ بوقلمونی‘ یہ رنگا رنگی نہ ہو تو یہاں بڑی یکسانیت پیدا ہوجائے جس سے طبیعت اُکتا جائے. پھر یہ کہ اختلاف رائے سے اصلاح کی راہیں کھلتی ہیں. اخلاص و خلوص موجود ہو‘ ہٹ دھرمی اور ضد و انانیت نہ ہو تو اختلاف رحمت ثابت ہوتا ہے. معاملہ وہی ہے جو اس مصرع میں سامنے آتا ہے ؏ 
اے ذوق اس چمن کو ہے زیب اختلاف سے!

تو حقیقت یہ ہے کہ میں نے محاضرات میں یہ موضوع رکھا ہی اس لیے تھا کہ ہمارے اہل علم و فضل کی آراء سامنے آ جائیں تاکہ ان کی روشنی میں ہم اپنے فکر‘ اپنی دعوت‘ اپنے کام اور اپنی جدوجہد کے ہدف پر غور و فکر کر سکیں اور جو صحیح بات بھی دلائل کے ساتھ سامنے آئے ‘اسے قبول کر کے اصلاح کر سکیں.لہٰذا اختلافات سامنے آئے اور کھل کر سامنے آئے‘ لیکن قابل شکر بات یہ ہے کہ کوئی تلخی نہیں.میں نے اپنے ساتھیوں سے تاکیداً یہ کہہ دیا تھا کہ بالکل سامع بن کر بیٹھیں اور اختلافات و تنقیدات کو کھلے کانوں اور کھلے دماغوں سے سنیں‘ البتہ استفہام کے لیے کوئی سوال کرنا ہو تو اسے تحریری طور پر کر لیں. کوئی جرح‘ کوئی تنقید اور ان کو اپنی بات پڑھانے کی کوشش‘ اپنی بات منوانے کی سعی ‘ ان باتوں سے میں نے سختی سے اپنے ساتھیوں کو منع کر دیا تھا. سامعین میں صرف ہماری انجمن اور تنظیم کے رفقاء ہی نہیں تھے. دوسرے حضرات بھی تھے. بہرحال کسی نے اس نوع کے سوالات بھیجے بھی تو میں نے ان کو روک لیا. استفہامی نوعیت کے سوالوں میں سے بھی وقت کی کمی کی وجہ سے چند ہی سوالات متعلقہ مقرر کی خدمت میں پیش کیے گئے.

جو اہل علم و فضل حضرات ان محاضرات میں تشریف لائے ان میں سے متعدد حضرات نے علیٰ رؤس الاشہاد اس بات کا اعتراف کیا کہ برصغیر پاک و ہند کی جہاں تک معلوم تاریخ ہے اس میں یہ پہلا موقع ہے کہ اس نوع کی ایک مجلس ترتیب دی گئی اور اہل علم و فضل کو دعوت دی گئی کہ آیئے مجھے اور میرے ساتھیوں کو ہماری غلطیاں بتایئے. ہم سمجھنا چاہتے ہیں اللہ اور اس کے رسولکی طرف سے ہم پر دین کے جو فرائض اور تقاضے عاید ہوتے ہیں ہم ان کو جاننا 
ا چاہتے ہیں اور ان کو ادا کرنے کے لیے کمربستہ ہوئے ہیں. ہمیں کوئی شوقِ مجلس آرائی اور انجمن آرائی اور کوئی شوقِ سیادت و قیادت نہیں ہے. اللہ تعالیٰ ان سے ہمیں اپنی حفظ و امان میں رکھے اور ان سے بچائے اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ نہایت خوشگوار ماحول میں یہ چھ دن کے مسلسل محاضرات ہوئے.ایک لمحہ کے لیے بھی کسی طور پر بھی مناظرے کی کیفیت پیدا نہیں ہوئی میں نے تو پہلے ہی طے کر کے اعلان کر دیا تھا کہ میں اس گفتگو میں محض سامع بنا رہوں گا اور کسی اختلاف اور کسی رائے پر بھی اظہارِ خیال نہیں کروں گا.استفہامی سوال کے لیے میں نے اپنا حق رکھا تھا لیکن میں نے اس کو بھی استعمال نہیں کیا. البتہ صرف دو ضمنی مختصر سوالات کیے. اس سے زیادہ میں نے اس گفتگو میں کوئی حصہ نہیں لیا.

البتہ بعض علماء کے متعلق پوری مجلس نے یہ محسوس کیا کہ وہ تیاری کر کے نہیں آئے تھے. انہوں نے ایسے نکات پر جن پر کسی کو سرے سے اختلاف ہو ہی نہیں سکتا ایک وعظ کہہ دیا. اپنی جگہ درحقیقت وہ مواعظ بھی نہایت قیمتی تھے لیکن جس مقصد کے لیے یہ محاضرات منعقد کیے گئے تھے اس کے اعتبار سے وہ غیر متعلق تھے اور جو اصل نکتہ تھا جس میں اختلاف رائے کی گنجائش تھی اور جس کے متعلق رہنمائی مطلوب تھی‘ یعنی لزومِ اجتماعیت‘ اس کے تقاضے‘ ان کی انجام دہی کے لیے بیعت ہجرت و جہاد فی سبیل اللہ و سمع و طاعت فی المعروف پر مبنی خالص دینی جماعت کا قیام تو اس پر اظہارِ خیال سرے سے کیا ہی نہیں گیا. نہ ان کی تصویب و توثیق کے متعلق کچھ فرمایا گیا اور نہ ہی اس سے اختلاف کرتے ہوئے کتاب و سنت سے دلائل پیش کیے گئے. بایں ہمہ ان مواعظ ِحسنہ کو بھی جملہ شرکاء نے صبر و سکون اور توجہ سے سنا. میرے لیے یہ بات نہایت ہی اطمینان بخش ہے اور حقیقت یہ ہے کہ میں اس پر کتنا ہی اللہ کا شکر کروں ‘ شکر کا حق ادا نہیں ہوسکتا. بس اسی پر اکتفا کرتا ہوں 
فللّٰہ الحمد والمنۃ. 

میری اپنی سوچ اور اپنے فکر کے اعتبار سے ان محاضرات کی اہم ترین بات یہ ہے کہ میں نے محسوس نہیں کیا کہ کسی صاحب کی طرف سے کوئی بڑی بنیادی اختلافی بات محکم دلائل کے ساتھ آئی ہو اختلاف کی نوعیت عموماً یہ رہی ہے کہ بعض حضرات کے نزدیک جماعت یا تنظیم کے قیام سے بہت سے اندیشے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے. بعض ضروری احتیاطیں ہونی چاہئیں وغیرہ وغیرہ. بعض حضرات نے میری بعض ان تعبیرات سے شدید اختلاف کیا جن کے متعلق میں گزشتہ جمعہ کی اپنی تقریر میں پیشگی اعتراف کر چکا تھا کہ 
رواداری میں کچھ الفاظ ایسے استعمال ہو گئے ہیں کہ جن سے بعض حضرات کو مغالطہ ہوا ہے. مثلاً میں نے اس خط میں جو اہل علم و فضل کی خدمت میں بھیجا گیا تھا. یہ لکھا تھا کہ:

’’ آخر میں جناب سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ وہ اپنی گوناگوں مصروفیات اور تمام تر مشاغل کے باوجوداس کام کے لیے ضرور وقت نکالیں. اس لیے کہ کسی دینی خدمت و تحریک کی بروقت رہنمائی‘ خصوصاً جبکہ اُس کا محرک و داعی خود اس کے لیے مستدعی ہو‘ ایک اہم دینی فریضہ ہے! بصورت دیگر میں اپنے آپ کو یہ کہنے میں حق بجانب سمجھتا ہوں کہ میری جانب سے اللہ تعالیٰ کے حضور میں آپ پر حجت قائم ہو جائے گی کہ میں نے تو رہنمائی چاہی تھی جناب ہی نے توجہ نہیں فرمائی.‘‘

میرے خط کی عبارت کے اس حصے میں جو الفاظ آئے ہیں کہ ’’آپ پر ایک حجت قائم ہوجائے گی‘‘ ان کا مفہوم یہ سمجھا گیا کہ میں ا س طرح ان سے اپنی بیعت کرا کے تنظیم اسلامی میں شامل ہونے کی دعوت دے کر ’’حجت‘‘ قائم کررہا ہوں. حاشاوکلا میرا یہ مقصد ہرگز نہیں تھا. میں اسے اپنی کوتاہ قلمی اور اپنی تقصیر سمجھتا ہوں کہ ان الفاظ سے بعض حضرات نے یہ مفہوم اخذ کیا‘ میرا اس عبارت سے مقصود یہ تھا کہ مجھے یہ اندازہ تھا کہ علماء کرام آسانی سے میری دعوت قبول نہیں کریں گے تو میں نے ایک انتباہ کے طور پر لکھا تھا کہ وہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور تشریف لائیں. اس مفہوم و معنی میں مَیں نے لفظ حجت استعمال کیا تھا کہ دیکھئے کہ میں نے تو آپ سے ہدایت و رہنمائی چاہی تھی ‘ آپ نے نہیں دی تو اللہ تعالیٰ کے یہاں آپ جواب دہ ہوں گے. ایک تو وہ ہے جسے آپ ہدایت دینا چاہتے ہیں لیکن وہ سرتابی کرتا ہے اب دیکھئے وہی انتقالِ ذہنی والا معاملہ ہے. میرا ذہن سورۂ عبس کی ان آیات کی طرف منتقل ہوا: 
وَ اَمَّا مَنۡ جَآءَکَ یَسۡعٰی ۙ﴿۸﴾ وَ ہُوَ یَخۡشٰی ۙ﴿۹﴾فَاَنۡتَ عَنۡہُ تَلَہّٰی ﴿ۚ۱۰﴾ جوشخص چاہتا ہے کہ مجھے بتاؤ‘ میری جو غلطی ہے اس کی نشاندہی کرو‘ اب اس کے باوجود کوئی استغناء کا انداز اختیار کرتا ہے تو اس کے لیے جواز اور عذر پیش کرنے میں مشکل پیش آسکتی ہے. یہ دوسری بات ہے کہ کسی شرعی عذر کی بنا پر لاہور کا سفر کرنا یا تشریف لانا ممکن نہ ہو. توقع ہے کہ جن حضرات کو عبارت کے اس حصہ سے مغالطہ لاحق ہوا ہے ان کی غلط فہمی ان شاء اللہ اس وضاحت سے رفع ہو جائے گی. چند دوسری تعبیرات کی میں وضاحت آگے کروں گا‘ تین حضرات کے مجھے خطوط آئے ہیں کہ ہم تو تم سے اتنے بیزار ہیں کہ آنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں. ٹھیک ہے ایک مزاج ہے‘ افتادہے. باقی بعض اکابر علماء جو تشریف نہیں لاسکے ان کے نہایت عمدہ اور حوصلہ افزا خطوط آئے ہیں. ان میں جن جذبات کا اظہار کیا گیاوہ میرے لیے سرمایۂ زیست رہیں گے.

