اسلامی انقلاب کے لیےالتزامِ جماعت اور لزومِ بیعت

ترتیب و تسوید: شیخ جمیل الرحمن
خطبہ مسنونہ کے بعد! 

اعوذ باللّٰہ من الشَّیطٰن الرَّجیم . بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ 

اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَط یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَـیَـقْتُلُوْنَ وَیُقْتَلُوْنَ قف وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّا فِی التَّوْرٰٹۃِ وَالْاِنْجِیْلِ وَالْقُرْاٰنِط وَمَنْ اَوْفٰی بِعَھْدِہٖ مِنَ اللّٰہِ فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَیْعِکُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِہٖ ط وَذٰلِکَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُG اَلتَّآئِبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآئِحُوْنَ الرّٰکِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّاہُوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَالْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰہِط وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ 

محترم صدرِ مجلس‘ علمائے کرام‘ معزز حضرات اور محترم خواتین!

میں نے پرسوں ’’جہاد بالقرآن‘‘ کے موضوع پر اظہارِ خیال کے آخر میں عرض کر دیا تھا کہ مجھے آج بھی آپ حضرات کی سمع خراشی کرنی ہے. اگرچہ میں نے کل عرض کر دیا تھا کہ آج کی نشست میں پہلی تقریرصدرِ اجلاس محترم مولانا سعید احمد اکبر آبادی مدظلہ کی ہوگی‘ جس کا عنوان ہے : ’’مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم سیرت و شخصیت علمی کارنامے اور شیخ الہندؒ کا ان سے خصوصی تعلق خاطر‘‘ (۱)لیکن چونکہ میری آج کی گفتگو مولانا مو صو ف کی تقریر سے کسی حد تک متعلق ہے. لہٰذا میں صرف اس تبدیلی کے لیے معذرت خواہ ہوں. اس کے فوراً بعد صدرِ مکرم کا خطاب ہو گا. (۱) یہ تقریر ماہنامہ ’’حکمت قرآن‘‘ کے اگست ۱۹۸۴ء کے شمارے میں شائع ہو چکی ہے اور اس کتاب میں بھی شامل ہے. (مرتب) قرآن مجید کے مطالعہ سے ایک لطیف حقیقت جو سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ بندۂ مؤمن کی شخصیت کے تین رخ ہیں. جیسے ہمارا تصورِ مکان ہے‘ (three dimensional concept of space) ویسے ہی بندئہ مؤمن کی شخصیت کے بھی تین ابعاد (dimensions) ہیں. تین جوانب و اطراف ہیں جن میں سے دو کا تعلق ظاہر سے ہے اور اس پہلو سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک تصویر کے دو رخ ہیں. تیسرے کا تعلق باطن سے ہے. مطالعہ قرآن حکیم کا میں نے جو منتخب نصاب مرتب کیا ہے جو مرکزی انجمن خدام القرآن کی دعوت اور تنظیم اسلامی کی تحریک کی جڑ اور بنیاد ہے‘ اس کے تیسرے حصے میں ایمانیات کے مباحث میں قرآن حکیم کے دو مقامات سے میں نے ان دو ظاہری رخوں کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے. یہ دونوں مقامات ایک دوسرے کے لیے توضیحی یعنی (complimentary) نوعیت کے ہیں. دونوں مل کر ایک حقیقت کی تکمیل کرتے ہیں. قرآن مجید میں ایک طرف سورۃ النور میں حقیقت ایمان کو ایک نہایت بلیغ اور نہایت فصیح تمثیل کے ذریعہ سے بیان کیا گیا: اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط پھر جن لوگوں کے قلوب اس نور سے منور ہو جاتے ہیں ‘ ان کی شخصیت کی جھلک ان الفاظِ مبارکہ میں دکھا دی گئی: 

فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہٗلا یُسَبِّحُ لَہٗ فِیْہَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِj رِجَالٌ لَّا تُلْہِیْہِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَاِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَاِیْتَآئِ الزَّکٰوۃِص یَخَافُوْنَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیْہِ الْقُلُوْبُ وَالْاَبْصَارُ 

اب یہ نقشہ ہے کہ ان کی طبیعت کامیلان کیا ہے؟ اور ان کے دل کو سکون میسر آتا ہے تو کہاں آتا ہے !ان گھروں میں جو اللہ کے ذکر کے لیے مخصوص ہیں .جیسا کہ حضور کی ایک حدیث میں آتا ہے : 
وَرَجُلٌ قَلْبُہٗ مُعَلَّقٌ بِالْمَسَاجِدِ وہ لوگ جن کا دِلی تعلق مسجدوں سے ہے ‘وہ صبح و شام اس میں اللہ کا ذکر کرتے ہیں‘ تسبیح کرتے ہیں‘ اگرچہ وہ دُنیوی کاروبار میں بھی منہمک رہتے ہیں‘ معاش کی ذمہ داریاں بھی ادا کر رہے ہیں‘ لیکن رِجَالٌ وہ جواں مردکہ ان کو کوئی کاروبارِ دنیوی‘ کوئی لین دین‘ کوئی خرید و فروخت‘ کوئی مصروفیت اللہ کے ذکر‘ اقامت صلوٰۃ اور ایتائے زکوٰۃ سے باز نہیں رکھتی. وہ خوف رکھتے ہیں اس دن سے یعنی قیامت کا جس میں اُلٹے جائیں گے دل اور آنکھیں اب یہ ایک نقشہ ہے‘ ایک رخ ہے. اطاعت‘ عبادت‘ ذکر‘ ان چیزوںکو جمع کر لیجیے تو بندۂ مؤمن کی سیرت اور شخصیت کا ایک رخ بن گیا. سورۂ آل عمران کے آخری رکوع میں مؤمنین صادقین کی جو عظیم دعائیں آئی ہیں ان دعاؤں کے بعد‘ ان دعاؤں کی قبولیت کے طو رپر جو الفاظ مبارکہ وارد ہوئے ہیں وہ میرے موضوع سے متعلق ہیں اور ان ہی میں ایک بندۂ مؤمن کی سیرت و شخصیت کا دوسرا رخ سامنے آتا ہے. ارشاد فرمایا گیا: 

فَاسْتَجَابَ لَہُمْ رَبُّہُمْ اَنِّیْ لآَ اُضِیْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰیج بَعْضُکُمْ مِّنْم بَعْضٍج فَالَّذِیْنَ ہَاجَرُوْا وَاُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ وَاُوْذُوْا فِیْ سَبِیْلِیْ وَقٰـتَلُوْا وَقُتِلُوْا لَاُکَفِّرَنَّ عَنْہُمْ سَیِّاٰتِہِمْ وَلَاُدْخِلَنَّہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُج ثَوَابًا مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِط وَاللّٰہُ عِنْدَہٗ حُسْنُ الثَّوَابِ 

’’جواب میں ان کے ربّ نے فرمایا‘ میں تو تم میں سے کسی عمل کرنے والے کا عمل ضائع کرنے والا نہیں ہوں‘ خواہ وہ مرد ہو خواہ عورت‘ تم ایک دوسر ے کے ہم جنس ہو. تو جن لوگوں نے میری خاطر ہجرت کی‘ جو اپنے گھروں سے نکالے گئے‘ جو میری راہ میں ستائے گئے اور میرے لیے لڑے ‘قتل بھی کیا اور مقتول بھی ہوئے میں لازماً ان کی سب خطائیں معاف کر دوں گا اور لازماً ان کو ایسے باغات میں داخل کروں گا جن کے دامن میں ندیاں بہتی ہوں گی. یہ اجر ہے ان کا اللہ کے پاس اور بہترین جزا تو اللہ ہی کے پاس ہے.‘‘

یہ دوسرا رخ ہے. ہجرت‘ مصائب‘ صبر و مصابرت‘ جہاد اور قتال سورۂ آل عمران کی آخری آیت میں امر کے صیغے میں صبر و مصابرت اور باطل کے مقابلے میں پامردی دکھانے‘ حق کا بول بالا کرنے کے لیے کمر بستہ رہنے کا ذکر فرمایا گیا ہے : 
یٰٓـاَیـُّـھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْاقف یہ دوسرے رخ کی تکمیل ہے.

اصل میں یہ دونوں رخ جمع ہوں تو وہ بات بنتی ہے جس کی رپورٹ دی تھی ایران کے سپہ سالار رستم کے ان جاسوسوں نے جن کو اس تحقیق کے لیے بھیجا گیا تھا کہ بے سروسامان اور لوٹ مار کی خوگر اس عرب قوم کی کایا پلٹ اور قلب ِماہیت کے اسباب کیا ہیں؟ آخر ان مٹھی بھر مسلمانوں کی فوج میں یہ عزم و حوصلہ کیسے پیدا ہواکہ وہ ایران جیسی وقت کی ایک عظیم ترین قوت سے ٹکرا رہے ہیں اور اسے پاش پاش کر رہے ہیں! اس رپورٹ کا یہ جملہ نہایت جامع اور حالات کی حقیقی تصویر کے طور پر تاریخ میں نقل ہوا ہے کہ یہ بڑے عجیب و غریب قسم کے لوگ 
ہیں: ھُمْ رُھْبَانٌ بِالَّـیْلِ وَفُرْسَانٌ بِالنَّھَارِ ’’یہ رات کے راہب ہیں اور دن کے شاہسوار ہیں‘‘. ان کی راتیں اپنے اللہ کے حضور میں قیام و سجود‘ الحاح و گریہ اور دعا و مناجات میں بسر ہوتی ہیں‘ ان کی داڑھیاں اور ان کی سجدہ گاہیں خشیت الٰہی کے آنسوؤں سے تر ہوتی ہیں اور دن کو یہی لوگ برق کی طرح میدانِ جنگ میں کوندتے ہیں‘ لپکتے جھپٹتے ہیں‘ یہ اس راہ میں گردن کٹا دینے کو اپنے لیے باعث سعادت سمجھتے ہیں ‘جبکہ دنیا جنگ کے جن طور طریقوں سے آج تک واقف چلی آ رہی ہے وہ تو یہ ہیں کہ فوجیوں کی راتیں شراب و کباب اور شباب سے کھیلنے میں بسر ہوتی ہیں. جس بستی یا اس کے آس پاس کسی فوج کا پڑاؤ ہو جائے کیا وہاں کی کسی جوان خاتون کی عصمت و عفت محفوظ رہ سکتی ہے! لیکن یہ وہ اعجوبہ‘ انوکھے اور نرالے اللہ کے سپاہی تھے کہ ان کی زندگی‘ ان کی شخصیت کے یہ دو رخ اتنے ظاہر و نمایاں تھے کہ جو غیر مسلم ایرانی جاسوسوں کو بھی نظر آ گئے تیسرا رخ ہے باطن کا وہ ہے اخلاص فی النیۃ‘ وہ ہے اخلاص فی العبادہ‘ وہ ہے مقامِ شکر‘ وہ ہے مقام توکل اور مقامِ رضا‘ جو میرے نزدیک ان سب مقاماتِ عالیہ سے بلند ترین مقام ہے. اس کے بارے میں میرا خیال ہے کہ علامہ اقبال کا یہ شعر حرفِ آخر ہے ‘جو وہ کہہ گئے ہیں ؎

بروں کشید ز پیچاکِ ہست و بود مرا
چہ عقدہ ہا کہ مقامِ رضا کشود مرا

انسان کو دنیا میں پیچ و تاب کی جو کیفیات لاحق رہتی ہیں‘ ان سے نکال لینے والا درحقیقت مقامِ رضا ہے ان باطنی لطائف سے متعلق ہمارے صوفیاء نے بڑی معرکۃ الآراء بحثیں کی ہیں.

بہرحال ایک بندۂ مؤمن کی شخصیت کے یہ تین رخ ہیں. ان میں سے ہر رخ پر آج کی نشست میں گفتگو ہونے والی ہے. ظاہری دو رخ تو میری آج کی گفتگو میں زیربحث آ رہے ہیں. تصوف کے موضوع پر اسی نشست میں ان شاء اللہ العزیز دو مقالے پیش ہوں گے‘ ایک مقالہ مولانا الطاف الرحمن صاحب بنوی جو قرآن اکیڈمی میں معلم ہیں‘ پیش فرمائیں گے‘ ان کے مقالہ کا عنوان ’’حقیقت تصوف‘‘ ہے. دوسرا مقالہ مولانا ڈاکٹر غلام محمد صاحب مدظلہ کا ہے. وہ اس سمندر کے شناور ہیں. مولانا سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ علیہ کے خلیفہ ٔمجاز ہیں.وہ جب گفتگو کریں گے تو وہ صرف ’’قال‘‘ پر نہیں بلکہ ’’حال‘‘ پر مبنی ہو گی‘ ان شاء اللہ العزیز.ان کے مقالہ کا انوکھا موضوع یہ ہے : ’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور تصوف‘‘.عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ 
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو زیادہ دلچسپی دین کے ظاہری احکام سے تھی. چند لوگوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شخصیت کو اپنے بہت سے غلط مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے. چنانچہ تصوف دشمنی کے لیے بھی اسے exploit کیا گیا ہے اور حَسْبُـنَا کِتٰبُ اللّٰہِ کے قولِ حق سے آج اُرِیْدُ بِہِ الْـبَاطِل کا کام لیا جا رہا ہے . میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہت ہی قیمتی بات ہو گی کہ تصوف کے بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سیرت کا یہ پہلو بھی ہمارے سامنے آجائے اسی سے متعلق ایک موضوع ہے ’’فلسفہ مذہب و اخلاق‘‘ اس پر قرآن اکیڈمی کے ڈائریکٹر برادرم ڈاکٹر ابصار احمد صاحب ایک مقالہ پیش کریں گے . (۱یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ تینوں مقالے تصویر کے باطنی رُخ سے متعلق ہیں‘ البتہ تصویر کے ظاہری دو رخوں کے متعلق مجھے بھی کچھ عرض کرنا ہے اور جس کے متعلق محترم صدرِ مجلس نے بھی کچھ ارشاد کرنا ہے‘ یعنی دعوت رجوع الی القرآن اور جہاد جس کا غلغلہ اس صدی میں سب سے پہلے مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم نے بلند کیا. میری مراد ’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ‘‘ کے ابوالکلام آزاد سے ہے. اس دور میں یہ دو اہم چیزیں نمایاں ہو کر سامنے آئیں جن کی طرف اس صدی میں نہایت جوش و خروش سے متوجہ کرنے والے مولانا آزاد مرحوم تھے. ایک قرآن اور دوسرا جہاد ان ہی کے بارے میں مجھے آج مزید کچھ باتیں عرض کرنی ہیں.

میں نے اپنی پہلی تقریر میں عرض کیا تھا 
(۲کہ میرے نزدیک جہاد اور انقلابی عمل دونوں مترادف الفاظ ہیں. صرف اس فرق کے ساتھ کہ جہاد فی سبیل اللہ قرآن کی اصطلا ح ہے. بڑی اہم مقدس و محترم اصطلاح ہے جبکہ انقلابی عمل اس دور کی اصطلاح ہے اس جہاد یا انقلابی عمل کے چند مراحل میں نے پرسوں بیان کیے تھے. آج ان کو قدرے تفصیل سے بیان کرنا اس وقت میرے پیش نظر ہے وہ تین تین مراحل کے دو sets ہیں.

تین مراحل تمہیدی ہیں اور تین مراحل تکمیلی تمہیدی مراحل سے کیا مراد ہے!یہ کہ جب ایک شخص کسی انقلابی دعوت کو لے کر اٹھتا ہے تو اس کا پہلا کام یہ ہے کہ وہ اس انقلابی فکر کو قبول کرنے والوں کی ایک جماعت پیدا کرے. اس جماعت کے لیے تین چیزیں لازمی ہیں: 
(۱) جن مقالات کا ذکر اس تقریر میں آیا ہے‘ ان کی اشاعت ماہنامہ ’’حکمت قرآن‘‘ لاہورمیں شروع ہو چکی ہے. (مرتب)

(۲) یہ تقریر ’’جہاد بالقرآن‘‘ کے عنوان سے اگست اور ستمبر۱۹۸۴ء کے میثاق میں شائع ہو چکی ہے اور اب یہ تقریر اسی عنوان سے کتابی شکل میں بھی موجود ہے. (مرتب) 
دعوت و تبلیغ‘ تنظیم اور تربیت. اس لیے کہ جماعت جب تک پختہ نہ ہو‘ منظم نہ ہو‘ انقلاب نہیں آسکتا. جزوی کام ہوسکتے ہیں. درس و تدریس کا کام‘ تعلیم و تعلّم کا کام‘ تصنیف وتالیف کا کام‘ اصلاح تزکیۂ نفس کا کام یہ سب ہو سکتے ہیں. لیکن انقلاب برپا کرنے کے لیے ‘دین کے غلبہ کے لیے یہ لازم ہے کہ ان تین مراحل کے ذریعہ سے ایک جماعت‘ ایک تنظیم وجود میں آجائے تین مراحل جو تکمیلی ہیںوہ درحقیقت اس جماعت کے مخالف و باطل نظریات اور قوتوں کے ساتھ تصادم کے تین مرحلے ہیں: صبر محض (passive resistance) اقدام (active resistance) اور جنگ‘ قتال‘ مسلح تصادم (armed coflict) . اس موقع پر اس نکتہ پرغور فرما لیجیے کہ جہاں تک تین تکمیلی مراحل کا تعلق ہے وہ تمام انقلابی تحریکوں میں یکساں ہیں.اصل فرق جو ایک انقلاب کو دوسرے انقلاب سے ممیز کرتا ہے وہ پہلے دومراحل ہیں. تمہیدی مراحل میں بھی ایک مرحلہ مشترک ہے. فرق ہے دعوت اور تربیت کے اصولوں کا.

