فرائض دینی کی دوسری منزل ہے اس دین کو عام کرنا‘ دوسروں تک پہنچانا‘ اسے پھیلانا. اس کے لیے چار اصطلاحات اہم ہیں. پہلی دو اصطلاحات ہیں :’’تبلیغ ‘‘ اور ’’دعوت‘‘. یہ بھی اطاعت و تقویٰ کی طرح تصویر کے دو رُخ اور مثبت و منفی مفہوم کے حامل الفاظ ہیں. تبلیغ سے مراد پہنچانا اور دعوت سے مراد لوگوں کو کھینچ کر راہِ حق پر لے آنا ہے. یہ بھی ایک ہی عمل کے دو رُخ ہیں. تبلیغ کے لیے نبی اکرم  کو یہ تاکیدی حکم ہوا: یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ ؕ وَ اِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسَالَتَہٗ ؕ (المائدۃ:۶۷

’’اے رسول ( )! پہنچایئے جو آپ کی طرف آپ کے ربّ کی جانب سے نازل ہوا ہے. اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو (گویا) اپنی رسالت کا حق ادا نہ کیا.‘‘

نبی اکرم نے حجۃ الوداع میں اُمّت کو جو آخری تاکیدی حکم دیا وہ اسی تبلیغ کا تھا. فرمایا: فَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبَ (۱’’پس جو موجود ہے (مخاطب ہے) اسے چاہیے کہ (یہ پیغام) اس کو پہنچائے جو یہاں موجود نہیں ہے!‘‘مزید برآں آنحضور نے یہ فرما کر ہر مسلمان کے لیے فریضہ ٔتبلیغ آسان ترین فرما دیا: بَلِّغُوْا عَنِّیْ وَلَوْ آیَۃً (۲’’میری طرف سے پہنچائو چاہے ایک آیت ہی کیوں نہ ہو‘‘.دعوت کے لیے نبی اکرم : کو تاکیدی حکم ہوا: 

اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ وَ الۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ وَ جَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ؕ ؕ 
(النحل:۱۲۵
’’(اے نبی !) اپنے ربّ کے راستے کی طرف بلایئے حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ اور ان (کفار و مشرکین) کے ساتھ مجادلہ کیجیے احسن طریقے سے.‘‘

یہ بڑی مہتم بالشان آیت ہے‘ اس پر میں بعد میں کچھ عرض کروں گا. یہاں اتنا سمجھ لیجئے کہ اس آیت میں دعوت کی تین سطحیں 
(levels) بیان ہوئی ہیں. 

دعوت کے ضمن میں ایک مزید اٹل اور رہنما اصول اس آیت مبارکہ میں بیان کردیا گیا: 

وَ مَنۡ اَحۡسَنُ قَوۡلًا مِّمَّنۡ دَعَاۤ اِلَی اللّٰہِ وَ عَمِلَ صَالِحًا وَّ قَالَ اِنَّنِیۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ﴿۳۳﴾ 
(حمٓ السجدۃ) 
’’اور اُس سے بڑھ کر اچھی بات کس کی ہو سکتی ہے جو اللہ کی طرف بلائے اورنیک عمل کرے اور کہے یقینا میں خود بھی فرمانبرداروں (مسلمانوں) میں سے ہوں!‘‘

یعنی دعوت اللہ کی طرف ہو‘ اس کے ساتھ ہی داعی کی سیرت و کردار عمل ِصالح کا مظہر ہو. مزید برآں وہ اپنے آپ کو مسلمان سمجھے‘ مسلمان کہلائے. اس کی دعوت کسی فقہی مسلک کی طرف نہ 
(۱) صحیح البخاری ‘کتاب الحج‘ باب الخطبہ ایام منی. وصحیح مسلم‘ کتاب القسامۃ والمحاربین والقصاص والدیات‘ باب تغلیظ تحریم الدماء والاعراض والاموال.
(۲) صحیح البخاری‘ کتاب احادیث الانبیائ‘ باب ما ذکر عن بنی اسرائیل. وسنن الترمذی‘ابواب العلم‘باب ما جا فی الحدیث عن بنی اسرائیل. 
ہو اور نہ ہی اس کا لیبل چسپاں ہو. جو شخص اللہ کی طرف دعوت دے اس سے بہتر بات اور کسی کی نہیں ہو سکتی. 