مولانا سعید احمد اکبر آبادی مدظلہٗ جو اس وقت بر صغیر کے چوٹی کے علماء میں سے ہیں‘ میں بلا خوفِ تردید اپنے تجربہ اور علم کے اعتبار سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ مولانا موصوف اپنی عمر‘ اپنے وسیع تجربے اور اپنے علم و فضل کی بنیاد پر واقعتا اس دور میں چوٹی کے عالم ہیں. وہ شخص جو کلکتہ کی قدیم اور معیاری درس گاہ مدرسہ عالیہ کا طویل عرصہ تک پرنسپل رہا ہو . وہ شخص جو علی گڑھ یونیورسٹی کا طویل عرصہ تک شعبۂ دینیات کا صدر رہا ہو. وہ شخص جو بے شمار نہایت اعلیٰ اور تحقیقی کتابوں کا مصنف ہے. میں نے اپنے زمانۂ طالب علمی میں ان کی بعض کتابیں پڑھی تھیں جن میں ’’حقیقت وحی‘‘ سے میں نے بہت استفادہ کیا تھا. آج تک میری لائبریری میں شاید وہ نسخہ موجود ہو جس کے بعض ابواب کو میں نے انڈر لائن کرکے پڑھا تھا جس طرح میں میڈیکل کی کتابیں پڑھا کرتا تھا. میری یہ عادت تھی کہ ضروری حصوں کو سرخ نیلی اور دوسری رنگوں کی پنسلوں سے انڈر لائن کیا کرتا تھا تاکہ حسب ضرورت ان میں ربط قائم کر سکوں اور جب کبھی موقع آئے تو صرف ایک نگاہ دوڑا کر رنگوں کے اختلاف سے مضمون کے نکات کو باہمی جوڑ کر نتیجہ نکال سکوں ‘ اسی انداز سے میں نے مولانا موصوف کی کتاب ــ’’حقیقت ِ وحی‘‘ کا مطالعہ کیا تھا. یہ ۱۹۵۲ ء کی بات ہے. وہ شخص اُس وقت اتنے اعلیٰ پائے کا مصنف تھا. ابھی سیرت عثمان رضی اللہ عنہ پر ان کی بڑی محققانہ اور ضخیم کتاب آئی ہے. انہوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے نہایت عرق ریزی او ر تحقیق سے سرکاری خطوط جمع کیے ہیں. سیرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاپر ان کی محققانہ تصنیف موجود ہے. پھر یہ کہ حضرت شیخ الہندؒ کے نام سے دارا لعلوم دیوبند میں ایک اکیڈمی قائم ہوئی ہے. اس کے وہ ڈائریکٹر ہیں ‘ وہ محاضرات میں بنفس نفیس تشریف لانا چاہتے تھے‘ وہ اس کے بڑے خواہش مند تھے کہ خود آکر میرے موقف کی کلی تائید فرمائیں. فی الوقت وہ کراچی میں مقیم ہیں. کافی علیل ہیں .ان کے معالجوں نے سفر کی ان کو بالکل اجازت نہیں دی تو ہمارے ایک رفیق ان کا پیغام ٹیپ کرا کے لے آئے تھے جس میں انہوں نے ہر پہلو سے تائید کی ہے‘ کسی پہلو سے تنقید نہیں کی. یہ ٹیپ محاضرات کے پہلے اجلاس میں سنایاگیا ‘ لہٰذا بتائیے کہ مولانا مدظلّہ‘ کی یہ تائید میرے لیے سرمایۂ زیست ہے یا نہیں؟

اسی طرح حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی مدظلّہ (جو بر صغیر پاک و ہندمیں علی میاں کے 
نام سے مشہور و معروف ہیں) وہ صرف بر صغیر ہی کے نہیں بلکہ عالمی شہرت کے عالم اور مفکر تسلیم کیے جاتے ہیں. عالم عرب میں وہ جتنے محبوب ومقبول ہیں اس کا کسی کو اندازہ ہو ہی نہیں سکتا. عرب مولاناکی عربی زبان کی تحریر و تقریر سے چٹخارے لیتے ہیں. ان کی تحریر و تقریر اتنی اعلیٰ عربی میں ہوتی ہے کہ عرب جو اہل زبان ہیں اس کو لوہا مانتے ہیں. ان کے ہاں گنتی کے لوگ ہوں گے جو علی میاں مدظلّہ‘ کے پائے کی عربی لکھ اور بول سکتے ہوں. ان کا خط بھی بڑا حوصلہ افزا آیا ہے. ایسے جملے بھی ہیں‘ جن کو میں یہاں نقل بھی نہیں کرسکتا. اسی طرح حضرت مولانا گوہر رحمن مدظلّہ‘ نے اپنے مکتوب گرامی میں اس عاجز کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے اور جہاد بالقرآن کی تحسین و تائید فرمائی ہے. نیز قومی اسمبلی کے اجلاس کی وجہ سے عدم شرکت پر معذرت کی ہے.

یہ سب کچھ عرض کرنے کی غایت یہ ہے کہ مجھے توقع ہے کہ یہ محاضرات ان شاء اللہ ہماری دعوت کے لیے سنگ میل ثابت ہوں گے. اللہ کی نصرت و تائید کے بھروسے پر جس چھوٹی سی دینی خدمت کا میں نے آغاز کیا تھا‘ اس پر بہرحال بیس سال بیت گئے ہیں. اب تھوڑا وقت باقی ہے لیکن انسان کی یہ کمزوری ہے کہ اس نے جو کام شروع کیا ہو وہ چاہتا ہے کہ اسے پھلتا اور پھولتا دیکھے. پھل لاتا ہوا دیکھے. اگرچہ سورۃ الصف میں ایک عجیب نکتہ آیا ہے. فرمایا گیا ہے: 
وَاُخْرٰی تُحِبُّوْنَھَا ۱ نَصْرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌ ۱ ایک چیز تمہیں بڑی محبوب ہے کہ فتح ہو‘ کامیابی ہو‘ نتائج نکلیں اور تمہیں اپنے لگائے ہوئے پودے درخت بنتے اور برگ و بار لاتے نظر آئیں یہ تمہیں پسند ہے. اللہ کو تو اس سے غرض ہی نہیں. اللہ کو یہ کرنا ہو تو آنِ واحد میں کردے. اللہ تو تمہارا امتحان لینا چاہتا ہے کہ تم اس کے دین کے غلبہ کے لیے اپنا تن من دھن لگاتے ہو یا نہیں! اللہ کی نگاہ میں تو وقعت آخرت کی کامیابی کی ہے‘ اس کامیابی کی ہے ہی نہیں. یہ تو اونچ نیچ ہے جو ہوتی ہی رہتی ہے: وَ تِلۡکَ الۡاَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیۡنَ النَّاسِ (آل عمران:۱۴۰‘ ’’وَاُخْرٰی تُحِبُّوْنَھَا‘‘ . میں ایک نوع کی تعریض ہے کہ تمہاری نگاہ میں اس کی بڑی اہمیت ہوگی‘ ہماری نگاہ میں تو اسے پرکاہ کے برابر بھی وقعت نہیں ہے. ہمارا معاملہ تو یہ ہے کہ ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ کون ؏ ’’شمع سودائی دل سوزیٔ پروانہ ہے‘‘جو ہمارے دین کے لیے اپنا سب کچھ لگا دے وہ کامیاب ہے. چاہے ایک قدم ہی چل پایا ہو کہ موت نے آلیا ہو گویا پہلے ہی قدم پر شہادت قدم چوم لے.

اس پہلو سے یہ ہماری کمزوری ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری نگاہوں کے سامنے ہمارا 
کام بڑھے‘ پھیلے ‘پھلے پھولے‘ نتائج نکلیں. میں نے بہر حال اپنی جوانی اور کسی شخص کی عمر کا جو بھی بہترین حصہ ہوتا ہے وہ اس کام میں لگایا ہے. اس لیے فطری خواہش ہے کہ یہ کام پائیداربنیادوں پر آگے بڑھے. دعوتِ قرآنی بھی آگے بڑھے اور اقامتِ دین کی جدو جہد بھی صحیح صحیح رخ پر علیٰ منہاج النبوۃ نبی اکرم  کے نقوش پائے مبارک کو سامنے رکھتے ہوئے آگے بڑھے. باقی رہا یہ کہ کون کہاں تک پہنچے گا اور کس منزل تک یہ جدو جہد پہنچے گی یہ کسی کو معلوم نہیں. جب قرآن میں خود حضورسے فرمایا گیاکہ اے نبیؐ ! آپ کہہ دیجیے: وَ مَاۤ اَدۡرِیۡ مَا یُفۡعَلُ بِیۡ وَ لَا بِکُمۡ (الاحقاف:۹’’ مجھے کچھ پتا نہیں میرا کیا بنے گا اور تمہارا کیابنے گا!‘‘ اور وَاِنْ اَدْرِیْٓ اَقَرِیْبٌ اَمْ بَعِیْدٌ مَّا تُوْعَدُوْنَE (الحج) ’’مجھے کچھ پتا نہیں جس عذاب کی تمہیں دھمکی دی جارہی ہے وہ آیا سر پر آن کھڑا ہے یا ابھی کچھ مہلت ہے‘‘ مجھے کچھ معلوم نہیں ہے تو ہمیں کیا پتا! ؏ ’’گہے بر پشت پائے خود نہ بینیم‘‘. انسان کا حال تو یہ ہے کہ وہ کبھی خود اپنے پیر کی پشت پر رکھی ہوئی چیزکو نہیں دیکھ پاتا‘ جسے ہم کہتے ہیں کہ ناک تلے کی شے نظر نہیں آتی. دعویٰ وہ یہ کرتا پھر تا ہے کہ میں یہ دیکھ رہا ہوں وہ دیکھ رہا ہوں‘ اور یہ مستقبل ہے. البتہ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ قرائن وموجود شواہد سے انسان پیش آنے والے واقعات و حالات کا صحیح اندازہ لگا لیتا ہے جسے علامہ اقبال نے یوں تعبیر کیا ہے ع ’’گاہ مری نگاہِ تیز چیر گئی دلِ وجود ‘‘ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے اللہ تعالیٰ مستقبل کی کوئی جھلک دکھاتا ہے اور جیسے علامہ نے کہا ہے ؎

آب روانِ کبیر تیرے کنارے کوئی 
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کے خواب!

