بہرحال یہ ہیں جہاد کے تین درجے. ان کو مزید پھیلائیں گے تو نو(۹) درجے بن جائیں گے اور نویں منزل پر جا کر یہ جہاد قتال بنتا ہے جو اس کی چوٹی اور اس کا نقطۂ عروج ہے. یہی وجہ ہے کہ سورۃالصف میں جہاں جہاد کی بات ہوئی وہاں یہ بات صراحت سے سامنے آتی ہے کہ جہاد تو ایمان کی بنیاد (base) ہے. جہاد نہیں کرو گے تو عذابِ جہنم سے چھٹکارا پانے کی امید محض امید ِموہوم ہے.تِلْکَ اَمَانِیُّھُمْ ’’یہ محض تمہاری خوش فہمیاں ہیں‘‘.اس کی کوئی برہان اور دلیل تمہارے پاس نہیں ہے. عذابِ الیم سے رُستگاری کے لیے ایمان اور جہاد لازم و ملزوم ہیں. چنانچہ اسی سورۂ مبارکہ میں فرمایا گیا: 
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ہَلۡ اَدُلُّکُمۡ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنۡجِیۡکُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿۱۰﴾تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ تُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِاَمۡوَالِکُمۡ وَ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۙ۱۱﴾ 
(الصف) 

’’اے اہل ایمان! میں بتائوں تمہیں وہ تجارت جو تم کو عذابِ الیم سے نجات دلادے؟ (وہ یہ ہے کہ) ایمان (پختہ) رکھو اللہ اور اُس کے رسول پر اور جہاد کرو اُس کی راہ میں اپنے مالوں سے اوراپنی جانوں سے ‘یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو.‘‘ 

معلوم ہوا کہ ایمان کے ساتھ جہاد ناگزیر ہے. اس سے تو مفر ہے ہی نہیں. یہ تو نجات کی شرطِ لازم ہے. قرآن مجید تو یہ بتاتا ہے کہ جہاد نہیں تو ایمان نہیں. دلیل کے لیے سورۃ الحجرات کی آیت ۱۵دیکھئے! فرمایا: 

اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ثُمَّ لَمۡ یَرۡتَابُوۡا وَ جٰہَدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوۡنَ ﴿۱۵﴾ 

’’مؤمن تو صرف وہ لوگ ہیں جواللہ اور اس کے رسول پر اس شان سے ایمان لائے کہ ان کے قلوب تشکیک اور خلجان میں نہیں پڑے (بلکہ ان کو یقینِ قلبی حاصل ہو گیا) اور جنہوں نے جہاد کیا اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں. بس صرف یہی لوگ ہیں جو (اپنے دعوائے ایمان میں) سچے ہیں.‘‘ 

اس آیتِ مبارکہ میں حصر کے دو اسلوب آئے ہیں‘ ایک 
اِنَّمَا اور دوسرے اُولٰٓـئِکَ ھُمُ الصّٰدِقُوْنَ . اسی لیے میں نے ترجمانی میں اس اسلوب کو پیش نظر رکھا ہے.

آگے چلیے. اگر کوئی دُنیوی محبت اللہ کی راہ میں جہاد سے روکنے کے لیے پاؤں میں بیڑی بن کر پڑ گئی تو قرآن مجید کا فتویٰ کیا ہے! اس کے لیے سورۃ التوبہ کی آیت ۲۴ ملاحظہ کیجیے: 
قُلۡ اِنۡ کَانَ اٰبَآؤُکُمۡ وَ اَبۡنَآؤُکُمۡ وَ اِخۡوَانُکُمۡ وَ اَزۡوَاجُکُمۡ وَ عَشِیۡرَتُکُمۡ وَ اَمۡوَالُۨ اقۡتَرَفۡتُمُوۡہَا وَ تِجَارَۃٌ تَخۡشَوۡنَ کَسَادَہَا وَ مَسٰکِنُ تَرۡضَوۡنَہَاۤ اَحَبَّ اِلَیۡکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ جِہَادٍ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ فَتَرَبَّصُوۡا حَتّٰی یَاۡتِیَ اللّٰہُ بِاَمۡرِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿٪۲۴﴾ 

