ترتیب و تسوید: (شیخ) جمیل الرحمن

قال اللّٰہ تعالٰی عزوجل فی سورۃ الفرقان: 
اعوذ باللّٰہ من الشَّیطٰن الرَّجیم . بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ 

فَـلَا تُطِعِ الْکٰفِرِیْنَ وَجَاھِدْھُمْ بِہٖ جِھَادًا کَبِیْرًا ج 

محترم صدرِ مجلس‘ مکرم علمائے عظام اور معزز حاضرین کرام:

آپ حضرات کو اخباری اعلان سے یہ علم ہو چکا ہے کہ مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کے زیر اہتمام ہونے والے اس چھٹے سالانہ محاضراتِ قرآنی میں مجھے بطور افتتاحیہ ’’جہاد بالقرآن‘‘ کے موضوع پر کچھ عرض کرنا ہے‘ چنانچہ میں نے اس وقت کی اپنی گفتگوکے عنوان کے طور پر سورۃ الفرقان کی آیت ۵۲ کی تلاوت کی ہے. اس میں نبی اکرم سے اللہ تعالیٰ نے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: 
فَـلَا تُطِعِ الْکٰفِرِیْنَ ’’(اے نبی !) آپ ان کافروں کا کہنا بالکل نہ مانئے‘‘ وَجَاھِدْھُمْ بِہٖ جِھَادًا کَبِیْرًاz ’’اور ان کے ساتھ مجاہدہ کیجیے ‘ کشمکش کیجیے اس قرآن کے ذریعے سخت مجاہدہ اور شدیدکشمکش‘‘.چونکہ مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کا قیام اسی بنیاد پر عمل میں آیا تھا ‘چنانچہ اس کے زیر اہتمام دسمبر۱۹۷۳ء سے مسلسل سات سال تک قرآن کانفرنسوں کے انعقاد کا سلسلہ جاری رہا اور لاہور اور کراچی میں بفضلہ تعالیٰ ہم نے سات نہایت عالی شان سالانہ قرآنی کانفرنسیں منعقد کیں. اس کے بعد بعض اسباب سے ہم نے عنوان بدلا جن میں سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ جس کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہمارے لیے باعث مسرت اور یہ بارگاہِ رب العزت میں ہماری ان حقیر کوششوں کے مقبول ہونے کا کسی درجہ میں سہی ایک مظہر بھی ہے کہ ’قرآن کانفرنس‘کا لفظ اتنامقبول ہوا ‘اتنا معروف اور مشہور ہوا کہ جابجا نہ صرف متعددقرآن کانفر نسیں ‘ جنہیں بجا طو رپر قرآن کانفرنسیں قرار دیا جا سکتا ہے‘ منعقد ہوئیں بلکہ بات یہاں تک جا پہنچی کہ اگر کسی تجوید کے مدرسہ کے سالانہ جلسہ تقسیم اسناد کا انعقاد ہوا تو اس کا عنوان بھی ’قرآن کانفرنس‘ قرار دیا جانے لگا تو ہم نے پھر اس کو چھوڑ کر ’’محاضراتِ قرآنی‘‘ کی اصطلاح سے ان مجالس کے انعقاد کا سلسلہ شروع کیا.