اور یہ کہ ؎

پردہ اٹھادوں ا گر چہرۂ افکار سے
لا نہ سکے گا فرنگ میری نوائوں کی تاب!

یہ دونوں کیفیات ہوتی ہیں. بہر حال میرے لیے یہ بات بہت ہی موجب اطمینان ہے کہ جو کام میں نے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اسی کی تائید و نصرت کے بھروسہ پر شروع کیا تھا اس سمت میں رفتہ رفتہ ہمارے قدم آگے بڑھ رہے ہیں 
. فَلِلّٰہِ الْحَمْد والمنۃ! 

میں نے آج کے لیے جو موضوع اپنے سامنے رکھا تھا اس پر گفتگو کا موقع ہی نہیں آیا اور 
کافی وقت محاضراتِ قرآنی کے متعلق تاثرات کے بیان میں صرف ہوگیا ان ہی محاضرات میں ایک بزرگ‘ مظفر آباد آزاد کشمیر سے تشریف لائے تھے جن کا نام نامی ہے مولانا سید مظفر حسین ندوی مجھے ان کے متعلق یہ اندازہ تو تھا کہ بہت خاموش طبع‘ بہت شریف النفس اور بہت نیک انسان ہیں. اس مرتبہ جب وہ ہمارے ساتھ پانچ چھ دن رہے تو اندازہ ہوا کہ صاحب دل شخصیت بھی ہیں ان کو دو اطراف سے فیض بھی پہنچا ہے اور اسی اعتبار سے ان کو دو اطراف سے ذہنی مناسبت بھی ہے. وہ جب ندوہ (لکھنؤ) میں زیر تعلیم تھے تو مولانا سید ابو الحسن علی میاں مدظلہ‘ اور مولانا مسعود عالم ندوی ؒ دونوں ان کے استاد تھے. مولانا علی میاں ندوی حنفی ٔالمسلک ہیں اور مولانا مسعود عالم ندویؒ سلفی ٔالمسلک یعنی اہل حدیث تھے. مولانا علی میاں بھی اگرچہ جماعت اسلامی کے ابتدائی دور میں اس میں شریک ہوئے تھے لیکن بہت جلد چند اختلافات اور کچھ چیزوں سے مایوس و بددل ہو کر علیحدہ ہوگئے تھے. یہ ۱۹۴۳ء کا زمانہ تھا. اس کے بعد ان کا زیادہ وقت تبلیغی جماعت کے ساتھ گزرا ہے. جبکہ مولانا مسعود عالم ندویؒ جب جماعت میں آئے تو تادمِ واپسیں جماعت ہی میں رہے. عالم عرب میںمولانا مودودی مرحوم کو متعارف کرانے والے یہی ہیں.

مولانا مودودی کی کتابوں کا عربی میں ترجمہ کرنے اور ان کو عرب میں پھیلانے کا ابتدائی کام مولانا مسعود عالم ندویؒ ہی نے سرانجام دیا ہے. وہ بھی ندوہ کے صاحب قلم تھے اور اپنے عربی مضامین کے باعث جو وہاں عربی رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہتے تھے ایک معروف عربی انشا پرداز کی حیثیت سے کافی معروف و مشہور تھے. یہ مولانا سید مظفر حسین ندوی مدظلہ‘ ان دونوں کے شاگرد ہیں. لہٰذا دونوں کے مزاج ایک حسین توازن کے ساتھ ان میں جمع ہیں. ان کو میں مجمع البحرین اگر کہوں تو بالکل درست ہوگا. ایک طرف ان میں حنفیت بھی ہے دوسری طرف اس میں سختی و تشدد کے بجائے توسع ہے. بڑی وسعتِ قلبی ہے. پھریہ کہ ان کا ایک انقلابی مزاج بھی ہے جو ابتدائی دور میں جماعت اسلامی کا تھا اور تبلیغی جماعت کا تقویٰ‘ تدین‘ دھیما پن بھی ان کی طبیعت کا ایک جزو ہے. مزید یہ کہ ۱۹۴۷ء میں جوجہاد کشمیر میں ہوا تھا تو جہاں تک میرا گمان ہے وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اس کاآغاز کیا تھا. اس کی تحریک کرنے والے وہی ہیں.انہوں نے ہی لوگوں کو اس مقصد کے لیے جمع اور آمادہ کیا تھا. بہر حال اس جہاد کی نمایاں ترین شخصیت وہ رہے ہیں. اس میں تو کوئی شک نہیں ‘ البتہ میں اس کی تحقیق کروں گا کہ اس کی تحریک کرنے والے وہی ہیں یا کوئی اور! سید مظفر حسین صاحب نے محاضرات میں جو تقریر کی اس کے آخر میں انہوں نے مـحاضرات کے موضوع کے بارے میں تو ایک جملہ کہا کہ مجھے پوری چیز سے اتفاق ہے. یہ جملہ ہی بہت قیمتی ہے. البتہ انہوں نے اپنی تقریر میں جو اہم بات فرمائی وہ میں ان ہی کے حوالے سے آپ کے سامنے بیان کرنا چاہتا ہوں دیکھئے ایک تو وہ نقطہ ٔنظر ہے جو بحیثیت ایک مخلص پاکستانی ہم میں سے ہر ایک کا ہونا چاہیے . اور ایک وہ نقطۂ نظر ہے جو ہمارا مومن و مسلم کی حیثیت سے ہونا چاہیے . ان دونوں نقطہ ہائے نظر سے ہمارے عمل میں مضبوطی اور پختگی آئے گی انہوں نے یہ بات بایں الفاظ نہیں کہی ہے. لیکن اس کا جو مفہوم میں نے سمجھا ہے اُسے اپنے الفاظ میں بیان کررہا ہوں ہمارا خالص مادہ پرستانہ نقطہ ٔنظر بھی اگر ہو کہ یہ پاکستان ہمارا ملک ہے‘ ہمارا وطن ہے.

اسے مشرق و مغرب سے خطرات لاحق ہیں. ہمارے دشمنوں کے بڑے مضبوط حلقے (lobbies) ہمارے ملک کے اندر موجود ہیں. تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد یہاں ہنگامے ہوتے رہے ہیں. کبھی لسانی فسادات ہوگئے. جیسے کہ بھٹو کے دور میں سندھ میں ہوگئے اور اس موقع پر اندیشہ لاحق ہوا تھا کہ پتا نہیں اب یہ کشتی اس گرداب سے نکل سکے گی یا نہیں؟ کبھی کبھی سنی شیعہ فسادات ایک ہولناک صورت اختیار کرلیتے ہیں. فی الوقت قادیانیوں کا جارحانہ انداز امن و امان کے نقض کا موجب بن سکتا ہے. اب ذہنوں میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس ملک کی بقا کے لیے‘ اس کے استحکام کے لیے کوئی سہل نسخہ بھی ہے یانہیں! ٹھیک ہے طویل نسخے موجود ہیں: وَ اَعِدُّوۡا لَہُمۡ مَّا اسۡتَطَعۡتُمْۡ (الانفال:۶۰. تیاری جاری رکھو. جتنی بھی امکان میں ہے. اتحاد پیدا کرو. جو بھی اپنے ranks کے اندر اختلافات ہیں انہیں دور کرو. یکجہتی پیدا کرو. علاقائی سطح پر انصاف کا معاملہ ہو. لوگوں کو ان کے جائز حقوق دیے جائیں تاکہ انہیں اطمینان ہو. وہ احساس محرومی میں مبتلا نہ ہوں. پھر یہ کہ اگر خارج میں ہمارے کچھ دشمن ہیں تو خارجہ پالیسی کے تحت کچھ دوست بھی تلاش کیے جائیں. ان میں سے کسی چیز سے بھی اختلاف نہیں ہے لیکن یہ وہ امور ہیں کہ خالص مادہ پرستانہ اور لادینی نقطۂ نظر رکھنے والے ذہن کا آدمی بھی ان کے متعلق سوچے گا. دشمنوں کے مقابلہ میں دوستوں کی تلاش‘ ان سے معاہدے‘ اگر معاہدے نہ ہوں تو کوئی اطمینان ہو. یہ باتیں تو ہر شخص سوچے گا. اسلحہ جمع کرنے کے متعلق ہر ملک سوچے گا کہ کتنا ہم خود بنا سکتے ہیں اور کتنا دوسروں سے لے سکتے ہیں اور وہ کہاں سے مل سکتا ہے‘ کہاں سے نہیں مل سکتا. یہ سوچیں تو ہر محب وطن کی ہوں گی خواہ وہ مومن و مسلم ہو یا کافرہو لیکن سید صاحب موصوف نے دو آیات کے حوالے سے اس کا آسان ترین نسخہ بتایا ہے جس کے مؤثر ہونے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے جو تیر بہدف (sure shot) ہے. اس نسخہ کا پہلا جزو تو سورۂ محمد کی آیت ۷ میں ہے: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ تَنۡصُرُوا اللّٰہَ یَنۡصُرۡکُمۡ ’’اے اہل ایمان اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا ‘‘. تو یہ اس نسخہ کا پہلا جزو ہے تم اللہ کی مدد کرو اللہ تمہاری مدد کرے گا. اب حدیث میں اس انداز کی بہت سے باتیں آئی ہیں. فرمایا گیا کہ اگر تم تمام تفکرات کو ایک فکر میں مدغم کرو مجھے اس مدغم کے لفظ سے ایک تاریخی واقعہ یادآیا. مغل بادشاہ محمد شاہ رنگیلا کے دور میں جب ایران کا نادر شاہ علاقوں پر علاقے فتح کرتے ہوئے دہلی کی طرف بڑھ رہا تھا تو علاقہ کے ذمہ دار پرچے پر پرچے بھیج رہے تھے کہ بادشاہ سلامت کچھ کیجیے‘ دشمن منزل بمنزل دارالحکومت کی طرف بڑھتا چلاآرہا ہے. لیکن شاہ صاحب کی جو رنگ رنگیلی محفلیں جما کرتی تھیں‘ شراب نوشی ہوتی رہتی تھی. لہٰذا شاہ کی طبع پر ان پرچوں کا پڑھنا بھی گراں گزرتا تھا تو جو رقعہ آتا تھا اسے وہ بغیر پڑھے شراب کے جام میں پھاڑ کر ڈال دیتے تھے کہ ؏ 
ایں دفتر بے معنی غرق مئے ناب اولیٰ!