دعوت کافرق کیا ہے؟ ایک اشتراکی دعوت ہے اس کا رخ ہے مادی. صد فی صد مادی اور الحاد و زندقہ کی طرف جس میں اخلاق اور روحانیت کا سرے سے کوئی گزر نہیں ایک انقلابِ محمدیؐ ہے جس کا رخ ہے توحید کی طرف‘ آخرت کی طرف‘ اخلاق کی طرف‘ روحانیت کی طرف معلوم ہوا کہ یہاں سے راستے بالکل جدا بلکہ قطعی مخالف سمتوں کی طرف ہوگئے پھر تربیت کا معاملہ بھی ہے. مادّی انقلاب کے لیے مادّی تربیت کافی ہے. جب وہ نہ اللہ کو مانیں نہ آخرت کو تو ان کے تزکیۂ نفس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا. خواہ مخواہ ان کا اوراپنا وقت ضائع کرنا ہے. اس انقلاب کے جو 
dimensions ہیں یہ چیزیں اس کے بالکل خلاف ہیں. اس مادّی انقلاب کے ثمرات روحانی انقلاب کے ثمرات کے بالکل برعکس ہیں. لیکن انقلابِ محمدیؐ ‘ انقلابِ اسلامی کے لیے یہ شرطِ لازم ہے. یہ نہ ہو تو کچھ بھی نہیں تیسری چیزتنظیم وہاں بھی درکار ہے‘ یہاں بھی درکار ہے. نظام نہیں ہو گا‘ discipline نہیں ہو گا توجماعت کی شکل نہیں ہے بلکہ پھر ہجوم ہے. اس فرق کو نمایاں کیا ہے علامہ اقبال نے اس شعرمیں ؎

عید آزاداں شکوہِ ملک و دیں عید محکوماں ہجومِ مؤمنین
تنظیم اور ہجوم میں تو زمین و آسمان کا فرق ہے. اسی تنظیم کے لیے تو اقبال نے یہ بھی کہا ہے ؎
نغمہ کجا و من کجا ساز و سخن بہانہ ایست سوئے قطار می کشم ناقۂ بے زمام را!

میری قوم منتشر ہے اس کو تنظیم اور نظم میں کس دینا ہی میری شاعری کا مقصود ہے‘ ورنہ میں کہاں اور شاعری کہاں! بہرحال جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ تنظیم‘ صبرمحض‘ اقدام اور مسلح تصادم ‘یہ ہر انقلابی عمل میں مشترک مراحل ہوتے ہیں. ہم جب سیرت کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہماری نگاہیں عموماً آخری دو تکمیلی مراحل پر جمی رہتی ہیں اس مطالعہ میں دعوت‘ تربیت و تنظیم کے تمہیدی اور ابتدائی مراحل میں ہمارے یہاں بڑی حد تک غور و فکر کا فقدان ہے. اکبر الٰہ آبادی نے بہت خوبصورتی سے اس طرف توجہ دلائی ہے ؎

خدا کے کام دیکھو بعد کیاہے اور کیا پہلے
نظر آتا ہے مجھ کو بدر سے غارِ حرا پہلے

وہ غار حرا کے مراقبے‘ پھر وہ قیام اللیل : 
قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًاB نِّصْفَہٗٓ اَوِ انْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلًاC اَوْ زِدْ عَلَیْہِ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًاD (المزمل) پھر دعوت و تبلیغ‘پھر دعوت پرلبیک کرنے والوں کی تنظیم .ساتھ ہی ان کا تزکیہ اور تعلیم و تربیت. پھر نظم اور discipline کی سخت ترین مشق.بارہ سال تک حکم تھا کہ اپنی مدافعت میں بھی ہاتھ نہ اٹھاؤ‘ چاہے تمہیں دہکتے انگاروں پر کباب بنایا جا رہا ہو اس سے زیادہ کسی نظم کی پابندی کا آپ تصور نہیں کر سکتے یہ ہیں وہ مراحل جن سے گزر کر وہ جماعت بنی جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت ہے جس کو قرآن مجید نے کہا ہے حزب اللہ کسی جماعت کا پختہ ہونا‘ اصل میں یہ ہوتی ہے کلید کامیابی یہ خام رہ گئی تو ناکام ہو جائے گی.اس سیرت کی پختگی اور اس تربیت کے بغیر اگلے مراحل میں قدم رکھیں گے تو معلوم ہو گا جیسے ریت کا ایک گولہ ہے جسے اگر شیشہ پر بھی مار دیا جائے تو شیشہ قائم رہے گا ریت بکھر جائے گی. اسی بات کی تفہیم کے لیے میں نے پچھلی تقریر میں آپ کو اکبر الٰہ آبادی کا یہ شعر سنایا تھا ؎

تو خاک میں مل اور آگ میں جل جب خشت بنے تب کام چلے
ان خام دلوں کے عنصر پر بنیاد نہ رکھ تعمیر نہ کر!

پھر اقبال نے اس مضمون کو کمال تک پہنچایا ہے ؎

خام ہے جب تک تو ہے مٹی کا اک انبار تو
پختہ ہو جائے تو ہے شمشیر بے زنہار تو!

ا ور اسی کو فارسی میں علامہ نے مزید بلندی اور رفعت پر پہنچا دیا ؎
با نشہ درویشی در ساز و دما دم زن
چوں پختہ شوی خود را بر سلطنت جم زن!

میں عرض کر چکا ہوں کہ یہ جو دوابتدائی مراحل ہیں دعوت و تبلیغ اور تزکیہ و تربیت‘ تو ان کے لیے جو تلوار ہے وہ قرآن مجید ہے. ’’جہاد بالقرآن‘‘ کے عنوان سے میں پرسوں اس پر تفصیلی گفتگو کرچکا ہوں. انقلاب محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام میں ہمیں نظرآتا ہے کہ دعوت و تبلیغ کا مرکز و محور بھی قرآن اور تزکیہ و تربیت کا مرکز و محور بھی قرآن ان دونوں کو جمع کیجیے تو وہ جہادبالقرآن ہے.

آج میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہیئت اجتماعیہ کے وجود میں آنے اور پھر اس کی جدوجہد کے لیے ہمیں کتا ب و سنت سے کیا رہنمائی حاصل ہوتی ہے! میں نے پرسوں عرض کیا تھا آج اس کا اعادہ کر رہا ہوں کہ اولوالعزم من الرسل کے بارے میں ریباً اجماع ہے کہ وہ پانچ ہیں جن کا ذکر سورۃ الشوریٰ کی آیت ۱۳ میں آیا ہے. ان میں اوّلین ہیں حضرت نوح علیہ السلام اور آخری جناب محمد . زمانی ترتیب سے درمیان میں حضرت ابراہیم‘ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام. ان میں ایک عجیب نقشہ سامنے آتا ہے. حضر ت نوحؑ ساڑھے نو سو برس دعوت دیتے رہے‘ کوئی جمعیت وجود میں نہیں آئی تو اگلا قدم اٹھانے کا سوال ہی نہیں. معاشرہ اگر مر چکا ہے اور وہ اس دعوت کو جھٹلا چکا ہے تو اس کی کوئی ذمہ داری آنحضرتؑ پر نہیں. ان کے ثبات اور استقامت کے لیے بس یہی کافی ہے کہ وہی دعوت آخری سانس تک دیتے رہے. جیسا کہ نبی اکرم سے فرمایا گیا تھا: 
فَلِذٰلِکَ فَادْعُج وَاسْتَقِمْ کَمَا اُمِرْتَ ج (الشوریٰ:۱۵.اب اگر معاشرہ ساتھ دے گا تو بات آگے چلے گی‘ اعوان و انصار ملیں گے تو اگلا قدم اٹھے گا. نہیں ملے تو کوئی پروا نہیں. اس میں حضرت نوحؑ کے لیے ناکامی کا کوئی سوال نہیں. ناکامی معاشرے کی ہے‘قوم کی ہے. اس کے بالکل برعکس معاملہ ہے نبی اکرم کا کہ کل بیس برس میں دعو ت و تبلیغ بھی ہو گئی‘ تنظیم بھی ہو گئی‘ تزکیہ و تربیت بھی ہو گئی‘ صبر محض کا مرحلہ بھی گزر گیا‘ اقدام ہو گیا‘ مسلح تصادم بھی ہو گیا اور لکھوکھ ہا مربع میل کے رقبہ کے ملک پر اللہ کا دین بالفعل قائم ہو گیا دیکھئے کس قدر نمایاں فرق ہے میرا خیال ہے کہ اسی فرق کو واضح کرنے کے لیے قرآن مجید میں حضرت نوح علیہ السلام کی مدتِ دعوت ساڑھے نو سو برس بیان کی گئی ہے ورنہ کسی اور رسول کی مدتِ دعوت کا قرآن میں ذکر نہیں ہے.اسی سے اوّل و آخر کا فرق نہایت نمایاں ہو گیا ہے. واللہ اعلم ان پانچ اولوالعزم من الرسل کے وسط میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا معاملہ آتا ہے کہ جمعیت بہت بڑی تھی لیکن بودی. کچے لوگ‘ تھڑدلے لوگ. جب نقد جاں ہتھیلی پر رکھ کر میدانِ قتال میں آنے کا وقت آیا تو کورا جواب دے دیا: فَاذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَا اِنَّا ھٰھُنَا قٰعِدُوْنَX (المائدۃ) ’’موسیٰ تم جائو اور تمہارا ربّ جائے اور تم دونوںکافروں سے قتال کرو‘ ہم تو یہیں بیٹھے رہیں گے‘‘. نتیجہ یہ نکلا کہ وہ ارضِ مقدس جو انہیں دی جا چکی تھی اللہ تعالیٰ نے ان کی بزدلی کی پاداش میں چالیس برس تک وہ ان پر حرام کر دی : فَاِنَّھَا مُحَرَّمَۃٌ عَلَیْھِمْ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً ج یَتِیْھُوْنَ فِی الْاَرْضِ ط (المائدۃ:۲۶.انہی چالیس سالوں کے دوران حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام کا انتقال ہو گیا. یہ دونوں حضرات والا قدر اپنی جسمانی آنکھوں سے اس حیاتِ دنیوی میں اپنی اس جدوجہد کو اس مقام پر پہنچنا نہ دیکھ سکے کہ اللہ کا دین بالفعل کسی خطہ ٔارضی میں قائم اور نافذ ہو جائے.

اب ہمارے لیے یہ مسئلہ انتہائی غور طلب ہے کہ وہ جمعیت کس بنیاد پر وجود میں آتی ہے. تنظیم کی بنیاد کیا ہے؟ اس ضمن میں آپ سے عرض کروں گا کہ سورۃ الفتح کی آخری دو آیات پیش نظر رکھیے. ان میں جو آخری سے ماقبل کی آیت ہے اس میں رسول اللہ کی بعثت کا امتیازی ہدف متعین ہوا: 
ھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖط وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَھِیْدًاv لیکن سوچئے کہ وہ کون سی جمعیت اور قوت تھی جن کے ساتھ مل کر آنحضور نے اپنے اس امتیازی منصب رسالت کو ادا فرمایا اور جزیرہ نمائے عرب پر بیس سال کی مدت میں اللہ کا دین بالفعل قائم و نافذ فرما دیا! اگر بالفرض حضرت نوح علیہ السلام کی طرح جناب محمد بھی اکیلے رہ جاتے یاآنحضور کے ساتھ بھی وَمَآ اٰمَنَ مَعَہٗ اِلاَّ قَلِیْلٌ رحمہم اللہ (ھود) والا معاملہ ہوتا یا بالفرض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جمعیت بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم بنی اسرائیل کی طرح بودی‘ بزدل اورتھڑدلی ہوتی اور قتال سے انکار کر دیتی تو کیا اس عالم اسباب و علل میں رسول اللہ اکیلے اپنے امتیازی فرض منصبی اظہارِ دین حق کو ادا فرما سکتے تھے! سورۃ الفتح کی آخری آیت آتی ہے جس میں اس مبارک جمعیت کے اوصاف بیان فرمائے گئے جو نبی اکرم کے ساتھ تھی‘ آغاز ہوتا ہے : مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ط وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ (آیت ۲۹.میں آج اس آیت کی طرف آپ حضرات کی خاص طو رپر توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں. میں نے تصویر کے جو دو رُخ آپ کے سامنے رکھے‘ وہ دونوں یہاں جمع ہیں ایک طرف ان کی یہ کیفیت : اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ ان کی جمعیت کا پہلا وصف ‘ بمقابلۂ کفار‘ بمقابلہ ٔباطل. اور کس شان کے ساتھ! کہ بیٹے کی تلوار باپ کے خلاف نیام سے باہر نکلنے کے لیے بے تاب ہے. غزوۂ بدر میں عتبہ بن ربیعہ ‘اس کے ایک بیٹے اور ایک بھائی نے جب مبارزت طلب کی تھی تو مسلمانوں کے لشکر کی طرف سے پہلے تین انصاری مقابلہ کے لیے نکلے تھے. اس پر عتبہ نے کہا یہ ہماری توہین ہے. ہمارے مدمقابل ہمارے برابر کے ہونے چاہئیں. تو کون نکلے تھے؟ عتبہ کے بیٹے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہرحمت ِعالم نے گوارا نہ کیا یہ بات دوسری ہے. حضور نے انہیں روک دیا. پھر حضرت حمزہ‘ حضرت علی اور حضرت ابوعبیدہ ( رضوان اللہ علیہم اجمعین) نکلے. یہی معاملہ حضرت عبدالرحمن بن ابی بکرؓ کے ساتھ ہوا.

وہ غزوئہ بدر تک ایمان نہیں لائے تھے اور کفار کے لشکر کے ساتھ جنگ میں شریک ہوئے تھے. بعد میں جب وہ ایمان لے آئے تو انہوںؓ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ابا جان! بدر میں ایک موقع پر آپ میری تلوار کی زد میں آ گئے تھے‘ لیکن میں نے آپ کو چھوڑ دیا. میں نے آپ کا لحاظ کیا. حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیا: بیٹے تمہاری جنگ چونکہ باطل کے لیے تھی‘ لہٰذا تمہارے لیے تو یہ خونی رشتہ بامعنی تھا. اللہ کی قسم اگر تم میری زد میں آ گئے ہوتے تو میں تمہیں کبھی نہ چھوڑتا. غزوئہ بدر کے مشرک قیدیوں کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ قیدیوں میں جو جس صحابی کا رشتہ دار ہواس کو وہ صحابیؓ اپنے ہاتھ سے قتل کرے. یہاں بھی رحمۃ للعالمینؐ نے فدیہ لے کر چھوڑنے کا فیصلہ کیا بعد میں وحی نے حضرت عمرؓ کی رائے کی تائید کی. یہ ہے اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِکی تصویر رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ کا رخ دیکھنا ہو تو اس مواخات میں دیکھ لیجیے جو مدینۃ النبیؐ میں مہاجرین و انصار کے مابین ہوئی تھی.ایک انصاری صحابیؓ نے یہاں تک پیشکش کی تھی کہ ان کی دو بیویوں میں سے جو مہاجر بھائی کو پسند ہو‘ میں اس کو طلاق دے دوں گاوہ اس سے نکاح کر لیں. جنگ یرموک میں زخمیوں کی جانب سے ایک مسلمان سپاہی نے آواز سنی کوئی زخمی پکار رہا تھا العَطش! العَطش! ‘ پانی پانی. وہ پانی کا پیالہ لے کر دوڑ کر اس زخمی کے پاس پہنچے تو دوسری طرف پانی پانی کی پکار آئی. ان زخمی نے کہا پہلے میرے اس بھائی کو پانی پلاؤ. وہ وہاں پہنچے تو تیسری طرف سے یہی صدا آئی. انہوں نے بھی اصرار کیا کہ پہلے اس کو پانی پلاؤ. وہاں پہنچے تو چوتھی طرف سے یہی پکار آئی. ان تیسرے صاحب کے اصرار پر چوتھے کے پاس پہنچے تو وہ اپنی جان‘ جان آفری ن کے سپرد کر چکے تھے. یکے بعد دیگرے یہ تینوں کے پاس پہنچے تو یہ تینوں بھی اللہ کو پیارے ہو چکے تھے. یہ تھی قربانی‘ یہ تھاایثار‘یہ تھا رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ کا نقشہ اور یہ کامل عکاسی ہے : فَالَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا وَاُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ وَاُوْذُوْا فِیْ سَبِیْلِیْ وَقٰـتَلُوْ وَقُتِلُوْا کی.

اور جو دوسرا نقشہ ہے : 
فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰہُ… الی اخر الایۃ وہ آگے آ رہا ہے : 
تَرٰٹہُمْ رُکَّعًا سُجَّدًاقف یَّـبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًاز سِیْمَاہُمْ فِیْ وُجُوْہِہِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِط ذٰلِکَ مَثَلُہُمْ فِی التَّوْرٰٹۃِج وَمَثَلُہُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ قف 
(آیت ۲۹

’’تم جب انہیں دیکھو گے رکوع و سجود میں مشغول پائو گے. سجدوں کے اثرات ان کے چہروں پر ظاہر ہوں گے. وہ اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کی طلب میں مصروف ملیں گے. ان کی یہی صفت تورات میں بیان ہوئی ہے اور انجیل میں بھی.‘‘

ان دو آیات کو ذہن میں رکھیے اور اب آگے آیئے تاکہ یہ سمجھا جا سکے کہ اس رشتہ یعنی 
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ط وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ کوآپس میں جوڑنے والی شے کون سی ہے؟ قرآن مجید نے اس کے لیے جو لفظ استعمال کیا ہے ‘ وہ بہت اہم ہے اور وہ ہے نصرت. سورۃ الصف جو میرے نزدیک جہاد وقتال فی سبیل اللہ کے موضوع پر قرآن مجید کی جامع ترین سورت ہے. یہ اس موضوع پر قرآن مجید کا ذروئہ سنام (climax) ہے. اس سورۃکا اس پر اختتام ہوتا ہے : 

یٰٓـاَیـُّـھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا اَنْصَارَ اللّٰہِ کَمَا قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ لِلْحَوَارِیّٖنَ مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللّٰہِ ط 
(آیت ۱۴
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہوئے ہو‘ اللہ کے مددگار بنو‘ جیسے کہ عیسٰی ابن مریم نے حواریوں سے کہا تھا : کون ہے اللہ کی طرف (بلانے میں) میرا مددگار.‘‘

یہاں نوٹ کیجیے کہ نصرت کی دو نسبتیں آئی ہیں. دین اللہ کا ہے ‘اس کے غلبے کے لیے تن من دھن لگائو گے تو یہ نصرت ہے اللہ کی ہمایوں کو ہندوستان سے شیرشاہ سوری نے نکال باہر کیا تھا تو ایران کے بادشاہ طہماسپ کی فوجوں نے ہندوستان کی حکومت دوبارہ حاصل کرنے کے لیے ہمایوں کی مدد کی.اس سے بڑا محسن ہمایوں کا کون ہو گا! 

ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْـبَرِّ وَالْـبَحْرِ 
اللہ کی تشریعی حکومت کاتختہ الٹا ہوا ہے‘ اب اس حکومت کو دوبارہ قائم کرنا ہے تو جو اس کام کے لیے خود کو وقف کر دیں‘ لگا دیں‘ کھپا دیں‘ ان سے بڑھ کر اللہ کا مددگار اور کون ہو گا! یہ نصرت اللہ کی ہے‘ لیکن اصلاً یہ فرضِ منصبی ہوتا ہے رسول کا. لہٰذا جو یہ کام کرتے ہیں وہ رسول کی نصرت کرتے ہیں. نصرت کی یہ دونسبتیں ہیں‘ ان کو اچھی طرح جان لیجیے. ان ہی دو نسبتوں کا بیان ہوا ہے. پہلے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اہل ایمان کے لیے مطالبہ آیا: کُوْنُوْا اَنْصَارَ اللّٰہِ ’’اللہ کے مددگار بنو‘‘. آگے رسول کی طرف سے دعوت آئی: مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللّٰہِ ’’کون ہے میرا مددگار اللہ کے راستہ میں‘‘.اسی بات کی تفہیم کے لیے سورۃ الحدید کی آیت ۲۵ کو دیکھئے ‘فرمایا: 

لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ج وَاَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْہِ بَاْسٌ شَدِیْدٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ وَرُسُلَہٗ بِالْغَیْبِ ط 

یہاں بھی نصرت کی دو نسبتیں بیان ہوئیں: 
وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ وَرُسُلَہٗ بِالْغَیْبِط ’’اللہ دیکھ لینا چاہتا ہے کہ کون ہیں اس کے وفادار بندے جو اس سے غیب میں ہونے کے باوجود اس کی اور اس کے رسولوں کی مدد کرتے ہیں‘‘ رسول کی نصرت چونکہ اللہ کی نصرت یعنی اس کے دین کے غلبے کے لیے جان و مال لگانا ہے. لہٰذا رسول کی نصرت پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت اور فوز و فلاح کی بشارت ہے جس کا ذکر سورۃ الاعراف کی آیت ۱۵۷ کے آخر میں بایں الفا ظ مبارکہ وارد ہوا: فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَعَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَالَّذِیْ اُنْزِلَ مَعَہٗلا اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَA ’’جو لوگ اس پر (اللہ کے رسول محمد پر) ایمان لائیں اور ان کی توقیر و عزت کریں اور اُن کی حمایت و نصرت کریں اور اس روشنی (یعنی قرآن مجید)کی پیروی اختیار کریں جو اُنؐ کے ساتھ نازل کی گئی ہے تو یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں‘‘. آیت کے آخر میں حصر کا اسلوب ہے. معلوم ہوا کہ فوز و فلاح منحصر ہے ان چار کاموں پر. جناب محمد رسول اللہ پر ایمان‘ ان کا احترام‘ دعوت و تبلیغ‘ شہادت علی الناس اور اظہار دین الحق علی الدین کلہ کی جدوجہد میں ان کی نصرت اور قرآن حکیم کا اتباع جیسا کہ میں نے عرض کیاکہ رسول اللہ کی دین کے غلبے کے لیے نصرت اصلاً اللہ کی نصرت ہے لہٰذا سورئہ محمد میں اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو بشارت دیتا ہے کہ اگر تم اللہ کی اس کے دین کے غلبے کے لیے مدد کرو گے تو وہ اہل ایمان کی مدد کرے گا اور باطل و طاغوتی قوتوں کے مقابلہ میں ان کے قدم مضبوطی سے جما دے گا: یٰٓــاَیـُّـھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ ا َ اَقْدَامَکُمْG حاصل گفتگو یہ ہے کہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ط وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ میں پہلا نقطہ ٔماسکہ‘ پہلی جوڑنے والی چیز نصرت رسول ہے علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام. لہٰذا یہ لفظ نصرت بہت اہم ہے. اس کو نوٹ فرما لیجیے!

اس تعلق کو قائم کرنے کے لیے قرآن مجید نے جو دوسرا عنوان قائم کیا ہے‘ وہ ہے مبایعت. میں نے دانستہ لفظ بیعت استعمال نہیں کیااسے ذرا روکا ہے. اس سے آپ لوگوںکو الرجی ہے. مبایعت ذرا ثقیل تو ہو گیا لیکن نیا لفظ ہے تو شاید آپ اس پر غور کرنے کے لیے تیار ہو جائیں یہ لفظ مبایعت باب مفاعلہ میں بیع سے بنا ہے. دو اشخاص کہہ لیں‘ دو فریق کہہ لیں‘ دو شخصیتیں کہہ لیں. ان کے مابین جو معاہدہ طے پا جائے‘ بیع و شراء تو یہ مبایعہ یا مبایعت ہے. قرآن حکیم میں سورۃ التوبہ کی آیت ۱۱۱ میں بیع و شراء دونوں الفاظ استعمال ہوئے ہیں. اسی آیت کی تلاوت سے میں نے آج کی گفتگو کا آغاز کیا تھا. قرآن مجید نے دین کی اس حقیقت کو متعدد مقامات پر ’’تجارت‘‘ کے لفظ سے واضح کیا ہے. اس لیے کہ اس کامفہوم و تصور 
(concept) بڑا واضح ہے. ہرمعمولی شخص بھی جانتا ہے کہ تجارت کسے کہتے ہیں؟ تجارت کے لیے سرمایہ درکار ہوتا ہے. پونجی لگتی ہے خواہ کم ہو یا زیادہ.ساتھ ہی محنت لگتی ہے. ان دونوں کے اشتراک کا نام تجارت ہے. اس تجارت سے پیش نظر منفعت ہے. چنانچہ سورۃ الصف کی یہ آیت ذہن میں لایئے : 

یٰٓـاَیـُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ھَلْ اَدُلُّـکُمْ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنْجِیْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍJ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُجَاھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ ط 

’’اے اہل ایمان میں تمہاری رہنمائی کروں‘ تمہیں بتاؤں ایک تجارت‘ ایک سوداگری جو تم کو دردناک عذاب سے بچا لے‘ چھٹکارا دلا دے؟ ایمان پختہ رکھو اللہ پر اور اس کے رسول پر اور محنت کرو‘ کشمکش کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے.‘‘

یہاں لفظ تجارت بہت جامع ہے اسی تجارت کی نہایت مہتم بالشان اسلوب سے شرح ہے جو سورۃالتوبہ کی اس آیت مبارکہ میں آئی ہے : 
اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَط’’اللہ نے اہل ایمان سے ان کی جانیں اور ان کے مال خرید لیے ہیں جنت کے عوض‘‘.اس سودے کا ظہور کس طور پر ہو رہا ہے؟ اسے آگے بیان کیا گیا ہے : یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَیَقْتُلُوْنَ وَیُقْتَلُوْنَ قف ’’وہ اللہ کی راہ میں قتال کرتے ہیں‘ قتل کرتے ہیں اور قتل ہوتے بھی ہیں‘‘. آگے بڑا لطیف نکتہ آ رہا ہے‘ غور کیجیے گا. چونکہ یہ سودا نقد نہیں ہے بلکہ ادھار ہے. جان و مال تو یہاں دینا ہو گا‘ جنت وہاں آخرت میں ملے گی. ادھار سودا کر کے آدمی کے دل میں وسوسے آتے ہیں کہ قیمت ملے کہ نہ ملے . اس لیے اس آیت میں آگے کس قدر تاکید آ رہی ہے : وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّا فِی التَّوْرٰٹۃِ وَالْاِنْجِیْلِ وَالْقُرْاٰنِ ط وَمَنْ اَوْفٰی بِعَھْدِہٖ مِنَ اللّٰہِ کسی وسوسے کو قریب پھٹکنے نہ دو. یہ تو اللہ کا وعدہ ہے اس کے ذمہ حق کے ساتھ. تین مرتبہ اس کی توثیق ہوئی ہے. تین مرتبہ کے وعدے کے بعد بھی کوئی شک باقی رہ سکتا ہے! تورات میں یہ وعدہ آ چکا‘ انجیل میں یہ وعدہ آ چکا‘ قرآن میں یہ وعدہ آ چکا اور سوچو تو سہی کہ اللہ سے زیادہ اپنے وعدے کا وفا کرنے والا کون ہے! لہٰذا فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَیْعِکُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِہٖ ط ’’پس خوشیاں مناؤ اس بیع پر جو تم نے کی ہے‘‘ یہاں ’’بَایَعْتُمْ‘‘ باب مفاعلہ ہے. دو فریقوں کے مابین خرید و فروخت لین دین وَذٰلِکَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ4 ’’اور یہی اصل اور بڑی کامیابی ہے.‘‘

اب ایک اہم بات پر غور کیجیے. یہاں بیع تو اصلاً ہے اللہ اور بندے کے درمیان لیکن اللہ نہ کبھی زمین پر اُترا اور نہ کبھی اترے گا کہ وہ یہ خریداری‘ یہ بیع وشراء خود کرے. لہٰذا نبی اکرم اس کے نمائندے کی حیثیت سے سامنے ہیں. بیع کس سے ہے! اللہ سے. اور بیعت کس سے ہے! محمد رسول اللہ سے اس حقیقت کو کس قدر خوبصورتی سے اس آیت میں واضح کیا ہے جو میں ابھی آپ کو سنانے والا ہوں. اس آیت کو اس اعتبار سے مزید اہم سمجھئے کہ یہ اسی سورۃ الفتح میں ہے جس میں فرمایا گیا تھا : 
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ط وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ یہ (link) کیا ہے! نقطۂ ماسکہ کیا ہے! وہ رشتہ کیا ہے جس نے ان کو آپس میں جوڑ دیا ہے! آپ کو معلوم ہے‘ اسی سورۃ الفتح میں بیعت رضوان مذکور ہے : لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُـبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ (آیت ۱۸اس سے قبل آیت ۱۰ میں اس بیعت کی حقیقت کو ایسے حسین و عجیب اسلوب سے بیان کیا گیا ہے کہ اگر انسان واقعتا غور کرے تو عظمت کے احساس سے سرخودبخود جھکتا ہے. فرمایا: 
اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَط یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ ج 

’’(اے نبی !) جو لوگ آپ سے بیعت کر رہے ہیں حقیقت میں وہ اللہ سے بیعت کر رہے ہیں اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھ پر ہے.‘‘ 
چونکہ ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت ہوتی ہے. البتہ خواتین سے نبی اکرم نے جب کبھی بیعت لی ہے اس میں کبھی مصافحہ نہیں ہوا: لَا اُصَافِحُ النِّسَائَ بعض خواتین نے ہاتھ بڑھائے بھی تھے ہمارے ملک کی جو خاتونِ اوّل ہیں‘ اخباری اطلاعات کے مطابق انہوں نے یہی plea لی تھی جب خواتین کی محفل میلاد میں کسی بچی نے اعتراض کر دیاتھا کہ ہمارے ملک کی خاتونِ اوّل نے ایک غیر محرم مرد سے ہاتھ ملایا! تو انہوں نے یہی عذر پیش کیا تھا کہ اس نے ہاتھ بڑھا دیا تھا ‘ میں کیا کرتی! میں اسے شرمندہ کیسے کرتی!لیکن محمد رسول اللہ اُمت کے تمام مردوں اور عورتوں کے لیے بمنزلہ باپ ہیں اور خواتین کے ہاتھ بڑھ چکے ہیں اور وہ کہہ رہی ہیںاَلَا تُصَافِحُنَا ’’کیا آپ ہم سے مصافحہ نہیں فرمائیں گے؟ ‘‘یعنی آپ نے ہم سے بیعت تو لی نہیں!اس لیے کہ بیعت کا جو معروف طریقہ ہے ہاتھ میں ہاتھ دے کر قول و قرار کرنا اس کے مطابق تو عمل ہوا نہیں. حضور کا جواب تھا : لاَ اُصَافِحُ النِّسَائَ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ خواتین سے بیعت لینے کے لیے حضور کا طریقہ یہ تھا کہ یا تو کپڑا ہوتاتھا. ایک سرا حضور کے ہاتھ میں ہے اور ایک سر ااس خاتون کے ہاتھ میں. یا ایک طشت میں پانی ڈال کر ایک طرف نبی اکرم نے اپنا دست مبارک ڈبو دیا اور دوسری طرف خاتون نے ہاتھ مس تو نہیں ہو رہا ہے لیکن اس میں کچھ نہ کچھ معاملہ ضرور ہے. اب یہ تو اہل تصوف جانیں کہ کون سا روحانی اور برقی عمل ہو رہا ہے ہم کو تو ظاہر نظر آتا ہے. ظاہر کی پیروی کرنے کو ہم اتباعِ رسول کا لازمی تقاضا سمجھتے ہیں. اس میں یقینا کوئی باطنی و روحانی چاشنی بھی ہے ‘وہ نَافِلَۃً لَّکَ کے درجے میں ہے. بہرحال اس میں کوئی نہ کوئی حکمت ہے ضرور. ورنہ اس تکلف کی ضرورت کیا ہے؟ فعل الحکیم لا یخلو عن الحکمۃ.ہمارے لیے زیادہ سلامتی اور عافیت اسی میں ہے کہ ظاہر پر عمل کیا جائے ؎

بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر باو نہ رسیدی تمام بولہبی است

یہ باتیں میں آج کی گفتگو میں اس لیے عرض کر رہاہوںکہ آج چند لوگوں نے مجھ سے عجیب و غریب باتیں کہی ہیں کہ ہم ایک دینی جماعت کے رکن ہیں. اس کا ایک ’’دستور‘‘ ہے. اس کا ایک ’’امیر‘‘ ہے .چونکہ ہم دستور کو تسلیم کر کے جماعت میں شامل ہوئے ہیں لہٰذا بیعت ہو گئی. اب کیا ضروری ہے کہ ہاتھ میں ہاتھ دے کر ہی بیعت کی جائے میں نے ان سے 
کہا کہ یہی بات آج کا صوفی کہتا ہے کہ نماز کا مقصد کیا ہے! اللہ سے لو لگانا میں نے اللہ سے لگائی ہوئی ہے! مجھے نماز کی کیا ضرورت ہے! دین کے ظاہر کے لیے جب آپ اس حدیث کا حوالہ دیتے ہیں اور بالکل صحیح دیتے ہیں کہ صَلُّوْا کَمَا رَأَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ اور اس میں ذرا سے فرق پر آپ کے یہاں ہنگامے ہیں. من دیگرم تو دیگری والا معاملہ ہے.اور اس بیعت کے معاملہ میں ظاہر کو اس طرح اٹھا کر پھینک دیں‘ اس کی کوئی قدر و قیمت نہ رہے یہ درحقیقت ہمارے تضادات ہیں بہرحال میں نے برسبیل تذکرہ یہ باتیں کہی ہیں.

گفتگو یہ ہو رہی تھی کہ ایک بندئہ مؤمن کی اصلاً بیع ہوتی ہے اللہ کے ساتھ لیکن اس عالم واقعہ میں بیعت اللہ کے رسولؐ کے ہاتھ پر ہوتی ہے. پھر رسول اللہ کے نائبین کے ہاتھ پر ہوتی ہے پھر جو بھی انؐ کے نقش قدم پر چلیں گے ان کے ہاتھ پر ہو گی. یہ بیعت کی بنیاد ہے جو ان کو جوڑتی ہے‘ ایک قوت بناتی ہے‘ ان کو متحد کرتی ہے اور ایک جمعیت کی شکل دیتی ہے اور جمعیت بھی کیسی! اس بیعت کے بعد لامحالہ وہ ڈسپلن وجود میں آئے گا جس کی اس عالم واقعہ میں صرف ایک ہی مثال ہے جس کو 
army discipline کہتے ہیں. فوج کا نظم و ضبط‘ بلاچون و چرا حکم کی بجاآوری‘ سمع و طاعت. آپ نے کبھی غور کیا کہ سمع و طاعت کیوں کہا گیا! بادیٔ النظر میں یہاں ’’سمع‘‘ کا لفظ زائد ہے ‘ بے کار ہے. آخر اطاعت ہو گی تو کوئی حکم سن کر ہی تو ہو گی. پھر کس لیے یہ سمع و طاعت. اور قرآن مجید کی یہ اصطلاح ہے : وَاسْمَعُوْا وَاَطِیْعُوْا اور اِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا اور وَقَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَاِلَیْکَ الْمَصِیْرُ غور کیجیے کہ سمع و طاعت کا جوڑا کیوں آیا؟ ایک اطاعت وہ ہوتی ہے جو حکم کی غایت اور اس کے مقصد کو سمجھنے کے بعد واجب ہوتی ہے اور ایک اطاعت وہ ہے جو مجرد سننے پر واجب ہوتی ہے. یہ فوج کی اطاعت ہے . آپ کو معلوم ہے کہ فوج میں اگر ماتحت اپنے بالاتر سے پوچھنے لگے کہ ’’جناب اس حکم کی غایت کیا ہے؟ پہلے مجھے سمجھایئے‘‘ اگر معاملہ یہ ہو تو ظاہر بات ہے کہ فوج کا ڈسپلن تو ختم ہوا. اس کو انگریزی کی مشہور نظم چارج آف لائٹ بریگیڈ میں دو جملوں میں بڑی خوبصورتی سے ادا کیا گیا ہے: 

?Their is not to reason why
!Their is but to do & die 

فرق صرف یہ ہے کہ رسول کی اطاعت مطلق ہے. اس لیے کہ رسول ہی تو درحقیقت اللہ کا 
نمائندہ ہے. اس کے ساتھ کوئی شرط نہیں ہے ‘بلکہ اس کے لیے تو فرمان ربانی یہ ہے : وَمَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ ج .البتہ رسول کے بعد کسی کی اطاعت مطلق نہیں ہے ‘ مقید ہے الکتٰب وَالسُنۃ سے. اللہ اور اس کے رسول کے واضح احکام کا جو دائرہ ہے اس کے اندر اندر ہے. اس کے باہر ہے تو لَا سمع و لاطاعۃ ہے.معروف میں اطاعت لازم ہے ‘ واجب ہے‘ فرض ہے. پھر یہ کہ جہاں تک اطاعت کی کیفیت کا تعلق ہے تو وہی سمع و طاعت درکار ہے. ثابت کر دیجیے کہ یہ حکم کسی نص کے خلاف ہے تو بات دوسری ہے. ثابت نہ کر سکیں تو ماننا پڑے گا ‘ سمجھ میں آئے یا نہ آئے ‘اچھا لگے یا نہ لگے ‘ انشراح صدر ہو یا نہ ہو.

