جہاد کی تیسری منزل سب سے کٹھن‘ سب سے بھاری اور سب سے مشکل ہے. اور یہ ہے دین کو غالب کرنے ‘ قائم کرنے اور نافذ کرنے کے لیے‘ اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے‘ اس مقصد کے لیے کہ دین کا تجزیہ اور اس کے حصے بخرے کیے بغیر وہ کل کاکل اللہ کے لیے ہو جائے‘ جہاد کرنا. جیسے انفرادی سطح پرفرمایا گیا: وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلاَّ لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ لا حُنَفَـآئَ ویسے ہی اجتماعی سطح پر دین کے غلبہ کے لیے جہاد و قتال کا حکم دیا گیا. فرمایا: وَقٰـتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَـکُوْنَ فِتْـنَـۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ . یہ ہے جہاد کی بلند ترین چوٹی اور سب سے کٹھن اور مشکل مرحلہ. اس کی وجہ بھی اظہر من الشمس ہے. پہلی منزل پر ذاتی سطح پر نفس کے ساتھ کشمکش تھی. دوسری منزل پر اہل زیغ کے ساتھ نظریاتی اور فکری سطح پر کشمکش تھی. اس تیسری منزل پر طاغوتی نظام کو ہٹانے کا مرحلہ درپیش ہوتا ہے‘ اس لیے کہ دو نظام کسی حال میں بھی co-exist نہیں کر سکتے. پچاس مذاہب بھی ایک بالاتر نظام کے تحت اکٹھے رہ سکتے ہیں. مذاہب باہمی اختلافات کے علی الرغم پُرامن طور پر پہلو بہ پہلو زندگی گزار سکتے ہیں. یہ بالکل قابل ِعمل ہے اس لیے کہ دنیا کا غالب تصور یہی ہے کہ مذہب تو لوگوں کے انفرادی اور نجی مسائل و معاملات سے تعلق رکھتا ہے. اجتماعیات کے تمام امور میں مذہب کا عمل دخل اِس دور میں تسلیم ہی نہیں کیا جاتا. یہ سیکولر فیلڈ ہے. جیسا کہ انگریز کے دور میں ہندوستان میں اصل نظامِ اجتماعی (Law of the Land) سرکارِ انگلشیہ کا تھا. 

ہندوستان میں رہنے والے تمام مذاہب کے لوگوں کو آزادی تھی کہ وہ اپنے شخصی معاملات میں اپنے اپنے مذہب پر عمل کریں. انگریزی حکومت کو اس پر کوئی اعتراض نہیں تھا. جیسے دستوری اور نظری طور پر موجودہ بھارت میں بھی یہ بات تسلیم شدہ ہے اور تمام مذاہب کے حقوق دستور میں معین ہیں.

بہرحال ایک ملک میں دین یعنی نظامِ اجتماعی ایک ہی رہ سکتا ہے. دو نظام نہ رہ سکتے ہیں نہ چل سکتے ہیں. جس طرح ایک نیام میں بیک وقت دو تلواریں نہیں سما سکتیں‘ اسی طرح ایک ملک میں دو نظام نہیں چل سکتے. ایک گدڑی میں بہت سے درویش سما سکتے ہیں‘ لیکن ایک شال میں دو بادشاہ نہیں سما سکتے. معلوم ہوا کہ ہر نظام اپنا غلبہ چاہتا ہے اور اگر اسلام محض مذہب نہیں‘ بلکہ دین ہے ‘جیسا کہ فی الواقع وہ ہے: 
اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ ط تو اس کو غلبہ درکار ہے. یہ منزل انگریزوں کی دو سو سالہ غلامی کی وجہ سے ہمارے ذہنوں سے اوجھل ہو گئی تھی اور اب بھی بڑی مشکل سے یہ تصور لوگوں کے ذہنوں کے سامنے آ رہا ہے. چونکہ غلامی کے تقریباً دو سو سال کے درمیان اسلام دین نہیں رہا تھا‘ صرف مذہب بن گیا تھا‘ لہٰذا ہمارا سارا تصور اکثر و بیشتر تو پہلی منزل تک محدود ہے ‘یعنی عبادات اور حلال و حرام کے موٹے موٹے احکام ہم جانتے ہیں. دوسری منزل کی طرف بھی پیش رفت ہوئی‘ یعنی تبلیغ‘ دین کو پہنچانا‘ اسے عام کرنے کی کوشش کرنا. لیکن یہ بات ذہنوں سے اوجھل ہو گئی کہ ہمارا دین اپنا غلبہ چاہتا ہے. اَلْحَقُّ یَعْلُوْ وَلَا یُعْلٰی عَلَیْہ ِ. اسلام دین ہے اور دین ہوتا ہی وہ ہے جو غالب ہو. علامہ اقبال کا بڑا پیارا شعر ہے ؎

بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب
اور آزادی میں بحرِ بیکراں ہے زندگی!

میں بڑے جزم کے ساتھ کہتا ہوں کہ اسلام جب غالب ہوتا ہے تو دین ہوتا ہے اور جب مغلوب ہوتا ہے تو صرف مذہب رہ جاتا ہے. ہماری دو سو سالہ سیاسی اور فکری غلامی نے اس مذہبی تصور کو اس طریقے سے ہمارے ذہنوں میں نقش اور راسخ کر دیا ہے کہ اگر بڑی محنت کے بعد کسی کے سامنے یہ تصور واضح ہوتا ہے کہ اسلام مذہب نہیں بلکہ دین ہے تو تھوڑے عرصہ کے بعد مضمحل ہو کر ذہنوں سے اوجھل ہو جاتا ہے اور پھر توجہ اس کے مذہبی تصور تک محدود ہوجاتی ہے. ہمارا اسلام کا محض مذہبی تصور انگریزی دَور میں اتنا راسخ ہوچکا تھا کہ ہمارے بعض زعماء نے انگریز حکومت کی بھی بڑی مدح کی تھی کہ اس نے ہمیں بڑی مذہبی آزادی دے رکھی ہے. لہٰذا حکومت کے خلاف کوئی تحریک چلانا یا اس میں حصہ لینا مسلمانوں کے لیے قطعی نامناسب ہے. اسی پر مردِ قلندر اقبال نے یہ پھبتی چست کی تھی ؎

ملا کو جوہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد!

اسلام کا غلبہ اور اسلام کا ایک دین کی حیثیت سے بالفعل قائم و نافذ کرنا‘ یہ ہے ہمارے فرائض دینی کی تیسری اور بلند ترین منزل.