مولانا ابو الکلام آزاد (مرحوم)


سیرت و شخصیت علمی و عملی کارنامے اورحضرت شیخ الہندؒ کا ان سے خصوصی تعلق خاطر
(مولانا سعید احمد اکبر آبادی مدظلہ کا ایک خطاب)

معززحضرات! محترم ڈاکٹر اسرار احمد صاحب! علمائے کرام! بزرگو اور دوستو! مولانا ابوالکلام آزاد ہماری ملت کے کاروانِ رفتہ کے ان پاسبانوں اور نگہبانوں میں سے تھے جن کا جب ذکر آتا ہے اور جب ان پر تقریر کرنے کے لیے کوئی مرحلہ سامنے آتا ہے تو عزیزؔ لکھنوی کا وہ شعر بے ساختہ یاد آجاتا ہے ؎

غزل اس نے چھیڑی مجھے ساز دینا ذرا عمر رفتہ کو آواز دینا

اس لیے کہ ان کے ساتھ جو پرانی یادیں وابستہ ہیں اور جو پرانے واقعات ان سے متعلق ہیں‘ ان کا نام زبان پر آتے ہی وہ سب دل و دماغ میں اُجاگر ہو جاتے ہیں اور ایک حسرت پیدا کرتے‘ ساتھ ہی عہد گزشتہ میں لے جاتے ہیں. مولانا ابوالکلام آزاد ان لوگوں میں سے تھے جن کو ہم عبقری 
(Genius) کہتے ہیں. اعلیٰ درجہ کی ذہانت و فطانت اور بلند درجہ کی قوتِ فہم و ادراک کے حامل تھے. میرا بچپن تھا جب مولانا کی شخصیت اور شہرت کا آفتاب نصف النہار پر تھا. میں دیوبند میں پڑھتا تھا اور مولاناکے تذکرے اور چرچے سنتا تھا. گو مجھے دیو بند کے قیام کے عرصے میں ان جلسوں میں جانے کا اتفاق نہیں ہوا جن میں مولانا کی بڑی شاندار تقریریں ہوتی تھیں. اس لیے کہ میں طالب علمی کے زمانے میں گوشہ نشینی کی زندگی بسر کرتا تھا اور باہر کی دلچسپیوں سے زیادہ واسطہ نہیں رکھتا تھا. میرا سب سے پہلا اتفاق مولانا سے ملاقات کا ۱۹۳۶ء میں ہوا. اس کے بعد سے آخر وقت تک جب کہ مولانا اس دنیا سے رخصت ہوئے‘ مجھے ان کی خدمت میں بیٹھنے‘ ان کو قریب سے دیکھنے اور ان کی شخصیت کے مطالعے کا بھی موقع ملا. اس بنا پر میں اس وقت آپ کے سامنے جو کچھ بھی عرض کروں گا‘ اس کے دو حصے ہوں گے: پہلا وہ جس کو میں نے اپنے بزرگوں‘ دوستوں اور ساتھیوں سے سنا ہے اور دوسرا حصہ ان واقعات پر مشتمل ہوگا جن کا میں نے خود ذاتی طورپر مشاہدہ کیا ہے.