یہ انداز مطلوب ہے کہ دنیا کے تمام تفکرات کو غرق کردو ایک فکر میں اور وہ فکر آخرت ہے. اس کا نتیجہ کیا نکلے گا وہ ارشادِ نبوی علی صاحبہ الصلوٰۃ والسلام کے حوالہ سے ذہن نشین کرلیجئے. فرمایا الصادق والمصدوق نے: 
مَنْ جَعَلَ الْھُمُوْمَ ھَمًّا وَّاحِدًا ھَمَّ آخِرَتِہٖ کَفَاہُ اللّٰہُ ھَمَّ دُنْیَاہُ ’’جس شخص نے اپنے تمام تفکرات کو بس ایک ہی فکر یعنی اپنی آخرت کی فکر میں سمو دیا تو اللہ ذمہ لیتا ہے اُس شخص کے تمام دنیا کے تفکرات کو دور کرنے کا‘‘ بتائیے کہ اس سے زیادہ آسان نسخہ کوئی ہے؟ بس اس کے لیے تھوڑے سے ایمانِ حقیقی کی ضرورت ہے. اگر وہ تھوڑا سا واقعی یقین کہیں سے میسر آجائے ؎

یقیں پیدا کر اے ناداں یقیں سے ہاتھ آتی ہے
وہ درویشی کہ جس کے سامنے جھکتی ہے فغفوری

یہ یقین ہے اصل مسئلہ . اسی طریقہ سے ایک طویل حدیث کے درمیان میں آتا ہے: 
مَنْ کَانَ فِیْ حَاجَۃِ اَخِیْہِ کَانَ اللّٰہُ فِیْ حَاجَتِہٖ ’’جو شخص اپنے کسی بھائی کی ضرورت پوری کرنے میں لگا ہوا ہے‘ اللہ اس کی ضرورت پوری کرنے میں لگ جاتا ہے‘‘. اب آپ بتائیے کہ جو ایک انسان اپنے ایک بھائی کی ضرورت پوری کرنے میں لگا ہوا ہے‘ اللہ کی نگاہ میں اس کی اتنی قدر ہے کہ اس کی ضرورت خود وہ پوری فرماتا ہے تواگر اللہ کے دین کی ضرورت کوئی پوری کررہا ہو تو اس کے ساتھ اللہ کا معاملہ کیا ہوگا! یہ ہے انداز اس آیت کریمہ کا: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ تَنۡصُرُوا اللّٰہَ یَنۡصُرۡکُمۡ وَ یُثَبِّتۡ اَقۡدَامَکُمۡ ﴿۷﴾ ’’اے اہل ایمان! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جما دے گا‘‘. پھر تمہارے قدموں میں کوئی لغزش نہیں ہوگی‘ تم ثابت قدم رہو گے تو یہ ہے اس نسخہ کا جزو اوّل

دوسرا جزو کیا ہے؟ اسے سورۂ آل عمران کی آیت ۱۶۰ سے سمجھئے. فرمایا: اِنۡ یَّنۡصُرۡکُمُ اللّٰہُ فَلَا غَالِبَ لَکُمۡ ۚ ’’اگر اللہ تمہاری مدد کرے گا تو کوئی تم پرغالب نہیں آسکے گا‘‘. یہ بڑی یقین دہانی والی بات ہے. جس کا پشت پناہ اللہ بن گیا ہو‘ جس کا مددگار اللہ ہو تو اب کیا کوئی اللہ پر غالب آسکتا ہے؟ لیکن یہاں ایک دھمکی بھی ہے: وَاِنْ یَّخْذُلْـکُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِیْ یَنْصُرُکُمْ مِنْ بَعْدِہٖ .ہوش میں آؤ ’’اگر اللہ ہی تمہارا ساتھ چھوڑ دے تو کون ہے وہ جو تمہاری مدد کرسکے اس کے بعد‘‘ امریکہ بچالے گا! میزائل بچالیں گے! اسلحہ بچا لے گا! اگر اللہ نے چھوڑ دیا تو کوئی بچانے والا نہیں. نہ کثرت تعداد بچاتی ہے. نہ کوئی اور مادی شے بچاتی ہے. جنگ حنین میں بارہ ہزار مسلمان تھے‘ لیکن ابتدا میں شکست ہوئی: وَّ یَوۡمَ حُنَیۡنٍ ۙ اِذۡ اَعۡجَبَتۡکُمۡ کَثۡرَتُکُم (التوبۃ:۲۵). حنین میں جنگ کے دن تمہیں اپنی کثرت پر ناز ہو گیا تھا. نتیجہ دیکھ لیا! اس بات کو جان لیجیے کہ اللہ تعالیٰ کفار کے ساتھ خالص مادّی سطح پر معاملہ کرتا ہے. اگر ان کی آپس کی جنگ ہے تو ان کا معاملہ تو حساب کتاب سے ہوگا. اسباب و وسائل کی کمی بیشی فیصلہ کن ہوگی. مسلمان کا معاملہ بالکل مختلف ہے. اس کے ساتھ معاملہ کے اللہ تعالیٰ کے معیارات بالکل جدا ہیں. یہ معیار معلوم کرنا ہے تو حضرت طالوت کا جالوت جیسے باجبروت اور عسکری لحاظ سے نہایت مضبوط لشکر سے مقابلہ کا انجام دیکھو. جہاں ان مؤمنین کا یہ قول قرآن مجید نے نقل کیا ہے جن کو یقین تھا کہ مرنے کے بعداللہ کے حضور میں حاضر ہونا ہے: کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیرَۃًم بِاِذْنِ اللّٰہِط وَاللّٰہُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَo (البقرۃ) ’’بار ہا تھوڑی جماعت غالب ہوئی ہے بڑی جماعت پر اللہ کے حکم سے ‘اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘ یہ معیار معلوم کرنا ہے تو معرکہ ٔبدر دیکھو جسے اللہ تعالیٰ نے یوم الفرقان قرار دیا ہے. حق و باطل کے درمیان امتیاز کرنے والادن. جس روز اللہ تعالیٰ کی مدد سے تین سو تیرہ بے سرو سامان مؤمنین صادقین ایک ہزار کفار کے لشکر پر غالب آئے جو ہر طرح کے ہتھیاروں اور کیل کانٹوں سے لیس اور مسلح تھے. 

ہم مؤمنین صادقین اور کفار کے معاملہ کے تناسب کو دنیوی معیارات سے گڈمڈ کرتے ہیں اور اصل صورت حال یہ ہے کہ عام طور پر ہم اپنے معاملات کو ان معیارات پر سوچنے کے عادی ہوگئے ہیں جو اللہ کے پیمانے اور معیارات کفار کے لیے ہیں. مسلمان کا معاملہ بالکل مختلف ہے. ان سے تو مستقل وعدہ ہے کہ: 
وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ’ ’تم ہی غالب و سربلند رہو گے‘‘. لیکن یہ وعدہ مشروط ہے اس سے کہ :اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ’’بشرطیکہ تم مؤمن ہو‘‘ یعنی سر بلندی اور غلبہ کے لیے مؤمن صادق ہونا لازمی شرط ہے وہ بھی فرداً فرداً نہیں بلکہ جماعتی اور منظم طور پر.علامہ اقبال نے اسی بات کو یوں کہا ہے ؎

فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اُتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی!

تو سید مظفر حسین ندوی مدظلہٗ نے یہ نسخہ تجویز فرمایا کہ اگر ہم بحیثیت قوم و ملت اللہ کے دین کے حامی اور مددگار بن جائیں اور اسے اپنے ملک میں مخلصانہ جذبہ کے ساتھ صحیح خطوط پر قائم کرنے میں کامیاب ہوجائیں. انفرادی طور پر خود بھی حقیقی مؤمن بن جائیں اور اجتماعی نظام کو بھی کتاب و سنت کی تعلیمات کے مطابق استوار کرکے قائم و نافذ کردیں تو ان شاء اللہ ہمارے ساتھ معاملہ وہ ہوگا جس کی بشارت ان آیات میں دی گئی ہے : 
اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ اور اِنْ یَّنْصُرْکُمُ اللّٰہُ فَلَا غَالِبَ لَـکُمْ ج اصل میں یہ باتیں تو بالکل سامنے کی ہیں ‘دو اور دوچار کی نوعیت کی ہیں. متعدد بار یہ مضمون اس انداز میں بیان بھی ہوا ہوگا‘ لیکن انہوں نے جس پُر تاثیر انداز سے بیان کی اس کی شان ہی نرالی تھی. مجھے اس موقع پر ایک واقعہ یاد آیا. یہ واقعہ ہے کوئی کہانی نہیں ہے کہ امیر افغانستان کی والدہ شدید بیمار تھیں. مقامی اطباء حکماء بالکل مایوس ہوچکے تو علاج کے لیے حکیم اجمل خاں مرحوم کو دہلی سے بلایاگیا. حکیم صاحب نے دیکھا بھالا اورپھر نسخہ لکھوانا شروع کیا تو امیر کابل نے کہا کہ یہ ساری دوائیاں تو ہم استعمال کرا چکے ہیں. اس پر حکیم اجمل خاں صاحب نے جواب دیا کہ ’’بدست اجمل خان بخور!‘‘ یہ دوائیاں اب اجمل خاں کے ہاتھ سے کھلاؤ .تو دوائیوں کا معاملہ اپنی جگہ ہے. لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کس کے ہاتھ سے اور کس کی تجویز اور کس کے نسخے سے وہ دوائی کھلائی جارہی ہے. اس میں بڑا فرق ہے تو میں نے محسوس کیا کہ سید صاحب مدظلہ نے جس طرح دل اور جذبے میں ڈوب کر یہ بات کہی ہے اور جس یقین کے ساتھ کہی ہے. یہ قال نہیں حال معلوم ہوتا تھا. اس کا میرے دل پر گہرا اثر ہوا اور اسی وقت میں نے یہ طے کرلیاتھا کہ ان کی بات انہی کے حوالے سے جمعہ کی اجتماع میں اپنے الفاظ میں آپ حضرات کو منتقل کروں گا. 