اللہ کی محبت‘ اس کے رسول ( ) کی محبت اور اللہ کی راہ میں جہاد کی محبت کی عظمت و اہمیت پر قرآن حکیم کی یہ بڑی جامع اور مہتم بالشان آیت ہے. اس آیت میں مسلمانوں کے سامنے ایک معیار اور کسوٹی رکھ دی گئی ہے .ان سے فرمایا گیا ہے کہ اپنے باطن میں ایک ترازو نصب کر لو اور پھر جائزہ لے لو کہ تمہاری اصلی دلی محبتوں کا کیا حال ہے. فرمایا کہ اے نبی ! ان مسلمانوں سے کہہ دیجئے کہ اپنے دل میں نصب شدہ میزان کے ایک پلڑے میں آٹھ محبتیں ڈ الو. یعنی اپنے باپوں کی محبت‘ اپنے بیٹوں کی محبت‘ اپنے بھائیوں کی محبت‘ اپنی بیویوں کی محبت اور اپنے رشتہ داروں اور اعزہ ّو اقارب کی محبت. ماں ‘بیٹی‘ بہن اور شوہر کی محبتوں کا بھی ان میں احاطہ ہو گیا. یہ پانچ محبتیں علائق دُنیوی سے متعلق ہیں. پھر ان کے ساتھ چھٹی محبت اس مال کی جو بڑے چاؤ کے ساتھ تم نے جمع کیا ہے‘ ساتویں اس کاروبار کی محبت جو تم نے بڑی محنت سے جمایا ہے ‘ جس میں تم نے خون پسینہ ایک کیا ہے ‘جس کے متعلق تم کو اندیشے لاحق رہتے ہیں کہ کہیں کساد بازاری نہ آ جائے‘ کہیں گھاٹا نہ ہو جائے ‘اور آٹھویں ان مکانوں کی محبت جو تم نے بڑے ارمانوں سے تعمیر کیے ہیں‘ جن کی زیبائش و آرائش پر تم نے پانی کی طرح پیسہ لگایا ہے. یہ تین محبتیں اسباب و سامانِ دُنیوی سے متعلق ہیں. اب تقابل کے لیے دوسرے پلڑے میں تین محبتیں ڈالو. ایک اللہ کی محبت‘ دوسری اس کے رسول ( ) کی محبت اور تیسری اس کی راہ میں جہاد کی محبت. اب دیکھو کون سا پلڑا بھاری پڑا‘ کون سا جھکا! اگر ان آخر الذکر محبتوں کا پلڑا ہلکا رہ گیا اور علائق وسامانِ دُنیوی کی محبتوں والا پلڑا بھاری پڑ گیا تو جاؤ گومگو کی حالت میں مبتلا رہو اور انتظار کرو! میں محاورے کے طور پر
فَتَرَبَّصُوْا کا صحیح مفہوم ادا کرنے کے لیے کہا کرتا ہوں کہ ’’جاؤ دفع ہو جاؤ‘‘ حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ ط وَاللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَX ’’حتیٰ کہ اللہ اپنا فیصلہ سنا دے ‘اور اللہ ایسے فاسق لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا.‘‘
یہاں فاسق کا لفظ انتہائی قابل توجہ ہے. جس مسلمان کا دل جہاد کی محبت سے خالی اور اس کی اہمیت و عظمت سے غافل ہے اس کا شمار بھی فاسقوں میں ہوتا ہے. میرا ظن غالب ہے 
کہ اسی آیت مبارکہ سے متاثر ہو کر اقبال نے یہ شعر کہا تھا: ؎

یہ مال و دولت دُنیا‘ یہ رشتہ و پیوند
بتانِ وہم و گماں لا الٰہ الا اللہ!

معلوم ہوا کہ جہاد سے تو مفر ہے ہی نہیں. سورۃ الحجرات کی متذکرہ بالا آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے ‘ بلکہ میرے غور و فکر کی حد تک نص ِقطعی ہے کہ ایمانِ حقیقی کے دو رکن ہیں : ایک ہر نوع کے ریب و تشکیک اور ذہنی خلجان سے مبرا یقین ِ قلبی اور دوسرا اللہ کی راہ میں اپنےمالوں اور اپنی جانوں سے جہاد.

بلاشبہ کلمۂ شہادت‘ اقامت ِصلوٰۃ‘ ایتائے زکوٰۃ‘ حج اور صومِ رمضان‘ پانچ ارکانِ اسلام ہیں. ان میں شہادتَین کو بنیاد اور دوسرے چار کو ستون کا مقام حاصل ہے. بنیاد اور ستون کے بغیر کسی عمارت کی تعمیر کا تصور ممکن ہی نہیں‘ لہٰذا میں فرائض دینی کے جامع تصور کو ظاہر کرنے کے لیے جو تین منزلہ عمارت کی مثال پیش کیا کرتا ہوںاس کی ہر منزل کے لیے یہ ارکانِ اسلام ناگزیر ہیں. لیکن ایمانِ حقیقی کے دو رکن ہیں. ایک قلبی یقین اور دوسرا جہاد فی سبیل اللہ. جہاں تک میں نے غور و فکر کیا ہے‘ نجات کا کوئی دوسرا راستہ اس جہاد کے بغیر مجھے نظر نہیں آتا. سورۃ العصر میں نجاتِ اُخروی کے جو ناگزیر لوازم بیان فرمائے گئے ہیں ان میں تیسرا لازمہ اور تیسری ناگزیر شرط’’ تواصی بالحق‘‘ قرار دی گئی ہے. سورۂ ہود کی پہلی آیت مبارکہ میں یہ اصول بیان فرمایا گیا ہے: 

الٓرٰ ۟ کِتٰبٌ اُحۡکِمَتۡ اٰیٰتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتۡ مِنۡ لَّدُنۡ حَکِیۡمٍ خَبِیۡرٍ ۙ﴿۱﴾ 

’’ا ل ر . یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ اس کی آیتیں محکم کی گئی ہیں‘ پھر صاف صاف بیان کی گئی ہیں ایک حکیم باخبر کی طرف سے.‘‘

چنانچہ قرآن حکیم اسی تواصی بالحق کی شرح کے لیے مزید کئی اصطلاحات بیان کرتا ہے. جہاد فی سبیل اللہ کی اصطلاح بھی اس کی توضیح و تشریح اور تفصیل ہے.