اگرچہ میں بھی اس بات کا قائل ہوں کہ ہمیں حتی الامکان جدید اصطلاحات سے احتراز کرنا چاہیے اور کتاب وسنت کی اصل اصطلاحات سے چمٹے رہنا چاہیے‘ عافیت اسی میں ہے‘ ورنہ بالکل غیرشعوری اور غیرمحسوس طور پر غلط نظریات اذہان میں رینگ کر آجاتے ہیں اور پیوست ہو جاتے ہیں .لیکن اس کے ساتھ ہی ایک یہ دشواری بھی پیش آتی ہے کہ ہر دَور کی اپنی زبان ہوتی ہے‘ ہر دور کی چند مخصوص اصطلاحات ہیں جو بات کی تفہیم کے لیے ضروری ہوتی ہیں. اگر اس زبان میں ان اصطلاحات کے ساتھ بات نہیں کی جائے گی تو ابلاغ کا حق ادا نہیں ہو گا. لہٰذا میرے نزدیک درمیانی راہ یہ ہے کہ وقتی طور پر ابلاغ اور افہام کے لیے ان اصطلاحات کو استعمال ضرور کیا جائے لیکن اپنے فکر کو مستقلاً اُن اصطلاحات کے حوالے سے استوار کیا جائے جو کتاب و سنت کی ہیں. اسی مقصد کے پیش نظر میں یہ بات عرض کرنے کی جرأت کر رہا ہوں کہ ’’جہاد‘‘ کے لیے آج کے دور کی اصطلاح ہے ’’انقلاب‘‘ .انقلابی عمل ہی دراصل جہاد ہے. البتہ اس میں تھوڑا سا فرق واقع ہوتا ہے. میں نے جہاد کے حوالے سے جو تین سطحیں (levels) بیان کی ہیں‘ انقلابی عمل میں ان کی ترتیب بدل جائے گی. جب ہم انقلاب کی بات کریں گے تو سب سے پہلے دعوت کا مرحلہ آئے گا. اس لیے کہ ہر انقلابی فکر کی propagation ‘اس کی نشرواشاعت‘ اس کو پھیلانا‘ اس کو عام کرنا‘ اسے ذہنوںمیں اُتارنا‘ اس کو دلائل کے ساتھ حق ثابت کرنا‘ اس انقلابی عمل کا نقطہ ٔآغاز ہوتا ہے. لہٰذا اس طرح درمیانی منزل اب پہلی ہو گئی ہے.