مولانا آزادکا اپنے علم و فضل کے لحاظ سے کیا مقام تھا! اس سلسلے میں دو واقعات آپ کو سناتا ہوں.

ایک واقعہ تو یہ ہے جو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے. جس زمانہ میں‘ میں مدرسہ عالیہ کا پرنسپل تھا‘ اس زمانے میں مولانا عبد الحلیم صدیقی جو ایک مشہور عالم اور جمعیت العلماءِ ہند کے ایک مشہور ورکر تھے وہ مدرسہ عالیہ میں محدث تھے. جب ان کا تین سال کا کنٹریکٹ ختم ہوگیا تو میں نے ویسٹ بنگال گورنمنٹ کے متعلقہ محکمہ کو لکھا کہ ان کے کنٹریکٹ کی تجدید نہ کی جائے‘ بلکہ ان کو سبکدوش کر دیا جائے تاکہ ان کی جگہ کسی دوسرے توانا اور جوان عالم کا تقرر کیا جاسکے. میراا رادہ تھا کہ میں ان کی جگہ کسی اونچے درجہ کے محدث کو لاؤں گا. میری نظر میں اس وقت مولانا حبیب الرحمن اعظمی تھے. ان ہی دنوں میں مجھے دہلی آنے کا اتفاق ہوا‘ مولانا کو علم ہوا تو انہوں نے مجھے بلا بھیجا. میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا. رمضان کا مہینہ تھا. پارلیمنٹ کے اجلاس ہو رہے تھے‘ وہیں آنے کے لیے مجھے کہا گیا. میں پارلیمنٹ میں ان کے کمرے میں پہنچ گیا. مولانا نے مجھے نو بجے صبح کا وقت دیا تھا اور ٹھیک نو بجے مولانا اپنے کمرے میں تشریف لے آئے. مولانا نے پہلے تو میری مزاج پرسی کی. مولانا روزے سے تھے. موسم ابھی گرم تھا.