ہندوستان میں تدریس حدیث اور آخری استاد

تھوڑی دیر بعد مولانانے کہا: ’میرے بھائی‘. مولانا کے خطاب کا عموماً انداز یہی ہوتا تھا. میں نے آپ کو اس لیے بلایا ہے کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ مولوی عبد الحلیم صدیقی کے کنٹریکٹ کی تجدید کے حق میں نہیں ہیں. میں اس کی وجہ آپ سے معلوم کرنا چاہتا ہوں. میں نے عرض کیا کہ وہ شیخ الحدیث کی جگہ ہے. مولانا اب بوڑھے ہوگئے ہیں. وہ اس معیار کی اب تعلیم نہیں دے سکتے جس کی ضرورت ہے. لہٰذا میں ان کی جگہ ایک دوسرے محدث کو لانا چاہتا ہوں. مولانا ادیب ہیں‘ بہت لائق اور عالم ہیں لیکن فن حدیث میں جس طور پر پڑھانا چاہیے‘ اس طرح تعلیم اب ان کے بس میں نہیں ہے. بس میرا یہ کہنا تھا کہ مولانا آزاد میرے سرہو گئے اورفرمایا کہ آپ نے یہ کیا کہا کہ فن حدیث جس طرح پڑھایا جانا چاہیے‘ اس طرح مولانا عبدالحلیم نہیں پڑھا سکتے. میں نے اپنی بساط کے مطابق عرض کیا کہ فن حدیث کو پڑھانے کے لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ پڑھانے والا اسمائے رجال سے خوب واقف ہو‘ طُرق اور مسانید پر بھی اس کی گہری نظر ہو‘ درایت اور روایت کے جو اصول ہیں ان پر بھی ان کی نظر ہو‘ جرح و تعدیل سے بھی وہ بخوبی واقف ہو آپ یقین کیجئے کہ اس پر مولانا نے ڈیڑھ گھنٹہ تک مسلسل تقریر کی اور مجھے بتایا کہ فن حدیث دراصل کیا ہے.

اس کے کتنے اہم شعبے ہیں‘ کتنی شاخیں ہیں. ہر شعبہ اور شاخ کی کیا خصوصیات ہیں. ان پر اب تک کون کون سی معتبر کتابیں لکھی گئی ہیں. فنِ حدیث کس دور میں اور کس انداز سے ہندوستان میں آیا اور کہاں کہاں اس کی بڑی بڑی درسگاہیں قائم ہوئیں. اور فنِ حدیث کو پڑھانے کی خصوصیات کیا رہیں؟ کون کون سے محدثین اب تک ہندوستان میں ایسے گزرے ہیں جو اس فن میں یکتا ئے روزگار تھے. ہوتے ہوتے وہ اس دَور تک آگئے اور فرمانے لگے کہ آج کل پورے ہندوستان میں فن حدیث کی تعلیم و تدریس اس طور پر نہیں ہو رہی جس طور پر فن حدیث کو پڑھانا چاہیے. اس دور میں مولانا عبد الحلیم صدیقی اور ان جیسے گنتی کے محدث ہوں گے جو کچھ نہ کچھ اس فن سے تعلق رکھتے ہیں. آنے والے علماء تو معیار کے لحاظ سے ان سے بھی گئے گزرے ہوں گے. آپ تجربہ کرنا چاہیں تو کرلیں‘ لیکن مجھے یقین ہے کہ تجربہ صحیح نہیں ہوگا. آخرمیں فرمایا: میرے بھائی! اب انور شاہ تو آپ کو ملیں گے نہیں. وہ فن حدیث کے اساتذہ میں آخری آدمی تھے جو دنیا سے رخصت ہوگئے. اب تو مولانا عبد الحلیم صدیقی ہی کو غنیمت سمجھئے. میں رخصت ہونے لگا تو فرمایا: میرے بھائی!میں نے جو کچھ عرض کیا ہے وہ آپ کو یاد رہے گا؟ میں نے ازراہِ شوخی کہا: ’’میں یاد نہ رکھوں گا تو کیا اپنے آپ سے دشمنی کروں گا‘‘. میری اس بات کو مولانا نے نظرانداز کرتے ہوئے فرمایا: ’’میرے بھائی! اللہ تعالیٰ آپ کو جزا دے‘‘. اس جملہ کو تین مرتبہ دہرایا اور تقریباً گیارہ بجے دروازے تک آکر مجھے رخصت کیا.