مولانا آزاد کی سیاسی زندگی میں اغلباً ۲۶ء سے یہ موڑ آیا کہ مولانا نے جمعیت علماء ہند کے کاموں سے وہ عملی دلچسپی لینی چھوڑ دی جو وہ پہلے مسلسل لیتے رہے تھے. یہ ایک حقیقت ہے کہ اس دور سے مولانا کی تقریباً تمام تر عملی سیاسی دلچسپیاں کانگریس کے لیے وقف ہوگئی تھیں. جمعیت علماء ہند کے سالانہ جلسوں میں وہ اکثر تشریف لاتے تھے تقریر بھی کرتے تھے. یہ ایک الگ بات ہے. لیکن یہ میرے ذاتی مشاہدہ کی بات ہے کہ باوجود اس کے کہ وہ جمعیت کی ورکنگ کمیٹی کے تقریباً ہر دور میں ممبر رہے اور وہ اس کے اجلاسوں میں تشریف بھی لاتے تھے. لیکن جمعیت کے ساتھ ان کی پہلے جو عملی وابستگی تھی‘ اور اس کے کاموں میں جو سرگرمی تھی‘ وہ تقریباً ختم ہوچکی تھی‘ اور ان کی عملی سرگرمیوں کا میدان کانگریس تھی. اب ایسا کیوں ہوا؟ مجھے اس کی تحقیق کا موقع نہیں ملا. لیکن میں اس معاملہ میں بطورِ قیاس یہ سمجھتا ہوں کہ ہوسکتا ہے کہ مولانا آزاد کو یہ محسوس ہوا ہو کہ ہماری رجوع الی القرآن اور جہاد فی سبیل اللہ کی دعوت ناکام ہوگئی ہے یا یہ کہ دعوت نے اتنی تیزرفتاری سے لوگو ں کے اذہان و قلوب کو مسخر نہیں کیا کہ وہ اس کے لیے اس ایثار و قربانی کے لیے آگے آسکیں جو اس دعوت کے لیے ضروری ہے.

پھر ترکی میں خلافت کاادارہ خود مصطفی کمال نے ختم کردیا. اس طرح مسلمانوں کے جوش عمل پر مایوسی اور سرد مہری طاری ہوگئی. لہٰذا انہوں نے سوچا کہ اب تحریک کو دوبارہ زندہ اور متحرک وفعال بنانے کا امکان تونظر نہیں آتااس لیے اب سب سے پہلے انگریز کی حکومت کے ہندوستا ن سے خاتمہ کی طرف زیادہ توجہ ہونی چاہیے‘ چونکہ نہ صرف ہمارے ہی راستہ کی سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے بلکہ پورے عالم اسلام کو اسی انگریزی حکومت کے ہاتھوں سے بالواسطہ اور بلاواسطہ سخت نقصان پہنچ رہا ہے. عالم اسلام کی بھلائی کے لیے بھی انگریزی حکومت کا ہندوستان سے خاتمہ نہایت ضروری ہے. ظاہر ہے کہ استخلاصِ وطن کے لیے ملک کی عظیم غیر مسلم اکثریت کی حمایت ضروری تھی‘ اور چونکہ انڈین نیشنل کانگریس ایک غیر فرقہ وارانہ جماعت تھی‘ لہٰذا انہوں نے سوچا ہوگاکہ پہلے متحدہ قوت سے انگریزی حکومت پر ضرب کاری لگائی جائے. میری رائے یہ ہے کہ انہوں نے ان خطوط پر سوچا ہوگا. اور برادران و ابنائے وطن کے ساتھ ایک مشترکہ پلیٹ فارم سے اس حکومت کی غلامی سے آزادی حاصل کرنے کے لیے اپنی توجیہات اور مساعی کو مرتکز کردیا ہوگا.