میں اپنی اس بات کی دلیل کے طو رپر آپ کو چند احادیث سنانا چاہتا ہوں. ان میں سے پہلی حدیث متفق علیہ ہے. کاش وہ لوگ جن میں دین کے ظاہر کے متعلق کوئی اختلاف نہیں ہے اور جو تسلیم کرتے ہیں کہ سنت رسولؐ واجب الاطاعت ہے. میں یہاں حنفی‘ اہل حدیث اور بریلوی کے چکر میں نہیں پڑتا. اتباع اور اطاعت رسولؐ کی فرضیت سے ان میں کسی کو بھی اختلاف نہیں ہے ‘ جو اختلافات ہیں‘ ان کی نوعیت یہ ہے کہ آیا یہ سنت ثابتہ ہے یا نہیں. جو روایت آ رہی ہے وہ کس نوع اور کس درجے کی ہے. سند کے اعتبار سے اس کا مقام کیا ہے! ضعیف ہے یا قوی ہے! مرسل ہے کہ مرفوع ہے. شاذ ہے کہ مشہور ہے. اس سے زیادہ مضبوط کوئی اور روایت ہے. یہ بحثیں ہیں اور ہوں گی. اصولاً کوئی اختلاف نہیں ہے -ـپھر آج یہاـں جو حضرات تشریف لائے ہیں ان میں سے کون نہیں جانتا ہے کہ جو روایت متفق علیہ ہو‘ جس کی صحت پر ائمہ حدیث میں سے چوٹی کے دو محدثین امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ کا اتفاق ہو‘ احادیث میں اس سے بلند کسی حدیث کے پختہ ہونے کا کوئی درجہ نہیں ہے. یقینی ہونے کے اعتبار سے ایسی حدیث قریباً قرآن کے ہم وزن مانی جاتی ہے اب میں آپ کو جو حدیث سنانے والا ہوں اسے امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ نے روایت کیا ہے. یہ متفق علیہ روایت ہے. میں آپ سے درخواست کروں گا کہ اس حدیث کے ایک ایک لفظ کو توجہ اور غور سے سماعت فرمایئے. خاص طو رپر ان الفاظ پر جو اکثر جوڑوں کی صورت میں آئے ہیں. حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: 

بَایَعْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ  عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ‘ فِی الْعُسْرِ والْیُسْرِ‘ وَالْمَنْشَطِ وَالْمَکْرَہِ‘ وَعَلٰی اَثَــرَۃٍ عَلَیْنَا‘ وَعَلٰی اَنْ لَا نُـنَازِعَ الْاَمْرَ اَھْلَہٗ‘ 
وَعَلٰی اَنْ نَقُوْلَ بِالْحَقِّ اَیْنَمَا کُنَّا‘ لَا نَخَافُ فِی اللّٰہِ لَوْمَۃَ لَائِمٍ (۱

’’ہم نے بیعت کی رسول اللہ سے‘‘. کس بات کی بیعت کی؟ 
’’عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ‘‘ اس پر کہ سنیں گے اور اطاعت کریں گے.کن کن حالات میں! ’’ فِی الْعُسْرِ والْیُسْرِ‘‘ چاہے تنگی ہو یا آسانی‘ مشکل ہویا آسان. ’’وَالْمَنْشَطِ وَالْمَکْرَہِ‘‘ منشط نشاط سے بنا ہے. اگر کسی حکم کی آپ کی طبیعت سے موافقت ہے. آپ کی رائے بھی اس کے حق میں ہے تو آپ خوش دلی‘ انشراحِ صدر اور نشاطِ طبع کے ساتھ اس حکم پر عمل کرتے ہیں. یہ منشط ہے. مکرہ بنا ہے اکراہ سے. اگر آپ کی ذاتی رائے کچھ اور ہے‘ آپ کا ذاتی میلان و رجحان کچھ اور ہے. لیکن اس کے باوجود آپ اسے مان رہے ہیں. تو یہ ہے اکراہ کے ساتھ‘ ناگواری کے ساتھ‘ اپنی طبیعت پر جبر کے ساتھ ماننا. توحکم ہر حال میں ماننا ہے. چاہے طبیعت میں انشراح و انبساط ہو چاہے طبیعت کو مجبور کر کے ماننا پڑے. یہاں تک تو جوڑے کی شکل میں بیعت کے لوازم کا ذکر ہوا. اب آگے علیحدہ علیحدہ امور آ رہے ہیں جن میں سے ہر ایک اہم ہے. 

’’وَعَلٰی اَثَــرَۃٍ عَلَیْنَا‘‘ 
اور اس پر بیعت کی کہ چاہے دوسروںکو ہم پر ترجیح دی جائے . ہم اس کی بھی اطاعت کریں گے جماعتی زندگی کا جو سب سے بڑا فتنہ ہوتا ہے اس کا یہاں سدباب کر دیا گیا ہے. ظاہر بات ہے کہ جس شخص کے ہاتھ پر بیعت ہو رہی ہے ‘ وہ ہر آن تو موجود نہیں رہ سکتا. کسی مہم پر وہ کسی کو اپنا نائب بنا کر بھیجے گا. نبی اکرم نے فرمایا: مَنْ اَطَاعَنِیْ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ وَمَنْ عَصَانِیْ فَقَدْ عَصَی اللّٰہَ وَمَنْ اَطَاعَ اَمِیْرِیْ فَقَدْ اَطَاعَنِیْ وَمَنْ عَصٰی اَمِیْرِیْ فَقَدْ عَصَانِیْ بالکل معقول ‘ مربوط اور منطقی بات ہے. ’’جس نے میری اطاعت کی‘ پس اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی‘ اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی‘‘ دوسری امارتوں کا جونصب ہو گا مثلاً امیر جیش ہے. حضور کہیں کوئی لشکر بھیج رہے ہیں تو اس کا کسی کو امیر یا سپہ سالار مقرر فرما رہے ہیں یا حضور مدینہ سے باہر کسی مہم پر بنفس نفیس لشکر لے کر تشریف لے جا رہے ہیں تو مدینہ میں کسی کو اپنا نائب مقرر فرمایا ہے تو ایسے مواقع پر فطری طور پر کسی کے (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الاحکام‘ باب کیف یبایع الامام الناس ‘وکتاب الفتن‘ باب قول النبی سترون بعدی امورًا تنکرونھا.وصحیح مسلم‘ کتاب الامارۃ‘ باب وجوب طاعۃ الامیر فی غیر معصیۃ … دل میں یہ بات آسکتی ہے کہ میں زیادہ حق دار ہوں‘ میں زیادہ باصلاحیت ہوں‘ میریstanding زیادہ ہے‘ میں بہت پرانا ہوں.مجھ پر دوسروں کو ترجیح کیوں دے دی گئی! آپ کو معلوم ہے کہ موتہ کی طرف جو لشکر بھیجا گیا تھا‘ اس کا امیر حضرت زیدؓ بن حارثہ کو مقررکیا گیا تھا تو اس پر چہ میگوئیاں ہوئیں. اس معاملہ کوآپؐ نے اپنی عمر شریف کے آخری دور میں ایک لشکر کا امیر حضرت اسامہؓ بن زیدؓ کو بنا کر منطقی انتہا تک پہنچا دیا. جس میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر آپؐ کے صحابہ بھی شامل تھے. یہ بھی دوسرے تمام صحابہ کرامؓ کی طرح مامور تھے اور حضرت اسامہؓ امیر. یہ اس لیے کہ معلوم ہو جائے کہ میری تربیت کس حد تک مؤثر ہو چکی ہے. وَعَلٰی اَثَــرَۃٍ عَلَیْنَا .شعوری طور پر یہ بات جانتے ہوئے بیعت کرو کہ ہم ہر حال میں اطاعت کریں گے. خواہ ہم محسوس کریں کہ دوسروں کو ہم پر ترجیح دی جا رہی ہے تاکہ اس فتنے کی ابتدا ہی میں جڑ کٹ جائے اور اس مرحلہ پرآ کر کوئی انتشار برپا نہ ہو.
 
’’وَعَلٰی اَنْ لَا نُـنَازِعَ الْاَمْرَ اَھْلَہٗ‘‘ 
اور اس پر بیعت کی کہ جو لوگ اصحابِ امر ہوں گے ہم ان سے کبھی جھگڑا نہیں کریں گے. اس میں ایک استثناء ہے جس کا ایک دوسری روایت میں اس مقام پر ان الفاظ میں ذکر ہے : وَعَلٰی اَنْ لَا نُـنَازِعَ الْاَمْرَ اَھْلَہٗ اِلاَّ اَنْ تَرَوْا کُفْرًا بَوَاحًا عِنْدَکُمْ مِنَ اللّٰہِ فِیْہِ بُرْھَانٌ .اِلا آنکہ تم کھلا کھلا کفر دیکھو جس کے لیے تمہارے پاس اللہ کی طر ف سے واضح و روشن دلیل ہو اس حال میں سمع و طاعت نہیں ہے. اگر یہ نہیں ہے تو لَا نُـنَازِعَ الْاَمْرَ یہی بات عام ہدایت و رہنمائی کے لیے اس حدیث میں وارد ہوئی ہے کہ : لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ. 

حضرت عبادہؓ بن صامت آگے آخری بات بیان فرماتے ہیں کہ ہم نے بیعت کی اور عہد کیا اس بات پر : 
وَعَلٰی اَنْ نَقُولَ بِالْحَقِّ اَیْنَمَا کُنَّا‘ لَا نَخَافُ فِی اللّٰہِ لَوْمَۃَ لَائِمٍ ’’ ہم حق کہتے رہیں گے جہاں بھی ہوں اور ہم ہرگز نہیں ڈریں گے کسی ملامت گر کی ملامت سے‘‘. یعنی معاذ اللہ غلامانہ ذہنیت پیدا کرنا اس بیعت کا مقصد نہیں ہے. معاذ اللہ مقلدانہ مزاج بنانا اسلام کا ہرگز منشا نہیں ہے اپنی سوچ کو آزاد رکھو‘ غور کرتے رہو‘ اپنی آنکھیں کھلی رکھو. دین کے لیے کام کرنا سب کا مشترکہ مقصد ہے. کسی ایک کا مقصد نہیں ہے جو مرحلہ بھی درپیش ہو‘ اس موقع پر اس کے تقاضوں کے فہم کے لیے تمہارا ذہن کام کرے. اس کے موافقت یا مخالفت‘ اس کے حق اور اختلاف کے بارے میں تم بھی سوچو‘ اپنی رائے کا برملا اظہار کرو.البتہ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ جب اجتماعی مشورے کے بعد امیر کا فیصلہ سامنے آجائے تو مانو. اس کے حکم کی تعمیل کرو.

اندازہ کیجیے یہ ہے ڈسپلن. اس ڈسپلن کے بغیر انقلاب نہیں آ سکتا. اس ڈسپلن کی اہمیت کو غزوئہ احد سے سمجھئے. آپ نے غور کیا کہ اس غزوہ میں فتح ہو چکی تھی .قرآن کہتا ہے: 
وَلَقَدْ صَدَقَکُمُ اللّٰہُ وَعْدَہٗ اِذْ تَحُسُّوْنَھُمْ بِاِذْنِہٖ ج ’’اور اللہ نے نصرت کا جو وعدہ تم سے کیا تھا اس نے پورا کر دیا. جب تم انہیں گاجر مولی کی طرح کاٹ رہے تھے‘‘ پھر یہ فتح شکست میں کیوں بدلی! اسی آیت میں اجمالاً اس کاذکر ہے. اس کی تفصیل احادیث اور سیر کی مستند کتابوں میں ملتی ہے. اُحد کے میدان میں پہاڑ کے ساتھ ایک درّہ تھا. اس امکان کے پیش نظر نبی اکرم نے حضرت عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں پچاس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ایک دستہ تعینات کر دیا تھا کہ مبادا دشمن کی فوج کا کوئی دستہ پہاڑ کے پیچھے سے آ کر اس درّے کے راستے مسلمانوں پر عقب سے حملہ کر دے. اس دستہ کو نبی کریم نے اتنی شدید تاکید کی تھی کہ اگر تم دیکھو کہ ہمیں شکست ہو گئی ہے اور ہماری لاشیں پرندے نوچ رہے ہیں تب بھی اس جگہ کو نہ چھوڑنا مسلمانوں کو جب اللہ کی نصرت سے فتح ہوئی اور دشمن منتشر ہونے لگا تو اس دستے میں اختلاف ہواکہ حضور کا منشا تو یہ تھا کہ شکست کی صورت میں ہمیں یہ جگہ نہیں چھوڑنی لیکن اب جبکہ مسلمانوں کو فتح ہو رہی ہے تو ہمیں بھی دشمن کو قتل کرنے کے لیے میدانِ جنگ میں چلنا چاہیے. دستہ کے امیر حضرت عبداللہ بن جبیرؓ ان کو روکتے رہے کہ جب تک نبی اکرم کا حکم نہ آئے ہمیں اسی جگہ ٹھہرنا چاہیے.

لیکن ان پچاس میں سے زیادہ سے زیادہ پینتیس حضرات تھے جنہوں نے دستہ کے امیر کی بات نہیں مانی اور میدانِ جنگ میں جا شامل ہوئے. خالدؓ بن ولید جو اس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے اور عرب کے مانے ہوئے جرنیل تھے. انہوں نے جب اس درّے کو خالی دیکھا‘ اُحد پہاڑ کے پیچھے سے ایک لمبا چکر کاٹ کر اپنے دستے کے ساتھ اس درّے کی جانب سے عقب سے مسلمانوں پر حملہ کر دیا. جو پندرہ صحابیؓ رک گئے تھے وہ اس یلغار کو نہ روک سکے اور سب کے سب شہید ہو گئے. دشمن کی فوج نے جب یہ دیکھا کہ پیچھے سے خالد بن ولید کے دستے نے حملہ کر دیا تو ان کے اکھڑے ہوئے قدم جم گئے اور انہوں نے پلٹ کر مقابلہ شروع کر دیا اور مسلمانوں کی یہ فتح شکست میں تبدیل ہو گئی. اسی کی طرف اشارہ ہے آیت کے اگلے حصہ میں : حَتّٰی اِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِی الْاَمْرِ وَعَصَیْتُمْ مِّنْ بَعْدِ مَا اَرٰٹکُمْ مَّا تُحِبُّوْنَ ط ’’مگر جب تم نے کمزوری دکھائی اور حکم کے بارے میں اختلاف کیا‘‘دیکھئے وہی لفظ آگیا: لَا نُـنَازِعَ الْاَمْرَ ’’تم نے اپنے سردار کے حکم کی خلاف ورزی کی جیسے ہی اللہ نے تمہیں وہ چیز دکھائی جو تمہیں محبوب تھی‘‘ (۱دیکھا آپ نے پینتیس افراد کی طرف سے ڈسپلن توڑنے کی سزا ستر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شہادت کی شکل میں ملی جن میں حضرت حمزہ بھی تھے اور حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہمابھی. پھر یہ کہ خود نبی اکرم بھی زخمی ہوئے. یہ سب اس لیے ہوا کہ ہم تمہیں آزمانا اور سبق دینا چاہتے تھے اور تمہارے دلوں کو پاک کرنا چاہتے تھے وَلِیَبْتَلِیَ اللّٰہُ مَا فِیْ صُدُوْرِکُمْ وَلِیُمَحِّصَ مَا فِیْ قُلُوْبِکُمْ ط تمہاری تنظیم کا یہ جھول رفع ہو جانا چاہیے اور تمہیں ڈسپلن کا پابند اور خوگر بننا چاہیے ابھی تو ابتدائے عشق ہے . ابھی تو عشق کے امتحان اور بھی ہیں. تمہیں اللہ کے دین کا جھنڈا چاردانگ عالم میں بلند کرنا ہے. کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ط تم عالمی اسلامی صالح انقلاب کے ہراول ہو تمہاری جانب سے کامل سمع و طاعت کا مظاہرہ ہونا چاہیے اگر ابھی یہ ڈھیل ہے تو آگے کیسے چلو گے! یہ ہے بیعت سمع و طاعت.

