حضرت شیخ الہند کی تحریک اور مولانا آزاد کا اس سے تعلق

حضرت شیخ الہند سے بعض ساتھی علماء نے پوچھا: ’’حضرت آپ الہلال کا اتنا گہرا مطالعہ کرتے ہیں حالانکہ اس میں تصویریں ہوتی ہیں‘‘ حضرت شیخ الہند نے جو جواب دیا وہ اس بات کا آئینہ دار ہے کہ حضرت شیخ الہند کس نظر سے مولانا آزاد کو دیکھتے تھے. حضرت شیخ الہندؒ نے پہلے تو یہ شعر پڑھا ؎

کامل اس طبقہ زہاد سے اٹھا نہ کوئی
کچھ ہوئے تو یہی رندانِ قدح خوار ہوئے

پھر فرمایا کہ میاں تم اس بات کو دیکھتے ہو کہ اس میں تصویریں ہوتی ہیں تم یہ بات نہیں دیکھتے کہ وہ فریضہ ٔ جہاد جس سے ہم سب لوگ غافل تھے اس کو سب سے پہلے جس شخص نے یاد دلایا ہے وہ یہی ابوالکلام آزاد ہیں‘ لہٰذا ہم ان کے نہایت شکر گزار ہیں‘ اس لیے میں ان کے پرچوں کو بڑے اشتیاق سے پڑھتا ہوں. پھر یہ کہ اس کے بعد میں حضرت شیخ الہند نے جوتحریک شروع کی تھی‘ تحریک آزادی‘ (تحریک ریشمی رومال) اس کا حال آپ حضرات کو معلوم ہوگا تو وہ تحریک ایسی تھی کہ اس میں زیر زمین یعنی 
Under Ground کام ہوتا تھا. انگریزی حکومت کے دور میں تو یہ باتیں منظر عام پر آنہیں سکتی تھیں‘ لیکن اب ا س تحریک کے متعلق تمام حالات شائع ہوگئے ہیں جن سے یہ بات صاف معلوم ہوگئی‘ کہ حضرت شیخ الہند نے انڈر گرائونڈ کا م شرو ع کردیا تھا جہاں باقاعدہ اسلحہ سازی بھی ہوتی تھی‘ اور باقاعدہ ہتھیار چلانے کی ٹریننگ بھی ہوتی تھی. چنانچہ جو لوگ حضرت کے ہم خیال تھے‘ اور ان کے مشن سے تعاون کرتے تھے.

حضرت نے ان سب سے عہد و پیمان لیا اور وہ سب شیخ الہندؒ کی ہدایت پر خفیہ طور پر اس دعوت اور مشن کے لیے کام کرتے تھے. مولانا عبید اللہ سندھی‘ حضرت شیخ الہندؒ کے سب سے بڑے معاون تھے. دوسرے مولانا محمد میاں جو حضرت شیخ الہند کی ہدایت پر کابل چلے گئے وہیں ان کا انتقال ہوا. ان کے صاحبزادے حامد الانصاری غازی ہیں. تیسرے مولانا سیف الرحمن مرحوم تھے‘ وہ بھی کابل ہجرت کرگئے تھے. پروگرام یہ تھا کہ افغانستان کی حکومت کے تعاون سے اُدھر سے انگریز کے خلاف مسلح اقدام کیا جائے. یہ تین بزرگ وہ تھے جو حضرت شیخ الہند کے خاص الخاص اور معتمد علیہ لوگ تھے. ان ہی قریب ترین حضرات میں چوتھے نمبر پر مولانا ابو الکلام آزادکا نام شامل تھا. مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ اسی واقعہ کے بعد جس کا میں کانپور کی مسجد شہید کرنے کے سلسلہ میں ذکر کر چکا ہوں‘ مولانا دوبارہ بھی کبھی دیو بند تشریف لائے یا نہیں‘ لیکن اتنا یقین کے ساتھ جانتا ہوں کہ مولانا آزاد سے حضرت شیخ الہند کا رابطہ مسلسل قائم رہا‘ خط و کتابت کے ذریعے سے یا زبانی لوگوں کی وساطت سے. حضرت کی اس تحریک کے ایک اہم رکن مولانا آزاد بھی تھے‘ ان تمام شواہد سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مولانا کاشیخ الہند ؒ سے بڑا قریبی رابطہ و تعلق قائم تھا.