اب اس مضمون کو تھوڑا سا اور آگے بڑھائیے. نبی اکرم کی نصرت کا خاص طور پر قرآن مجید میں دو جگہ ذکر آیا ہے. ایک جگہ مثبت انداز میں اور ایک جگہ منفی اسلوب سے مثبت والے انداز کی جوآیت ہے وہ تو ہمارے ایک کتابچے کی اساس و بنیاد ہے. وہ سورۃ الاعراف کی آیت ۱۵۷ کے آخری جزو پر مشتمل ہے جس میں نبی اکرم  سے ہمارے تعلق کی بنیادیں‘ اللہ تعالیٰ نے چار الفاظ کے حوالے سے معین فرمائی ہیں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بتا دیا تھا کہ جب میرے الرسول النبی الامی مبعوث ہوں گے تو میری ایک رحمت ِ خاص ہے وہ میں نے محفوظ 
(reserve) کی ہوئی ہے. وہ ان لوگوں کے لیے مخصوص ہے جو ہمارے اس الرسول النبی الامّی کے ساتھ یہ معاملہ کریں گے. وہ اُس رحمت کے حق دار ہوں گے وہ کیا معاملہ ہے! اسے ان الفاظ مبارکہ میں بیان کیا: فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَعَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْ اُنْزِلَ مَعَہٗ لا اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَA (الاعراف) پس جو لوگ ان پر ایمان لائیں گے اور ان کی تعظیم و توقیر‘ عزت و احترام کریں گے اور ان کی نصرت و مدد کریں گے اور اس نور کا اتباع کریں گے جو ان کے ساتھ نازل کیا جائے گا تو کامل فلاح ان ہی کے لیے ہے. یہاں ’’النُّوَرَ الَّذِیْ اُنْزِلَ مَعَہٗ‘‘ سے مراد قرآن مجید ہے. اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے .بہرحال اس موضوع کو جو حضرات تفصیل سے سمجھنا چاہیں ان کو میں اس موضوع پر اس کتابچہ کے مطالعہ کرنے کی دعوت دوں گا (۱تو یہاں مثبت انداز میں فرمایا گیا کہ اگر تم فلاح و کامیابی چاہتے ہو تو اس کی چار شرائط ہیں: حضور پر ایمان‘ حضورؐ کی تعظیم‘ حضورؐ کی نصرت اور قرآنِ حکیم کا اتباع اب غور طلب بات یہ ہے کہ حضور  کی نصرت و مدد سے کیا مراد ہے؟ کیا حضورؐ کو اپنی کسی ذاتی ضرورت کے لیے مدد درکار تھی! کیا آپؐ کو اپنے کسیگھریلومشکل کے حل کے لیے مدد درکار تھی.

کیا آپؐ نے اپنی پوری زندگی میں اپنی مالی مدد کے لیے دست سوال دراز کیا! میرے لیے آنسو ضبط کرنا مشکل ہوجاتا (۱) ’’نبی اکرم سے ہمارے تعلق کی بنیادیں ‘‘ کے نام سے یہ کتابچہ مطبوعہ شکل میں موجود ہے. (مرتب) ہے اس واقعہ پر جب بھی اس کا تصور آجاتا ہے کہ جو معاملہ حضور نے حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ کیا. ان سے زیادہ جگری اور کون ہوگا جن کے متعلق فرمایا: لَوْکُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِیْلًا لَا تَّخَذْتُ اَبَابَکْرٍ خَلِیْلًا حضور تو یہاں ایک باہمہ اور بے ہمہ شخص کا نقشہ پیش فرمارہے ہیں. اس دنیا میں خلیل میرا کوئی نہیں فرماتے ہیں کہ ’’اگر میں کسی کو اس دنیا میں خلیل بناتا تو ابو بکر کوبناتا‘‘ میرا خلیل صرف اللہ ہے. یہ دوسری بات ہے کہ حضور کے اندر محبت اور شفقت اتنی بے پایاں تھی کہ ہر صحابی محسوس کرتا تھا کہ حضور میرے خلیل ہیں. یہ تو ظرف و حسن سلوک کا معاملہ ہے کہ ہر شخص یہ محسوس کرتا تھا کہ شاید آپ کی نظر عنایت و التفات مجھ ہی پر ہے. حضرت ابو ذرغفاری رضی اللہ عنہ تو حدیث ہی ان الفاظ سے روایت کرتے ہیں: اَوْصَانِیْ خَلِیْلِیْ ’’میرے دوست‘ میرے خلیل نے مجھے یہ وصیت کی تھی‘‘ تو جس واقعہ کا میں ذکر کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ مکہ میں مشرکین نے فیصلہ کرلیا تھا کہ بنی ہاشم کے علاوہ قریش کے تمام خاندان کے چند نوجوان رات کو چھپ کر حملہ کریں گے اور یکبارگی حضورؐکو شہید کردیں گے تاکہ بنی ہاشم کسی ایک خاندان کو موردِ الزام نہ ٹھہراسکیں. حضورؐ کو اس سازش کا علم ہوگیا تھا لیکن اللہ کے اذن کے بغیر نبی اپنا شہر چھوڑ نہیں سکتا. لہٰذا حضورؐ بھی ہجرت کے حکم کا انتظار کر رہے ہیں اور ابوبکرؓ بھی منتظر ہیں حالات روز بروز مخدوش ہوتے جارہے تھے.

حضرت ابوبکرؓ کو تشویش لاحق تھی کہ کہیں مشرکین مکہ یہ آخری اقدام نہ کر بیٹھیں. لہٰذا وہ کافی بے چین تھے اور حضورؐ سے بار بار پوچھتے تھے کہ اجازت آئی یا نہیں اور حضورؐ جواب میں فرماتے کہ ابھی اجازت نہیں آئی ایک دن دوپہر کے وقت نبی اکرم حضرت ابوبکرؓ کے مکان پر تشریف لائے .اس طرح دوپہر کے بعد کسی کے گھر جاناعرب کے تمدن اور روایات کے اعتبار سے ایک غیر معمولی بات تھی. حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکی روایت ہے کہ حضورؐ دوپہر کے غیر معمولی وقت ہمارے گھر تشریف لائے اور آتے ہی والد صاحب سے فرمایا کہ خاص بات ہے تخلیہ کرادو. حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ حضورؐ آپ کی اہلیہ عائشہؓ کے سواکوئی اورہے ہی نہیں اس وقت تک حضرت عائشہؓ آپؐ کے نکاح میں آچکی تھیں حضورؐ نے فرمایا ہجرت کی اجازت آگئی ہے. اب حضرت ابوبکرؓ کی خوشی کی جو کیفیت ہوگی اس کا آپ اندازہ کر لیجیے کہ انہوں نے حضورؐ کو بتائے بغیر دو اونٹنیاں خوب کھلا پلا کر تیار کی ہوئی تھیں.اونٹ کا یہ معاملہ ہے کہ اگر اسے خوب کھلایا پلایا جائے تو اس کے اندر قوت جمع (energy store) ہوجایا کرتی ہے. دور دراز کا سفر ہے. پھر تعاقب کا بھی اندیشہ ہے لہٰذا حضرت ابوبکر ؓ نے دو تیز رفتار اونٹنیاں خوب فربہ کر رکھی تھیں. لہٰذا بڑے مسرت کے اندا ز میں عرض کرتے ہیں کہ حضورؐ میں نے دو اونٹنیاں تیار کر رکھی ہیں اب ہے وہ مرحلہ حضورؐ تھوڑی دیر توقف فرماکر ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’ٹھیک ہے ایک اونٹنی میں استعمال کروں گا اور میں اس کی قیمت ادا کروں گا‘‘ یہ سن کر رو پڑے حضرت ابوبکرؓ اور عرض کیا: ’’حضورؐ کیا یہ جان اور مال کسی اور کے لیے ہیں!‘‘ یہ تو ان کے الفاظ ہیں. میں ان کی تعبیر یوں کیا کرتا ہوں کہ حضورؐ مجھ سے بھی اتنی مغائرت! تو یہ تھا نبی اکرم  کا معاملہ کس کام کے لیے آپؐ کو مدد درکار تھی. وہ مدد تھی اللہ کی مدد. اللہ کے دین کی مدد. اللہ کے دین کے غلبہ کی جدوجہد کی مدد. اللہ کی کبریائی کے نظام کو برپا اور قائم کرنے کے کام میں مدد حضورؐ کو کوئی ذاتی مدد‘ کوئی خاندانی مدد‘ کسی اور مسئلہ میں استمداد! معاذ اللہ ‘ثم معاذ اللہ سیرتِ مطہرہ میں تو حضورؐ کی بے نفسی کا یہ عالم سامنے آتا ہے کہ جب آپ سواری پر تشریف فرما ہوتے تھے اور آپ کا کوڑا زمین پر گر جاتا تھا تو سواری کو بٹھانا‘ اس سے اترنا اور کوڑا خود اٹھانا آپ کو اس سے کہیں زیادہ پسند تھا کہ کسی سے فرمائیں کہ ذرا مجھے کوڑا اٹھا دینا تو حضورؐ کو جو نصرت مطلوب تھی وہ اللہ کے دین کے غلبہ اور اس کی کبریائی کے نفاذ کے لیے مطلوب تھی. اسی نصرت کا مثبت انداز میں یہاں ذکر آیا ہے: فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَعَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُواالنُّوْرَ الَّذِیْ اُنْزِلَ مَعَہٗ لا اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ

اب اسی کو منفی طور پر سورۃ التوبہ میں بیان کیا گیا ہے. اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے یہ حسن اتفاق ہوا ہے کہ یہ معاملہ بھی اسی ہجرت کا ہے جس کا ایک پہلو میں نے آپ حضرات کو ابھی سنایا. میرے ذہن میں یہ بات پہلے اس طرح نہیں تھی سورۃ التوبہ میں فرمایا: 
اِلَّا تَنۡصُرُوۡہُ فَقَدۡ نَصَرَہُ اللّٰہُ اِذۡ اَخۡرَجَہُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ثَانِیَ اثۡنَیۡنِ اِذۡ ہُمَا فِی الۡغَارِ اِذۡ یَقُوۡلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا ۚ (آیت۴۰غزوۂ تبوک کے موقع پر فرمایا جارہا ہے کہ یہ جو تم سے کہا جارہا ہے کہ اللہ کی راہ میں نکلو تو اگر تمہاری ہمتیں پست ہوئی جارہی ہیں ‘اگر تم زمین میں دھنسے جا رہے ہو اِثَّاقَلْتُمْ اِلَی الْاَرْضِ ‘ تمہارے پاؤں من من بھر کے ہوگئے ہیں‘ تمہیں حضور کے ساتھ قیصر روم کے خلاف جہاد و قتال کے لیے نکلنا بہت شاق اور گراں گزررہا ہے ‘تو ذرا یاد کرو اللہ محتاج نہیں ہے. اگر تم اس مرحلہ پر ہمارے رسول کی مدد نہیں کروگے تو اللہ نے ہر مرحلہ پر اپنے رسول کی مدد کی ہے. جب یہ صرف دو تھے اور غار میں تھے تو کون تھا ان کو دشمنوں سے بچانے والا! جب کہ حضرت ابوبکرؓ اپنے لیے اور اپنی جان کے لیے نہیں بلکہ حضورؐ کی جان کی وجہ سے اس قدر پریشان ہوئے کہ سرگوشی سے عرض کیا کہ حضورؐ ان دشمنوں نے جو غار کے دہانے تک پہنچ گئے ہیں اگر قدموں کی طرف جھک کر غار میں جھانک بھی لیا تو ہم دیکھ لیے جائیں گے ہوایہ کہ غار کے دہانے پر مکڑی کا جالا تھا. اور نیچے کبوتری کا گھونسلا تھا. جس میں انڈے موجود تھے. جو علامت تھے اس بات کی کہ کوئی فرد غار کے اندر داخل نہیں ہوا. ہوتا تو جالا ٹوٹ جاتا. گھونسلہ اور انڈے بکھر جاتے ذرا قدرت الٰہی کا اندازہ کیجئے کہ بچاتا ہے تو مکڑی کے جالے اور کبوتری کے گھونسلے اور انڈوں سے. ماہر ترین کھوجی غار تک تعاقب کرنے والے مشرکین کے اس دستہ کو لے آیا ہے جس کا سردار ابوجہل ہے جس کی ذہانت اور زیر کی کی وجہ سے مشرکین قریش اسے ابولحکم کہتے ہیں. کھوجی اصرار کررہا ہے کہ میرا علم اور میرا تجربہ بتاتا ہے کہ محمد( ) اور ابوبکر( رضی اللہ عنہ) دونوں اس غار تک آئے ہیں اور یہاں سے آگے نہیں گئے‘لہٰذا ہوں نہ ہوں غار میں ہیں اب غور کیجئے کہ کیا بات تھی! وہ کیوں رکے رہے. وہ ذرا جھک کر دیکھ لیتے! کس قدر باریک پردہ ہے! لیکن اصل بات تو اس طرح نصرتِ الٰہی کا ظہور تھا. انسانوں کے دل اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں‘ یُصَرِّفُ کَیْفَ یَشَآئُ وہ تو جس طرف چاہے ان کو پھیر دے. لہٰذا ابوجہل غار کے دہانے پر کھڑا ہے اور پکار رہا ہے کہ اے محمد!( ) اگر اندر ہو تو نکل آؤ‘میں وعدہ کرتا ہوں کہ تمہیں قتل نہیں کروں گا بلکہ زندہ مکہ لے جاؤں گا اس وقت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ گھبرائے اور حضورنے تسلی میں یہ بات فرمائی: لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا ’’کیوں گھبراتے ہواے ابوبکر! اللہ ہمارے ساتھ ہے‘‘. پس اللہ نے مدد فرمائی تو اس طرح فرمائی البتہ دیکھنا یہ ہے کہ اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لانے کے مدعیان بھی مدد کرتے ہیں کہ نہیں.یہی ان کا امتحان ہے. زندگی کا فلسفہ یہی ہے کہ یہ امتحان کے لیے ہے ؎

قلزمِ ہستی سے تو اُبھرا ہے مانندِ حباب
اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی!

تمہارے ایمان کا امتحان ہے. تمہارے شوقِ عبادت کا امتحان ہے. تمہارے جذبہ ٔانفاق کا امتحان ہے. تمہارے طرزِ عمل کا امتحان ہے. تمہارے جوشِ جہاد کا امتحان ہے. تمہارے ذوقِ 
شہادت کا امتحان ہے. امتحان کے سو ا اور کچھ یہاںمطلوب نہیں: خَلَقَ الۡمَوۡتَ وَ الۡحَیٰوۃَ لِیَبۡلُوَکُمۡ اَیُّکُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ؕ (الملک:۲موت و حیات کے اس سلسلہ کی غایت ہی جانچنااور پرکھنا ہے. اس کے سوا اور کچھ نہیں اس نصرت کو سمجھنے کے لیے سورۃ الاعراف اور سورۃ التوبہ کی یہ آیات ذہن نشین کرلیں. اب دو آیات کا مفہوم مجھے اور بیان کرنا ہے جس کے بعد میری آج کی گفتگو مکمل ہوجائے گی.

اب دیکھئے کہ نصرت اصلاً درکار ہے دین کی. آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ میں نے آج شروع کی دعائوں میں وہ دعا بھی شامل کی جو خطبہ میں ہم ہمیشہ مانگتے ہیں کہ: 
اَللّٰھُمَّ انْصُرْ مَنْ نَّصَرَ دِیْنَ مُحَمَّدٍ  واجْعَلْنَا مِنْھُمْ. ’’اے اللہ مدد فرما ہر اُس بندے کی جو مدد کرے تیرے نبی محمد کے دین کی اور ہم کو ان ہی میں سے بنادے‘ انہی میں شامل فرمادے‘‘. وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَ دِیْنَ مُحَمَّدٍ  وَلَا تَجْعَلْنَا مَعَھُمْ’’اور ہر اس شخص کو رسوا کردے‘ اپنی توفیق اس سے سلب کرلے‘ اس کی مدد سے دستکش ہوجا جو تیرے نبی محمدؐ کے دین سے دستکش ہورہا ہو اور اے اللہ ہمیں ان کے ساتھ شامل نہ کیجیو‘‘. میں اس کی تعبیر یوں کیا کرتا ہوں کہ اے اللہ ! ہم کبھی دھوکہ سے بھی ایسے لوگوں کے پھندے میں نہ پھنس جائیں. معاشرے میں ایسے لوگ ہر دور میں موجود رہتے ہیں جو گندم نما جو فروش کے زمرے میں آتے ہیں. دکھاتے گندم ہیں اور بیچتے جو ہیں. بظاہر دین کی خدمت ہے اصل میں دنیا مطلوب ہے. کوئی چودھراہٹ مقصود ہے شہرت درکار ہے. کسی اور پہلو سے کوئی منفعت پیش نظر ہے تو ایسے گندم نما جو فروش موجود ہوتے ہیں. پس ہم کسی کی گندم نمائی سے دھوکہ کھا کر اس کے ساتھی نہ بن جائیں. یہ ہے دعا. اس میں آپ نے دیکھا کہ نصرت و مدد کس کی درکار ہے! دین کی لیکن اس دین کی نسبتیں دو ہو جاتی ہیں. یہ ہے وہ بات جو میں دو مزید آیات کے حوالے سے سمجھانا چاہتا ہوں.

آپ جانتے ہیں کہ دین کس کا ہے؟ اللہ کا. نبی کی طرف اس کی نسبت مجازی ہے. دین کی ایک نسبت ہماری طرف بھی ہے: 
لَکُمۡ دِیۡنُکُمۡ وَلِیَ دِیۡنِ ٪﴿۶﴾ ’’تمہارا دین تمہارے لیے اور میرا دین میرے لیے‘‘. میرا دین‘ تمہارا دین‘ اس کا دین ‘یہ سب نسبتیں مجازی ہیں. دین محمد ‘ یہ بھی مجازی نسبت ہے. دین کی اصل نسبت کس کی طرف ہے! اللہ کی طرف ’’دین اللہ‘‘. اس لیے کہ دین اس کوکہتے ہیں کہ کسی ہستی یا ادارہ کو مطاع مطلق مان کر اس کی اطاعت کے مطابق پوری زندگی کا نقشہ بنایا جائے یہ نقشہ قبول کرنے والے کا دین ہوگا اگر کسی بادشاہ کی حاکمیت کو مطلق العنان تسلیم کر لیا گیا اور اس کی Absolute Sovereignity مان لی گئی. اسے قانون سازی کا مختارِ کل تسلیم کر لیا گیا کہ وہ جو چاہے قانون بنائے جس چیز کو چاہے حلال قرار دیدے. جس کو چاہے حرام ٹھہرا دے تو اس نظریہ کے تحت جو نظام بنے گا اور رائج ہوگا وہ دین الملک کہلائے گا. یہ لفظ سورۂ یوسف میں آیا ہے: مَا کَانَ لِیَاۡخُذَ اَخَاہُ فِیۡ دِیۡنِ الۡمَلِکِ (آیت۷۶.اس کوآپ قیاس کر لیجیے جمہور کی حاکمیت کے اصول پر ‘جمہور کے قانون سازی کے اختیار مطلق کے اصول پر اس اصول پر جو نظام بنے گا وہ کہلائے گا دین الجمہور اور اللہ کو حاکم مطلق مان کر جیسے ہم نے تبرکاً قرار دادِ مقاصد میں مانا ہوا ہے. تبرکاً ہی ہے ورنہ اندر خانہ آج تک تو مانا نہیں. آج کی تاریخ تک تو مانا نہیں. جھوٹ کہتا ہے جو یہ کہتا ہے کہ مانا ہوا ہے. فلاں چیز مستثنیٰ فلاں چیز مستثنیٰ ‘تو کیا مانا! خاک مانا؟ جس چیز میں بیگمات ناراض ہوں‘ وہ مستثنیٰ‘ جس میں امریکہ ناراض ہو وہ مستثنیٰ‘ جس میں کار خانہ دار ناراض ہو وہ مستثنیٰ‘ جس میں زمیندار ناراض ہو وہ مستثنیٰ. تو کیا مانا! اللہ کو حقیقتاً حاکم مطلق مان لینا یہی تو ایک بات ہے. یہی تو توحید ہے ؎

یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے!
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات

لیکن یہ بڑی بھاری بات ہے. قولِ ثقیل ہے. ایک اللہ کا بندہ بن جانا انفرادی اعتبار سے بہت مشکل ہے اور اجتماعی اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے اصول پر پورے نظام زندگی کو استوار کردینا آسان کام نہیں ہے. یہ کام تو وہ ہے جو محمدرسول اللہ  نے سر انجام دیا تھا.کوشش ہم کرسکتے ہیں ‘کوشش کرنے ہی میں ہمارے لیے کامیابی ہے ‘کرلینا آسان کام نہیں ہے .بہرحال عرض یہ کررہا تھا کہ اللہ کو حاکم مطلق مان کر جو نظام بنے گا وہ کہلائے گا دین اللہ! یہ اصطلاح سورۃ النصر میں استعمال ہوئی ہیں: 
اِذَا جَآءَ نَصۡرُ اللّٰہِ وَ الۡفَتۡحُ ۙ﴿۱﴾وَ رَاَیۡتَ النَّاسَ یَدۡخُلُوۡنَ فِیۡ دِیۡنِ اللّٰہِ اَفۡوَاجًا ۙ﴿۲﴾ 

تو دین اصلاً اللہ کا ہے اس کے غلبہ اور اس کی سربلندی کے لیے جدو جہد کرنا کس کی مدد ہوئی؟ اللہ کی مدد! اس کو غالب اور سربلند کرنے کے لیے اللہ نے اپنا رسول  بھیجا: 
ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَI (الصف) ’’وہی ہے اللہ جس نے بھیجا اپنے رسول کو الہدیٰ اور دین الحق دے کر تاکہ وہ غالب کرے اسے کل کے کل دین پر چاہے یہ بات مشرکوں کو کتنی ناگوار گزرے‘‘. تو دین غالب کرنے کا فرض منصبی کس کا؟ رسول  کا! اگر تم اس دین کی سر بلندی اور غلبہ کے لیے تن من دھن لگا رہے ہو‘ رسولؐ کے دست و بازو بن رہے ہو تو کس کی مدد ہوئی! رسولؐ کی مدد. تو یہ دو نصرتیںہوگئیں. دین کی مدد‘ دین کی نصرت ایک طرف اللہ کی مدد ونصرت ہے اور دوسری طرف رسولؐ کی مدد و نصرت ہے. اس کے لیے دو آیات نوٹ کرلیں.

ایک آیت تو سورۃ الحدیدکی (آیت۲۵) ہے . یہ آیت کریمہ قرآن مجید کی جامع ترین آیات میں سے ایک ہے. میں اس وقت اس کا ترجمہ سنا سکتا اور مختصر تشریح کرسکتا ہوں. چونکہ اس سے زائد کے لیے وقت نہیں ہے. فرمایا: 
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ ’’ہم نے بھیجااپنے رسولوں کو روشن تعلیمات اور واضح نشانیوں کے ساتھ‘‘. بینات کا دونوں پر اطلاق ہوگا. جو تعلیمات وہ لے کر آئے وہ بھی روشن اور فطرت انسانی کی جانی پہچانی اور وہ جو معجزے لائے وہ بھی بین‘ واضح اور روشن. وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ ’’اور ان کے ساتھ ہم نے کتاب بھی نازل کی‘ میزان بھی اتاری‘‘ میزان سے مراد سب کے نزدیک شریعت ہے وہ نظامِ عدل جو اللہ نے دیا. معاشی میدان میں یوں عدل و انصاف ہوگا. سیاسی میدان میں یوں عدل و انصاف ہوگا. شوہر اور بیوی کے حقوق و فرائض کا یہ توازن ہوگا. آجر اور مستاجر کے مابین حقوق و فرائض کا یہ توازن ہوگا. بائع اور مشتری کے مابین حقوق و فرائض کا یہ توازن ہوگا. فرد اور اجتماعیت کے مابین حقوق و فرائض کا یہ توازن ہوگا. زندگی کے ہر گوشے اور ہر پہلو میں توازن ہوگا. شریعت کی میزان میں ہر ایک کا حق تُلے گا اور ایک کا حق دوسرے کا فرض ہے. والدین کے جو حقوق ہیں اولاد پر وہ اولاد کے والدین کے بارے میں فرائض ہیں. شوہر کے بیوی پر جو حقوق ہیں وہ بیوی کے شوہر کے متعلق فرائض ہیں. بات تو ایک ہی ہے. پس پوری اجتماعی زندگی میں حقوق و فرائض کا ایک توازن ہے اب غور کیجیے کہ سب کچھ کیوں کیا گیا کہ اللہ نے رسول بھیجے‘ تعلیمات اتاریں‘ بینات اتاریں. کتاب نازل فرمائی‘ میزان اتاری‘ کس لیے! کاہے کے لیے! یہ کوئی اللہ کی hobby ہے‘ کوئی مشغلہ ہے‘ کوئی تفریح ہے یا کوئی کارِ عبث ہے! معاذ اللّٰہ ثم معاذ اللّٰہ ہم نے یہی سمجھا ہے کہ بے مقصد کام ہے. اِ لّا ماشاء اللہ. اس دین کو‘ اس قرآن کو‘ اس شریعت کو ایک طرف رکھے رہیے ؏ ’’چشم عالم سے رہے پوشیدہ یہ آئیں تو خوب‘‘ اسے بندرکھنے ہی میں عافیت ہے. یہ پٹارہ کھل گیا تو ہماری خیر نہیں. ہماری چودھراہٹوں کی خیر نہیں‘ ہماری پیشوائیوں کی خیر نہیں. علامہ اقبال نے بڑے سادہ الفاظ میں ابلیس کی زبان سے کہلوایا ہے:

جانتا ہوں میں یہ اُمت حامل قرآں نہیں
ہے وہی سرمایہ داری بندۂ مومن کا دیں
جانتا ہوں میں کہ مشرق کی اندھیری رات میں
بے ید بیضا ہے پیرانِ حرم کی آستیں!
عصر حاضر کے تقاضاؤں سے ہے لیکن یہ خوف
ہو نہ جائے آشکارا شرعِ پیغمبر کہیں!

نئے تقاضے ابھر رہے ہیں‘ نئے نظریات جنم لے رہے ہیں اور محسوس ہورہا ہے کہ شاید ؎

جو حرف قُلِ الْعَفْوَمیں پوشیدہ تھی اب تک
اس دور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار

کچھ تقاضے ہیں جو سامنے آرہے ہیں‘ لیکن ہمارا وطیرہ یہ ہے کہ ؎

مست رکھو ذکر و فکرِ صبحگاہی میں اسے
پختہ تر کردو مزاجِ خانقاہی میں اسے

اور :

ہے یہی بہتر الہیات میں الجھا رہے!
یہ کتاب اللہ کی تاویلات میں الجھا رہے

اور :

ابن مریم مر گیا یا زندۂ جاوید ہے
ہیں صفاتِ ذاتِ حق حق سے جدا یا عینِ ذات
ہیں کتاب اللہ کے الفاظ حادث یا قدیم!
امت مرحوم کی ہے کس عقیدے میں نجات

ان گتھیوں کو سلجھاؤ. گویا اسی کے سمجھنے سمجھانے پر دنیا وآخرت کی فلاح اور نجات کا دارو مدار ہے. پھر یہ تو پرانے زمانے کی باتیں ہیں. اب تو نور و بشر کی گرما گرم بحث ہی نہیں جدال ہو رہا ہے.اسی میں لڑتے اور لڑاتے رہو. حضور کا سایہ تھا یا نہیں تھا. اسی جھگڑے میں الجھاتے 
رہو. انہی مسائل پر مناظرے ہوں. پھر بڑے بڑے میلے ٹھیلے ہیں. عرس ہیں. کبھی فلاں بزرگ کا عرس ہے کبھی فلاں کا. اخبارات میں روزانہ ہی کسی نہ کسی کے عرس کے بڑے بڑے اشتہار چھپتے رہتے ہیں. مزاروں کی تصاویر بڑی عقیدت سے خریدی اور گھروں میں آویزاں کی جارہی ہیں. یہ ہیں وہ چیزیں جو بطور کھلونا دے دی گئی ہیں ع ’’کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں!‘‘

یہ باتیں دکھی دل کی پکار بن کر نوکِ زبان پر آگئیں. سلسلۂ کلام یہ ہے کہ غور طلب بات یہ ہے کہ الکتاب (قرآن مجید) کس لیے اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی تھی اور المیزان (شریعت اسلامی) کس لیے اللہ تعالیٰ نے اتاری تھی. اس کو نہایت وضاحت و صراحت کے ساتھ آگے بیان فرمایا گیا: 
لِیَـقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ج تاکہ لوگ عدل و انصاف پر کار بندہوں. قائم ہوں. یہ ترازو نصب کیا جائے. یہ دھرم کنڈا صرف دکھاوے کے لیے نہ ہو بلکہ اس میں ہر چیز فی الواقع تلے اور حق دار کو اس کا پورا حق ملے. لیکن یہ ترازو نصب کون ہونے دے گا! جو اپنے حق سے زیادہ لے رہا ہے وہ پسند کرے گا کہ میزانِ عدل سے تول کرلے؟جو محروم ہیں وہ تو چاہیں گے کہ بھائی ترازو سے تولو. یہ کیا کہ دونوں ہاتھوں سے بھر بھر کر لے جارہے ہو اور ہمیں ایک مٹھی پر ٹرخارہے ہو وہ تو چاہیں گے. چاہے ہمت نہ ہو‘ جرأت نہ ہو کھڑے نہ ہوسکیں. لیکن جو اپنے حق سے زائد لے رہے ہیں وہ کبھی چاہیں گے کہ عدل و قسط کی میزان قائم ہو‘ نصب ہو اور یہ وہ لوگ ہیں جو چاہے دلیل سے قائل بھی ہو جائیں بالفعل مانیں گے کبھی نہیں. یہ لاتوں کے بھوت ہیں باتوں سے کبھی ماننے والے نہیں. اسی لیے فرمایا: وَاَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ ’’ہم نے لوہا بھی اتارا ہے کہ نہیں‘‘. پنجابی میں کہتے ہیں کہ نہیں ’’چار کتاباں عرشوں آیاں پنجواں آیا ڈنڈا!‘‘ اسی کو اقبال نے یوں کہہ دیا ؏ ’’عصانہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد‘‘ لوگ میری باتوں سے گھبراتے ہیں کہ یہ کیا باتیں کرتا ہے! لیکن میں قرآن حکیم کی انقلابی دعوت پیش کرتا ہوں اللہ تعالیٰ خود فرمارہے ہیں کہ: وَاَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ ’’اور ہم نے لوہا اتارا ہے‘‘کیوں اتارا ہے! اس لیے کہ اس میں جنگ کی صلاحیت ہے اور لوگوں کے لیے اس میں کچھ دوسری منفعتیں بھی ہیں. چمٹا‘ پھکنی‘ توا‘ پرات اور بھی روزمرہ کے استعمال کی ہزاروں چیزیں بھی اس لوہے سے بنتی ہیں لیکن حقیقت میں اس کا اصل مقصد یہ ہے کہ اس سے اسلحہ بنایا جائے. چنانچہ فرمایا: فِیْہِ بَاْْسٌ شَدِیْدٌ وَّمَنَافِعُ لِلنّاسِ اور یہ اس لیے اتارا گیا ہے کہ اس اسلحہ کی طاقت کو وہ لوگ جو میرے دین کے ماننے والے ہیں جو میرے نازل کردہ نظام عدل و قسط پر ایمان رکھتے ہیں‘ ہاتھ میں لیں اور ان لوگوں کی سرکوبی کریں جو میرے دین سے سرتابی کریں وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ وَرُسُلَہٗ بِالْغَیْبِط ’’تاکہ اللہ دیکھے کہ کون ہیں اس کے وفا دار بندے جو اس لوہے کی طاقت کو ہاتھ میں لے کر غیب میں رہتے ہوئے بھی اللہ کی اور اس کے رسولوں کی مدد کرتے ہیں‘‘. اللہ کی مدد کیا ہے! اس کے نازل کردہ دین کی سربلندی اور اس کا نفاذ رسول کی مدد کیا ہے! اس کے لائے ہوئے دین کی سربلندی اور اس کا نفاذ آخر میں فرمایا: اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ’’ بے شک اللہ تعالیٰ بذاتہٖ قوت والا اور زبر دست ہے.