میں اس موقع پر ایک ضمنی بات کہہ کر آگے بڑھوں گا ایک دوسری بیعت بھی ہے‘ میں اسے حق مانتا ہوں اور وہ ہے بیعت ارشاد. لیکن وہ بیعت سمع و طاعت نہیں ہے. اس بیعت ارشاد کے لیے قرآن و سنت میں بنیاد ہے. قرآن مجید میں 
سورۃ الممتحنۃ میں بیعت النساء کا پوری تفصیل کے ساتھ ذکر ہے: یٰٓـاَیُّـھَا النَّبِیُّ اِذَا جَآئَ کَ الْمُؤْمِنٰتُ یُـبَایِعْنَکَ عَلٰی اَنْ لاَّ یُشْرِکْنَ بِاللّٰہِ شَیْئًا وَّلَا یَسْرِقْنَ وَلَا یَزْنِیْنَ وَلَا یَقْتُلْنَ اَوْلَادَھُنَّ وَلَا یَاْتِیْنَ بِبُھْتَانٍ… (آیت ۱۲یہ بیعت نساء ہے. اور حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی ایک اور روایت میں یہ الفاظ مل جاتے ہیں کہ لیلۃ العقبہ میں اسی کی بیعت حضورنے انصارِ مدینہ سے لی تھی. اس میں بالکل یہی الفاظ ہیں: 

اَخْبَرَنِیْ اَبُو اِدْرِیْسَ عَائِذُ اللّٰہِ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ اَنَّ عُبَادَۃَ بْنَ الصَّامِتِ 
(۱) اکثر مفسرین نے یہاں مَا تُحِبُّوْنَ سے مراد مالِ غنیمت کی محبت لی ہے‘ جبکہ بعض نے اس سے مراد فتح لی ہے. یہ حضرات سورۃ الصف کی آیت وَاُخْرٰی تُحِبُّوْنَھَاط نَصْرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌط سے اپنی رائے کے لیے استدلال کرتے ہیں. یہ رائے انسب معلوم ہوتی ہے. (مرتب) وَکَانَ شَھِدَ بَدْرًا وَھُوَ اَحَدُ النُّقَبَائِ لَیْلَۃَ الْعَقْبَۃِ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ وَحَوْلَـہٗ عِصَابَۃٌ مِنْ اَصْحَابِہٖ بَایِعُوْنِیْ عَلٰی اَنْ لاَ تُشْرِکُوْا بِاللّٰہِ شَیْئًا وَلَا تَسْرِقُوْا وَلَا تَزْنُوْا وَلَا تَقْتُلُوْا اَوْلَادَکُمْ وَلَا تَاْتُوْا بِبُھْتَانٍ تَفْتَرُوْنَہٗ بَیْنَ اَیْدِیْکُمْ وَاَرْجُلِکُمْ وَلَا تَعْصُوْا فِیْ مَعْرُوْفٍ فَمَنْ وَفٰی مِنْکُمْ فَاَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہِ وَمَنْ اَصَابَ مِنْ ذٰلِکَ شَیْئًا فَعُوْقِبَ فِی الدُّنْیَا فَھُوَ کَفَّارَۃٌ لَـہٗ وَمَنْ اَصَابَ مِنْ ذٰلِکَ شَیْئًا ثُمَّ سَتَرَہُ اللّٰہُ فَھُوَ اِلَی اللّٰہِ اِنْ شَائَ عَفَا عَنْہُ وَاِنْ شَائَ عَاقَـبَہٗ فَبَایَعْنَاہُ عَلٰی ذٰلِکَ (صحیح البخاری‘ کتاب الایمان) 

لیلۃ العقبہ میں حضور نے یہ بیعت لی ہے. یہ بیعت ارشاد ہے. نیکیوں کے لیے ‘ بھلائیوں کے لیے ‘ برائیوں سے بچنے کے لیے‘ تزکیہ نفس کے لیے. 

اب میں تاریخی اعتبار سے ایک اجمالی سا نقشہ آپ حضرات کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں. دیکھئے نبی اکرم نے بیعتیں لیں. بیعت عقبہ اولیٰ‘ بیعت عقبہ ثانیہ اور بیعت شجرہ ‘ اسی کا دوسرا نام بیعت رضوان ہے.ان بیعتوں کا ذکر تو سیرت کی تمام کتابوں میں مل جاتا ہے. بیعت رضوان کابیان تو قرآن مجید میں موجود ہے. ایک بیعت کا ذکر امام بخاریؒ نے کیا ہے. اس شعر میں جو صحابہ کرامؓغزوۂ احزاب میں پڑھ رہے تھے. جب وہ خندق کھود رہے تھے تو ان کی زبانوں پر یہ شعر جاری تھا ؎

نَحْنُ الَّذِیْنَ بَایَعُوْا مُحَمَّدًا
عَلَی الْجِھَادِ مَا بَقِیْنَا اَبَدًا

’’ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے محمد ( ) سے جہاد کے لیے بیعت کی ہے. جب تک ہم زندہ رہیں.‘‘
اس بات کو خاص طو رپر نوٹ کیجیے کہ بیعت رضوان ابھی نہیں ہوئی. سورۃ الفتح ابھی نازل نہیں ہوئی یہ بیعت جہاد جس کا اس شعر میں ذکر ہے کب ہوئی! اب یہ تحقیق کی بات ہے کہ بالفعل بھی ایسا کوئی واقعہ ہوا تھا ! یا یہ کہ اس کو تعبیر کیا گیا ہے اس امر سے کہ رسول اللہ پر ایمان لانے کے معنی ہی یہ ہیں کہ ہم نے بیعت جہاد کی ہے. یہ کسی محقق کے کرنے کا کام ہے کہ بیعت جہاد کب اور کہاں لی گئی!یا جیسا کہ میں نے ابھی عرض کیا کہ یہ ایمان لانے کی تعبیر ہے : 
نَحْنُ الَّذِیْنَ بَایَعُوْا مُحَمَّدًا عَلَی الْجِھَادِ مَا بَقِیْنَا اَبَدًا . میں اپنی رائے پیش کر رہا ہوں‘ میرا گمان ہے کہ عقبہ اولی کی بیعت وہ تھی جو میں نے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی روایت کے حوالے سے ابھی آپ کو سنائی ہے. جو بیعت ارشاد اور تزکیہ کے لیے جڑ اور بنیاد ہے. اور عقبہ ٔثانیہ میں نبی اکرم نے انصارؓ سے جو بیعت لی وہ چونکہ حضور کی حفاظت کے لیے تھی‘ اس لیے اس میں یقینا جہاد کے لیے بیعت کے بھی الفاظ ہوں گے. 

یہاں ایک نکتہ اور عرض کر دوں . اگر آپ غور کریں گے تو نبی اکرم کو کسی نوع کی بیعت لینے کی ضرورت نہیں تھی. اس لیے کہ حضور تو اللہ کے رسول ہیں. رسول سے تعلق تو ایمان کا ہے. ایمان لائے اور ہمہ تن مطیع ہوگئے جیسا کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے غزوۂ بدر سے پہلے مجلس مشاورت میں کہا تھا کہ حضور ہم سے کیا پوچھ رہے ہیں: 
اِنَّا اٰمَنَّا بِکَ وَصَدَّقْنَاکَ ہم آپؐ پر ایمان لا چکے ہیں‘ہم نے آپؐ کی تصدیق کی ہے. اب ہمارے پاس کون سا اختیار رہ گیا ہے! وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ اَمْرًا اَنْ یَکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَــرَۃُ مِنْ اَمْرِھِمْ ط رسول مان لیا تو بات ختم.میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں اور اہل علم کی تصویب یا تصحیح کے لیے یہ بات پیش کی ہے کہ درحقیقت یہ ساری بیعتیں حضور نے صرف اُسوہ اور سنت چھوڑنے کے لیے لی تھیں. ورنہ مجھے یقین ہے جتنا اس بات کا یقین ہے کہ اس وقت آپ حضرات یہاں تشریف رکھتے ہیں اور میں آپ سے خطاب کر رہا ہوں. اتنا ہی مجھے اس کا یقین ہے کہ وہ چودہ سو صحابہ کرامؓ جو مدینہ سے چل کر حدیبیہ تک پہنچے تھے.اس موقع پر نبی اکرم جنگ کا فیصلہ فرماتے تو ان میں سے کوئی ایک نہیں تھا جو پیٹھ دکھا دیتا. ان کے دلوں میں تو آگ لگی ہوئی تھی. وہ حضرت عمر ؓ کے طرزِ عمل سے بھی سامنے آرہی ہے اور حضرت علیؓ کے طرزِ عمل سے بھی تمام صحابہ کرامؓ کے طرزِ عمل سے سامنے آ رہی ہے کہ جب نبی اکرم نے فرمایا کہ احرام کھول دو اور جوہدی کے جانور لائے ہو ان کی قربانی دے دو‘ انہیں یہیں ذبح کر دو. لیکن ایک بھی نہیں اٹھا. ان کے دلوں کی کیفیت عجیب تھی. ان کی تلواریں نیاموں سے باہر آنے کے لیے بے تاب تھیں. وہ سوچ رہے تھے شاید جلد ہی وحی الٰہی آ جائے اور حضور جنگ کا فیصلہ فرما لیں پھر بیعت کی ضرورت کیا تھی. وہاں بیعت ہونی چاہیے تھی سمع و طاعت کی بیعت حضور کو ان کے جذبات کو ٹھنڈا کرنا ہے. انہیں روکنا ہے ‘ لیکن درحقیقت بیعت شجر‘ حضور کا اسوہ اور سنت تھی بعد میں آنے والوں کے لیے اگر ہم یہ مانتے ہیں کہ دین ہمہ اوست .دین تو نام ہی اتباعِ رسولؐ کا ہے. . تو ہم بعد کےزمانے کے لیے وہ بنیاد کہاں سے لاتے. اگر وہ بات سنت و سیرتِ رسول علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام سے ثابت نہ ہوتی!

نبی اکرم کے بعد خلافت راشدہ کا نظام قائم ہوا. اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں دین و دنیا ایک وحدت ہیں جیسے دورِ نبویؐ و رسالت میں ویسے ہی دورِخلافت راشدہ میں. جو امام دنیا کا ہے‘ وہی امام دین کا ہے. وہی مسجد نبویؐ کی نمازوں کا امام بھی ہے اور خطیب بھی. لہٰذا ایک ہی بیعت ہے‘ حضرات ابوبکر‘ عمر کی‘ عثمان کی‘ علی رضوان اللہ علیہم اجمعین کی.

یہ بیعت سیاسی بھی ہے‘ حکومت کی بھی ہے اور یہ بیعت دینی بھی ہے - البتہ اس دور میں لوگوں کو ایک مغالطہ ہو گیا ہے میں چاہتا ہوں کہ اس کی اصلاح کے لیے کچھ عرض کر دوں. اکثر لوگ بیلٹ کو بیعت کا مترادف اورقائم مقام سمجھ رہے ہیں‘ یہ مغالطہ ہی نہیں حماقت ہے. اس دور کا جوبیلٹ ہے وہ مشورے کے قائم مقام ہے. مشورے کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت ہوئی ہے. پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے چھ صحابہؓ کا امیر کے انتخاب کے لیے جو بورڈ قائم کیا تھا‘ اس نے کتنی دیر تک مشورہ کیا ہے اور پھر حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو اختیار سپرد کیا ہے کہ وہ حضرات عثمان و علی رضی اللہ عنہمامیں سے ایک کو خلیفہ اور امیر المؤمنین نامزد کردیں. پھر فیصلہ سے قبل حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف نے مدینہ میں بہت سے مردوں عورتوںحتیٰ کہ نوعمروں سے مشورہ لیا ہے. یہ تمام تفاصیل سیر کی کتابوں میں محفوظ ہیں. اس کے بعد انہوں نے حضرت عثمانؓ کا نام پیش کیا ہے.پھر بیعت عام ہوئی ہے. حضرت علیؓ کو جب خلافت کی پیشکش کی گئی ہے تو آپؐ نے مدینہ میں مقیم اکابر صحابہؓ کو مسجد نبوی میں جمع کیا ہے اور پھر مشورہ کے بعدبیعت لی ہے. لہٰذا بیلٹ اور بیعت کو بالکل علیحدہ کر دیجیے. یہ قطعی طور پر ایک دوسرے سے جداعمل ہیں اس دور میں مشورے کا جوبھی نظام بنے . یہ اصحاب علم ودانش کا کام ہے کہ وہ اسلامی اصولوں کو سامنے رکھ کرمشورے کا کوئی نظام بنائیں اور جب ضرورت ہوگی تو ان شاء اللہ بن جائے گا اور جب تک وہ وقت نہیں آتا بحثیں ہی ہوتی رہیں گی. حاصل کچھ نہیں ہو گا. ذہنی انتشار ہی بڑھتا رہے گا. بہرحال بیعت اور بیلٹ بالکل جدا ہیں. بیلٹ مشورے کا معاملہ ہے. مشورے کے بعد وہ مسئلہ طے ہو گا جس کے لیے بیلٹ کرایا جائے گا.

خلافت راشدہ کے بعد نری خلافت رہ گئی. خلافت تو ہے لیکن اس میں سے دینی عنصر نکل گیا. اب محض حکمرانی ہے. لہٰذا آپ کو معلوم ہے کہ دو بیعتیں شروع ہو گئیں. اس دینی عنصر 
نے بیعت ارشاد کی شکل اختیار کر لی. سیاسی اور حکومتی سطح پر بنواُمیہ اوربنوعباس کے خلفاء سے بیعت ہو رہی ہے . ان دو بیعتوں کا نظام چلتا رہا. تاآنکہ مغربی امپریلزم کے سیلاب نے ہمارے سیاسی اور حکمرانی کے نظام کی دھجیاں بکھیر دیں. ریت کے گھروندوں کے مانند ہماری حکومتیں بیٹھ گئیں. لہٰذا بیعت حکومت ختم ہو گئی .اب ایک ہی بیعت رہ گئی اور وہ بیعت ارشاد ہے. اس کو تو ختم کرنے والا کوئی نہیں تھا اس میں جو مختلف سلاسل وجود میں آ گئے تھے وہ تاحال چل رہے ہیں جیسے فقہ کے چار مسالک مشہور ومعروف ہیں اور چل رہے ہیں البتہ جو احیائی تحریکیں اٹھیں یہ ہے اہم اور غور طلب بات وہ سب بیعت کی بنیاد پر اٹھیں. ایک استثنا ہے جس کا میں بعد میں ذکر کروں گا سوڈان میں انگریزی حکومت سے ٹکرائو کے لیے مہدی سوڈانی کی جو تحریک اٹھی وہ بیعت کی بنیاد پر تھی.طرابلس (موجودہ لیبیا) میں سنوسی کی تحریک اطالویوں کے خلاف بیعت کی بنیاد پر اٹھی. نجد سے جو تحریک اٹھی اگرچہ وہ براہِ راست مغربی سامراج کے غلام نہیں ہوئے تھے لیکن شیخ محمد بن عبدالوہابؒ کی تجدید دین و احیائے اسلام کے لیے جو تحریک اٹھی تھی وہ بھی بیعت کی بنیاد پر.پھر میرے نزدیک ان تمام تحریکوں میں سب سے عظیم تحریک‘ دورِ صحابہ سے مماثلت میں قریب ترین تحریک وہ تحریک تھی جسے ہم تحریک شہیدین کے نام سے جانتے ہیں.اس کی بنیاد بھی بیعت پر. اس تحریک میں کم از کم مجھے دور نبوت کا نقشہ نظرآتا ہے. جیسے حضور نے بہت سی بیعتیں لی ہیں جن کا ذکر احادیث میں ملے گا. یہاں تک کہ سنن نسائی میں حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حضور سے ہر مسلمان کی خیر خواہی کے لیے بیعت کی. عَنْ جَرِیْرٍ قَالَ بَایَعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ عَلَی النُّصْحِ لِکُلِّ مُسْلِمٍ .بیعت ِعقبہ اولیٰ ‘ بیعت ِعقبہ ثانیہ ‘ بیعت ِرضوان کا حوالہ میں پہلے دے چکا ہوں. عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماکی ایک روایت جو متفق علیہ ہے. مزید سن لیجیے: قَالَ کُنَّا اِذَا بَایَعْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ  عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ یَقُوْلُ لَنَا فِیْمَا اسْتَطَعْتُمْ’ ’جب ہم رسول اللہ سے سمع و طاعت کی بیعت کرتے تو آپؐ ہم سے فرماتے کہ جس چیز کی تم طاقت رکھو‘‘. معلوم ہوا کہ حضور نے مختلف مواقع پر مختلف امور کے لیے صحابہ کرامؓ سے بیعتیں لی ہیں. یہی نقشہ آپ کو تحریک شہیدین میں ملے گا. بیعت ارشاد بھی ہے. بیعت جہاد بھی ہے. بیعت اتباع شریعت بھی ہے اور آخری بیعت وہ تھی جو اس آخری وقت لی گئی جب انتہائی نامساعد حالات تھے. نہ راشن ہے ‘ نہ ساز و سامان ہے‘ گویا کہ مشہد بالاکوٹ کا انتظار ہو رہا ہے. اس وقت سید صاحبؒ نے آخری بیعت لی تھی کہ مجھ سے اس بات پر بیعت ت کرو کہ ہر شخص اپنے ساتھی کو اپنے اوپر ترجیح دے گا اور مقدم رکھے گا: یُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِھِمْ وَلَوْ کَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃٌط اس بیعت سے معذرت کی شاہ اسمٰعیل شہید رحمہ اللہ علیہ نے اس عذر کی بنیاد پر کہ میں بوڑھا ہو چکا ہوں‘ میرے قویٰ کمزور پڑ گئے ہیں‘ میں اس بیعت کا حق ادا نہیں کر سکتا!

ذہن میں رکھئے کہ شاہ اسماعیل شہیدؒ کون ہیں. امام الہند شاہ ولی اللہ دہلویؒ کا پوتا. شاہ عبدالعزیزؒ ‘ شاہ عبدالقادرؒ اور شاہ رفیع الدینؒ کا بھتیجا. شاہ عبدالغنیؒ کا لخت جگر. علم کا پہاڑ‘ ’عبقات‘ کا مصنف‘ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ اس دور کے جو فارغ التحصیل علماء ہیں ان کے نوے فیصد حضرات اس کتاب کو سمجھنا تو درکنار‘ صحیح پڑھ بھی نہیں سکتے. منصب امامت جیسی کتاب کا مصنف ‘ تقویۃ الایمان جیسی کتاب کا مصنف.کس کے ہاتھ پر بیعت کی جو انؒ کے مقابلہ میں علم میں ان کا پاسنگ نہیں. سید احمد بریلوی رحمہ اللہ علیہ اپنی جلالت شان کے باوجود علم میں شاہ اسماعیل کے پاسنگ بھی نہیں تھے. عمر میں چھوٹے‘ چھ سال کا فرق. شاہ اسماعیل ؒ چھ سال بڑے ہیں سید ؒ صاحب سے میں نے ابھی حال ہی میں کراچی میں تحریک شہیدین پر ایک تقریر کی ہے. لہٰذا چند کتابوں سے مراجعت کی تو پہلی مرتبہ میرے علم میں آیا کہ سید صاحبؒ شاگرد بھی ہیں شاہ اسماعیل ؒ کے بعض کتابیں انہوں نے شاہ صاحبؒ سے پڑھی ہیں.وہ نسبت بھی ہے لیکن یہ کہ اس اللہ کے بندے نے ہاتھ میں ہاتھ دینے کے بعد جو نباہ کیا ہے وہ بے مثال ہے. یہ ہمارے ماضی قریب کی تاریخ ہے. قریباً ڈیڑھ سو صدی قبل کی بات ہے سید صاحب رحمہ اللہ علیہ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ تاریخ کا 
longest march کیا ہے. ماؤزے تنگ کا مارچ اس کے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتا ہے!. وہ جو ہجرت کی ہے اور رائے بریلی میں تکیہ شاہ علم اللہ کو چھوڑا ہے اور ندی کو پار کیا ہے تو دو نفل شکرانے کے ادا کیے ہیں کہ اللہ تیرا شکر ہے کہ تو نے اپنے دین کے لیے ہجرت کی توفیق عطا فرمائی اور پھر کہاں سے کہاں! رائے بریلی سے گوالیار‘ گوالیار سے ٹونک‘ وہاں سے جیسلمیر‘ پھر عمر کوٹ جہاں اکبر پیدا ہوا تھا. پھر وہاں سے حیدر آباد. پھر پیرجی گوٹھ ‘ پیرپگاڑاصاحب کی بستی. وہاں سے شکار پور پھر درّۂ بولان کراس کر کے کوئٹہ پھر قندھار ہوتے ہوئے کابل اور وہاں سے پشاور.

