مولانا آزاد نے جیسا کہ آپ نے سنا الہلال اور البلاغ کے ذریعہ ایک دعوت دی. اس دعوت کو حضرت شیخ الہند دعوتِ جہاد فرمایا کرتے تھے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ وہ صرف دعوتِ جہاد ہی نہیں تھی بلکہ دعوتِ انقلاب تھی. مسلمان اپنے جس فرض کو بھول گئے تھے اس فرض کو مولانا نے یاد دلایا اور اس کے لیے قرآن مجید کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت پر نہایت زور دیا. چونکہ مسلمانوں کے پاس اصل قوتِ تسخیر قرآن ہی ہے. مولانا نے اس کام کو منظم طور پر کرنے کے لیے ایک جماعت بنائی. مولانا نے جو تنظیم بنائی اس کا نام حزب اللہ تھا. اس حزب اللہ کے لیے مولانا نے بیعت لی یا نہیں لی‘ اس کے متعلق میں وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا. البتہ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ مولانا نے جو حزب اللہ بنائی تھی‘ اس کے لیے مولانا کے پیش نظر یہ ضرور ہوگا کہ وہ اس میں شمولیت کے لیے بیعت لیں. بہر حال یہ مولانا کا مشن تھااس کے لیے انہوں نے کام شروع کیا تھا اور اس راہ میں پیش رفت بھی کی تھی. اتنا مجھے معلوم ہے.یادہ متاثر تھے. ان کے پیغام نے سوئی ہوئی روحوںکو نہ صرف بیدار کیابلکہ ان کو ایک ولولہ تازہ سے سرشار کردیا اور مولانا پورے برصغیر خاص طور پر پنجاب کے لوگوں کی آنکھوں کا تارا اور ان کے محبوب رہنما بن گئے.