جب کانپور کے مچھلی بازارکی مسجد حکومت انگلشیہ کے ہاتھوں شہید کی گئی‘ جس کے ردِّعمل میں حکومت کے خلاف ہندوستان کے طول و عرض میں مسلمانوں میں غم و غصہ کا ایک طوفان اٹھا تو حکومت نے آنسو پونچھنے اور اس ہیجان کی شدت کم کرنے کے لیے اس وقت جو یوپی کا گورنر(سرجیمس مسٹن) تھا‘ اسے دارالعلوم دیو بند بھیجا. مولانا ابوالکلام آزاد اس حادثے پر نہایت سخت مضامین لکھ چکے تھے‘ جن کو اس جوش و خروش میں بڑا دخل تھا جو مسجد کانپور کو شہید کرنے کے باعث مسلمانوں میں انگریزوں کے خلاف پیدا ہوگیا تھا. تو وہ بھی دیو بند پہنچ گئے. جب مولانا آزاد اس موقع پر دارالعلوم دیوبند کے دروازے پر پہنچے تو انہوں نے دیکھا گورنر یوپی اندر پہنچ چکے ہیں‘ وہاں باقاعدہ جلسہ ہو رہا ہے‘ جس میں دیوبند کے تقریباً تمام ہی علمائے کرام موجود ہیں. مولانا آزاد نے چاہا کہ وہ اندر جائیں اور جلسہ میں پہنچ کر گورنمنٹ کے اس اقدام پر اپنا احتجاج پیش کریں‘ لیکن وہاں ان کو دروازے پر ہی منتظمین کی ہدایت پر روک دیا گیا اوران کو بتایا گیاکہ لارڈ صاحب کا حکم ہے کہ آپ کو اندر نہیں آنے دیا جائے‘ لہٰذا آپ اندر نہیں جاسکتے. مولاناآزاد کیا کرتے‘ دنگا فساد تو ان کے پیش نظر تھا نہیں‘ مجبور ہوگئے. اس وقت مولانا کو معلوم ہوا کہ دیو بند کے سارے اساتذہ تو اندر جلسہ گاہ میں موجود ہیں‘ لیکن صرف شیخ الہند رحمہ اللہ علیہ ہیں جو منتظمین کے اس عمل سے سخت ناراض ہیں اور اپنے گھر پر ہی مقیم ہیں. ادھر حضرت شیخ الہند کو جب معلوم ہوا کہ مولانا آزاد آئے ہیں اور ان کو دارالعلوم کے دروازے پر روک دیا گیا ہے تو حضرت نے فوراً مولانا آزاد کو اپنے پاس بلوالیا. دو تین دن مولانا دیوبند میں حضرت شیخ الہند ہی کے ہاں مقیم رہے. حضرت شیخ الہند کا مولانا آزاد سے تعلقِ خاطر کا یہ واقعہ بھی شاہد ہے.