یہ باتیں اس وقت میرے موضوع سے متعلق نہیں ہیں. تحریک شہیدین کی بات چلی تو یہ باتیں بھی زیر گفتگو آ گئیں. اس وقت مجھے جو عرض کرنا تھا وہ یہ کہ یہ عظیم الشان تحریک بیعت کی بنیاد پر اٹھی اس کے ساتھ ہی میں آپ کو یہ بات بتانا چاہتا ہوں کہ یہ نہ سمجھئے کہ بالاکوٹ 
کے مقام پر ان قائدینؒ اور ان کے نیک ساتھیوں کی شہادت کے بعد یہ تحریک ختم ہو گئی اور اس کے کچھ اثرات نہیں رہے. معاذ اللہ اس کے بعد بھی اس تحریک کے بنگال میں‘ بہار میں‘ یوپی میں ‘ جنوبی ہند میں باقیات الصالحات پھیلے ہیں اور انہوں نے وہاں دعوت و تبلیغ کا کام کیا ہے. یہ اپنی جگہ ایک مستقل موضوع ہے. بالاکوٹ میں دنیوی اور ظاہری نقطہ ٔنظر سے تحریک ناکام ہوئی ہے تو یہ نہ سمجھئے کہ اس کے اثرات بھی ختم ہو گئے. یہ دارالعلوم دیوبند کا قیام‘ ا س کے علمائے حق‘ یہ اسی تحریک کی ایک کڑی ہے. اسی دیوبند کی ایک عظیم ترین شخصیت ہیں شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی رحمہ اللہ علیہ یہاں تک اس بیعت کا تار نہیں ٹوٹا‘ چل رہا ہے. مولانا عبیداللہ سندھیؒ آخرشیخ الہند کے ساتھ کسی عہد میں بندھے ہوئے تھے کہ اِدھر حکم ہوا اُدھر یہ اپنا گھر بار چھوڑ کر افغانستان نکل گئے. 

اگر اسی مسئلہ پر ہمارے ہاں باقاعدہ تحقیق ہو تو مجھے یقین ہے کہ بہت سی اہم باتیں جن پر ماضی کا پردہ پڑا ہے‘ منظر عام پر آ جائیں. میں نے جب مولانا ابوالکلام آزاد کے متعلق یہ روایت ’میثاق‘ اکتوبر ۱۹۷۵ء میں شائع کی تھی کہ جمعیت العلماء ہند کے ۱۹۲۲ء کے اجلاس میں حضرت شیخ الہندؒ کے ایما پر مولانا مفتی کفایت اللہ مرحوم اور مولانا احمد سعید مرحوم نے یہ تحریک پیش کی تھی کہ مولانا آزاد مرحوم کو امام الہند مان کر تمام علماء ان کے ہاتھ پر جہاد کی بیعت کریں.لیکن مولانا معین الدین اجمیری مرحوم کے ایک اصولی اعتراض کی وجہ سے اس پر عمل نہیں ہوا (یہ مضمون میں نے علیحدہ پمفلٹ کی شکل میں طبع کرالیا ہے اور آج حاضرین میں ہدیتاً تقسیم ہو جائے گا) 
(۱اس پر کراچی سے ڈاکٹر احمد کمال صاحب کا خط آیا جس میں اس بات کو خلافِ واقعہ بتایا گیا تھا.لامحالہ مجھے پھر معاملہ کی تحقیق کرنی پڑی‘ جس کے نتیجے میں معلوم ہوا کہ میں نے جس روایت کا حوالہ دیا تھا وہ بالکل صحیح تھی. اس میں صرف سن کے تعین میں تسامح ہو گیا تھا. یعنی یہ اجلاس ۱۹۲۲ء میں نہیں۱۹۲۰ء میں منعقد ہو اتھا. بہرحال یہ تمام بحث پمفلٹ کے مطالعہ سے آپ کے سامنے آ جائے گی. اس تحقیق کے دوران اور بھی عجیب عجیب انکشاف ہوئے. مولانا معین الدین اجمیری رحمہ اللہ علیہ خیر آبادی مکتب فکرکی ایک عظیم شخصیت تھے. یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آخری شخصیت‘ لیکن میرے نزدیک اس مکتبہ فکر کی آخری شخصیت مولانا اجمیریؒ کے شاگرد رشید مولانا منتخب الحق صاحب ہیں جو بفضلہ تعالیٰ بقید حیات ہیں. ان کے بعد شاید منطق و فلسفہ قدیم کا یہ مکتب فکر ختم ہو جائے. مولانا اجمیریؒ کے متعلق مولانا منتخب الحق صاحب مدظلہ (۱) یہ مضمون اسی تالیف میں شامل ہے جو یقینا قارئین کی نگاہ سے گزر چکا ہو گا. (مرتب) نے مجھے بتایا کہ مولاناؒ اپنی لائبریری کی الماریوں کی چابیاں کتابوں کی صفائی کے لیے اکثر کسی نہ کسی شاگرد کو دے دیا کرتے تھے. لیکن ایک الماری ایسی تھی کہ جس کی چابی وہ اپنے شاگردوں میں کبھی کسی کو نہیں دیتے تھے.مولانا منتخب الحق صاحب نے بتایا کہ ایک مرتبہ ایسی چوک ہوئی کہ انہوں نے اس کی چابی مجھے دے دی کہ ذرا اس الماری کی کتابیں وغیرہ صاف کرلو وہاں میں نے دیکھا کہ ایک رجسٹر رکھا ہوا تھا . اس میں ان لوگوں کے نام اور پتے درج تھے جومولانا مرحوم کے ہاتھ پر انگریز کے خلاف بیعت جہاد کیے ہوئے تھے. اس دور میں یہ چیز کہاں ہے! نہ معلوم ہندوستان میں کتنے علماء ہوں گے جنہوں نے اسی طرز پر بیعت جہاد لی ہو گی. لیکن یہ کہ کوئی مرحلہ آئے تو بات سامنے آئے . مناسب جمعیت فراہم ہو تو اس کا آگے ظہور ہو.

میں اب جو بات عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اس سلسلہ کی آخری کڑی تھی وہ کوشش جو حضرت شیخ الہندؒ نے اپنی زندگی کا چراغ گل ہونے سے چند یوم قبل کی تھی کہ یہ تار ٹوٹنے نہ پائے.یہ کوشش ۱۹۲۰ء کے جمعیت العلماء ہند کے اجلاس میں جو دہلی کی جامع مسجد میں منعقد ہوا تھا‘کی گئی تھی کہ دیے سے دیا جلتا رہے‘ چراغ سے چراغ روشن ہوتا رہے . حضرت شیخ الہندؒ کی کوشش یہ تھی کہ مولانا ابوالکلام آزاد کے ہاتھ پر بیعت کی جائے. وہ امام الہند مانے جائیں اور پھر جہاد کیا جائے. میں نے مولانا معین الدین اجمیریؒ کا ذکر پہلے کر دیا. میرے دل میں ان کا بڑا احترام ہے. علمی وجاہت کے اعتبار سے بھی اور اس لیے بھی کہ وہ خود اپنی جگہ بیعت جہاد لے رہے تھے‘ لیکن مسئلہ درپیش تھا کہ تمام علمائے ہند کی طرف سے بیعت کی جائے. یہ بہت بڑی بات تھی. اس لیے کہ اس وقت جمعیت العلماء ہند کا پلیٹ فارم صرف علمائے دیوبند کا نہیں تھا. وہ تو مشترک پلیٹ فارم تھا. اس میں اس وقت فرنگی محل کے علماء بھی تھے‘ اس میں بدایون کے علماء بھی تھے. اس میں بریلی مکتب فکر کے علماء بھی تھے. مجھے تو یہ واقعہ پروفیسر یوسف سلیم چشتی مرحوم و مغفور نے سنایا تھا اور انہوں نے یہ واقعہ مولانا عبدالحامدبدایونی مرحوم کے برادر بزرگ مولانا عبدالماجد بدایونی مرحوم سے سناتھا جو اس اجتماع میں بنفس نفیس موجود تھے.

پروفیسر یوسف سلیم چشتی مرحوم و مغفور کے نام کا ذکر آ گیا ہے‘ بہت سے احباب نے مجھے یاد دلایا تھا کہ ان محاضرات میں ان کا کوئی ذکر ہی نہیں ہوا ‘حالانکہ ہماری تمام قرآن کانفرنسوں اور محاضراتِ قرآنی کی ایک نشست کی وہ رونق ہوا کرتے تھے ‘ بلااستثناء میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے اور بہت کچھ حاصل کیا ہے بہرحال وہ اللہ کے حضور حاضرہو چکے. اللہ 
تعالیٰ ان کی خطاؤں سے درگزر فرمائے اور انہیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے. جذبات میں آ کر وہ کبھی انتہا پسندی کا مظاہرہ کر جاتے تھے ‘ اس کو علیحدہ رکھ کر میں نے ان سے زیادہ سچا آدمی اپنی پوری زندگی میں نہیں دیکھا. کسی شے کا خوف ان کو نہیں تھااور سچ کہنے سے کوئی باک نہیں تھا. کبھی انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ میری اس بات سے کون ناراض ہو گا اور کس کی تیوری پر بل چڑھ جائیں گے. جو بات کہی ہے سچ سمجھ کر کہی ہے ہو سکتا ہے کہ آدمی مغالطہ میں ہو یہ دوسری بات ہے‘ لیکن ہمیشہ بات وہی کہی ہے جو ان کے نزدیک حق ہو ان کے انتقال پر ہمارے یہاں جو کچھ ہوا ہے وہ بھی آپ کے سامنے ہے ایکٹر مر جائیں تو اخبارات کے صفحے کے صفحے کالے نہیں کہہ رہا رنگین ہو جاتے ہیں اور خصوصی ایڈیشنوں کی مسابقت شروع ہو جاتی ہے ‘لیکن وہ درویش ایسے گیا ہے کہ جیسے پتا ہی نہیں. میرا خیال یہ تھا کہ ان کے جنازے پر لاہور ٹوٹ پڑے گا لیکن جب وہاں جا کر جوحال دیکھا ہے سو دیکھا ہے. چند لوگ نماز جنازہ کے لیے . پانچ صفیں بھی مشکل سے بنی تھیں‘ وہ بھی طاق تعداد بنانے کی خاطر.

بہرحال میں عرض کر رہا تھا کہ وہ جو کوشش تھی اور بات یہ آ گئی تھی کہ اس وقت جمعیت علمائے ہند کا پلیٹ فارم مشترک تھا. اہل حدیث حضرات سن لیں کہ اس وقت کوئی جمعیت اہل حدیث نہیں تھی.اہل حدیث علماء بھی اسی میں شامل تھے. مولانا داؤد غزنوی مرحوم و مغفور اس اجلاس میں شریک تھے جب مولانا آزاد مرحوم کو امام الہند بنانے اور ان کے ہاتھ پر بیعت جہاد کرنے کی تحریک پیش ہوئی تومولانا معین الدین اجمیری مرحوم کھڑے ہو گئے‘ اور انہوں نے ایک بات کہی انہوں نے تجویز کی مخالفت نہیں کی. اسے مخالفت نہیں کہا جا سکتا مولانا اجمیری مرحوم نے کہا کہ اتنا بڑا فیصلہ اچانک مجمع عام میں نہیں ہونا چاہیے اس سے پہلے اس تجویز پر مجلس شوریٰ یا جو بھی ان کا نظام تھا‘اس میں اس پر غور ہونا چاہیے بات اتنی وزنی تھی کہ اس کو رد کرنے کا کوئی سوال ہی نہیں مولانا شبیر احمد عثمانی جو پہلے اصل تجویز کی تائید کر چکے تھے‘ انہوں نے بھی مولانا اجمیری مرحوم کی بات کی تائید کی اور اس وقت اصل تجویز مجلس شوریٰ کے سپرد کر دی گئی. چند او ر باتیں بھی ہیں جو آپ کو اس پمفلٹ سے معلوم ہوجائیں گی. اسے گھر جا کر پڑھیے گا اس اجلاس کے دس روز بعد حضرت شیخ الہندؒ کا انتقال ہو گیا. بہرحال اس تجویز کے پیچھے جو اصل قوت تھی جو اس تار کو جوڑے رکھنا چاہتی تھی اور جو ہندوستان گیر پیمانے پر بیعت جہاد کی تجدید و تحریک کی آرزو مند تھی وہ دنیا سے رخصت ہو گئی 
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلَہٗ وَارْحَمْہُ مولانا سعید الرحمن صاحب علوی ہم سب کے شکریہ کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ایک مضمون کے ذریعہ حضرت شیخ الہندؒ کے یہ الفاظ ہم تک پہنچا دیے کہ یہاں تک ان کا حال تھا کہ وہ فرماتے ہیں کہ ’’میں بیعت کیے بغیر مرنا نہیں چاہتا. میری چارپائی سٹیج پر لے جاؤ‘‘. اس لیے کہ اٹھنے کی تو پوزیشن ہی نہیں تھی. اس اجلاس کا ان کا خطبہ ٔصدارت مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ علیہ نے پڑھ کر سنایا تھا. انہی ایام میں جب حضرت شیخ الہندؒ علی گڑھ یونیورسٹی گئے تھے تو پالکی میں لٹا کر انہیں وہاں پہنچایا گیا تھا . اور چارپائی پر لیٹے لیٹے انہوں نے نہایت دردمندی اور دلسوزی کے ساتھ علی گڑھ کے طلبہ کو ان کا دینی فرض یاد دلایا تھا لیکن یہ ان کے اندر جو جذبہ تھا وہ ان سے یہ کام کرا رہا تھا.جسم تو بالکل گھل چکا تھا. ٹی بی آخری اسٹیج کو پہنچ چکی تھی جبھی تو انگریز نے انہیں مالٹا سے رہا کیا تھا اور ہندوستان بھیجا تھا. ورنہ رہائی کا کیا سوال تھا.

جب حضرت شیخ الہندؒ کا انتقال ہو گیا تو وہ تجویز ٹھپ ہو گئی. وہ دن اور آج کا دن وہ تار ٹوٹا ہوا ہے دو تار بیک وقت ٹوٹے ہیں توجہ کیجیے گا ایک تارِ خلافت ٹوٹا آج ساٹھ برس سے زیادہ ہو گئے کہ کوئی صرف نام کا ادارہ بھی پورے عالم اسلام میں موجود نہیں ہے کہیں کوئی علامتی خلافت کا ادارہ بھی موجود نہیں دوسرا تار بیعت جہاد کا ٹوٹا. میں پورے ادب و احترام لیکن نہایت دکھ اور رنج کے ساتھ عرض کرتا ہوںکہ مجھے ایک طرف تو ان حضرات کے طرزِ عمل پر نہایت افسوس ہوتا ہے جو مدعی ہیں متبع سنت ہونے کے اور ظاہر حدیث پر عمل کرنے کے لیے .

کیسی کیسی حدیثیں ہیں کہ جنہیں یہ حضرات گھول کر پی گئے. وہ انہیں نہ صحیح بخاری میں نظر آئیں نہ صحیح مسلم میں رفع یدین کی احادیث‘ وہ بھی قولی نہیں عملی‘ صحابہ کرامؓ کی رپورٹ ہے‘ حضورکا اپنا کوئی قول نہیں اس پر معرکے ہیں. اس پر من دیگرم تو دیگری والا معاملہ ہے. یہ حدیثیں کہاں گئیں! ذرا سنیے تو سہی حضور کا فرمان‘ قولی حدیث . 
رواہ مسلم عن عبداللّٰہ بن عمر رضی اللہ عنہما: قال سمعت رسول اللّٰہ یقول ’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ میں نے خود سنا رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے‘‘ مَنْ خَلَعَ یَدًا مِنْ طَاعَۃٍ لَقِیَ اللّٰہَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَا حُجَّۃَ لَـہُ وَمَنْ مَاتَ وَلَیْسَ فِیْ عُنُقِہٖ بَیْعَۃٌ مَاتَ مِیْتَۃً جَاھِلِیَّۃً’ ’جس نے ہاتھ کھینچ لیا امیر کی اطاعت سے تو وہ قیامت کے دن اللہ سے اس اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اس کے لیے کوئی عذر اور حجت نہیں ہو گی اور جو شخص مرا اس حال میں کہ اس کی گردن میں بیعت کا حلقہ نہ تھا ‘بیعت کا قلادہ نہ تھا وہ جاہلیت کی موت مرا‘‘. ایک اور حدیث بھی سن لیجیے اگرچہ وہ ایک دوسر ے طریق سے میں آپ کو سنا چکا ہوں. امام بخاریؒ روایت کرتے ہیں: 
عَــنْ جُنَـادَۃَ بْنِ اَبِیْ اُمَیَّۃَ قَالَ دَخَلْنَا عَلٰی عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ وَھُوَ مَرِیْضٌ قُلْنَا اَصْلَحَکَ اللّٰہُ حَدِّثْ بِحَدِیْثٍ یَنْفَعُکَ اللّٰہُ بِہٖ سَمِعْتَہٗ مِنَ النَّبِیِّ قَالَ دَعَانَا النَّبِیُّ فَـبَایَعْنَاہُ فَقَالَ فِیْمَا اَخَذَ عَلَیْنَا اَنْ بَایَعْنَا عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ فِیْ مَنْشَطِنَا وَمَکْرَھِنَا وَعُسْرِنَا وَیُسْرِنَا وَاَثَرَۃٍ عَلَیْنَا وَاَنْ لاَ نُنَازِعَ الْاَمْرَ اَھْلَہٗ اِلاَّ اَنْ تَرَوْا کُفْرًا بَوَاحًا عِنْدَکُمْ مِّنَ اللّٰہِ فِیْہِ بُرْہَانٌ 

میں کہتا ہوں کہ ہمارے صوفیوں کے لیے پھر بھی گنجائش ہے‘ ان کے لیے پھر بھی سہارا ہے کہ ہم نے بیعت کی ہوئی ہے اور بیعت لے بھی رہے ہیں. بیعت ارشاد کے سلاسل تو جاری ہیں‘ لیکن یہ حضرات اس کے بھی قائل نہیں. وہ کہاں کھڑے ہیں ‘ یہ حدیثیں انہیں پکار رہی ہیں دوسری طرف میں اسی ادب و احترام لیکن رنج و افسوس کے ساتھ ان علمائے کرام سے عرض کرتا ہوں جو خود کو حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ علیہ کے سلسلہ تلمذ سے وابستہ کہتے ہیں کہ یہ حضرات کس حال میں ہیں!حضرت شیخ الہندؒ کا یہ حال کہ بستر مرگ پر فرما رہے ہیں کہ میری چارپائی سٹیج پرلے جاؤ‘ میں بیعت کیے بغیر مرنا نہیں چاہتا اور بیعت سمع و طاعت اور ہجرت وجہاد کس کے ہاتھ پر کرنے کے لیے آمادہ ہیں جو ان سے عمر کے لحاظ سے پینتیس یا چالیس سال چھوٹا ہے اور جو تقویٰ‘ طہارت اور علم و فضل کے اعتبار سے ان کا پاسنگ بھی نہیں ہے. ان کا ظرف اتنا وسیع ہے کہ برملا اعتراف فرمایا کرتے تھے کہ اس نوجوان یعنی ابوالکلام آزاد نے ہمیں ہمارا بھولا ہوا سبق یاد دلا دیا. اسی لیے خود بھی ان کے ہاتھ پر بیعت جہاد کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں اور اس امر کی کوشش فرماتے ہیں کہ جمعیت العلماء ہند ابوالکلام آزاد مرحوم کے ہاتھ پر من حیث الجماعت ان کو امام الہند تسلیم کر کے ان کے ہاتھ پر بیعت جہاد کر لے.