اسی دوسری منزل کے لیے دو اصطلاحات مزید ہیں جو بڑی اہم ہیں‘ لیکن ان کا ادراک و شعور قریباً معدوم کے درجے میں آ گیا ہے. ہمارے معاشرے میں ‘الا ماشاء اللہ ‘چند ہی لوگ ہوں گے جو اِن کی اہمیت کو سمجھتے ہوں گے اور ان پر عمل کرتے ہوں گے. ان میں تیسری اصطلاح ہے: ’’امر بالمعروف و نہی عن المنکر ‘‘ یعنی نیکیوں کا پرچار‘ اُن کی تلقین‘ اُن کا حکم اور برائیوں سے‘ بدی سے لوگوںکو روکنا‘ بدی اور برائی کے راستہ میں آڑے آنا. ہماری ایک دینی تحریک میں امر بالمعروف پر ایک درجہ میں عمل بھی ہو رہا ہے تو اس میں نہی عن المنکر سے صرفِ نظر ہے. حالانکہ حدیث شریف میں نہی عن المنکر پر زیادہ زور اور تاکید ہے. صحیح مسلم کی حدیث ہے.حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم نے ارشاد فرمایا: 

مَنْ رَاٰی مِنْکُمْ مُنْـکَرًا فَلْیُغَــیِّرْہُ بِیَدِہٖ ‘ فَاِنْ لَّـمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ ‘ فَاِنْ لَّـمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ ‘ وَذٰلِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَانِ 
(۱
’’(اے مسلمانو!) تم میں سے جو کوئی کسی منکرکودیکھے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اسے اپنے ہاتھ (یعنی طاقت) سے روکے‘ اگر اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو زبان سے روکے (یعنی نصیحت و تلقین کرے)اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو (کم از کم) دل میں اسے برا جانے (اس پر کڑھے اور پیچ و تاب کھائے )اور یہ کمزور ترین ایمان (کی نشانی) ہے.‘‘ 

ہمارے اس دَور کے لحاظ سے مسلم شریف کی ایک اور حدیث بہت اہم اور قابل التفات ہے. حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضور نے فرمایا: 

مَا مِنْ نَبِیٍّ بَعَثَہُ اللّٰہُ فِیْ اُمَّۃٍ قَبْلِیْ اِلاَّ کَانَ لَہٗ فِیْ اُمَّتِہٖ حَوَارِیُّوْنَ وَاَصْحَابٌ یَاْخُذُوْنَ بِسُنَّتِہٖ وَیَقْتَدُوْنَ بِاَمْرِہٖ ‘ ثُمَّ اِنَّھَا تَخْلُفُ مِنْ بَعْدِھِمْ خُلُوْفٌ یَقُوْلُوْنَ مَا لَا یَفْعَلُوْنَ وَیَفْعَلُوْنَ مَالَا یُؤْمَرُوْنَ‘ فَمَنْ جَاھَدَھُمْ بِیَدِہٖ فَھُوَ مُؤْمِنٌ وَمَنْ جَاھَدَ ھُمْ بِلِسَانِہٖ فَھُوَ مُؤْمِنٌ وَمَنْ جَاھَدَھُمْ بِقَلْبِہٖ فَھُوَ مُؤْمِنٌ‘ وَلَیْسَ وَرَآئَ ذٰلِکَ مِنَ الْاِیْمَانِ حَبَّۃُ خَرْدَلٍ 
(۲

