مولانا نے علوم دینیہ و اسلامیہ اور فنون عربیہ کی تحصیل تو کی ہی تھی‘ لیکن دوسرے علوم و فنون میں ان کی وسعت نظر کا کیا حال تھا! اس کا اندازہ آپ کو اس سے ہوسکتا ہے کہ ہمارے اربابِ علم اس بات کو جانتے ہیں کہ ابو ریحان البیرونی کی ایک مشہور کتاب ’’قانون مسعودی‘‘ کے نام سے ہے یہ کتاب دقیق ریاضی یعنی Higher Mathematics کی کتاب ہے‘ جو لوگ ریاضیات میں بہت اونچا مقام رکھتے ہیں وہی اس کتاب کو پڑھ اور سمجھ سکتے ہیں. عام تعلیم یا فتہ حضرات کی سمجھ میں اس کی بات آتی ہی نہیں میں نے متعدد لوگوں سے سنا تھا کہ مدرسہ عالیہ‘ کلکتہ کے کتاب خانے میں جس زمانے میں مدرسہ کے پرنسپل سر ڈینی سن راس تھے. ۱۹۰۱ء سے ۱۹۱۰ء تک ایک نادر نسخہ ’قانون مسعودی ‘ کا موجود تھا. نادر اس لیے کہ اس وقت تک اور شاید تا حال اس کے سوا کسی اور نسخے کا پتا نہیں چلا. مدرسہ عالیہ کی لائبریری اپنے بعض نوادر کے اعتبار سے خاص خصوصیت رکھتی تھی. بتایا جاتا ہے کہ ایک روز سر ڈینی سن راس جو لائبریری کے انچارج بھی تھے‘ اور جنہوں نے یہ قانون بنا رکھا تھا کہ کوئی شخص بھی جو سولہ سال سے کم عمر کا ہو اس لائبریری سے استفادہ نہیں کرسکتا. ایک روز چپڑاسی نے آکر اطلاع دی کہ ایک تیرہ چودہ سال کا خوبصورت سا لڑکا کہتا ہے کہ میں لائبریری میں قانون مسعودی کا مطالعہ کرنا چاہتا ہوں. سر راس کو بڑا تعجب ہوا‘ اس نے اس لڑکے کو اپنے پاس بلایا. وہ تھے مولانا ابو الکلام آزاد. ان سے سر راس نے کہا: میاں صاحبزادے! آپ کیا دیکھنا چاہتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا:قانون مسعودی. سر راس نے پوچھا :کیا آپ اسے پڑھ اور سمجھ سکتے ہیں؟مولانا نے کہا کہ جناب والا آپ کتاب منگالیجئے اور کوئی صفحہ مجھے بتائیے اگر میں اس کو پڑھ کر آپ کو سنا دوں اور اس کا مطلب بیان کردوں‘ تو مجھے اس کے مطالعے کی اجازت ملنی چاہیے. چنانچہ سر راس نے یہی کیا. انہوں نے اپنی کوٹھی میں جہاں مولانا سے یہ گفتگو ہوئی اور جس میں‘ میں اپنی پرنسپلی کے زمانہ میں خود بھی رہا ہوں‘ کتاب کا نسخہ منگایا اور ایک مقام کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ صاحبزادے یہاں سے اسے پڑھو‘ مولانا نے تھوڑی دیر اس کا مطالعہ کیا اس کے بعد اسے سنایا اور اس کا مطلب بھی بیان کردیا. سر ڈینی سن کو بڑا تعجب ہوا‘ اور انہوں نے اس لڑکے کو مستقل طور پر لائبریری کی کتب سے استفادہ کی اجازت دے دی.

یہ واقعہ میں نے سُن رکھا تھا لیکن مجھے اس کی صحت پر یقین نہیں آتا تھا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے. مگر اس کے بعد جب میں مدرسہ ٔعالیہ میں پرنسپل تھا تو میرے زمانہ میں نیشنل پبلک لائبریری کی جو کلکتہ کی بڑی مشہور لائبریری ہے‘ کی ایک نئی بلڈنگ بنی. جس کے افتتاح کے لیے مولانا آزاد وزیر تعلیم حکومت بھارت کی حیثیت سے تشریف لائے تھے. مولانا نے تقریر تو اردو میں کی لیکن ان کا خطبہ انگریزی میں چھپا ہوا تھا. مولانا نے اس میں اس واقعہ کا مفصل ذکر کیا تھا. جس کے بعد اس نسخہ کی تلاش شروع ہوئی تو معلوم ہوا کہ وہ لندن کی لائبریری کو منتقل ہوگیا. جب مولانا کے علم میں یہ بات آئی تو ان کی کوشش سے وہ نسخہ وہاں سے حاصل کیا گیا. پھر دائرۃ المعارف حیدر آباد دکن کے زیر اہتمام اس کی اشاعت ہوئی اور مولانا ابوالکلام آزاد کا اس پر مقدمہ موجود ہے.

یہی ایک واقعہ بتاتا ہے کہ مولانا کے اندر عبقریت کتنی اعلیٰ معیار کی تھی. وہ اپنی ذہانت و فطانت کے اعتبار سے اپنے ہم عصروں کے اندر بہت ہی ممتاز تھے.