میں نے عرض کیا تھا کہ گزشتہ ڈیڑھ دو صدی قبل جو تحریکیں اُٹھیں ‘ وہ بیعت کی بنیاد پر اٹھیں. اس میں ایک استثناء ہے. اس کا ذکر یہاں مناسب ہو گا. مولانا آزاد مرحوم نے الہلال اور البلاغ کے ذریعہ حکومت الٰہیہ کے قیام کے لیے ایک جماعت کی ضرورت پر جو مدلل 
ل مقالے لکھے تھے اس کے نتیجے میں اس وقت ’’حزب اللہ ‘‘کے نام سے ایک جماعت مولانا آزاد مرحوم نے قائم کی تھی لیکن وہ محدود رہی اور کوئی تحریک بپا نہ ہو سکی. ۱۹۲۰ء میں ان کے ہاتھ پر بیعت جہاد کی شیخ الہند کی تجویز روبعمل نہ آ سکی.جس کے اسباب میں بیان کر چکا ہوں. مولانا آزاد تو اس ناکامی سے بددل ہو کر اس کام سے دستبردار ہو گئے اور ان کی مساعی کا تمام تر میدان استخلاصِ وطن کی جولان گاہ بن گیا آزاد مرحوم ہی کے فکر سے متاثر ہو کر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی مرحوم و مغفور کی دعوت پر ۱۹۴۱ء میں تجدید و احیائے دین کے لیے ’’جماعت اسلامی‘‘ کا قیام عمل میں آیا . (۱اور یہ دستوری و آئینی طرز کی جماعت تھی. اس نے ہیئت اجتماعیہ کے لیے بیعت کے مسنون طریقے کو اختیار نہیں کیا لیکن اسی دور میں مصر میں اسلام کی نشأۃِ ثانیہ کے لیے شیخ حسن البناشہیدؒ نے الاخوان المسلمون قائم کی تو اس کی بنیاد بیعت پر ہی رکھی. تنظیم اسلامی کی مجلس مشاورت نے اپنے رفیق ڈاکٹر تقی الدین صاحب کے سپرد یہ کام کیا کہ وہ الاخوان المسلمون کے تنظیمی ڈھانچہ کے متعلق تحقیق کریں. چنانچہ انہوں نے اخوان سے متعلق بے شمار کتابوں کا مطالعہ کیا. کراچی میں ان حضرات سے ملاقاتیں کیں جن کا قریبی تعلق اخوان سے رہا ہے تو معلوم ہوا کہ اس تنظیم کے تین درجے تھے جس میں سب سے اونچا درجہ وہ تھا جس سے وابستگی بیعت کی بنیاد پر ہوتی تھی.

اب میں کھل کر چند صاف صاف باتیں عرض کرناچاہتا ہوں. اچھی طرح جان لیجیے کہ اس دور میں جس سے ہم آج کل گزر رہے ہیں‘یہ بیعت سمع و طاعت صرف دو طرح کی ہو سکتی ہے‘ تیسرا کوئی امکان نہیں ہے. ایک یہ کہ اگر اسلامی نظامِ حکومت کہیں قائم ہے تو اس کے سربراہ سے بیعت ہو گی. دوسرے یہ کہ اگر ایسا نہیں ہے تو جو جماعت جہاد یعنی انقلابی عمل کے ذریعہ اسلامی نظام قائم کرنے کے لیے اٹھے گی اس کے امیر کے ہاتھ پر بیعت ہو گی نبی اکرم نے فرمایا ہے : 
یَدُ اللّٰہِ عَلَی الْجَمَاعَۃِ . حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: لَا اِسْلَامَ اِلاَّ بِالْجَمَاعَۃِ اور حضورفرماتے ہیں: لاَ جَمَاعَۃَ اِلاَّ بِالْاِمَارَۃِ اگر اسلامی نظام قائم ہے تو اس کا جو سربراہ ہے وہ صدر نہیں ہوا کرتا‘ وہ امیر المؤمنین ہے. اس کے ہاتھ پر بیعت ہے اور اگر نہیں ہے تو اس کو قائم کرو. یہ دو ہی شکلیں ہیں. اسلامی نظام قائم کرنے کی جدوجہد کے لیے جماعت درکار ہے. اس جماعت کے امیر کے ہاتھ پر بیعت (۱) اگرچہ مولانا مودودی مرحوم نے اپنی تحریک کارشتہ اشارتاً وکنایتاً بھی مولانا آزاد مرحوم کے فکرسے نہیں جوڑا. ہوگی. تیسری کوئی شکل ہے ہی نہیں کیسے ایک بندۂ مؤمن مر سکتا ہے بغیر بیعت کے. یا اسلامی حکومت ہے ‘ اسلامی نظام ہے تو اس کے سربراہ کے ہاتھ پر بیعت ہے. ملک گیر پیمانے پر بیعت لینے کا نظام قائم ہو گیا جیساکہ خلافت راشدہ میں اور خلافت بنی اُمیہ و بنی عباس میں قائم تھا اگر نہیں ہے تو اس کو قائم کرنے والی جماعت کے امیر کے ہاتھ پر بیعت ہے.تیسری کوئی شکل ممکن نہیں لہٰذا ہر بندۂ مؤمن پر لازم ہے‘ واجب ہے‘ فرض ہے کہ بیعت کا قلادہ اس کی گردن میں پڑا ہو. اگر یہ نہیں ہے تو نبی اکرم کا فتویٰ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماکی حدیث میں آ چکا ہے جو مسلم شریف کی روایت ہے جس کے آخر میں حضور کے الفاظ آتے ہیں: وَمَنْ مَاتَ وَلَیْسَ فِیْ عُنُقِہٖ بَیْعَۃٌ مَاتَ مِیْتَۃً جَاھِلِیَّۃً (۱

مناسب ہو گا کہ میں اس اشکال کا ذکر بھی کر دوں جو لوگوں کو لاحق ہوتا ہے کہ آخر اس دور میں مسلمانوں کے خلاف قتال کیسے ہو گا ! چونکہ عام طو رپر مسلم اکثریت کے ممالک کے حکمران مسلمان ہی ہیں. بالکل عملی مسئلہ ہے اور یہ اشکال پیدا ہوتا ہے. لہٰذا اس کو کتاب و سنت کی روشنی میں رفع ہونا ضروری ہے. حقیقت یہ ہے کہ بعض اعتبارات سے مسلمانوں کا مسلمانوں سے قتال کا معاملہ یعنی مسلمان حکومت کے خلاف بغاوت کا معاملہ بڑا پیچیدہ ہے. چاہے ملک میں اسلامی نظام رائج نہ ہو. کفار کے مقابلہ میں قتال کا معاملہ دوسرا ہے. دو عوامل ایسے ہیں کہ مسلمانوں کا کسی مسلمان حکومت کے خلاف بغاوت اور مسلمانوں کا آپس میں قتال خارج از بحث ہے. میں اسے تسلیم کرتا ہوں. اگرچہ مولانا الطاف الرحمن بنوی صاحب یہاں تشریف فرما ہیں. انہوں نے گزشتہ محاضرات میں جو مقالہ پیش کیا تھا جو ’’میثاق‘‘ کے جنوری ۱۹۸۴ء کے شمارے میں شائع ہو چکا ہے. اس مقالہ میں انہوں نے مستند حوالہ جات سے بتایا تھا کہ بعض فقہاء کی رائے یہ ہے کہ کسی فاجر و فاسق مسلمان حکومت کے خلاف خروج اور بغاوت حرامِ مطلق نہیں ہے. البتہ اس کے لیے نہایت کڑی شرائط ہیں. یہ پوری ہو جائیں تو خروج کیا جا سکتا ہے لیکن مسئلہ علمی ہے‘ دقیق ہے‘ باریک ہے‘ اہل علم اس پر غور کر کے کوئی حتمی رائے قائم کریں. میں جو کچھ عرض کر رہا ہوں‘ وہ یہ ہے کہ اس جدید دور کے حالات کو سمجھئے. ممکن اس لیے نہیں ہے کہ عوام اور حکومت کے درمیان طاقت کا بہت بڑا فصل ہے. کوئی نسبت بنتی نہیں. آخر قرآن مجید نے بھی کوئی نہ کوئی نسبت تو قائم کی ہے آخر بدر میں بھی ایک اور تین تھے. احد میں ایک اور چار تھے.لیکن جب ’’موتہ‘‘ میں ایک اور تینتیس کی نسبت ہو گئی تو جو نتیجہ نکلا وہ 
(۱) اس مسئلہ پر محترم ڈاکٹر اسرار احمد کی وضاحت ’’محاضراتِ قرآنی‘‘ کی روداد میں آ چکی ہے.

(مرتب) آپ کو معلوم ہے. زید بن حارثہ شہید‘ جعفر طیار ابن ابی طالب شہید‘ عبداللہ بن رواحہ رضوان اللہ علیہم اجمعین شہید. حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہا س نرغے سے بقیہ لشکر کو نکال کر لے آئے یہ بھی بڑی کامیابی ہے. اب جو معاملہ ہے وہ ایک اور تینتیس کیا ‘ایک اور تینتیس سو سے بھی زیادہ ہے. چونکہ عوام بالکل نہتے اور حکومت کے پاس فوج کی جو مضبوط طاقت ہے وہ آپ کو معلوم ہے. دوسری اہم بات کیا ہے! اصل میں تمدن میں جو ارتقاء ہوا ہے‘ بعض لوگ اسے بالکل نظر انداز کر دیتے ہیں. یہ دور وہ نہیں ہے جس میں عمرانی اور تمدنی مسائل ابھی develop نہیں ہوئے تھے.اس وقت کیا تھا؟ حکومت بدلنے کا ارادہ کرنا بھی بغاوت تھا اور آج حکومت کو بدلنا‘ اس کو بدلنے کی کوشش کرنا‘ عوام کا مسلمہ حق ہے. زمین و آسمان کا فرق واقع ہو گیا. اس لیے کہ اس وقت تک ابھی ریاست اور حکومت کے درمیان فرق و امتیاز نہیں تھا. اس دور میں تصور یہ تھا کہ ریاست اور حکومت ایک ہے. لہٰذا حکومت کے خلاف اقدام گویا ریاست کے خلاف اقدام شمار ہوجاتا تھا. آج تو مشرق و مغرب کا فرق واقع ہو چکا ہے. ریاست اور شے ہے حکومت اور شے ہے. ہم کسی حکومت کے وفادار نہیں ہیں. ہماری وفاداری ریاست کے ساتھ ہے اور حکومت کو بدلنا جمہور کا حق ہے. لہٰذا زمین و آسمان کا فرق ہو گیا. جولوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تبدیلی صرف بغاوت ہی کے ذریعہ آ سکتی ہے‘ وہ لوگ تمدن میں جو فرق واقع ہو چکے ہیں‘ ان کو نظر انداز کرتے ہیں. ایک اور اہم بات. وہ یہ کہ اس دور میں دنیا میں ایک تصور (concept) مضبوط بنیادوں پر استوار ہوا ہے جس کی کامیابی کے مظاہر آپ کو ہر چہار طرف نظرآ رہے ہیں. وہ تصور یہ ہے کہ عوام کو کسی بھی مطالبہ کے لیے پرامن مظاہرہ کا حق ہے. عوام اپنے سیاسی حقوق کے لیے مظاہرہ کر سکتے ہیں. وہ اگر حکومت کے کسی اقدام یا فیصلے کو غلط سمجھتے ہیں تو اس کے خلاف مظاہرہ کر سکتے ہیں لیکن نظم و ضبط میں رہیں اور مظاہرہ کریں.

میں یہ سمجھتا ہوں کہ سورۃ التوبہ میں آیت ۱۱۱ کے بعد جو آیت ۱۱۲ ہے وہ بڑی عظیم آیت ہے. اس میں ایک طرف تو وہ ظاہری اور باطنی اوصاف بیان ہو گئے جو ایک بندئہ مؤمن کی سیرت میں درکار ہیں. بڑی دلکش اور عجیب ہے یہ آیت اس میں تین تین اوصاف کے تین سیٹ ہیں. ایک طرف وہ چھ اوصاف بیان ہوئے جو ایک بندئہ مؤمن کی زندگی میں انفرادی سطح پر مطلوب ہیں. دوسری طرف ایک مسلم معاشرے کا فرد ہونے کے اعتبار سے ایک بندئہ مؤمن پر جو اجتماعی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اس کے لیے جواوصاف ہونے چاہئیں وہ بیان ہو گئے. وہ بھی تین ہی بیان ہوئے. فرمایا:
اَلتَّآئِبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآئِحُوْنَ الرّٰکِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ 

’’(یہ مؤمنین جنہوں نے جنت کے عوض اپنی جان اور اپنا مال اللہ کے ہاتھ بیچ دیا ہے) اللہ کی طرف بار بار پلٹنے والے ہیں. عبادت گزار ہیں‘ اس کا شکر ادا کرنے والے‘ اس کی ثنا کرنے والے ہیں. اس کے (دین) کی خاطر زمین میں گردش کرنے والے ہیں اور اس کے آگے رکوع اور سجدے کرنے والے ہیں.‘‘

چھ اوصاف تو یہ ہو گئے. آگے جو تین اوصاف آ رہے ہیں وہ بڑے غور اور توجہ کے متقاضی ہیں: 

الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّاہُوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَالْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰہِ ط 

’’نیکی کا حکم دینے والے ہیں‘ بدی سے روکنے والے ہیں اور اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے ہیں.‘‘

اس آیت میں بتادیا گیا ہے کہ جوبندۂ مؤمن اللہ سے بیع و شراء کا معاملہ کرتا ہے‘ وہ ان اوصاف کا حامل ہوتا ہے ان آخری اوصاف میں کلید ہے اس سارے مسئلہ کی.ایک مسلمان ملک میں اسلامی نظام قائم کرنے کے لیے جو انقلابی جماعت میدان میں آئے گی وہ اس بنیاد پرآئے گی کہ صرف امر بالمعروف‘ نہی عن المنکر اور تحفظ حدود اللہ کا فریضہ انجام دے. فلاں شے منکر ہے‘ ہم اسے نہیں ہونے دیں گے. اگر ہمارے پاس عوامی تائید کی طاقت ہے تو ہم اسے چیلنج کریں گے کہ یہ اسلام کے خلاف کام ہے. ہم اسے نہیں ہونے دیں گے اور اسی میں مسئلہ کا حل موجود ہے. وہ چیزیں جو سب کے نزدیک منکر ہیں. جو بریلوی ہیں‘ وہ بھی مانتے ہیں کہ بے حیائی ‘ نیم عریانی‘ تبرج جاہلیہ‘ مرد و عورت کے سارے مخلوط طور طریقے منکر ہیں. جو دیوبندی ہیں وہ بھی جانتے ہیں کہ یہ تمام کام منکر ہیں‘ اہل حدیث ہیں ان کو بھی ان کے منکر ہونے میںکوئی اختلاف نہیں ہے. یہی وہ چیز ہے کہ جو تمام فقہی اختلافات کے باوجود لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر دے گی میں پرسوں آپ کو وہ حدیث سنا چکا جو مسلم شریف کی روایت ہے اور اس کے راوی ہیں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ. وہ کہتے ہیں کہ حضور نے فرمایا: 
مَا مِنْ نَبِیٍّ بَعَثَہُ اللّٰہُ فِیْ اُمَّۃِ قَبْلِیْ اِلاَّ کَانَ لَہٗ مِنْ اُمَّتِہٖ حَوَارِیُّوْنَ وَاَصْحَابٌ یَاْخُذُوْنَ بِسُنَّتِہٖ وَیَقْتَدُوْنَ بِاَمْرِہٖ’ ’مجھ سے پہلے اللہ نے جس نبی کوا س کی اپنی امت میں مبعوث فرمایا تو اس نبی کی اُمت میں اس کے ایسے حواری اور اصحاب ہوتے تھے جو اپنے نبی کی سنت کو تھامے رکھتے تھے اور اس کے حکم کی اطاعت کرتے تھے‘‘ ثُمَّ اِنَّھَا تَخْلُفُ مِنْ بَعْدِھِمْ خُلُوْفٌ ’’ان کے بعد ان کے ایسے جانشین آجاتے تھے جو نالائق ہوتے تھے‘‘ یَقُوْلُوْنَ مَا لَا یَفْعَلُوْنَ وَیَفْعَلُوْنَ مَا لَا یُؤْمَرُوْنَ ’’جو کہتے تھے‘ اس پر عمل نہیں کرتے تھے اور ایسے کام کرتے تھے جن کا ان کو حکم نہیں دیا گیا تھا‘‘.

