مولانا کی شہرت کا آغاز دو چیزوں سے ہوا. سب سے پہلے اور سب سے بڑی شہرت کا ذریعہ تو ’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ‘‘ ہوئے. اس کے بعد مولانا کی تقاریر ہوئیں. مولانا کو اللہ تعالیٰ نے فن خطابت کا وہ کمال عطا فرمایا تھا جو نہایت شاذو نادر ہی کسی کو عنایت ہوتا ہے. تقریر سے زیادہ ان کی تحریر نے مسلمانوں میں ایک تہلکہ مچا دیا. تقریر میں بھی فن اور اندازِ خطابت ایسا رچا بسا ہوا تھا کہ تیر کی طرح دل میں پیوست ہوتا تھا. اس کی ایک مؤثر ترین وجہ یہ بھی تھی کہ مولانا نے الہلال اور البلاغ میں اپنی تحریروں کے ذریعے مسلمانانِ ہند کو ایک نئی راہ دکھائی جس نے دلوں میں ایک نیا جوش اور نیا ولولہ پیدا کیا. عام تعلیم یافتہ مسلمانوں کا جو حال ہوا سو ہوا‘ لیکن سب سے اہم بات یہ ہوئی کہ علمائے کرام اور خاص طور پر دارالعلوم دیو بند کے علمائے عظام کا طبقہ اس سے بہت زیادہ متاثر ہوا‘ اور دیو بند کے حلقے میں سے بھی بالخصوص شیخ الہند رحمہ اللہ علیہ. وہ اس لیے کہ مولانا ابوالکلام آزاد جس چیز کا پیام دیتے تھے اور جو درحقیقت ان کی دعوت کا اصل محور و مرکز تھا وہ سب کچھ وہ تھا جو حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ علیہ کے دل کی آواز تھی‘ اور ان کے اپنے دل کی لگن اور تڑپ تھی. چنانچہ حضرت شیخ الہندؒ مولانا آزاد کی دعوت میں اپنے دل کی تمنا‘ آرزو‘ خواہش اور اُمنگ کا عکس دیکھتے تھے. اس لیے مولانا آزاد کے سب سے زیادہ قدر دان علمائے کرام کے حلقے میں حضرت شیخ الہند تھے. حضرت بڑی پابندی سے الہلال منگایا کرتے‘ اور بڑے ذوق و شوق سے ان کامطالعہ کرتے تھے.