’’مجھ سے پہلے جس نبی کو بھی اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا‘ اس کی امّت میں اس کے ایسے 
(۱) صحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب بیان کون النھی عن المنکر من الایمان (۲) حوالہ سابق ہ حواری اور ساتھی ہوا کرتے تھے جو اس نبی کی سنت پر عمل کرتے تھے اور اس کے حکم کی پیروی کرتے تھے. پھر اُن حواریین کے بعد ایسے نالائق جانشین آجاتے تھے جو کہتے وہ تھے جو کرتے نہیں تھے اور ایسے کام کیا کرتے تھے جن کا انہیں (اللہ کی طرف سے) حکم نہیں ہوا کرتا تھا .تو ایسے لوگوں سے جو ہاتھ سے جہاد کرے تو وہ مؤمن ہے ‘اور جو زبان سے جہاد کرے تو وہ بھی مؤمن ہے‘ اور جو دل سے جہاد کرے تو وہ بھی مؤمن ہے‘ اور اس کے ورے تو رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں ہے.‘‘

یہ ہے ہمارے دین میں نہی عن المنکر کی اہمیت.

اس دوسری منزل کے لیے چوتھی جامع ترین اصطلاح ہے ’’شہادت علی الناس‘‘. جیسے پہلی منزل کے لیے جامع ترین اصطلاح میں نے ’’عبادت‘‘ بیان کی تھی‘ دوسری منزل کے لیے ’’شہادت علی الناس‘‘ جامع ترین اصطلاح ہے. جناب محمد  آخری نبی اور آخری رسول ہیں. لہٰذا آپؐ کی اُمت بھی آخری اُمت ہے. یہ اُمت اس لیے برپا کی گئی ہے کہ تاقیامِ قیامت نوعِ انسانی پر اپنے قول و عمل سے حق کی شہادت دے. ارشادِ الٰہی ہے : 

وَ کَذٰلِکَ جَعَلۡنٰکُمۡ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ عَلَیۡکُمۡ شَہِیۡدًا ؕ 
(البقرۃ:۱۴۳
’’اور اس طرح (اے مسلمانو!) ہم نے تمہیں بہترین اُمت بنایا ہے تاکہ تم نوعِ انسانی پر گواہ ہو جائو اور رسول تم پر گواہ ہو جائیں.‘‘ 

سورۃ الحج کی آخری آیت اس موضوع پر بڑی عظیم آیت ہے. فرمایا: 

وَ جَاہِدُوۡا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِہَادِہٖ ؕ ہُوَ اجۡتَبٰىکُمۡ 

’’اور جہاد کرو اللہ کے لیے جیسا کہ (اور جتنا کہ) اس کے لیے جہاد کا حق ہے. اس نے تمہیں چن لیا ہے (پسند کر لیا ہے‘ ایک خاص مقصد کے لیے تمہارا انتخاب ہو گیا ہے).‘‘

درمیان میں ایک جملہ معترضہ ہے: 

وَ مَا جَعَلَ عَلَیۡکُمۡ فِی الدِّیۡنِ مِنۡ حَرَجٍ ؕ مِلَّۃَ اَبِیۡکُمۡ اِبۡرٰہِیۡمَ ؕ ہُوَ سَمّٰىکُمُ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ۬ۙ مِنۡ قَبۡلُ وَ فِیۡ ہٰذَا 

اس کے بعد اُمت کے اجتباء (چن لیے جانے) کا مقصد بایں الفاظ بیان ہوا: 

لِیَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ شَہِیۡدًا عَلَیۡکُمۡ وَ تَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ ۚۖ 

’’تاکہ رسول تم پر گواہ ہوں اور تم پوری نوعِ انسانی کے لیے گواہ بن جاؤ .‘‘ 
یعنی لوگوں پر اپنے قول و عمل سے حق کی شہادت دے کر حجت قائم کرو تاکہ قیامت کے دن عدالت ِخداوندی میں گواہی دے سکو ‘ testify کرسکو کہ پروردگار! ہم نے تیرا دین ان تک پہنچا دیا تھا.سورۃ البقرۃ کی آیت میں پہلے اُمت ّکا ذکر ہوا اور پھر رسولؐ کا‘ لیکن یہاں پہلے رسولؐ اور پھر اُمت کا ذکر ہے. 

شہادت علی الناس وہ اصطلاح ہے کہ یہاں آ کر اُمت ِمحمد علیٰ صاحب ہا الصلوٰۃ والسلام کا تعلق کارِ رسالت سے جڑ جاتا ہے. چونکہ آنحضور آخری نبی اور آخری رسول ہیں لہٰذا یہ آپؐ ‘ کی ذمہ داری ہے کہ دعوت و تبلیغ کے ذریعے اور اپنے قول و عمل کی ہم آہنگی کی شہادت کے ذریعے’’ دین الحق‘‘ کو بالفعل قائم کرکے اس کی برکات کے ذریعے لوگوں پر حجت قائم کریں. اس شہادت کی اہمیت کا اندازہ سورۃ النساء کی اس آیت سے لگائیے‘ فرمایا: 

فَکَیۡفَ اِذَا جِئۡنَا مِنۡ کُلِّ اُمَّۃٍۭ بِشَہِیۡدٍ وَّ جِئۡنَا بِکَ عَلٰی ہٰۤؤُلَآءِ شَہِیۡدًا ﴿ؕ؃۴۱﴾ 
(النسائ) 
’’اس دن کیا حال ہو گا جس دن ہم ہر اُمت پر ایک گواہ کھڑا کریں گے ‘اور (اے نبی !) ان سب پر آپ ‘کو گواہ بنا کر لائیں گے! ‘‘ ّ

عدالت ِخداوندی میں رسولؐ دراصل استغاثہ کے گواہ ہوں گے‘ وہ کہیں گے اے پروردگار! میں نے تیرا پیغام اپنے قول و عمل سے شہادت دیتے ہوئے بنی نوعِ انسان تک پہنچا کر اُن پر حجت قائم کر دی تھی. رسول اللہ کے بعد شہادت علی الناس کی یہ ذمہ داری اُمت کے کاندھوں پر ہے.

شہادت علی الناس کی ذمہ داری کی نزاکت کوسمجھ لیجئے. اگر بالفرض رسولؐ اللہ تعالیٰ کا پیغام نہ پہنچاتے تو اللہ کے یہاں وہ مسئول ہوتے. انہوں نے پہنچا دیا تو وہ بری ہوگئے. اب لوگ جواب دہ ہوں گے. 
(۱نبی اکرم نے حجۃ الوداع کے موقع پر سوا لاکھ کے مجمع سے گواہی لے لی: اَلاَ ھَلْ بَلَّغْتُ؟ اور پورے مجمع نے بیک زبان ہو کر گواہی دی: قَدْ بَلَّغْتَ وَاَدَّیْتَ وَنَصَحْتَ . تین بار یہ سوال و جواب ہوئے. اس کے بعد حضورؐ نے آسمان کی طرف‘ (۱) یہی بات سورۃ الاعراف میں اس اسلوب سے بیان فرمائی گئی: 

فَلَنَسۡـَٔلَنَّ الَّذِیۡنَ اُرۡسِلَ اِلَیۡہِمۡ وَ لَنَسۡـَٔلَنَّ الۡمُرۡسَلِیۡنَ ۙ﴿۶﴾ 

’’پس یہ لازماً ہو کر رہنا ہے‘ کہ ہم ان لوگوں سے باز پرس کریں جن کی طرف ہم نے رسول بھیجے اور رسولوں سے بھی پوچھیں (کہ انہوں نے ہمارا پیغام پہنچادیا تھا یا نہیں اور ان کو کیا جواب ملا)‘‘. (جمیل الرحمن) 
پھر مجمع کی طرف اپنی انگشت ِمبارک سے اشارہ کرتے ہوئے تین بار فرمایا: اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ ’’اے اللہ تو گواہ رہنا! پھر حاضرین سے مخاطب ہو کر فرمایا: فَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبِ‘‘ اُمت کا اِجتباء جہاں بہت بڑا اعزاز ہے وہاں بہت بڑی ذمہ داری بھی ہے .اگر اُمت نے اس شہادت علی الناس کا فریضہ انجام نہیں دیا تو بنی نوعِ انسان کی گمراہی کے وبال سے عدالت ِخداوندی میں بچنا محال ہو جائے گا اور نبی اکرم کی گواہی ہمارے خلاف ہو جائے گی.