اب حدیث کا اگلا حصہ غور سے سماعت فرمایئے. حضور ارشاد فرماتے ہیں: فَمَنْ جَاھَدَھُمْ بِیَدِہٖ فَھُوَ مُؤْمِنٌ وَمَنْ جَاھَدَھُمْ بِلِسَانِہٖ فَھُوَ مُؤْمِنٌ وَمَنْ جَاھَدَھُمْ بِقَلْبِہٖ فَھُوَ مُؤْمِنٌ وَلَیْسَ وَرَائَ ذٰلِکَ مِنَ الْاِیْمَانِ حَبَّۃُ خَرْدَلٍ ’’تو ایسے لوگوں سے جو شخص ہاتھ یعنی قوت و طاقت سے جہاد کرے تو وہ مؤمن ہے. اور جو شخص زبان سے جہاد کرے تو وہ مؤمن ہے اور جوشخص دل سے جہاد کرے یعنی دل میں کڑھے‘ اس کی نیندیں حرام ہوجائیں‘ وہ اپنی بے بسی پر مضطرب اور بے کل رہے تو وہ بھی مؤمن ہے اور اگر ان تینوں حالتوں میں سے کوئی بھی نہیں ہے تو ایسا شخص جان لے کہ اس شخص کے دل میں رائی کے برابر بھی ایمان نہیں ہے‘‘ وَلَـیْسَ وَرَائَ ذٰلِکَ مِنَ الْاِیْمَانِ حَبَّۃُ خَرْدَلٍاس حدیث میں ’’ھُمْ‘‘کی ضمیر مفعولی انتہائی قابل غور ہے. نبی اکرم ان ناخلف جانشینوں کے خلاف جہاد کی تاکید فرما رہے ہیں جو مسند اقتدار پر بیٹھ کر منکرات کو فروغ دے رہے ہوں. جن کے عمل‘ جن کے طور طریقے‘ جن کا وطیرہ منکرات پر مشتمل ہو. جو ذرائع ابلاغ کو منکرات کی تشہیر و اشاعت کے لیے استعمال کر رہے ہوں. ان کی سرپرستی کر رہے ہوں اور ایسا ماحول اور ایسی فضا پیدا کرنے کا باعث بن رہے ہوں کہ اس میں معروفات سسک رہے ہوں اور منکرات فروغ پا رہے ہوں. معاشرہ جن کی بدولت سنڈاس بن گیا ہو ان حالات میں اگر مسلمان منکرات کے خلاف ہاتھ سے یا زبان سے یا دل سے جہاد نہ کریں تو الصادق والمصدوق علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کے ایمان کی نفی فرمائی ہے. منکرات کے خلاف ایک بندۂ مؤمن کا صحیح طرزِ عمل کیا ہونا چاہیے. اسے ایک اور حدیث سے بھی سمجھ لیجیے جس کو امام مسلمؒ نے اپنی صحیح میں روایت کیاہے: 

مَنْ رَاٰی مِنْکُمْ مُّنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہٖ ، فَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ ، فَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ ، وَذٰلِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَانِ 

’’جو کوئی تم میں سے برائی کو دیکھے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اسے اپنے ہاتھ یعنی طاقت سے بدل دے . اگر وہ اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو اپنی زبان سے اسے برا کہے اور اسے بدلنے کی کوشش کرے اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ رکھتا ہو تو اسے دل سے برا 
جانے. اس پر دلی کرب محسوس کرے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے.‘‘

اس حدیث کے آخری ٹکڑے میں دوسری روایت میں وہی الفاظ آئے ہیں جو حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : 
وَلَـیْسَ وَرَائَ ذٰلِکَ مِنَ الْاِیْمَانِ حَبَّۃُ خَرْدَلٍ یہ ہے ہمارے دین میںمنکرات کے خلاف جہاد کی اہمیت. اگر صورتِ حال یہ ہو کہ ایک مسلمان نہ ہاتھ سے‘ قوت سے برائی کو بدلنے کی اجتماعی جدوجہد کا اپنے اندر داعیہ رکھتا ہو . نہ برائی کو برائی کہنے کی ہمت پاتا ہو اور نہ ہی برائی کے خلاف اپنے دل میں کرب اور اضطراب اور نفرت و کراہیت کے جذبات رکھتا ہو تو ایسے شخص کو اپنے ایمان کی خیر منانی چاہیے. فضائل کے بیان کی بھی اہمیت ہے. مجھے اس سے انکار نہیں. اس کے ذریعہ کچھ لوگ انفرادی طو رپر نیکوکار بن جائیں گے لیکن معاشرہ بحیثیت مجموعی ہرگز تبدیل نہیں ہو گا جب تک منکرات کے خلاف جماعتی سطح پر منظم جدوجہد اور جہاد نہ ہو.

اگر جمعیت فراہم ہو جائے ‘تعداد بھی معتدبہ ہو ‘پھر وہ منظم ہو‘تربیت یافتہ ہو تو اس دور میں منکرات کے استیصال اور معروفات کی ترویج کے لیے جہاد کی اور موجودہ دور کی اصطلاح کی رو سے انقلابی عمل کی ضرورت ہے. اس کے بغیر نہ اسلامی نظام قائم ہو گا اور نہ کوئی صالح تبدیلی رونما ہو گی خالصتاً رضائے الٰہی کے حصول کے لیے ایسے بااصول اور جذبۂ قربانی سے سرشار لوگوں کی طاقت فراہم ہو جائے تو کسی منکر کو چیلنج کیجیے. اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : 

وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ 
منظم قوت ہونی ضروری ہے. ہمیں حکومت ہرگز درکار نہیں. نہ حکومت کا کوئی منصب ہم کو چاہیے. ہم صرف آخرت کے طالب ہیں: تِلْکَ الدَّارُ الْاٰخِـــرَۃُ نَجْـعَلُھَا لِلَّذِیْنَ لَا یُـرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَلَا فَسَادًا انتخابات کی طرف ہم کبھی جائیں گے بھی نہیں. ہم ان مناصب پر تھوکتے ہیں. ہماری نگاہ میں ان کی پرکاہ کے برابر بھی کوئی حیثیت نہیں لیکن ہم اس پر عمل کرنے کی کوشش میں جان کی بازی لگانا اپنے لیے سعادت سمجھتے ہیں: وَالْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّاہُوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَالْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰہِ ط ہمارا کام اور ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیں اور حدود اللہ کی حفاظت کے لیے ہر قسم کی قربانی کے لیے خود کو پیش کریں. اس آیت میں وَالْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰہِ فرما کر گویا اسلام کے پورے نظامِ حیات کو بالفعل قائم کرنے کی ذمہ داری بھی عائد کر دی گئی ہے. اس فریضہ کو انجام دینے کی جدوجہد کرنے والوں کے لیے ے آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے : وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ4 ان مؤمنین صادقین کے لیے آخرت میں فوز و فلاح کی بشارت ہے.

اس سارے مسئلہ کی کلید سورۃ التوبہ کی اس آیت میں موجود ہے .اگر سیاسی حقوق کے لیے مظاہرہ ہو سکتا ہے تو دین نے جن کاموں کو منکرات قرار دیا ہے ان کو چیلنج کیوں نہیں کیاجاسکتا! ہماری دینی قوتیں جو منتشر ہیں وہ اسی انتخابی سیاست کی وجہ سے منتشر ہیں. ہر ایک اپنی بھیڑوں کو سنبھالنے کی فکر میں ہے تاکہ جب الیکشن کا مرحلہ آئے تو ہمارے ووٹوں کی تعداد سب سے زیادہ رہے. اسی لیے فقہی اختلافات کو زیادہ ہوا دی جاتی ہے اور باقاعدہ فرقہ واریت پیدا کر کے اُمت کی وحدت کو نقصان پہنچایا جاتا ہے. اپنی اپنی بھیڑوں کے گلے کے نزدیک کوئی اختلاف نہیں ہو سکتا.

میں آج سوچ رہا تھا کہ کاش کبھی وہ وقت آئے کہ ہم ایک الٹی میٹم دیں کہ ہم ملک میں کسی عورت کی تصویر چھپنے نہیں دیں گے. کیا یہ دین کے اعتبار سے جائز ہے جو ہو رہا ہے کہ عورت کو ایک اشتہاری جنس بنا رکھا ہے! اخبارات کو دیکھ لیجیے‘ اشتہارات کو دیکھ لیجیے‘ مختلف مصنوعات کو دیکھ لیجیے. پھر کسی اورمسئلہ کو لیجیے‘ منکرات کی ترویج کی کوئی حد ہی نہیں ہے‘ لیکن اس کے لیے شرط ہے اجتماعی منظم قوت: 
وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ .اس کے لیے وہ جمعیت درکار ہے جو ایک کمانڈ پر حرکت (move) کرے.وہ اتنی منظم ہو کہ اگروہ سڑکوں پر مظاہروں کے لیے آئے تو پوری ذمہ داری لے سکے. اس کا جلوس نکلے تو اس میں کوئی گڑبڑ نہ ہو‘ گڑ بڑ کرنے والوں کے ہاتھ روکنے کا پورا انتظام ہو. یہ نہیں کہ جلوس تو ہم نے نکالا ہے لیکن کچھ اور لوگ آ گئے ہیں . انہوں نے گڑبڑ کی ہے. یہ غلط ہے. اس لیے کہ آپ کی تنظیم نہیں‘ آپ کی جماعت نہیں‘آپ لوگوں کے جذبات کو مشتعل کرتے ہیں‘ آپ کا اندرونی نظم و ضبط اس قدر مستحکم ہو کہ یہ گارنٹی دی جا سکے کہ اگرہم جلوس نکالیں گے تو جو کچھ ہو گا اس کے ہم ذمہ دار ہوں گے. اس کام کے لیے ہجوم درکار نہیں ہے. یہ بڑا مبارک اور احسن کام ہے. اس میں کامیابی بھی اجرو ثواب کا باعث ہے اور رہی ناکامی تو اللہ کے دین کی راہ میں جان دینے سے بڑی کسی سعادت کا تصور نہیں کیا جا سکتا. بہرحال اس جہاد یا انقلابی عمل کے لیے جو جماعت درکار ہے. اس کے اوصاف امام ترمذی اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہما کی اس حدیث کے حوالے سے سمجھئے جس کے راوی ہیں حضرت حارث بن اشعری رضی اللہ عنہ. وہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم نے فرمایا: 

آمُرُکُمْ بِخَمْسٍ : بِالْجَمَاعَۃِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ وَالْھِجْرَۃِ وَالْجِھَادِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ 

’’میں تمہیں پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوں: التزامِ جماعت کا‘ سمع و طاعت کا‘ اور اللہ کی راہ میں ہجرت اور جہاد کا.‘‘
ایک دوسری روایت میں 
آمُرُکُمْ بِخَمْسٍ کے بعد الفاظ آئے ہیں اَللّٰہُ اَمَرَنِیْ بِھِنَّ اللہ نے مجھے ان کا حکم دیا ہے.

یہ ہے میری پرسوں کی گزارشات کا تکملہ اور تتمہ دعوت و تبلیغ اور تزکیہ و تربیت. یہ ہے جہاد بالقرآن. اگلے سارے مراحل ایک منظم جماعت کے ساتھ حق کے قیام کے لیے عملاً جدوجہد‘ کشمکش‘ باطل سے تصادم‘ اپنے اقتدار کے لیے نہیں‘ حصولِ حکومت کے لیے نہیں‘ صرف اللہ کے دین کے لیے : 
وَالْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰہِ یہ ہے اس دور کی اصل ضرورت. بدقسمتی سے ۱۹۲۰ء میں اس کے لیے جو آخری کوشش ہوئی تھی‘ وہ ناکام ہوئی. اس کے بعد سے یہ تار ابھی تک ٹوٹا ہوا تھا. اس دوران میں صرف ایک بیعت ہوئی ہے لیکن وہ جزوی تھی. صرف فتنہ ٔقادیانیت کے استیصال کے لیے مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ علیہ کو امیر شریعت کا درجہ دے کر ان کے ہاتھ پر بیعت ہوئی ہے اور اس بیعت کرنے والوں میں کون کون شامل تھے! بیہقی ٔوقت حضرت مولانا انور شاہ کاشمیری رحمہ اللہ علیہ بھی ان میں شامل تھے.شاہ بخاریؒ کا اپناخلوص و اخلاص اور قربانی و ایثار اپنی جگہ لیکن جہاں تک علم کا تعلق ہے تو شاہ بخاریؒ کو شاہ کاشمیریؒ سے پاسنگ کی نسبت بھی نہیں تھی. لیکن پھر بھی شاہ کاشمیریؒ ‘ شاہ بخاریؒ کے ہاتھ پر بیعت کر رہے ہیں.

بہرحال میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ موجودہ زمانے کے مخالفانہ رنگ کے باوجود اس نے مجھے تنظیم اسلامی بیعت کے مسنون طریقے پر قائم کرنے کی ہمت دی. ایک انجمن ہے اس کے متعلق گفتگو پرسوں والی تقریر میں ہو چکی ہے . لیکن میں نے جب انجمن قائم کی تھی تو اسی وقت اس کے دیباچہ میں لکھ دیا تھا کہ یہ میری آخری منزل نہیں ہے. یہ پہلا قدم ہے. میرا اصل ہدف ایک ’’جماعت‘‘ قائم کرنا ہے اور اس کی تشکیل کے لیے میں نے بیعت کا تصور اسی 
وقت دے دیا تھا. ۱۹۷۲ء کی میری تحریر مطبوعہ شکل میں موجود ہے لیکن تنظیم اسلامی میں بیعت کا نظام اختیار کرنے کے بعد کچھ عرصہ یہ بات زبان پر لاتے ہوئے کچھ ہچکچاہٹ طاری رہی اور جب یہ بات میں نے انشراحِ صدر کے ساتھ ببانگ دہل کہی تو نہ جانے کہاں کہاں سے صدائیں اٹھیں ؎

رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں
کہ اکبرؔ نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں

کوئی رسالے میںلکھ رہا ہے اور حکومت کو اشارے کر رہا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بغاوت ہے. کچھ علماء بھی اس میدان میں آ گئے اور بیعت کے خلاف اخباری بیانات جاری ہو گئے. اللہ کا شکر ہے کہ ان علماء سے رجوع کرنے کی ہمت اور توفیق اس نے مجھے عطا فرمائی. اور مولانا سید حامد میاں مدظلہ کو اللہ تعالیٰ نے کلمۂ حق کہنے کی جرأت عطا فرمائی. کیوں؟ خلیفہ مجاز کس کے ہیں اس بطل حریت اور پیکر تقویٰ و طہارت کے جن کا نام ہے حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ علیہ مولانا حامد میاں نے برملا کہا کہ یہ بیعت جہاد ہے. اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور اس میں افضل مفضول کے ہاتھ پر بیعت کر سکتا ہے. اس کے لیے انہوں نے مثالیں بھی دیں.

بہرحال میں نے کوشش کی ہے کہ اس دعوت اور تحریک کا ایک خاکہ آپ حضرات کے سامنے رکھ دوں. آگے ہر شخص کا اپنا معاملہ ہے میں نے اپنے طور پر تحقیق و تفتیش کی تھی کہ ۱۹۲۰ء میں حضرت شیخ الہندؒ نے مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم کے ہاتھ پر بیعت جہاد کی تحریک کی تھی. میں اپنی تحقیق کے حاصل کو تحریر کر چکا ہوں. مولانا آزاد مرحوم کے متعلق میرا آج تک جو موقف رہا ہے ‘ اسے میں چند لفظوں میں بیان کر رہا ہوں. میری ساری دلچسپی صرف اس ابوالکلام آزاد سے رہی ہے‘ اب بھی ہے اور ان شاء اللہ کبھی ختم نہیں ہوگی‘ جو ۱۹۱۲ء سے ۱۹۲۰ء تک نظر آتا ہے.

رہا بعد کا ابوالکلام تو صحیح صورت حال بھی معلوم نہیں . میرا تجزیہ یہ ہے کہ علماء کی مخالفت کے نتیجے میں مولانابددل ہو گئے. چونکہ اس زمانے میں علماء کرام کا کنٹرول بہت شدید تھا اورکسی کے لیے بات کرنی ممکن نہیں تھی اگر اس کے پیچھے علماء کی تائید نہ ہو . آج یہ بات نہیں ہے بہرحال میرے خیال میں انہیں بددل نہیں ہونا چاہیے تھا. دیکھنا یہ ہے کہ حق کیا ہے؟ کوئی ساتھ دے یا نہ دے. آدمی کو حق کے راستہ پر ہی ڈٹا رہنا چاہیے.مولانا آزاد کی شخصیت کا یہ پہلو بھی میرے لیے قابل احترام ہے اور میں نے بارہااسے بیان بھی کیا ہے کہ پاکستان بننے کے بعد پاکستان کے ساتھ ان کا رویہ خیر خواہانہ رہا ہے ‘وہ اس کے مؤید رہے ہیں‘ وہ فرمایا کرتے تھے کہ اختلاف رائے کا ایک علیحدہ معاملہ تھا پاکستان بننے کے بعد وہ ختم ہو گیا. اب جبکہ پاکستان وجود میں آ گیا تو یہ اسلام کا قلعہ ہے. اگر خدانخواستہ اس کو گزند پہنچا تو اسلام کو گزند پہنچے گا. ان کی سیرت کا یہ روشن پہلو ہے. میں یہ باتیں تفصیل کے ساتھ ’’میثاق‘‘ میں لکھ چکا ہوں توقع ہے کہ آج کی مجلس کے صدر مولانا سعید احمد اکبرآبادی مدظلہ‘ مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم کی شخصیت پر سیر حاصل روشنی ڈالیں گے. 

اقول قولی ھذا واستغفر اللّٰہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلمات !
واخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین