فرائض دینی کی پہلی منزل ہے خود اللہ کا بندہ بننا .اور یہ بندگی ہمہ وجوہ‘ ہمہ تن اور ہمہ وقت ہو گی‘ جزوی نہیں ہو گی. قرآن میں فرمایا گیاہے: 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا ادۡخُلُوۡا فِی السِّلۡمِ کَآفَّۃً ۪ 
(البقرۃ:۲۰۸
’’اے ایمان والو! اسلام میں داخل ہو جاؤ پورے کے پورے.‘‘

ایک اور جگہ فرمایا: 

وَ اَنِیۡبُوۡۤا اِلٰی رَبِّکُمۡ وَ اَسۡلِمُوۡا لَہٗ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ یَّاۡتِیَکُمُ الۡعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنۡصَرُوۡنَ ﴿۵۴﴾ 
(الزمر) 
’’اور اپنے ربّ کی طرف رجوع کرو اور اس کی فرمانبرداری قبول کر لو (اس کے سامنے سرتسلیم خم کر دو) اس سے پہلے پہلے کہ تم پر عذاب آ جائے‘ پھر تمہاری کوئی مدد نہیں کی جائے گی.‘‘

اس رویہ کا دینی اصطلاح میں نام ہے اسلام‘ سرتسلیم خم کرنا‘ گردن نہادن‘ 
to`surrender . اسی کے لیے مزید دو اصطلاحات ہیں:اطاعت اور تقویٰ. اطاعت کامفہوم ہے مقاومت و مدافعت ترک کرکے برضا و خوشی فرمانبرداری قبول کر لینا‘ جس کے لیے قرآن مجید میں بار بار حکم دیا گیا: اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ ’’اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول( ) کی‘‘.اسے انگریزی میں یوں کہیں گے: 

"To give up all kinds of resistance whole heartedly." 
یعنی’’خوش دلی سے ہر نوع کی مقاومت ومزاحمت ترک کر دینا.‘‘

جبکہ ’’تقویٰ‘‘ کا مفہوم ہے اللہ کے احکام کو توڑنے سے بچنا‘ اس کی نافرمانی سے باز رہنا. تقویٰ کا حکم قرآن مجید میں بڑی تکرار اور تاکید سے آیا ہے. اس ضمن میں چوٹی کی آیت ہے: 
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَ لَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَ اَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ ﴿۱۰۲﴾ (آل عمران) 
’’اے اہل ِایمان! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جیسا کہ اس کے تقویٰ کا حق ہے اور تم پر موت نہ آئے مگر حالت فرمانبرداری میں.‘‘

اطاعت اور تقویٰ میں بالترتیب مثبت اور منفی رویہ سامنے آتا ہے. بات ایک ہی ہے. گویاایک ہی تصویر کے دو رُخ ہیں. 
اس پہلی منزل کے لیے چوتھی اور آخری جامع ترین اصطلاح ہے ’’عبادت‘‘. اس میں اسلام‘ اطاعت اور تقویٰ کے تمام مفاہیم آ جاتے ہیں. اس لفظِ عبادت کے سمجھنے کے لیے فارسی کے دو الفاظ کو جو اردو میں مستعمل ہیں‘ جمع کریں گے تو مفہوم ذہن نشین ہوجائے گا. وہ الفاظ ہیں ’’بندگی‘‘ اور ’’پرستش‘‘. بندگی غلامی کو کہتے ہیں اور اس میں اطاعت کا پہلو غالب ہے‘جبکہ پرستش کے معنی ہیں مخلصانہ اور والہانہ محبت. سورۃ الزمر میں نبی اکرم کو مخاطب کرکے فرمایاگیا: فَاعۡبُدِ اللّٰہَ مُخۡلِصًا لَّہُ الدِّیۡنَ ؕ﴿۲﴾ ’’پس (اے نبی !) اللہ کی بندگی کیجیے اس کے لیے اپنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے‘‘. پھر سورۃ البیّنۃ میں ان دونوں کو نہایت حسین و جمیل اسلوبِ بیان میں بایں طور جمع کر دیا گیا: وَ مَاۤ اُمِرُوۡۤا اِلَّا لِیَعۡبُدُوا اللّٰہَ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ ۬ۙ حُنَفَآءَ … (آیت ۵’’اور اُن کو اِس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا کہ اللہ کی بندگی کریں اپنے دین (اطاعت) کو اس (اللہ تعالیٰ) کے لیے خالص کرتے ہوئے ‘بالکل یکسو ہو کر‘‘. قرآن مجید میں جن و اِنس کی تخلیق کی غایت یہی عبادتِ ربّ قراردی گئی ہے‘ ازروئے آیت مبارکہ: وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ ﴿۵۶﴾ (الذّٰریٰت) ’’میں نے جنوں اور انسانوں کو فقط اپنی بندگی کے لیے تخلیق کیا ہے‘‘.

فرائض دینی کی اس پہلی منزل کو سر کرنے کے لیے ایک بندۂ مؤمن کو سہ گونہ جہاد کرنا پڑے گا‘ یعنی مجاہدہ و کشمکش کرنی پڑے گی.