اس میں بنیادی طور پر پیش نظر یہ بات تھی کہ کانفرنسوں میں ایک طرف سامعین کا اور دوسری طرف مقررین کا جو ہجوم ہو جایا کرتا ہے اور تحریری مقالات و خطبات کی بجائے عام طو رپر تقریریں زیادہ ہوتی ہیں‘ تو مطلوبہ مقاصد کماحقہ ‘ حاصل نہیں ہوتے. گو یقینا اس سے یہ فائدہ تو حاصل ہوا کہ قرآن مجید لوگوں کی نظر و التفات کا نقطہ ماسکہ و ارتکاز (focus) بنا‘ اس کی طرف توجہات مرتکز ہوئیں‘ اس کی تلاوت کے ساتھ اس کے مطالعے‘ اس کی تعلیم و تعلم اور اس میں تفکر و تدبر کے شوق و ذوق میں اضافہ ہوا. میرے نزدیک الحمد للہ یہ بھی بہت بڑا کام ہے ‘لیکن تجربے سے معلوم ہوا کہ اس قسم کے جلسوں کی افادیت اتنی نہیں جتنی ایک پرسکون ماحول میں مقالہ پیش کیا جائے یا لیکچر دیا جائے‘ پھر اس پر گفتگو‘ مذاکرہ اور افہام و تفہیم کا بھی موقع ہو اس سے حاصل ہو سکتی ہے . اگرچہ میں اعتراف کرتا ہوں کہ محاضراتِ قرآنی سے جو مقصد حاصل کرنا پیش نظر تھا ‘تاحال اسے ہم پوری طرح روبعمل نہیں لا سکے ہیں لیکن اس مرتبہ ان شاء اللہ ان محاضرات کی ایک نشست اسی طر ز پر منعقد ہو گی جس میں ’’اجارہ کی شرعی حیثیت‘‘ کے موضوع پر ایک مقالہ پیش ہو گا اور اس پر دیگر علمائے کرام اور اہل دانش و بینش کو گفتگو کا موقع فراہم کیا جائے گا تاکہ اس موضوع کے تمام جوانب و اطراف کھل کر سامنے آ جائیں. بہرحال آج ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اس چھٹے محاضراتِ قرآنی کی پہلی نشست کا آغاز کر رہے ہیں جو برصغیر پاک و ہند کے مشہور و معروف عالم دین‘ ممتاز شخصیت مولانا سعید احمد اکبر آبادی مدظلہ ‘ ڈائریکٹر شیخ الہند ؒ اکیڈمی دیوبند‘ رکن مجلس شوریٰ دارالعلوم دیوبند اور ایڈیٹر ماہنامہ برہان دہلی (بھارت) کی صدارت میں منعقد ہو رہی ہے. مولانا کی یہ بڑی کرم فرمائی ہے کہ پیرانہ سالی اور شدید مصروفیات کے باوجود وہ ہماری درخواست پر بھارت سے تشریف لائے اور ازراہِ تلطف و تعاون موصوف نے ان محاضرات کی تین نشستوں کی صدارت قبول فرمائی اور تین موضوعات پر اپنے گراں قدر ارشادات سے محاضرات کو مستفید فرمانے کی منظوری بھی عطا فرما دی جس کے لیے میںذاتی طور پر اپنی جانب سے اور مرکزی انجمن خدام القرآن کی طرف سے ‘ مزید جملہ شرکائِ مجلس کی جانب سے مولانا موصوف کی خدمت میں دل کی گہرائیوں کے ساتھ ہدیۂ تشکر پیش کرتا ہوں‘ یہ شکریہ محض رسمی نہیں ہے بلکہ نبی اکرم کے اس ارشاد کی تعمیل میں خلوصِ دل کے ساتھ ہے کہ مَنْ لَمْ یَشْکُرِ النَّاسَ لَا یَشْکُرُ اللّٰہَ 

درحقیقت یہ محاضراتِ قرآنی جہاد بالقرآن ہی کے سلسلے کی کڑیاںہیں‘ لہٰذا میں نے مناسب سمجھا کہ میں اس نشست میں جہاد بالقرآن کے موضوع پر چند باتیں ابتدا میں عرض کردوں .یہی باتیں درحقیقت مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کے تمام مقاصد کی نشاندہی بھی کریں گی اور اس کے لیے ہمارے استدلال کا جو صغریٰ کبریٰ ہے‘ ان شاء اللہ اس کو بھی سامنے لے آئیں گی.

جس آیت ِمبارکہ کی میں نے تلاوت کی ہے‘ اس میں دو چیزیں نہایت اہم ہیں. ایک لفظ ’’جہاد‘‘ جو اِس آیت ِمبارکہ میں دو مرتبہ آیا ہے‘ ایک فعل امر کے طور پر 
’’جَاھِدْ‘‘ اور دوسرے مفعول مطلق کے طور پر ’’جِہَادًا کَبِیْرًا ‘‘ یعنی نہ صرف جہاد بلکہ شدید جہاد‘ بہت بڑا جہاد. یہاں دوسرا اہم لفظ ’’بِہٖ‘‘ آیا ہے. اس آیت میں حکم دیا جا رہا ہے جناب محمد رسول اللہ  کو : وَجَاھِدْھُمْ بِہٖ جِھَادًا کَبِیْرًا ’’آپؐان سے جہاد کیجئے اس (قرآن) کے ذریعے سے بہت بڑا جہاد‘‘.

یہاں ’’بِہٖ‘‘کا جو چھوٹا سا ٹکڑا آیا ہے‘ میں معذرت کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ اکثر و بیشتر ہمارے اہلِ علم حضرات بھی اس کی اہمیت پر غور و فکر کیے بغیر سرسری طور پر گزر جاتے ہیں. میرا مشاہدہ ہے کہ جہاں بھی قرآن کے لیے ’’بِہٖ‘‘ بطور ضمیر مجرور آیا ہے‘ ہمارے اہل علم‘ اِلاماشاء اللہ‘ اس کا حق ادا نہیں کرتے. 

اس ’’بِہٖ‘‘ کی اہمیت کے اظہار کے لیے دو مثالیں پیش کرتا ہوں.

پہلی مثال سورۂ بنی اسرائیل سے ہے ‘جہاں فرمایا: 
وَ مِنَ الَّیۡلِ فَتَہَجَّدۡ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ ٭ۖ (آیت۷۹’’اور (اے نبی !) کچھ رات جاگتے رہیے اس (قرآن) کے ساتھ‘ یہ بڑھوتری ہے آپؐ کے لیے‘‘.میرا اندازہ ہے کہ تہجد کی فضیلت‘ اس کی اہمیت اور اس کا مقام و مرتبہ تو ہمارے یہاں معروف اور مشہور ہے‘ کسی کو اس کی توفیق ملی ہو یا نہ ملی ہو‘ لیکن اس کی عظمت اور برکات سے ہر وہ مسلمان بخوبی واقف ہو گا جس کا تھوڑا بہت بھی دینی مزاج ہے. لیکن یہاں بھی ’’بِہٖ ‘‘پر اتنی توجہ نہیں ہوتی جتنی ہونی چاہیے. تہجد میں اہم ترین شے قیام‘ وہ بھی طویل قیام ‘اور اس میں ترتیل کے ساتھ تلاوتِ قرآن ہے: 
یٰۤاَیُّہَا الۡمُزَّمِّلُ ۙ﴿۱﴾ قُمِ الَّیۡلَ اِلَّا قَلِیۡلًا ۙ﴿۲﴾نِّصۡفَہٗۤ اَوِ انۡقُصۡ مِنۡہُ قَلِیۡلًا ۙ﴿۳﴾اَوۡ زِدۡ 
عَلَیۡہِ وَ رَتِّلِ الۡقُرۡاٰنَ تَرۡتِیۡلًا ؕ﴿۴﴾ (المزّمل) 

’’اے اوڑھ لپیٹ کر سونے والے! رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو‘ مگر کم‘ آدھی رات‘ یا اس سے کم کر لو‘ یا اس سے کچھ زیادہ بڑھا دو‘ اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو.‘‘

لیکن ہوتا یہ ہے کہ جو لوگ اس کا اہتمام کرتے ہیں عموماً وہ عام نوافل کی طرح آٹھ رکعتیں پڑھ لیتے ہیں‘ پھر بیٹھ کر مختلف اور ادو وظائف میں مشغول ہو جاتے ہیں اور زیادہ وقت اس میں صرف کرتے ہیں (الا ماشاء اللہ). یہ بھی بہت غنیمت ہے‘ لیکن اس کی برکات سے کماحقہ ٗ استفادہ تب ہو گا جب اِس میں طویل قیام ہو اور اس میں ترتیل کے ساتھ قرآنِ مجید کی تلاوت ہو. 

دوسری مثال سورئہ مریم کی ہے‘ جہاں فرمایا: 

فَاِنَّمَا یَسَّرۡنٰہُ بِلِسَانِکَ لِتُبَشِّرَ بِہِ الۡمُتَّقِیۡنَ وَ تُنۡذِرَ بِہٖ قَوۡمًا لُّدًّا ﴿۹۷﴾ 

’’پس یقینا (اے نبی !) اس کلام کو ہم نے تمہاری زبان میں آسان کر کے نازل کیا ہے‘ تاکہ تم اس (قرآن) کے ذریعے پرہیزگاروں کو خوشخبری دے دو اور ہٹ دھرم لوگوں کواس کے ذریعے سے خبردار کرو.‘‘

یہاں بھی غور فرمائیے کہ تبشیر و انذار کے لیے قرآن مجید ہی کو ذریعہ قرار دیا گیا ہے.لیکن ہوتا کیا ہے! یہ کہ ہمارے یہاں وعظوں اور خطبوں میں اکثر و بیشتر یہ کام اولیاء اللہ کے تذکروں یا مولانا رومؒ کی مثنوی سے لیا جاتا ہے. قرآن کی طرف بہت ہی کم توجہ دی جاتی ہے. بعینہٖ یہی معاملہ زیر نظر آیت ِکریمہ کا ہے: 
وَجَاھِدْھُمْ بِہٖ جِھَادًا کَبِیْرًا معلوم ہوا کہ یہاں جس جہاد کا حکم دیا جا رہا ہے اس شد و مد کے ساتھ‘ اس اہتمام کے ساتھ‘ اس تاکید و زور (emphasis) کے ساتھ‘ تو اس کے لیے ایک ذریعہ‘ ایک آلہ‘ ایک ہتھیار ہے جو جناب محمد رسول اللہ  کو عطا ہوا ہے. اس کے لیے بھی ایک تلوار ہے جو آپؐ کے دست ِمبارک میں تھمائی گئی ہے اور وہ ہے قرآن حکیم. لہٰذا ارشاد ہوا:’’اور (اے نبی !) ان (مشرکین و کفار) کے ساتھ جہاد کیجیے اس (قرآن) کے ذریعے سے بہت بڑا جہاد‘‘ .