غالب ہے. وہ اس کا محتاج نہیں ہے کہ تمہاری مدد ہوگی تو اس کادین قائم و نافذ ہوگا سر بلند ہوگا. اس کی تکوینی حکومت اس کائنات کے ذرے ذرے پر مستولی ہے. اس دنیا میں اس کاتشریعی نظام قائم کرنے کی ذمہ داری بغرض امتحان ان لوگوں کے سپرد کی گئی ہے جو اس پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لانے کے مدّعی ہیں. وہ دیکھنا اور جانچنا چاہتا ہے کہ یہ مدعیانِ ایمان اللہ کے دین کی تنفیذ کے لیے اپنے تن من دھن کی قربانی کے لیے بھی تیارہیں یا نہیں اس کے لیے یہ ضرور ہے کہ اس فریضہ کی انجام دہی کے لیے ہمیں سیرت مطہرہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام میں جو تدریج ملتی ہے اسے ملحوظ رکھا جائے. بصورت دیگر فساد رونما ہوجائے گا. فتنہ اٹھ کھڑا ہوگا. بارہ برس تک صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو حضور نے مارکھانے کی مشق کرائی ہے اور خود ماریں کھائی ہیں. صحابہؓ نے نہایت بہیمانہ مظالم کو برداشت کیا ہے اور دشمنوں میں سے کسی کا بال تک بیکا نہیں کیا نہ یہ کیا کہ ہاتھ میں ہتھوڑا پکڑ کر خانہ کعبہ میںجو تین سو ساٹھ بت رکھے ہوئے تھے ان کو توڑنا شروع کردیتے پورے نظم و ضبط کے ساتھ اپنے ہاتھ بندھے رکھے. یہ تمام باتیں سیرت مطہرہ کی روشنی میں جملہ مراحل انقلابِ اسلامی کے بیان میں آٹھ دس تقریروں کے ذریعے آپ کے سامنے میں تفصیل سے بیان کرچکا ہوں. (۱

اسی نصرت کے تذکرہ کی آیت پر سورۃ الصف ختم ہوتی ہے. وہاں بھی دو نصرتوں کا بیان ہے. ایک اللہ کی نصرت دوسری رسول کی نصرت. فرمایا: 
یٰٓــاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْٓا اَنْصَارَ اللّٰہِ ’’اے اہل ایمان! اللہ کے مددگار بنو‘‘. یہاں زور دار دعوت کا اسلوب ہے. آگے فرمایا: کَمَا قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ لِلْحَوَارِیّٖنَ مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللّٰہِط .جیسے کہ یاد کرو چھ سو (۱)الحمد للہ یہ تقاریر ’’منہج انقلابِ نبوی ‘‘ کے عنوان سے شائع ہو چکی ہیں (مرتب) برس قبل عیسیٰ ابن مریم ؑنے صدا لگائی تھی حضور پر وحی کا آغاز۶۱۰ عیسوی میں ہواہے. چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضور میں چھ صدیوں کا فصل ہے توفرمایا کہ جیسے آج ہمارا آخری رسول تمہیں پکا ررہا ہے کہ مدد کرو اللہ کی اور مدد کرو میری. اسی طرح چھ سو برس قبل آواز لگی تھی اور حضرت عیسیٰؑ ابن مریم نے اپنے حواریین کو پکارا تھا کہ کون ہے میرا مددگاراللہ کی طرف‘ میں نے تو دعوت اِلی اللہ کا فیصلہ کر لیا ہے.

میں تو اللہ کے دین کے قیام کی جدو جہد کے لیے آگے بڑھ رہا ہوں. اب کون ہے جو میرا مدد گاراور ساتھی بنے. میرے اعوان و انصار میں شامل ہو. یہ ندا تھی حضرت مسیح علیہ السلام کی کہ مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللّٰہِط . اللہ کے کام میں‘ اللہ کے دین کے لیے کون معین و معاون بنتا ہے. دیکھئے دو نسبتیں آ گئیں مَنْ اَنْصَارِیْٓکون ہے میرا مددگار. اور ’اِلَی اللّٰہِ‘ اللہ کی طرف یعنی اللہ کے دین کے لیے اس کے بعد تاریخ کی ایک جھلک دکھائی گئی. تمہیں یاد ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑکی دعوت قبول کرنے والے کتنے کم تھے بارہ تو وہ تھے جن کو حواری کہا جاتا ہے اور جو ہر وقت آنجنابؑ کی خدمت میں حاضر رہتے تھے. ان میں سے ایک غداری کر گیا تھا. دوسرا پیٹر تھا جس نے جب بہت ہی وفاداری اور عقیدت مندی کا اظہار کیا تھا تو حضرت مسیحؑ نے فرمایا تھا کہ ’پیٹر! صبح مرغ کی بانگ سے پہلے پہلے تم دو یا تین مرتبہ میرا انکار کرو گے‘‘. تو جب حضرت عیسیٰ کو گرفتار کرنے کے لیے رومی فوج کے دستے نے ایک حواری کی غداری اور مخبری کی وجہ سے آپ کی پناہ گاہ پہنچ کر پکڑ دھکڑ شروع کی تو پیٹر جزع فزع کرنے لگا. اس نے آنجنابؑ سے بے تعلقی کا اظہار کیا‘ آپؑ کے حواری ہونے سے انکار کیا. یہ تمام باتیں موجودہ اناجیل میں مذکور ہیں. اب رہ گئے دس حواری تو حضرت مسیح کے رفع آسمانی (اور عیسائیوں کے بقول مصلوب ہونے) کے بعد ان سے اب جو دعوت شروع ہوئی تو اس نے جڑ پکڑنی شروع کی ان حواریوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے. ان کی دعوت پر ایمان لانے والوں کو زندہ آگ میں جلایا گیا. 

لیکن حق کا چراغ روشن سے روشن تر ہوتا گیا. چنانچہ فرمایا: کَمَا قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ لِلْحَوَارِیّٖنَ مَنْ اَنصَارِیْ اِلَی اللّٰہِ ط قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہِ فَاٰمَنَتْ طَّآئِفَۃٌ مِّنْم بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ وَکَفَرَتْ طَّآئِفَۃٌج ’’جیسے کہ عیسیٰ نے پکارا حواریوں کو کہ کون ہے میرا مددگار اللہ کی طرف تو حواریوں نے لبیک کہا کہ ہم ہیں اللہ کے مددگار. پس بنی اسرائیل میں سے ایک گروہ ایمان لایا اور ایک گروہ نے کفر کی روش اختیار کی‘‘ فَاَیَّدْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلٰی عَدُوِّھِمْ ’’پس ہم نے ان اہل ایمان کی ان کے دشمنوں کے خلاف مدد کی‘‘ فَاَصْبَحُوْا ظٰھِرِیْنَ پھر وہی اہل ایمان غالب ہوئے‘‘ وہی بات آگئی. اِنْ تَنْصُرُوااللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ اور اِنْ یَّنْصُرْکُمُ اللّٰہُ فَلَا غَالِبَ لَکُمْ.

سورۃ الصف کی اس آخری آیت میں اہل ایمان کے لیے اللہ کے دین کی نصرت کی پُرزور دعوت آگئی. فرمایا جارہا ہے کہ اے مسلمانو! تاریخ اپنے آپ کو دوہرا رہی ہے. پھر ہمارا رسول ہے جو تمہیں اللہ کے دین کی نصرت کے لیے پکار رہا ہے. آؤ اللہ کے دین توحید کے قیام و نفاذ کے لیے اس کے دست و بازو بنو مجھے بے ساختہ اقبال کا یہ شعر یاد آگیا ؎

آگ ہے‘ اولادِ ابراہیم ہے‘ نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے؟

تاریخ تو اپنے آپ کو دہراتی رہے گی. آج ہم میں سے ہر شخص کی سعادت اسی میں ہے کہ اس پکار کو کھلے کانوں سے سنے اور کھلے دل سے قبول کرے. 

یہ ہے وہ تیر بہدف 
(sure shot) اور مجرب نسخہ. تم اللہ کے دین کی مدد میں لگو‘ اللہ تمہارے دنیا کے تمام معاملات کا ذمہ خود لے گا: 

یٰٓــاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَـبِّتْ اَقْدَامَکُمْ 
اور 
اِنْ یَّنْصُرْکُمُ اللّٰہُ فَلَا غَالِبَ لَکُمْج وَاِنْ یَّخْذُلْـکُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِیْ یَنْصُرُکُمْ مِّنْم بَعْدِہٖ ۱ 

بَارَکَ اللّٰہُ لِیْ وَلَکُمْ فِی الْقُرْآنِ الْعَظِیْمِ وَنَفَعَنِیْ وَاِیَّاکُمْ بِالْاٰیَاتِ وَالذِّکْرِالْحَکِیْمِ